حضرت محمد ،مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت سنہ (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں شہر مکہ میں ہوئ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔ ۔
تقریباًً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔
جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ساری کی ساری اولاد خدیجہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم جو ماریہ قبطیہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی قیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔
مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔
بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔
یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں