اتوار، 8 جنوری، 2023

خدارا پاکستان کے جنگل بچاو



جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔یہ آ پ جانتے ہی ہوں گے اس برس آم کے موسم سے قبل ہی شہر ملتان میں کئ لاکھ آ م کے بہترین فصل دینے والے درخت کاٹ کر وہاں ہاوسنگ سو سائٹیز کو تعمیرات کی اجازت دی گئ -کیا کسی نے سوچا ہم اتنے درخت کاٹ کر اپنے نسلوں کو کنکریٹ کے دہکتے جنگل بے دردی سے صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ ہمارا سرمایہ بڑھے پاکستان میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے 

۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث منگلا ڈیم اپنی مقررہ عمر سے پہلے ہی بھر جائے گا ۔ جس کے بڑے بھیانک نتائیج برآمد ہونگے ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں کبھی بے شمار جنگلی حیات موجود تھے لیکن چودہ سالہ انڈین گولہ باری کے باعث نیلم ویلی کے جنگلات کا مجموعی طور پر پندرہ ہزار ایکڑ رقبہ نذر آتش ہوا ۔آتش ذدگی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس طرح خوبصورت جنگلی حیات کا عر صہ حیات تنگ ہو رہا ہے ۔

 ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر قیمتی جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔ خوبصورت پرندوں میں دان گیر مرغ ذرین پہلے سے نایاب ہو چکے ہیں ، چکور بھی کم تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں بے شمار شفا بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن کی بیرون ملک اور پاکستان میں بڑی مانگ ہے ان میں کٹھ ، پتریس ، مشک بالا ، رتن جوگ اور بٹ پھیوا وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ نیلم ویلی کے جنگلوں کی بلیک مشروم ( گچھی ) سیاہ زیرا کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔

ہمارے جنگل کنکریٹ میں دفن کیوں ہو ئے جا رہے ہیں ۔کبھی سوچا آپ نے ؟ نہیں کس کو فرصت ہےقرت کی اس معصوم مخلوق کی بقا کا سامان کریں نہ کہ فنا کا۔در حقیقت جنگلات کی کٹائی ایک خلاف فطرت عمل ہے اور دور حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے،  ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے ۔ ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہو رہی ہے پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہورہی ہے  اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی  کئ صورتوں میں جاری ہے۔

 محققین کے مطابق گلگت بلتستان، کوہستان بشمول داریل تانگیر  اور وادی نلتر میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اور دیامر کے علاقے بالخصوص گوہرآباد چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالامال ہے اسی طرح ان علاقوں میں دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر  مافیہ نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن بھلا ہو پرائم منسٹر عمران خان نیازی کا جنہوں نے دس ارب درختوں کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا اس منصوبے میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں تقریبا ایک ارب سے زائد درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا ۔ میری جنگلات کے متعلقہ  اداروں سے یہ گزارش ہے کہ اس منصوبے کو بھرپور انداز میں  استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہمارے جنگلات کو بچائے

 یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے تاہم یہ  بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔سائنس دانوں کاکہناہے کہ دنیا میں بڑے جنگلی جانوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے  یوں تو پوری دنیا میں  بیشمار تنظیمیں جنگلی حیات کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کو بچانے اور افرائش نسل کیلئے حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اقدامات کے باوجود نایاب پرندوں کا شکار کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلی حیات صرف جنگل تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں ہمارے قریب موجود ہے، مختلف جانور اور پرندے ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، زمین، آسمان اور سمندر میں موجود آبی حیات انسان کی توجہ کی متقاضی ہیں۔انسان کی طرح جانور اور چرند پرند اور تمام جنگلی حیات کو زندہ رہنے کیلئے گھر اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ماحول کو انسان دوست بنانے میں جنگلی حیات کا بھی بڑا کردار ہے لیکن موجودہ دور میں انسان تیزی کے ساتھ جنگلی حیات پر اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی نایاب جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔

جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتے ہیں، آج دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔جنگلی جانوروں  کے بچاؤ اور افزائش نسل کیلئے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ اور آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات کو بہت سے خطرات درپیش ہیں اورمختلف اقسام کے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کو ہیں۔

جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا متعلقہ اداروں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے،عوام کی شمولیت اورمدد کے بغیر جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔اور عوام کو جنگلی حیات پر جاری ظلم کو روکنے میں متعلقہ اداروں کا ساتھ دیناہوگاتاکہ قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ یقینی بناکر ماحول کو بچایا جاسکے
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے اللہ دتّہ کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایک درخت کاٹنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے پیٹ کی کیونکہ پہاڑوں میں رہتے ہوئے ان کے پاس نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔لہٰذا ان کا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ یا دس دنوں میں وہ اپنے گزر بسر کے لیے گاؤں کے پہاڑوں میں جاکر ایک درخت کاٹ کر گھر لاتا ہے جسے وہ ایندھن کے طورپر استعمال کرتا ہے یا پھر اسی درخت کو فروخت کردیتا ہے۔

جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ پاکستان اور آذاد کشمیر میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے ۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہم بڑی آبادیوں والی زمین سے محروم ہو جائیں گے

ائےابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے


کتنی حیرت کی بات ہے کہ کافر اپنی زبان سے کہ رہے ہیں کہ ابو طالب بارش کے لئے  اپنے خدا سے گزارش کریں کہ پانی برسا دے اور بے دین مسلمان کہ رہے ہیں کہ ابو طالب کافر تھے۔روایت ہے کہ شہر مکہ میں اتنا سخت قحط پڑ گیا کہ لوگوں نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے بچے تک فروخت کر دئے۔ایسے میں کفار مکہ اپنے بنائے ہوئے بتوں کے آ گے گڑ گڑانے لگے کہ وہ بارش برسا دیں ۔لیکن پتھر کے بت ساکن ہی رہے اور بارش نہیں برسی
تب وہ سب اجتماعی طور پر حضرت ابو طالب کے پاس آ ئے اور ان کہا کہ وہ اپنے خدا سے کہیں کہ وہ بارش برسا دے

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے اعتراف کیا ہے کہ شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے 

 حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

‌تاریخ  اسلام  میں دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں ..۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

‌ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

‌بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔

‌” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔

‌ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو کفار مکہ ابوطالب کے گھر پر آئے اور ان سے کہا ائے ابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے

ابھی حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم بہت چھوٹے سے تھے حضرت ابو طالب نے حضور پاک کو گود میں اٹھایا اور خانہ کعبہ کی دیوار سے متصل کر کے کھڑا کیا اور  حضور پاک کی شان میں  چالیس بند کا قصیدہ پڑھا ااور اس کے ساتھ ہی شہر مکہ میں اتنی موسلادھار دھار بارش ہوئئ کہ  کعبہ کی دیوار واں تک پانی آ گیا۔ تب حضرت ابو طالب ننھے بھتیجے کو اپنے شانو ں پر بٹھا کر گھر لے آئے ۔

‌اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے : و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل ” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “

‌یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم

فھم عندہ فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،

‌ومیزان عدلہ یخیس شعیرة

‌ووزان صدق وزنہ غیر ھائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “ قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]

‌اشعار ابوطالب زندہ گواہ

‌۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :

‌والله ان یصلوالیک بجمعھم

‌حتی اوسدفی التراب دفینا

‌”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“

‌فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ

‌وابشربذاک وقرمنک عیونا

‌”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔ ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“

‌ولقد علمت ان دین محمد(ص)

‌من خیر ادیان البریة دیناً ” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔ اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں : الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

‌رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب ” اے قریش ! کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔

‌وان علیہ فی العباد محبة

‌ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب

‌” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“

‌ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔ ۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

‌”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔

‌نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “

‌”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔

‌۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔

‌۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

‌”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“ ]ابوطالب تین سال تک شعب میں[

‌۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔

‌اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

‌ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے 

‌یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔ قارئین کرام ! ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :

‌ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما

‌فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

‌ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

‌۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر