ہفتہ، 18 جون، 2022

حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم


حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سنہ (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں شہر مکہ میں  ہوئ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ایک واقعہ اس وقت  پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ ۔

تقریباًً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔

جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔

میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی قیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔

مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔

بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔

یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔

  

منگل، 14 جون، 2022

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات

 



جنریٹرکے دھوئیں سے ناگہانی اموات  


  دنیا کی پانچ سو مشہور اسلامی شخصیات کی فہرست میں جن کا تین مرتبہ  نام آیا۔وہ 

 پروگرام ’عالم آن لائن‘ کے روح روان گئے اور  دیکھتے ہی دیکھتے یہی نام انہیں

 شہرت کی بلندیوں تک لے گیا اور وہ پی ٹی وی کے مشہور ترین اینکر بن گئے۔ 

2002 کے عام انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور

 جنرل  پرویز مشرف کی حمایت سے انہیں کابینہ میں وزارت مذہبی امور کا وزیر بھی

 نامزد کیا گیا

اس کے باوجود انہوں نے ٹی وی پر مذہبی پروگرام جاری رکھا جس میں ملک کے

 ممتاز علمائے کرام سے اسلام اور زندگی کے حوالے سے موضوعات پر بات چیت

 کی جاتی تھی۔

ٹی وی میں آنے سے قبل کراچی میں عامر لیاقت کی وجہ شہرت تقریری مقابلوں میں

 کامیابی تھی۔وہ اپنے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے

عامر لیاقت حسین کی زاتی گھریلو زندگی کافی نشیب و فراز سے گزر رہی تھی اور

 پوری قوم کی نظریں ان کی نجی زندگی کے طلاطم پر مرکوز تھیں کہ اچانک  ان کی

 وفات کی خبرسن کرپوری قوم کو افسوسناک دھچکہ لگا اپنے کیرئر کے ابتدائ

 عرصہ میں وہ عام ہی تھے کہ ان کی زات سے منسلک کئ بہترین کرداروں نے انہیں

 بہت خاص بنا دیا -اور پھر ناجانے کیا ہوا کہ ان کے زوال کا دور بہت جلد ان کا دامن

 گیر ہو گیا جس سے وہ تادم حیات نجات نہیں پا سکے یہاں تک کہ فرشتہء اجل نے ان

 کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا 

یہ دنیا بھی ہمارے لئے کتنی بے ثبات ہے کوئ کہ نہیں سکتا کہ  کب کہاں کیسے قضا

 ہم پر وارد ہو جائے لیکن کم از کم ہم خود تو ایک حد تک احتیاط برت سکتے ہیں

 جنریٹر جیسی ہلاکت خیز مشین وہ بھی کمروں میں چلا کر سونا بزات خود اپنی

 قضاکو آواز دینا ہے اور آج کی اس اندوہناک خبر نے ہم سب کو بے حد غمزدہ کر دیا

 کہ معروف شخصیت عامر حسین کمرے میں جنریٹر کا دھواں بھر جانے سے انتقال

 کرگئے

معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے دوست فہد خان

 نے ان کی موت سے قبل جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر کی تردید کردی میڈیا

 سےگفتگو کرتے ہوئے عامر لیاقت کے دوست فہد خان نے کہا کہ رات کو وہ عامر

 لیاقت کے ساتھ تھے، ان کی طبعیت خراب تھی۔فہد خان نے مزید کہا کہ عامر لیاقت

 پریشا ن بھی تھے، تاہم جنریٹر میں آگ لگنے کی خبر درست نہیں ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل عامر لیاقت کے ملازم ممتاز کا کہنا تھا کہ گھر

میں اچانک جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، ڈرائیور جاوید کی آواز آئی

 کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ ملازم ممتاز نے پولیس کو دیے گئے

 بیان میں کہا کہ میں ڈرائیور جاوید اور عامر لیاقت حسین گھر میں موجود تھے، دو

 گھنٹے سے بجلی بند تھی، جنریٹر چل رہا تھا۔ممتاز نے اپنے بیان میں بتایا کہ اچانک

 جنریٹر کا دھواں بھرا تو میری سانس بند ہوئی، میں گھر کا مرکزی دروازہ کھول کر باہر آیا،

 پھر ڈرائیور جاوید کی آواز آئی کہ عامر لیاقت کی طبعیت خراب ہو رہی ہے۔ملازم

 ممتاز کے مطابق ڈرائیور جاوید کے ساتھ مل کر میں نے عامر لیاقت کے کمرے کا

 دروازہ کھولنے کی کوشش کی جس کے بعد ہم کمرے میں داخل ہوئے تو عامر لیاقت

 صوفے پر بے ہوش پڑے تھے۔ممتاز نے بتایا کہ ہم نے عامر لیاقت کی حالت دیکھ

 کرپولیس اور ریسکیو کو اطلاع دی۔ملازم نے مزید بتایا کہ عامر لیاقت کو آج اسلام

 آباد روانہ ہونا تھا۔ 

جنریٹر سے ہلاکتوں کی ایک اور خبر-

پشاور شہر میں جنریٹر سے نکلنے والا دھواں موت کا سبب بن گیا۔ یہاں بھی جنریٹر

 کے دھوئیں سے دم گھٹنے سے چار افراد جاں بحق ہوگئے۔پشاور کے علاقے

 بشیرآباد شگئی ہندکیان میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں کمرے میں گیس 

 جنریٹرلگایا

 ہواتھا،لائٹ کے جانےاور آنے کی آنکھ مچولی میں جنریٹر آف تو ہو گیا لیکن اس

 سے نکلنے والا دھواں کمرے سے باہر جانے کا کوئ انتظام نا ہونے کے سبب دھواں

 کمرے میں ہی بھر جانے کےباعث  سے کمرے میں سوئے ہوئے چار افراد کی

 زندگیوں   کو نگل گیا ہسپتال کے زرائع کے مطابق چاروں افراد دم گھٹنے کے باعث

 جاں بحق ہوئے ،مرنے والوں میں باپ ، بیٹا ، بھتیجا اور ایک مہمان شامل ہے۔واقعے

 کی اطلاع ملنے پر ریسکیو اہلکاروں نے لاشوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا۔

اسی طرح ایک شادی کے گھر میں عین شادی کے دن برطانیہ سے آنے والے ایک

 خاندان کو سانحہ سے دو چار ہونا پڑا-ہوا یوں کہ مہندی کی تقریب جب ہو چکی

 توسب اپنی اپنی جگہ سونے چلے گئے اوردو کم عمر مہمان بچّے اپنے کمرے میں

جنریٹر چلا کر سو گئے رات کو جب لائٹ گئ تو بچّے غافل سوتے رہے جنریٹر

 دھواں چھوڑتا رہا  یہاں تک کہ ایک بچّے کی آنکھ کھل گئ اور وہ باہر کی جانب

 بھاگا لیکن دیر ہو چکی تھی وہ معصوم سیڑھیوں پر ہی گر کر مر گیا اور دوسرا

 کمرے میں مردہ ہو چکا تھا  -شادی کے گھر کی خوشیوں کو جنریٹر کا دھواں نگل

 گیا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنریٹر کمرے میں ہرگز نہیں رکھّا جائے اور

 مجبوری سے رکھنا ہو تو ایگزاسٹ پنکھوں یا روشن دان کا بندوبست کر کے رکھّا جائے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر