ہفتہ، 24 اگست، 2024

11 پولیس اہلکاروں کی شہادت


  کل ایک دل دہلا دینے والی خبر  انٹرنیٹ پر پڑھی -کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا پولیس کی گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ میں 11اہلکاروں کی شہادت  7 زخمی 4 لاپتہ  -زرا سوچئے راکٹ حملے میں شہید ہو جانے والے کسی ماں  کی آ نکھوں کا نور تھے ' ان کو اپنے بوڑھے باپ کے جنازے کو اپنا شانہ دینا تھا -وہ سہاگن کا سہاگ تھے اپنے بچوں  کے سر پر آسمان تھے جو اپنے ہی لہو کی چادر اوڑھ کر قبروں میں جا سوئے 'میرا  پہلے بھی ایک بلاگ اسی موضوع پر موجود ہے''میری دھرتی ماں کے ڈاکو بیٹے   ''پھر میرے وطن کے رکھوالے ایک بڑا المیے سے دو چار ہوئے ،ضروری ہے کہ ان ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنانے کے لئے پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے مشترکہ آپریشن شروع کریں 'رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں پولیس کی 2 گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے میں 11اہلکار شہید ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2گاڑیوں پر حملہ کیا۔دونوں پولیس موبائل بارش کے پانی میں پھنس گئی تھیں۔ ڈاکوؤں نے راکٹ لانچروں سے پولیس پر حملہ کردیا۔ 

حملے کے بعد رحیم یار خان پولیس نے بھاری نفری علاقے میں طلب کرلی ہے۔پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق دونوں پولیس موبائلوں میں 20 سے زائد اہلکار سوار تھے  ۔ڈاکوؤں نے گاڑیوں پر سوار پولیس اہلکاروں کو گھیرے میں لے لیا اور چاروں جانب سے فائرنگ بھی کی ۔پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس اہلکار ڈیوٹی ادا کرکے واپس آرہے تھے کہ 25 کے قریب مسلح ڈکیتوں نے شدید حملہ کیا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے رحیم یار خان میں پولیس کی گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔محسن نقوی نے شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اورزخمی پولیس اہلکاروں کیلئے جلد صحت یابی کی دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں،

۔آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے رحیم یار خان حملے سے متعلق اطلاعات لی جا رہی ہیں،پولیس کی بھاری نفری علاقے میں پہنچ گئی ہے۔ ہماری رائے میں رحیم یار خان کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے حملہ میں 11پولیس اہل کاروں کی شہادت بلاشبہ ایک قومی المیہ ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہےلیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا ہمارے ملک کے ڈاکو اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں کہ ایک خاص علاقے میں ان کا قلعہ قمع کرنا سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے۔کچے کے ڈاکو بے شمار وارداتوں میں علاقے کے معصوم شہریوں کی جان، مال، املاک، مال مویشی اور نقدی لوٹنے کی کاروائیوں میں ملوث ہیں لیکن ان ڈاکوؤں کے خلاف کوئی سخت کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔بلاشبہ پولیس گاڑیوں پر ڈاکوؤں کا اچانک حملہ اتنے بڑے جانی نقصان کا باعث بنا۔ 11پولیس اہلکاوں کی شہادت، 7زخمی جبکہ 4پولیس اہلکاروں کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

ہماری دانست میں جس طرح ملک کے سیکورٹی ادارے اور پاک فوج دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں، کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی بھڑتی ہوئی کاروائیوں کے پیش نظرضروری ہوگیا ہے کہ اس پورے علاقے کو ڈاکوؤں سے پاک کرنے کے لئے پاک فوج،پنجاب پولیس، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ادارے ایک مشترکہ آپریشن شروع کریں تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔پاک فوج اگر خوفناک دہشت گردوں کو نشان عبرت بناسکتی ہے بلاشبہ دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے تلاش کرکے دہشتگردی کے عفریت کو کچلنے میں جس انداز سے پاک فوج نے مختلف آپریشنز کے زریعے بہتر ین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ ایسے میں ان دہشت گرد ڈاکوؤں کوبھی ان کی کمین گاہوں سے باہر نکالنا پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادورں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔

عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کیوں ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع نہیں کیا جارہا تاکہ ان کو عبرت کا نشان بنایاجاسکے۔ ان کے خلاف کاروائی میں تاخیر سے ان ڈاکوؤں کو علاقے میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ڈاکو بے شمار وسائل کے مالک ہیں اور ان کے پاس جدید اسلحہ اور بے پناہ مالی وسائل ہیں۔ لیکن یہ صورتحال کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ چند افراد حکومت اور ریاست کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کررہے ہیں۔جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر حکومتی اداروں، خاص طور پر سیکورٹی اداروں کی رٹ کو کھلا چیلنج کیا ہوا ہے اور اب پولیس اہل کاروں پر اتنا بڑا حملہ اس بات کا متقاضی ہے ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک بڑا اورمشترکہ آپریشن شروع کیا جائے تاکہ اس علاقے کے معصوم عوام کوان درندہ صفت ڈاکوؤں کے چنگل سے نجات دلائی جاسکے۔بلاشبہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس نوعیت کی لاقانویت کی اجازت نہیں دے سکتا،لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کو ختم کرکے ان ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے
جی ضرور بنائیے نشان عبرت !لیکن کچے کے علاقے کو جدید دنیا کی تمام سہولتیں بہم پہنچائیے تاکہ ان ڈاکوؤں کی اگلی نسل تعلیم یافتہ پاکستان کی نسل کہلائے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر