ہفتہ، 2 اپریل، 2022

یادگار امام مظلوم - تعذیہ داری

 

واقعہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی اور عالمی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں، انداز جدا ہوسکتےہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ تحریک و مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔


کسی کے مرنے پر صبر کی تلقین اور اظہار ہمدردی کرناتعزیت کہلاتا ہے۔ (عربی تعزیة) اہل تشیع کے نزدیک شہید کربلا اور دیگر شہدا کا ماتم جو ان کے روضے پر، گھروں یا امام بارگاہوں میں محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تک کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کہیں تابوت، کہیں ان کے روضے کی تصویر، جسے تعزیہ کہتے ہیں، کہیں دُلدُل یا علم نکالے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ شہدا کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ مجالس عزا میں مرثیہ، نوحہ، سلام پڑھتے اور شہادت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہرملک میں تعزیت کے مختلف طریق رائج ہیں۔ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہدا کا ماتم ضرور کیا جاتا ہے۔

عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حادثہ کربلا کی نقل پیش کرتے ہیں۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔

امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ کو اردو میں  تعزیہ کہا جاتا ہے۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑے، اسٹیل  اور کاغذ  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ جلوس تعزیہ امام بارگاہ سے برآمد ہو کر کربلا پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی ابتدا تیمور کے دور میں ہوئی۔ بناوٹ کے لحاظ سے تعزیہ کی مختلف اقسام ہیں 

ہندوستان میں تعزیہ کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی ؟

واقعہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی اور عالمی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں، انداز جدا ہوسکتےہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ تحریک و مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔ ہندستان میں تعزیہ داری کی ابتدا کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ عہد تیمور میں چونکہ بادشاہ، وزراء، بیگمات اور اہل لشکر عموما شیعہ تھے اور ہندستان میں جنگ اور سلطنت کے دیگر انتظامات کی وجہ سے سب لوگ ہر سال کربلائے معلی نہیں جاسکتے تھے اور ان کے دلوں میں اس کی وجہ سے ایک خلش اور شکایت رہتی تھی، پھر یہ مسئلہ بادشاہ کے گوش گذار  ہوا، اس کے حل کے لئے امیر تیمور  نے کربلا سے حضرت حسین رضي الله عنه کے روضہ کی نقل حاصل کر کے اس کو تعزیہ کی شکل میں تیار کرایا، تاکہ ہندوستان کے شیعہ اس نقل کے ذریعہ کربلائے معلی کی زیارت کاثواب اپنے ملک میں حاصل کر سکیں، چنانچہ یہی ہوا اور لوگ کربلا جانے کے بجائے یہیں اس نقل کی زیارت کرنے لگے، جس نے بہت جلد ہی کم و بیش وہ صورت اختیار کر لی جو آج کل  مروج ہے، پھر بتدریج اس میں ترقی ہوئی تو اس کے ساتھ دُلدل اور عَلم وغیرہ بھی نکلنے لگے،تعزیے 29 ذی الحج سے 9 محرم تک آراستہ کر کے مخصوص مقامات پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ ان مقامات کے مختلف نام ہیں مثلا     عزا خانہ ،  تعزیہ خانہ ،  امام بارگاہ ،  عاشور خانہ ،  امام خانہ ،  چبوترا ،  چوک امام صاحب وغیرہ۔ ہندوستان میں تعزیہ سولہویں صدی میں رائج ہوا ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تعزیہ اور جلوس تعزیہ کا رواج تھا۔ عالمگیر ہی نے جلوس تعزیہ میں شمشیر زنی پر پابندی لگائی۔  دکنی ریاستوں میں عزاداری کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ چنانچہ مجلس ، ماتم،  جلوس ،  تعزیہ اور امام بارگاہ قائم کیے گئے۔ تیرہویں صدی ہجری / اٹھارویں صدی عیسوی تک پورے ہندوستان میں تعزیہ داری عام ہو گئی تھی۔ تعزیہ کے سب سے نچلے حصے کو تخت، ا اوپر والے کو   خطیرہ ، اس سے اوپر والے کو تربت اور سب سے اوپر والے کو  علم کہتے ہیں۔ عراق میں تعزیہ کو شبیہہ کہا جاتا ہے۔ ایران میں تعزیے کا رواج نہیں وہاں شبیہہ یا تمثیل رائج ہے البتہ کشمیر، نیپال اور افریقہ میں تعزیہ داری ہندوستانی انداز میں ہوتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں بھی شیعہ مسلمان یوم عاشورا کو بڑے اہمتمام سے تعزیہ اٹھاتے ہیں۔ وہ تابوت بھی کہتے ہیں۔تعزیہ کوبہت ہی خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ بانس پر رنگا رنگ نقاشی کی جاتی ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور ان ممالک میں جہاں جنوبی ایشیا کے لوگ رہتے ہیں بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ تعزیہ بناتے ہیں۔ خوبصورت اور رنگین کاغذوں اور پنیوں کو بانس پر لپیٹا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اہم علاقے جہاں تعزیہ بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے؛

بدھ، 30 مارچ، 2022

چائے کی پیالی میں تخت بلقیس کا سفر

 

نام  تو اس کا  لینارڈ تھا  لیکن  اسلام  قبول کر لینے کے بعد  فاروق احمد لینارڈ ہو گیا   فاروق احمد لینارڈ انگلستانی انگلینڈ  کے  ایک  شاہی خاندان  میں پیدا ہوا - لیکن بچپن ہی سے وہ  اطراف و جوانب میں بسنے والے مسلمانوں  سے اپنے دل میں خاص انسیت رکھتا  تھا  -یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہو گیا اور اس نے مسلمانوں کی تبلیغی  جماعت   سے وابستگی اختیار کر لی   اور ساتھ ہی دین اسلام میں داخل ہو گیا -اس کے بعد اس نے قران پاک کی تعلیمات  کا بغور مطالعہ شروع کیا  اپنے مطالعاتی سفر میں جب وہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  اور  ملکہ بلقیس کے قصّہ  تک پہنچا تو سخت استعجاب میں پڑ گیا  کہ ایک وسیع عریض تخت کیونکر پلک جھپکنے  اور کھلنے کی مدّت  کے درمیان  حضرت سلیمان علیہ السّلام کے  دربار تک آن پہنچا  

  اس  واقعہ  نے اسے  وادی حیرت  میں غوطہ زن کر دیا کر دیا  اس نے اپنے اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رابطہ کر کے  بس ایک ہی سوال دہرایا کہ تخت بلقیس کیونکر اتنی زرا سی دیر میں  کوسوں دور سے آن پہنچا  وہ لوگ  جب اس نو آموز مسلم کو  مطئن  نہیں کر سکے تو کچھ نے کہا کہ  تم پاکستان  چلے جاؤ تمھیں  اپنا شافی جواب مل  جائگا  اور وہ پاکستان آ گیا  پاکستا  ن میں اس کی خوب مدارات ہو ئ اور  جگہ جگہ تایخی مقامات دکھائے گئے  لیکن ایک دن جب اس کے میزبان کی گاڑی داتا  دربار کے سامنے سے گزری اور اس نے وہاں عام لوگوں کا جمّ غفیر دیکھا    تو  اس نے  وہاں کے  ہجوم کے بارے میں اپنے میزبان سے سوال کیا  کہ اتنی بڑی تعداد میں یہاں لوگ کیوں جمع ہیں –میزبان نے بتایا کہ یہ ایک اللہ والے کا مزار ہے اس نے   میزبان  سے کہ کر گاڑی رکوائ اور مزار کے احاطہ میں داخل ہو گیا  احاطے سے ہو کر وہ اور آگے بڑھااب اس کے سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے جن کے  ایک ہاتھ میں  چائے کی  پیالی اور دوسرے  ہاتھ میں گرم چائے کی کیتلی  تھی –بزرگ نے اس کو دیکھتے ہی سوال کیا چائے پیو گے لینارڈ نے کہا ضرور اور بزرگ نے لینارڈ کوکیتلی سے چائے نکال کر دی  اور چائے کی پیالی  ہاتھ میں لینے  کے ساتھ ہی لینارڈ بے ہوش ہو کر گر گیا  جب اس کے میزبان اسے ہوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے لینارڈ سے  بے ہوشی کا سبب پوچھا

لینارڈ نے بتایا کہ   مجھے قرآن پاک  کی سچائی پر پورا یقین حاصل ہو چکا تھا  لیکن میں      ایسی تصدیق چاہتا تھا جو مجھے  روحانی طور پر  مطمئن کر سکے میں  اب پوری طرح جان گیا ہوں کہ تخت بلقیس کیونکر پلک جھپکنے اور کھلنے کی مدّت کے درمیان آیا ہو گا-پھر اس نے چائے والے بزرگ کا پتا نشان دریافت کیا تو لاگوں نے بتایا  کہ  وہ کب کے جا چکے کہاں سے آئے تھے  اور کہاں چلے گئے  کسی کو نہیں معلوم تھا

اس انگریز  کے ساتھیوں نے  اس سے بے ہوشی کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے کہا کہ میں جس سوال کے لیے اتنا سفر   کرکے پاکستان  آیا تھا اس کا جواب مجھے اس بزرگ نے دے دیا ہے.....

 انہوں نے مجھے  اس پیالی میں چائے پیش کی   جس میں' میں روز   انگلستان میں  موجود  اپنے گھر کے اپنے کمرے میں چائے پیتا تھا –میرا چائے کا کپ کس طرح ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یہاں تک آ گیا 'اب میری سمجھ میں آیا کہ  اگر ایک لمحہ میں اتنے فاصلے سے   چائے کی پیالی آ سکتی ہے تو پلک جھپکنے سے پہلے   ملکہ بلقیس  کا  تخت  بھی آ سکتا ہے.....

اس کے بعد   لینارڈ   نے  واپس انگلستان جانے سے  انکار  کر دیا اور باقی ساری زندگی داتا گنج بخش کے مزار پر  مزار کی مجاوری میں گزاردی اور 1945ء میں  اللہ کے ولی کے دربار سے  بارگاہ  ربُّ العالمین  میں حاضر ہو گیا  اس کی تد فین اس کی وصیّت کے مطابق  حضرت  داتا گنج بخش  رحمۃ اللہ علیہ کے مزار  کے احاطہ میں  موجود تہ خانے میں ہوئی جو آج      بھی اولیاء اللہ کی خدائی وابستگی کی شہادت دے رہی ہے

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر