جمعہ، 5 جنوری، 2024

ٹوٹی چھت کے طیارے کا خوفناک سفر

 آلوہا۔۔۔‘ یہ لفظ ہوائی زبان میں لوگوں کو سلام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لفظ لوگوں کو ’خوش آمدید کہنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر 1988 میں الوہا ایئر لائنز کی پرواز 243 کے مسافروں اور عملے نے ایک ایسا خوفناک تجربہ کیا جس نے نہ صرف ان کی زندگی پر گہرے اثرات چھوڑے بلکہ فضائی سفر کے حفاظتی معیار، جہازوں کی دیکھ بھال کے معیار کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔28 اپریل 1988 کی ایک سہ پہر الوہا ائیرلائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ 96 مسافروں اور فضائی عملے کے ساتھ ہوائی کے دو جزیروں کے درمیان ایک مختصر پرواز پر 24 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا کہ اچانک سفر کے دوران جہاز کے ایک حصے کی چھت ٹوٹ کر الگ ہو گئی اور اسی دوران اس وقت جہاز میں ڈرنکس پیش کرتی فضائی میزبان مسافروں کی آنکھوں کے سامنے ہوا میں اڑ کر جہاز سے نیچے گر گئی۔جب طیارے کی چھت فضا میں اڑ گئ-

اس واقعے نے ہوائی جہاز کی تیاری، جانچ اور آپریشن کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور ہوائی سفر کو پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بنا دیا۔28 اپریل 1988 کو الوہا ایئر لائنز کے بوئنگ 737 نے ہوائی کے ایئرپورٹ سے ہونولولو بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لیے دوپہر 1:25 اڑان بھری تھی۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں جہاز کو ماؤی ایئرپورٹ پر اترنا تھا، جو اس کا ’متبادل ایئرپورٹ‘ تھا۔دونوں جزیروں کے درمیان یہ تقریباً 35 منٹ کی پرواز تھی جس میں زیادہ تر وقت ٹیک آف اور لینڈنگ میں گزرتا تھا۔ بہت کم وقت کے لیے طیارے کو اپنی مثالی بلندی پر پرواز کرنا تھا اس دن موسم معمول کے مطابق اور خوشگوار تھا۔ کچھ سیاحوں کے لیے یہ ایک نیا اور خوبصورت نظارہ تھا جبکہ ہوائی جزائر میں کاروبار کی غرض سے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے یہ معمول کی پرواز تھی۔طیارے کے چیف پائلٹ کیپٹن رابرٹ شورنسٹیمر کی عمر 44 سال تھی، وہ 11 سال سے کمپنی کے ساتھ تھے اور انھیں کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل تھا، جس میں سے چھ ہزار سات سو گھنٹے انھوں نے بوئنگ 737 کو اڑاتے گزارے تھے۔کاک پٹ میں فرسٹ آفسر میڈلین ٹاپکنز تھیں۔ 37 سالہ ساتھی پائلٹ کو اپنے قریبی حلقے میں ’میمی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انھیں بھی کل آٹھ ہزار گھنٹے پرواز کا تجربہ تھا جس میں سے تین ہزار پانچ سو گھنٹے بوئنگ 737 طیارے اڑاتے گزرے تھے۔وہ دن معمول کے مطابق اور موسم صاف تھا، اس لیے فرسٹ آفیسر میمی نے ہوائی جہاز کے ٹیک آف اور ہینڈلنگ کی ذمہ داری سنبھالی جبکہ کیپٹن رابرٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطے اور دیگر معمول کے کام سنبھالے۔پرواز کا وقت بہت کم ہونے کی وجہ سے جیسے ہی طیارہ اپنی مثالی بلندی پر پہنچا فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ نے مسافروں کو مشروبات پیش کرنا شروع کر دیے۔حادثے کے بارے میں یو ایس این ٹی ایس بی (نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ) کی رپورٹ جون 1989 میں منظر عام پر لائی گئی تھی، جس میں اس کی تفصیل دی گئی تھی کہ مذکورہ پرواز کے دوران کیا ہوا تھا۔فضائی میزبان فضا میں اڑنے لگے ایرو سپیس انجینئر ولیم فلانیگن اور ان کی اہلیہ جوئے اپنی شادی کی 21ویں سالگرہ منانے کے لیے ہوائی جا رہے تھے۔ جوئے کھڑکی کے پاس دوسری قطار میں بیٹھی تھیں۔58 سالہ فضائی میزبان کلارایبل لانسنگ 37 سال سے ایئر لائن کے ساتھ تھیں۔ وہ اپنے قریبی حلقے میں ’سی بی‘ کے نام سے جانی جاتیں تھیں۔کلارا اگلی قطار میں مسافروں کو مشروبات پیش کر رہی تھی جبکہ جہاز کی پچھلی طرف دو دیگر ائیر ہوسٹس ڈیوٹی پر تھیں۔ انھوں نے جوئے کو بتایا کہ جہاز جلد ہی لینڈ کرے گا اور وہ آخری بار مشروبات پیش کر رہی ہیں۔اس دوران جہاز کا اوپری حصہ اچانک دھماکے سے اڑ گیا اور کلارا دیکھتے ہی دیکھتے جہاز سے باہر گر گئیں۔اس وقت جہاز میں بیٹھے مسافروں کو یقینی موت نظر آنے لگی کیونکہ اوپر کھلا آسمان تھا اور نیچے سمندر، یہ منظر دیکھ کر مسافروں کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ سمجھ نہیں سکے کہ طیارہ ٹوٹ گیا یا کچھ اور ہوا ہے۔

اب آکسیجن ماسک لٹک رہے تھے لیکن آکسیجن کی سپلائی نہیں تھی۔ اس بلندی پر مسافروں کو شدید سردی لگ رہی تھی اور بغیر آکسیجن کے وہ موت کے قریب جا رہے تھے۔وہ کاک پٹ میں پائلٹ کی پوزیشن نہیں دیکھ سکے اور طیارہ آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پائلٹ کو کچھ ہو گیا ہے یا وہ حالات پر قابو کھو بیٹھے ہیں اور طیارہ سمندر میں گرنے والا ہے۔اچانک طیارہ فضا میں اس بلندی پر آ کر مستحکم ہو گیا جہاں مسافروں کے لیے سانس لینا ممکن تھا۔ چنانچہ کیپٹن اور فرسٹ آفیسر نے کاک پٹ میں ایک دوسرے سے اشاروں میں بات کی اور کیپٹن رابرٹ نے ہوائی جہاز کا کنٹرول سنبھالا جبکہ میمی نے مواصلات اور دیگر امور انجام دیے۔ خوش قسمتی سے ان کے ماسک میں آکسیجن کی سپلائی جاری تھی۔طیارے کے پائلٹ کی جانب سے ہونولولو ہوائی اڈے پر ایک سگنل بھیجا گیا کہ طیارہ ہنگامی صورتحال میں ہے لیکن پیغام ان تک نہیں پہنچا۔ دونوں نے ماؤی ایئرپورٹ پر اترنے کا فیصلہ کیا انھوں نے وہاں کے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے رابطہ کیا اور اترنے کی اجازت طلب کی۔اونچائی اور رفتار میں کمی کے ساتھ اب رابرٹ اور میمی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر بات چیت اور رابطہ کرنے کے قابل تھے۔

افراتفری، ہنگامے اور بے ترتیب مواصلات کے درمیان اے ٹی سی کو بمشکل پیغام پہنچا۔ طیارے کو مجبوراً رن وے نمبر دو پر لینڈ کرنا پڑا۔ فائر فائٹرز کو فوری طور پر ممکنہ تباہی سے آگاہ کر دیا گیا۔ جب مسافروں اور عملے کے ارکان سے انٹرکام یا پبلک اناؤنسمنٹ سسٹم کے ذریعے رابطہ نہ ہوسکا تو کو پائلٹ نے ایک بار پھر اے ٹی سی سے رابطہ کیا اور انھیں ’جتنا ممکن ہو مدد کرنے‘ کی ہدایت کی۔چونکہ ہوائی اڈے پر کوئی ایمبولینس یا طبی خدمات دستیاب نہیں تھیں، اے ٹی سی نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کمیونٹی سروسز کو فوری طور پر پہنچنے کی اطلاع دی۔تیز ہواؤں کے ساتھ اور تین ہزار میٹر کے دو پہاڑوں کے درمیان طیارے کو رن وے پر اتارنے کا چیلنج تھا۔ کسی بھی غلطی پر سنگین نتائج کے لیے نیچے ایک سمندر تھا۔


ساتھی پائلٹ میمی نے پائلٹ رابرٹ کو تیز م

بدھ، 3 جنوری، 2024

قیمتی عمارات اور ہماری بےحسی کے ثبوت

 

ایک جانب تو یہ حال ہے کہ حکومت سندھ کی عدم توجہ کے باعث شہر کے ہسپتال زبوں حالی کاشکار ہو چکے ہیں ،، تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح حیدرآباد کے ہسپتالوں کی حالت خستہ ہوچکی ہے، مریضوں کے ساتھ آنے والے ورثاءکے بیٹھنے کا کوئی خاص بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی کی سہولت میسر ہے، جبکہ عمارتوں کی دیواروں میں دراڑیں اور دروازے و کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں،صفائی کے ناقص انتظامات نے بھی مریضوں اور اٹینڈنٹس کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے، دوسری جانب حکومت سندھ کے  بنائے ہوئے لاڑ کانہ میڈیکل کمپلکس میں   بے حساب آوارہ کتے ادھر سے ادھر تک بلا کسی تردد کے دوڑتے پھر رہے ہیں -کیا عوام کے  پیسے سے بنائے ہوئے  کسی میڈیکل کمپلکس کے استعمال  کا یہی درست طریقہ ہےدوسری جانب  جامشورو ہسپتال کے  اندر کے مناظر بخوبی  دیکھے جا سکتے ہیں  -مریضوں کے بستروں کے سرہانے دیوار پر بڑی بڑی تصویریں  بے نظیر بھٹو - آصف زرداری بھٹو اور-بلاول بھٹو کی لگی ہوئ ہیں  اور زیر نظر تصویر میں  لاتعداد کتے مریضوں کے بستروں پر آرام کرتے ہوئے  دکھائ دے رہے ہیں اب آئے کچھ احوال اسلام آباد کی بے نوا بلڈنگوں کے بارے میں -یہ بلڈنگیں بھی عوا م الناس کے ٹیکسز کے پیسے سے بنائ گئ ہیں -یہاں کتے تو نہیں دوڑ رہے ہیں لیکن یہاں کی ویرانیا ں اپنے وارثین کی ناقدری پر گریہ گناں ہیں 

آباد سی ڈی اے نے  لاشاری صاحب کے    چیئرمین شپ ہوتے ہوئے سی ڈی اے میں ایک بلڈنگ بنائی جوکہF-9 جہاں کئی آڈیٹوریم، کئی نمائشی آرٹ کیلئےکاریڈور، لفٹس، مکمل ایکوئسٹ سسٹم اور ائرکنڈیشنڈ دفتری ایریا اور بہت سی ورکشاپس کیلئے مناسب جگہیں تھیں۔ مگر بعد میں یہ بلڈنگ پہلے تو پرانے ایک چیف جسٹس نثار صاحب کی نظر میں ایک کلب کے نام سے کہلائے جانے پر، قابل تعزیر سمجھی اور سیل کردی گئی۔ پھر دو سال تک سارے جہان میں کووڈ رہاتو ہیلتھ والوں نے اس پر قبضہ کیا۔ انسانوں اور سرکار دونوں کو ٹیکے لگاتے رہے۔ پھر شکر کہ کووڈ ختم ہوا۔ اس کے بعد یہ خوبصورت بلڈنگ گندھارا بلڈنگ کے نام سے دوبارہ زندہ کی گئی اور جگمگائی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی نویں ادبی کانفرنس کے ذریعے وہ بلڈنگ جو بہت مضبوط لکڑی کی شہ نشینوں اور پختہ ماربل کے فرش کے ساتھ اپنی پائیداری کا ہر قدم پر نشان دکھا رہی تھی اس کو بہت دقت اور دن رات کی کاوش کے بعد، قابل استعمال ایسا بنایا کہ او یو پی کے پاس ہی بس فنڈز کی کمی تھی کہ انہوں نے اخباروں میں اشتہار نہیں دیئے، بس فیس بک اور واٹس ایپ سے کام چلایا مگر اس ادبی حس سے نابلد، حکام اور عوام میں ایسی روح پھونکی کہ 3نومبر سے 5نومبر تک ادبی کانفرنس میں دنیا بھر کے ادیبوں کے علاوہ وہ تمام نوجوان، جن کو ہم سب نالائق، علم سے دور اور کتابوں سے ناآشنا کہہ کر رد کردیتے تھے، ان نوجوانوں نے اتنی کشادہ بلڈنگ کو ایسے بھرا کہ سب ان نوجوانوں کے ہجوم میں کہیں کہیں ہم جیسے بزرگ بھی خوشی سے یوں دیکھ رہے تھے اور مجھے وصی شاہ یاد آرہا تھا کہ اسے نوجوانوں کا وزیر بنایا گیا ہے، وہ آکر اس بے کراں ہجوم اور ہر سیشن میں انکی موجودگی سے فائدہ اٹھاتا۔ البتہ سولنگی صاحب میں وہی پرانی ادب کی پیاس نے سر اٹھایا۔ وہ دو دن تک وہ سنتے رہے جو وہ کبھی خود لکھتے تھے اور میڈیا کو صرف خبروں تک ادبی کانفرنس کی خبر تھی۔باقی روزانہ کا سبق، الیکشن، الیکشن وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک اور بلڈنگ جوکہ لاشاری کے زمانے میں انڈین دلی ہاٹ کی طرز پر بنائی گئی۔ بلڈنگ تو چند ماہ میں بغیر بنیادی منصوبہ بندی کے تعمیر ہوگئی۔ بنیادی منصوبہ یہ تھا کہ وہاں پر دستکار خواتین کو رہنے اورا سٹال لگانے کیلئے، کبھی پندرہ دن کبھی ایک ماہ کیلئے اسٹالز دیئے اور رہنےکیلئے کمرہ دیا جائے گا۔ چاہے وہ اکیلی آئیں۔ دوسری کارکنوں اور مردوں کے ساتھ آکر، اس فیملی پلس پر کام فروخت کریں۔ پویلین میں اکیلے مردوں اور نوجوانوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی اور باقاعدہ ٹکٹ لے کر لوگ اندر جائیں گے۔ ہر طرح کے ہنر کے اسٹالز صبح 11بجے سے رات 11بجے تک کھلے ہوں گے۔ اسی طرح ہر صوبے کے کھانے کے اسٹالز بھی ہوں گے، میں اس لئے تفصیل سے لکھ رہی ہوں کہ میں چونکہ فیلڈ میں کام کررہی تھی، یہ منصوبہ میں نے بنایا تھا بالکل دلی ہاٹ کی طرز پر۔ پھر وہی ہوا، جو ہمارے ملک میں ہر منصوبے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک طرف لاشاری گئے، دوسری طرف چندبیگمات  کارکن عورتوں کو پس پشت ڈال کر سامنے آگئیں۔ جب کارکن عورتوں کو لانے کا مسئلہ پیش ہوا، تو وہ گاڑیوں والی خواتین واپس گھروں میں چلی گئیں۔ آج تک کسی نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کی جرأت ہی نہیں کی۔لوک ورثہ کے ساتھ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کھولا گیا، جس کا انچارج مرحوم رؤف خالد کو بنایا گیا۔ شومئی قسمت وہ حادثے میں ماراےگئے۔ اس کے بعد دفتر میں ان کی بیگم نے اپنا دفتر بنا لیا۔ انسٹیٹیوٹ خالی رہا،ابتک خالی ہے۔

اسی سے ملحق ایک بہت وسیع کمپلیکس بن رہا تھا۔ وہ بے نظیر کے زمانے تک چینی اشتراک سے بنتا رہا۔ یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ اس میں کئی میوزک ہال، کئی سینما اور میوزیم شامل ہوتے، اگر مکمل ہوجاتا۔ عمران حکومت نے تو سی پیک بند رکھا تو یہ کمپلیکس کیسے مکمل ہوتا۔اب آیئے ایک اور گلے میں پڑا ڈھول بجائیں۔ پاک چائنہ فرینڈشپ سینٹر ایک بہت وقیع عمارت ہے۔ مگر بنانے والوں نے اسٹیج اتنا اونچا بنایا ہے کہ سامنے بیٹھنے والے نظر ہی نہیں آتے۔ اور بہت سی خامیاں اور اچھائیاں ہیں کہ اسے صرف انعام الحق نے بچوں کے ادب کے میلوں کیلئے، جب تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ رہے، استعمال کیا۔ اس کے بعد رات گئی ،بات گئی ۔ بین الاقوامی کانفرنسوںکیلئے، یہ استعمال نہیں کیا جاتا، بے چارہ کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔لیاقت باغ میں جو پی این سی اے کا آڈیٹوریم تھا، اس کو چلہ کاٹنے والے نے ہتھیا کے آرٹس کالج، ملحقہ بلڈنگ کو بنا دیا اور وہ آڈیٹوریم کتنے ہی سال سے اپنے شائقین کا منتظر ہے۔
محکمہ ثقافت کا ایک باقاعدہ دفتر بلکہ پوری بلڈنگ جس میں فلمیں بنانے اور فلموں کی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا کام ہوتا تھا۔ آغا ناصر اس کے سربراہ تھے۔ وہ کیا رخصت ہوئے۔ پوری بلڈنگ، بلیو ایریا میں کھڑی انتظار کررہی ہے کوئی دن جاتا ہے، خود بخود گر پڑے گی۔پی این سی اے کا اسٹیج بھی منتظر رہتا ہے کہ کسی ملک کا وفد آئے، کوئی ڈرامہ آئے --کراچی میں محکمہ ثقافت ، سیاحت، آرکیالوجی اور آثار قدیمہ کراچی کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے میں ناکام ہوگیا،بلڈر مافیا کی جانب سے شہر کے تاریخی عمارتوں کو مسمار اور تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، سیل کی گئی عمارت کھل گئی ہے۔  موصول دستاویزات کے مطابق کراچی کے کاروباری مرکز صدر کے علاقے میں زیب النساء اسٹریٹ کے پلاٹ نمبر SB-4/21 پر تاریخی عمارت میں غیرقانونی تعمیرات کردی گئی،تعمیرات پر محکمہ ثقافت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور دیگر کو نوٹس جاری کئے، ثقافتی ورثہ قرار دی گئی عمارت میں غیر قانونی تعمیرات پرجاری کئے گئے نوٹس کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ڈپٹی کمشنر جنوبی اور عمارت کے مالک نے رد ی کی ٹوکری میں پھینک دیے، لیکن محکمہ ثقافت کے افسران نے خاموشی اختیار کرلی، عمارت کو محکمہ ثقافت ، سیاحت و آثار قدیمہ کی جانب سے سیل کیا گیا،کچھ ماہ بعد سیل کی گئی عمارت پر غیرقانونی تعمیرات مکمل کردی گئی اور سیل توڑدی گئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے مبینہ طور پر لاکھوں روپے رشوت لینے کے بعدسیل توڑ دی گئی، کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری جانب عمارت میں قائم ہوٹل کے مالک ایاز کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران نے عمارت کا دورہ کیا اور عمارت کو کلیئر کیا ہے ۔ دوسری جانب کراچی کے علاقے لائٹ ہائوس کے قریب ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ پر واقع عمارت ایس آر 8/47 بھی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے، لیکن عمارت کے مالک نے غیرقانونی تعمیرات کرکے محکمہ ثقافت ، سیاحت اور آثار قدیمہ کے قوانین کی دھجیاں اڑادیں مگر کوئ پوچھنے والا نہیں ہے ۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر