ہفتہ، 9 نومبر، 2024

قدرت کے ماحولیاتی توازن میں ہماری بقا ء ہے

 ’ یورپ اور ایشاءسمیت تقریباً دنیا بھر میں ایک ”چڑیا“ پائی جاتی ہے جو عالمی سطح پر ”یوریشیئن ٹری سپیرو“(Eurasian tree sparrow) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ چڑیا تقریباً دو عشرے قبل پاکستان میں بھی بکثرت پائی جاتی تھی لیکن اب کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے خطے میں اس چڑیا کی نسل تقریباً ختم ہوجانے کا ذمہ دار چین ہے۔چڑیاں بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہیں۔ یہ ایک سال میں دو سے بیس ہوجاتی ہیں۔چڑیا انسانوں کے گھروں میں گھونسلے بنانا پسند کرتی ہے۔ اسکے علاوہ درختوں کے چھوٹے موٹے سوراخوں میں بھی گھونسلہ بنا لیتی ہے۔ انسانی گھروں کو گھونسلے کے لئیے ترجیح دینے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ائریا ان کے شکاری پرندوں سے محفوظ ہوتا ہے دوسرا یہ انسانوں کا بچا کچھا کھانا بھی کھا لیتی ہیں۔ گھروں میں بھی آپ انکے گھونسلے ٹیوب لائیٹوں کی فریموں، روشندانوں، اے سی یونٹس، چھتیوں پہ پڑے نہ استعمال ہونے والے برتن چھتوں پہ لگے پھنکے وغیرہ پہ دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی یہ بلیوں سے بچنے کے لئیے اپنے گھونسلے بناتی ہے تاکہ اسکے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی رستہ نہ ہو۔ اصل میں یہ چھ انچ کا پرندہ ہے اور اسکا گھونسلہ آٹھ انچ کا ہوتا ہے اس لئیے جہاں بھی اسے آٹھ انچ کی محفوظ جگہ مل جائے یہ گھونسلہ بنا ڈالتی ہے۔ ان کا گھونسلہ بنانے کا طریقہ بھی کمال ہے۔ پہلے دونوں گھاس پھوس کا ڈھیر لگاتے ہیں پھر اسکے بار ڈر میں تنکے گاڑھ کر دھاگے لگا کر اسے مضبوط کردیتے ہیں۔ مادہ کواندر کا ٹمپریچر گرم رکھنے کے لئیے پر چاہئیے ہوتے ہیں اور یہ زمہ داری چڑا پوری کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو چڑا جتنے زیادہ کھنمب لے کر آتا ہے مادہ اتنا ہی زیادہ ملاپ کرتی اور زیادہ انڈےدیتی ہے، اسکی وجہ کہ زیادہ کھنمب گھونسلے کا درجہ حرارت درست رکھیں گے اور بچوں کی افزائش بہتر ہوگی۔


۔ یہ ماحول دوست جانور ہیں ہوسکے تو آٹھ انچ کی ڈولیاں، لکڑی کے گھر یا گتے کے ڈبے میں چھوٹا سوراخ کرکے انکو کسی اونچی جگہ پر دیواروں میں لگا دیں۔ اس سے ایک تو یہ آپ کو صبح صبح جگا کر آپ کے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا دلوائے گی ۔ دوسرا گھر میں فالتو روٹی کے ٹکڑے چاول اور کیڑے کھائے گی۔ فصلوں پہ دانوں پہ حملہ ہوتی ہو تو وہاں باز اور سانپوں کے پتلے رکھیں۔ پودینے کی بو بھی انہیں بھگاتی ہے۔ چین میں 1958ءسے اس چڑیا کے خاتمے کی مہم چلائی گئی۔ پہلی بار 1958ءمیں ماﺅزے تنگ نے چڑیا، چوہوں، مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کی مہم چلائی جو 1962ءتک جاری رہی۔ اس مہم میں ہی چین سے چڑیا کا تقریباً صفایا کر دیا گیا تھا۔چینی باشندوں نے ماﺅزے تنگ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے درختوں سے چڑیا کے گھونسلے اٹھا کر زمین پر دے ڈالے، اس کے انڈے توڑ دیئے اور گھونسلوں میں موجود اس کے ننھے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ بڑی چڑیوں کو مارنے کے لیے چینیوں نے ایک انوکھا طریقہ دریافت کر لیا۔ وہ زمین پر ٹین کے ڈبے اور ڈرم مسلسل بجاتے رہتے تاکہ یہ چڑیاں ڈر کے مارے درختوں یا زمین پر بیٹھ نہ سکیں۔


 جب چڑیاں اڑتے اڑتے تھک کر زمین پر گر جاتیں تو چینی انہیں ختم کر دیتے۔یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہوا اور مہینوں میں چین سے اس کی نسل کا صفایا ہو گیا۔یہ سب چینیوں نے اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں کھیتوں سے چڑیوں کے بیج چگ جانے کے باعث گندم اور چاول کی پیداوار کم ہوتی تھی لیکن جب انہوں نے چڑیاں کو ختم کر لیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔ ڈچ مؤرخ فرینک ڈیکوٹر  نے چین کے اس دور کو بیان کیا ہے جسے ‘دی گریٹ لیپ فارورڈ` کہا جاتا ہے جب بائیں بازو کے چین کی بنیاد رکھنے والے ماؤ زے تنگ نے پورے چین کو ترقی کی دوڑ میں مغربی ممالک کے قریب پہنچا دیا۔ماؤ نے  چار قسم کے جانوروں کو نقصان دہ قرار دیا گیا۔ چوہے، مچھر، مکھیاں یا کیڑے اور چڑیاں تھیں۔ ماؤ کی گریٹ لیپ فارورڈ کا ایک حصہ چڑیوں کے خلاف مہم تھی -ماؤ چاہتے تھے کہ چینی عوام ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔ان چند برسوں میں چین میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہر ماحولیات صحافی اور مصنف جان پلیٹ کہتے ہیں کہ ‘تاریخ فطرت کی تباہی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن 1958 میں چین میں جو کچھ ہوا اس سے شاید ہی کسی تباہی کا موازنہ کیا جا سکے۔‘چین کے بانی رہنما ماؤ نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک چڑیوں کے بغیر رہ سکتا ہے۔ بہت سی دوسری پالیسیوں کی طرح اس فیصلے کا اثر اس قدر وسیع ہوا کہ تباہی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔


‘چڑیا کو اپنے گھونسلے میں آرام کرنا پڑتا ہے۔ اڑنے اور خوراک کی تلاش اس پرندے کے لیے بہت تھکا دینے والی ہوتی ہے۔پلاٹ کے مطابق اس دور میں چڑیا کو اتنے بڑے پیمانے پر مارا گیا کہ ایسی کہانیاں ہیں کہ لوگ مردہ پرندوں کو بیلچوں سے اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ دو سال کے اندر، یہ نسل، جو چین میں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی، معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی۔ٹوڈ بتاتے ہیں کہ چڑیوں کے خلاف استعمال ہونے والے طریقے اتنے درست نہیں تھے کہ انھیں اسی نوع تک محدود رکھا جا سکے۔لوگوں کے ہجوم نے گھونسلے توڑ دیے اور جو بھی چڑیا دیکھی اسے مار ڈالا۔ بیجنگ جیسے شہروں میں لوگ اتنا شور مچاتے تھے کہ پرندے تھک جاتے تھے اور اڑتے ہوئے مر جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف چڑیاں بلکہ پرندوں کی دوسری نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔چینی حکام کا خیال تھا کہ یہ جاندار چاول اور دیگر فصلوں کو نقصان پہنچا رہے تھے، لہٰذا ان کے خاتمہ کے لئے ملک بھر میں مہم شروع کردی گئی۔اس مہم کے دوران لوگوں نے ان جانداروں کا ہر جگہ تعاقب کیا اور اگرچہ چڑیا کا اس مہم کا نشانہ بننا ایک حیرت انگیز بات تھی  ۔لوگوں نے چڑیوں کے گھونسلے تباہ کردئیے، ان کے انڈے توڑ دئیے، 


ان کے بچے مار دئیے اور جہاں بھی کوئی چڑیا دانا دنکا چگنے کی کوشش کرتی برتن اور ٹین کے ڈبے بجا کر اسے اڑادیا جاتا۔اس مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں بیچاری چڑیا کا نام و نشان ختم ہوگیا -ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ چڑیا کی نسل ختم ہونے سے ان کیڑوں اور حشرات کو کھانے والے پرندے نہ رہے جو کہ اصل میں فصلوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین میں چاول کی فصل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی جبکہ باقی فصلوں کو بھی کیڑوں اور حشرات نے بے پناہ نقصان پہنچایا اور پورے ملک میں قحط کا سماں پیدا ہوگیا۔ جو تقریباً دو کروڑ لوگوں کی موت کا سبب بنا۔اس قحط کا عذاب نازل ہونے کو چینی تاریخ کی خوفناک ترین آفات میں شمار کیا جاتا کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔پھر  پورے چین کی فصلوں پر ٹڈی دلوں کے لشکروں نے حملہ کر دیا ۔یاد رہے کہ ٹڈی انتہائ سرعت سے گندم کے زخائرکھا جاتی ہے  ٹڈی دل کے حملوں نے پورے  چین  میں گندم کے ذخائر کو تباہی سے دو چار کیا ۔ٹڈی دل کو کھانے والی چڑیاں  گندم کو ٹڈی دلوں کی آفت سے محفوظ رکھتی تھیں۔اس لیئے قدرت کے ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے کے بجائے مذید سدھارنے پر توجہ دیجئے

جمعہ، 8 نومبر، 2024

کراچی ریلوے کا نظام 164سال قبل1855ء

 

کینٹ اسٹیشن کراچی کا ایک اہم ریلوے اسٹیشن ہے، اسے کراچی کینٹ اور کراچی چھاؤنی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ صدر کے علاقے میں داؤد پوتا روڈ پر واقع ہے ،جب کہ اس کے ایک طرف کلفٹن اور مشرق کی جانب ڈیفنس کے پوش علاقے واقع ہیں۔ یہ پہلے فریئر اسٹریٹ ریلوے اسٹیشن کہلاتا تھا۔ اس اسٹیشن کی تعمیر کا آغاز 1896ء میں ہوااور 1898ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس کی مجموعی لاگت 80 ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ کینٹ اسٹیشن کی موجودہ عمارت کو سندھ حکومت کی جانب سے ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق کینٹ اسٹیشن کی عمارت رومن اور اطالوی طرز تعمیر کا ایک تاریخی نمونہ ہے۔ شہرِ قائد کے دو تاریخی ریلوے اسٹیشن-اس کا مرکزی دروازہ رومن گوئتھک طرز تعمیر کا شاہکار ہے، اس کے ستون اطالوی طرز پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ کینٹ اسٹیشن کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی سے تجارت کے فروغ کے لئے 1859ء میں کینٹ اسٹیشن تا کیماڑی کی بندرگاہ تک ریلوے لائن نصب کرائی گئی تھی۔ جس کے ذریعے بیرون ملک سے درآمد کیا جانے والا سامان کینٹ اسٹیشن تک لایا جاتا تھا، اور درآمد کیا جانے والا سامان یہاں سے بندرگاہ تک لے جایا جاتا تھا۔


 اس کے پلیٹ فارموں کی تعداد 5 ہے، جب کہ ٹریک کی تعداد 8ہے، کینٹ ریلوے اسٹیشن سے پشاور تک جبکہ ایک لائن سرکلر ریلوے کی بھی نصب ہے۔ کراچی کینٹ کا ریلوے اسٹیشن مسافر ٹرینوں کی آمد ورفت کے حوالے سے سٹی اسٹیشن سے زیادہ مصروف اسٹیشن ہے۔ یہ اسٹیشن وزارت ریلوے کی ملکیت ہے۔ کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہونے والی مسافر ٹرینوں میں علامہ اقبال ایکسپریس، عوام ایکسپریس، گرین لاین ایکسپریس، قراقرم ایکسپریس، خیبر میل، ملت ایکسپریس، نائٹ کوچ، پاک بزنس ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، تیزگام اور تھر ایکسپریس شامل ہے، اس کے علاوہ دو لوکل ٹرینیں بھی کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہیں۔سٹی اسٹیشن کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے، یہ حبیب بینک پلازا سے ملحق آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان ریلویز کراچی ڈویژن کا ہیڈ آفس بھی ہے، قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافہ کے ساتھ مسافر ٹرینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے سٹی اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر ٹرینیں کھڑی کرنے کی گنجائش میں کمی کی وجہ سے بیشتر ٹرینوں کو کینٹ اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔ سٹی اسٹیشن کو پاکستان کا قدیم ترین اسٹیشن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے،


اسے ماضی میں میکلوڈ ریلوے اسٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔یہ ریلوے اسٹیشن اب سے164سال قبل1855ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اور یہاں سے کوٹری تک 174کلومیٹر طویل ریلوے پٹری کو نصب کیا گیا تھا۔ یہ کام 1858 ء میں پایہ تکمیل تل پہنچا تھا۔ یہ ریلوے لائن ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت نصب کی گئی تھی۔ سٹی اسٹیشن کو عوام کے لئے 13مئی 1861ء کو کھولا گیا تھا۔اس وقت یہ اسٹیشن اسکنڈے ریلویز کا آخری ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس وقت سٹی اسٹیشن پاکستان ریلویز کی ملکیت ہے۔ چار پلیٹ فارموں پر مشتمل آج کا سٹی اسٹیشن جدید سہولتوں سے آراستہ ہے، یہاں روانہ ہونے والی ٹرینوں کے ٹکٹ کی دستیابی کے ساتھ سفر کے لئے پیشگی ٹکٹوں کی بکنگ بھی کرائی جاتی ہے۔ یہاں سے اس وقت 6 مسافر ٹرینیں بہاؤالدین زکریا ایکسپریس، بولان میل، فرید ایکسپریس، ہزارہ ایکسپریس، خوشحال خٹک ایکسپریس، اور سکھر ایکسپریس کی آمد ورفت ہوتی ہے۔ یہاں سے ایک لوکل ٹرین بھی دھابیجی تک کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ سٹی اسٹیشن پر یہاں سے پشاور تک اور سرکلر ریلوے کی لائنیں نصب ہیں علاوہ ازیں یہاں کارگو اور پارسل کی سہولیات بھی دستیاب ہیں 


سٹی اسٹیشن اور کینٹ اسٹیشن کراچی کے دو بڑے قدیم اور تاریخی اہمیت کے حامل ریلوے اسٹیشن ہیں۔ یہ دونوں زمانہ قدیم سے کراچی میں مواصلاتی شعبے میں اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ قدیم کراچی سے آج کے کراچی کی ترقی، اس کی سیاسی و سماجی، تجارتی اور مذہبی سرگرمیوں کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ یہ دونوں ریلوے اسٹیشن اسٹیم ریلوے انجنوں سے لے کر جدید ریلوے انجنوں اور پاکستان میں ریلوے کے ارتقاء کی داستان کے امین بھی ہیں۔ ان کی قدیم عمارتیں بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، اور شہر کے ثقافتی ورثہ بھی ہیں۔ منفرد سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ملک کے بالائی حصوں سے آنے والی ٹرینوں کےلئے کینٹ اور سٹی آخری ریلوے اسٹیشن ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد مزید ریلوے اسٹیشنز قائم کئے گئے، جن میں کینٹ اسٹیشن کے فوری بعد، چنیسر ہالٹ، ڈرگ روڈ، ملیر ہالٹ، ملیر سٹی اور لانڈھی وغیرہ شامل ہیں، لیکن یہ اسٹیشن لوکل ٹرینوں کے لئے قائم کئے گئے تھے، جبکہ ڈرگ روڈ اور لانڈھی کے ریلوے اسٹیشنوں پر کچھ ایکسپریس ٹرینیں بھی رکتی ہیں۔ یہ دونوں ریلوے اسٹیشن قدیم ہونے کے ساتھ سفر اور سامان کی تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں


۔ یہاں کی سرگرمیوں کو فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں عکسبند کیا جاتا رہا ہے۔شہرِ قائد میں‌ ریلوے کے نظام اور مسافر و مال بردار ٹرینوں کے ذریعے آمدورفت اور تجارت کے حوالے سے   کینٹ اسٹیشن خاص اہمیت رکھتا ہے  ۔ ا س ریلوے اسٹیشن کی قدیم عمارت بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔سٹی اسٹیشن کراچی کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے، یہ حبیب بینک پلازا سے ملحق آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان ریلویز کراچی ڈویژن کا ہیڈ آفس بھی ہے، قیام پاکستان کے بعد کراچی کی آبادی میں بڑھتے ہوئے اضافہ کے ساتھ مسافر ٹرینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے سٹی اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پر ٹرینیں کھڑی کرنے کی گنجائش میں کمی کی وجہ سے بیشتر ٹرینوں کو کینٹ اسٹیشن پر منتقل کر دیا گیا۔ سٹی اسٹیشن کو پاکستان کا قدیم ترین اسٹیشن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اسے ماضی میں میکلوڈ ریلوے اسٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ ریلوے اسٹیشن اب سے164سال قبل1855ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اور یہاں سے کوٹری تک 174کلومیٹر طویل ریلوے پٹری کو نصب کیا گیا تھا۔ یہ کام 1858 ء میں پایہ تکمیل تل پہنچا تھا۔ یہ ریلوے لائن ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت نصب کی گئی تھی۔ سٹی اسٹیشن کو عوام کے لئے 13مئی 1861ء کو کھولا گیا تھا۔اس وقت یہ اسٹیشن اسکنڈے ریلویز کا آخری ریلوے اسٹیشن تھا۔ اس وقت سٹی اسٹیشن پاکستان ریلویز کی ملکیت ہے۔ چار پلیٹ فارموں پر مشتمل آج کا سٹی اسٹیشن جدید سہولتوں سے آراستہ ہے، یہاں روانہ ہونے والی ٹرینوں کے ٹکٹ کی دستیابی کے ساتھ سفر کے لئے پیشگی ٹکٹوں کی بکنگ بھی کرائی جاتی ہے۔جب کہ اس کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر اشیاء خورونوش کے اسٹال بھی ہیں۔ یہاں سے دو مال گاڑیاں بھی روانہ ہوتی ہیں۔ 















 

بدھ، 6 نومبر، 2024

دیو سائ پارک -سیاحوں کی جنت 2

   دیو سائی کا لفظ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان کا لفظ ہے جو اصل میں  دیو سے مراد دیوتا  ہے اور  سے مراد 'آبادی یا سرزمین کی ہے، پس یوں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے۔ جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہےسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ( گُورَو اِچ) کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوبصورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور ( گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کر دیا۔ یہ ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل جسے مقامی زبان میں ترُشونِہ کہتے ہیں) تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ   مہاجر  پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس آتا ہے چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گذر رہا ہے  


اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دے تی۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔


 رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دے نی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اگر آپ ریچھوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائیلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں۔ غرض دو دن گذارنے کے لیے یہاں کافی مواد موجود ہے۔


یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو محض آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو شتونگ نالے کہ ساتھ ہے۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گذرتی ہے۔ یہان قیام و طعام کے لیے مقامی لوگوں نے کیمپ لگا رکھے ہیں، یہاں سے مزید صرف پندرہ منٹ کے بعد دیوسائی کا آخری کونا یعنی المالک مار پاس آتا ہے یہاں بھی سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے کیمپ موجود ہے اور ساتھ ہی وائلڈ لائف چیک پوسٹ بھی ہے۔ اسی مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں K-2، براڈ پیک، گشیبرم 1، گشیبرم 2، گشیبرم4 اور مشہ برم نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پر اتنی بلندچوٹیاں دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا شروع ہوتا ہے اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد     سیاح  دنیا کی بلند  و بالا چوٹیوں سے اتر کر جب اسکردو شہر میں آ کر ان بلندیوں کو دیکھتے ہیں تو سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا وہ واقعئ وہاں سے ہو کر یہاں آئے ہیں -پہاڑوں سے نشیب کی جانب سفر جھیل صد پارہ سے گذر کر  اسکردو میں آ نکلتا ہے۔ اس کی نظریں بار بار صد پارہ جھیل سے پرے بلندیوں کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی وہیں تھا دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع میں بھورے ریچھوں کے درمیان،مسحور کردینے والی خوشبوؤں اور دل موہ لینے والے رنگ برنگے پھولوں کی جھرمٹ میں۔ کیا وہ واقعی وہاں تھا یا یہ سب محض ایک خواب تھا۔

منگل، 5 نومبر، 2024

دیو سائ پارک سیاحوں کی جنت-پارٹ 1

    اس مرتبہ  چودہ اگست  2024ءکے دن یوم آزادی پر  یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر ریناکیونکا نے جنگ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ زندگی میں پہلی بار آئیں اور یہ خوشگوار سیاحتی سفر  میں  کبھی   بھی  بھلا  نہیں سکوں گی۔ پچاس کلومیٹر کا پہاڑوں پر سفر چار گھنٹے دس منٹ میں طے کیا گیا۔ اگر پاکستان حکومت کروڑوں لگاکر اسے وادی کاشان ناران کے معیار کا تعمیر کرائے تو اس سے اربوں حاصل کر سکے گی ۔ سکردو (اسپیشل رپورٹ:حنیف خالد) دیوسائی نیشنل پارک قدرت کا عجوبہ‘ دنیا کی بلند ترین تازہ پانی کی جھیلیں ہیں،غیرملکی سفیروں کی 14ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی تقریب‘ قومی پرچم لہراتے رہے ، دیوسائی نیشنل پارک جو پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع ہے‘ کا شمار دنیا کے سب سے بلند سطح مرتفع (plateau) میں ہوتا ہے جس کی اوسط بلندی 4114میٹر ہے۔ 1993ء میں قائم کیا گیا یہ پارک ہمالین براؤن بیئر (بھورے ریچھوں) کی نسل کی حفاظت کیلئے خاص طور پر بنایا گیا تھا جو اس علاقے میں ایک نایاب نوع ہے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی دوسری سالانہ انٹرنیشنل سمٹ کے اختتام پر ایف پی سی سی آئی کے برسر اقتدار گروپ یو بی جی کے سیکرٹری ظفر بختاوری کا یورپی یونین سمیت پندرہ سفیروں اور انکی فیملی بچوں کو 14سے 15ہزار فٹ بلند PLATAEU پر لے جا کر سیرو تفریح ظہرانے کی دعوت دینا اور دریائے سندھ کا منبع دکھانا انکے لئے تاحیات تجربہ رہے گا۔


غیرملکی سفیروں نے چودہ ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کی ۔دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلومیٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گذرتے۔ یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔


پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانچ دریا عطا کئے ہیں اور ان میں دریائے سندھ دنیا کا بائیسواں طویل دریا سمجھا جاتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کوانتالیس قدرتی اور آٹھ غیر قدرتی جھیلیں عطا کی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان کو دیا ہے۔ دنیا کے بائیس ممالک پہاڑوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کے حصے میں دنیا کی دوسری     بڑی چوٹی (کے ٹو) کے ساتھ ساتھ دنیا کے دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین عظیم پہاڑی سلسلے بھی آئے ہیں۔ یورپی ممالک صحرائوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کو دنیا کا بیسیواں بڑا صحرا ملا ہے۔پاکستان عالمی سطح پر سونے کے ذخائر کے حوالے سے پانچواں بڑا ملک ہے اور ہماری ان کانوں میں سینکڑوں ارب ڈالروں کا سونا موجود ہے۔ ہمارے پاس کوئلے کے پا نچویں بڑے اور تانبے کے ساتویں بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اللہ پاک نے پاکستان کو دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کانیں عطا کی ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہے، پانچ دریا ہیں جو کم کم ملکوں کو نصیب ہوئے ہیں -پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس قدر زرخیر مٹی دی ہے کہ سونا اگلتی اور دھرتی پر چلنے والوں کی خوراک کا نہایت آسانی سے بوجھ اٹھا سکتی ہے۔


 کرہ ٔاَرض پر پھیلے ہوئے دو سو انچاس ممالک میں سے پاکستان گنے کی پیداوار میں پانچواں اور چینی کی برآمد میں نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے اور چاول کی برآمد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ پیاز کی پیداوار کے حساب سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے اور چنے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار کے لئے پاکستان عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے،دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتی ہے 


۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دینی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ مضمون میں نے روزنامہ جنگ سے لیا ہے


پیر، 4 نومبر، 2024

کراچی کا میری ویدر ٹاور

 


برصغیر کے کالونیل زمانے میں انگریز آئے  تھے قبضہ گروپ کی شکل میں لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت  میں  ان شہروں کو چار چاند لگا دئے جو ان کے زیر نگیں رہے-کراچی بھی ان کے دور کا ایک ایسا بے مثال شہر بن کر ابھرا جس کے کچھ نا کچھ آثار ابھی بھی باقی ہیں    - ان یاد گاروں میں ایمپریس مارکیٹ 'ویسٹ و ہارف  'کیماڑی کی بندر گاہ'  کلفٹن کی چو برجی'  فرئر ہال بو ہری بازار  وغیرہ  'وغیرہ  کراچی کا میری ویدر ٹاور، تو آج میں اسی ٹاور کی بات کروں گی- شہر کی تاریخی یادگاروں میں   قیام پاکستان سے قبل  یہ   تاریخی ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں شہر کے وسط میں موجود ہے صوبہٴسندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی کی لانگ روٹ والی بسوں میں سفر کیا جائے تو نارتھ کراچی، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں سے شہر کے مرکز ایم اے جناح روڈ آنےوالی متعدد بسوں کے کنڈیکٹر کی ’ٹاور۔۔۔ ٹاور۔۔۔۔ ٹاور‘ کی  آواز  یہ پتا دیتی ہے کہ اس بس کا آخری اسٹاپ ٹاور ہے۔ٹاور کا نام سن کر ذہن میں اکثر پیرس میں قائم دنیا کے سب سے مشہور 'ایفل ٹاور' کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر جناب یہ کوئی ایفل ٹاور نہیں، بلکہ کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم 'میری ویدر ٹاور' ہے

قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔اِسی ٹاور کی موجودگی کے باعث اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس علاقے کو تجارتی لحاظ سے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میں دفاتر اور بینک شامل ہیں۔ٹاور کے قریب شہر کی مشہور کاروباری مرکز ’کراچی اسٹاک ایکسنج‘ کی عمارت بھی ہے۔ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد ہر ہزاروں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کہ رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح، ’میری‘ اور ’ویدر‘ کہیں غائب ہے، زدِ عام رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام، یعنی، 'ٹاور-وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ نے کراچی کے میری ویدر ٹاور کے اطراف گزرتے چند شہریوں سے اس ٹاور کے نام اور اہمیت سے واقفیت کے بارے میں استفسار کیا تو سوائے چند لوگوں کے کئی شہری اس کے اصل نام اور یادگار اہمیت سے لا علم نظر آئے۔اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے آج کے بہت کم شہری واقف ہیں۔


میری ویدر ٹاور کی تاریخی اہمیت:تاریخ بتاتی ہے کہ میری ویدر ٹاور سابق کمشنر سندھ 'ولیم میری ویدر' کی بہترین کارکردگی کے عوض سنہ 1884 میں تعمیر کروایا گیا تھاولیم میری ویدر سنہ 1868 میں سندھ کے کمشنر مقرر ہوئے، جنھوں نے اپنی 10 سالہ کارکردگی میں سندھ سمیت کراچی میں اہم ترقیاتی کام کرائے۔ٹاور کی بناوٹ:سنہ 1884 سے کراچی کی اہم شاہراہ ہر قائم ٹاور پر سندھ کے سابقہ ادوار کے کمشنر 'ولیم میری ویدر‘ کا نام کنندہ ہے۔اس یادگار ٹاور کی لمبائی 102 فٹ اونچی ہے۔اِس کی70 فٹ کی اونچائی پر ایک چار رخی گھڑی آویزاں ہے، جس کے اوپر نقش و نگاری کیلئے صیہونی طرز کے تارے بھی کنندہ ہیں اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےمیری ویدر کلاک ٹاور   ایک گوتھک کلاک ٹاور ہے جو وکٹورین دور میں کراچی ، پاکستان میں بنایا گیا تھا۔ یہ ٹاور وسطی کراچی کا ایک تاریخی مقام ہے اور یہ وسطی کراچی کی دو اہم ترین سڑکوں محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ کو علاحدہ کرتا ہے۔ یہ ٹاور شہر کی حدود کی نشان دہی کرتا تھا جب کیماڑی کی بندرگاہ سے آتے تھے،  اور کراچی کے اولڈ ٹاؤن اور مشرق میں اس کے نئے یورپی کوارٹرز کے درمیان تقسیم کی لکیر کو نشان زد کرتا تھاتاریخ میری ویدرٹاورکو عوامی رکنیت کے ذریعے سر ولیم L. Merewether کی یادگار کے طور پر اٹھایا گیا تھا،   جنھوں نے 1867ء سے 1877ء تک سندھ کے کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اسے کراچی کے میونسپل انجینئر جیمز اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا، اس کا سنگ بنیاد بمبئی کے گورنر سر جیمز فرگوسن نے 1884ء میں رکھا تھا   اسے باضابطہ طور پر 1892ء میں سندھ کے کمشنر سر ایوان جیمز   نے 37,178 روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے کے بعد عوام کے لیے کھولا تھافن تعمیر رات کو Merewether کلاک ٹاورنیپئر مول روڈ کے ساتھ کیماڑی میں بندرگاہ سے پہنچنے پر ٹاور شہر کی جنوبی حد کوظاہرکرتا تھا۔  یہ نئے یورپی سرائی کوارٹرز سے اولڈ ٹاؤن کے درمیان تقسیم کی لکیر کے نشان کے طور پر بھی کام کرتا ہے  یہ دو بڑے راستوں کے ٹرمینی پر بھی واقع ہے: محمد علی جناح روڈ اور II چندریگر روڈ اور یہ ایک بڑا بس اسٹاپ ہے۔   ایک اور نظارہ اسٹراچن نے ٹاور کو گوتھک ریوائیول اسٹائل میں ڈیزائن کیا جو وکٹورین انگلینڈ میں مقبول تھا،۔ کلاک ٹاور 44 فٹ مربع کی بنیاد پر کھڑا ہے اور 102 فٹ کی بلندی پر ہے۔ 4 گھڑیاں 70 فٹ کی اونچائی پر ہر اگواڑے پر واقع ہیں، جس میں ایک گھنٹی ہے جس کا وزن 300 پاؤنڈ ہے جو گھنٹے پر ٹکراتی ہے۔ 100 پاؤنڈ وزنی چھوٹی گھنٹیاں چوتھائی گھنٹے میں ٹکراتی ہیں۔   یہ مقامی گیزری ریت کے پتھر سے بنا ہے اور اس کے بیرونی حصے پر سٹار آف ڈیوڈ بھی نظر آتا ہے۔ ٹاور کو نازک پتھر کے کام سے سجایا گیا ہے،   ۔

اتوار، 3 نومبر، 2024

آ ئ دیوالی کی رات آئ

 

 دیوالی ایک دن کا تہوار نہیں بلکہ پانچ دن کے تہوار کا سلسلہ ہے۔ عام تقویم کے اکتوبر اور نومبر مہینے کے درمیان میں پیش آتا ہے۔ دیوالی اماوس کی رات کو منائی جاتی ہے۔ اماؤس گہری سیاہ رات ہوتی ہے، اس گہری سیاہ رات میں دیے روشن کرکے عید منائی جاتی ہے۔دیوالی صرف دییوں کا تہوار ہی نہیں بلکہ آواز، پٹاخے، رنگولی، ذائقے، مٹھائیاں، جذبات اور روحانیت کا بھی تہوار ہے۔جذباتی طور پر دیوالی سارے خاندان کو، دوست احباب کو ایک جگہ جوڑتا ہے-دیوالی جو دیپاولی اور عید چراغاں کے ناموں سے بھی معروف ہے ایک قدیم ہندو تہوار ہے، جسے ہر سال موسم بہار میں منایا جاتا ہے۔  یہ تہوار یا عید چراغان روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، جہالت پر علم کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔  اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتے ہیں۔ اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔


 اصل تہوار شمسی-قمری ہندو تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔ گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے۔دیوالی  ایک ایسا تہوار جس کو ہندو برادری کا سب سے بڑا تہوار سمجھا جاتا ہے، اسے  دنیا بھر میں ہندی برادری بڑے جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہے۔یہ ایک قدیم تہوار ہے جسے دسہرے کے تہوار کے بعد منایا جاتا ہے، اسے روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے جس میں گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور پٹاخے پھلجھڑیاں جلائی جاتی ہیں۔دیوالی دراصل ’دیپاولی‘ کا بگڑا ہوا نام ہے، دیپ کا مطلب روشنی اور ولی کا مطلب قطار ہوتا ہے، یعنی قطار در قطار جلائے گئے دیے، اسی لیے اسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔اِس تہوار کے موقع پر جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک، تمام گھروں میں روشنی اور چراغاں کیا جاتا ہے اور انہیں سجایا جاتا ہے۔دیوالی سے جڑی مختلف روایات-ہندوؤں کی روایت کے مطابق یہ جشن اور چراغاں اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس دن ان کے بھگوان رام، ان کی اہلیہ سیتا اور ان کے بھائی لکشمن 14 سال کے بن باس یعنی جنگل میں جلاوطنی اور لنکا کے بادشاہ ’راون‘ کو شکست دینے کے بعد اپنے گھر، اپنے شہر ایودھیا واپس لوٹے تھے۔


اس موقع سارا شہر ان کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا تھا اور ایودھیا کے چپے چپے سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں، آج بھی لوگ رام کی اِس واپسی کا جشن دیوالی کی صورت میں مناتے ہیں۔دیوالی سے جڑی اور بھی کہانیاں ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسور نامی ایک راجہ تھا، جو بڑا ظالم اور ہوس پرست تھا، حسین نوجوان دوشیزاؤں کو اغواء کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا پھر انہیں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا، ہندو مذہب کے ایک دیوتا وشنو نے بھگوان کرشن کا روپ دھار کر دیوالی کے دن دنیا کو اس ظالم راجہ سے نجات دلائی تھی۔دیوالی کا تہوار کب اور کس طرح منایا جاتا ہے؟دیوالی کے تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتی ہیں، اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔دیوالی کے 5 دنوں کا آغاز ’دھن تیرس‘ سے ہوتا ہے، اس دن لوگ سونا چاندی یا کسی بھی دھات کی خریداری کو نیک شگون مانتے ہیں، اس دن لوگ کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور خریدتے ہیں۔دوسرا دن ’نرک چتور داس‘ ہوتا ہے، اس دن کی اہم رسومات میں سے ایک غسل کرنا، آرام کرنا اور سبزیوں کے تیل سے جسم کی مالش کرنا ہے۔تیسرا دن ’دیوالی‘ کا ہوتا ہے جو سب سے اہم اور مرکزی دن ہوتا ہے، 


اس دن چاند مکمل طور پر غروب ہوتا ہے اور ماحول معمول سے زیادہ تاریک ہو جاتا ہے، اسی لیے بہت سے دیے جلائے جاتے ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے۔اس روز لوگ پوجا پاٹ کرتے ہیں اور رات کو اپنے گھروں کے دروازے، کھڑکیاں کھول دیتے ہیں تاکہ ان کے گھروں اور زندگیوں میں مزید روشنی آئے، دیر رات تک آتش بازی ہوتی ہے جبکہ بعض جگہ تو صبح صادق تک آتش بازی ہوتی ہے۔چوتھا دن ’گووردھن پوجا‘ ہے، اِس دن کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں، کچھ لوگ اسے میاں بیوی کے دن کے نام سے جانتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں، جبکہ بعض لوگ چوتھے روز بارش کے دیوتا ’اِندر پر کرشن‘ کی فتح کو یاد کرتے ہیں اور اس کا جشن مناتے ہیں۔


  اس تہوار پردولت و خوش حالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے، پٹاخے داغے جاتے ہیں،  بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ دوست احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔ دیوالی ہندوؤں کا اہم تہوار ہی نہیں بلکہ اہم رسم یا رواج بھی ہے ۔ بھارت کے کئی علاقوں میں،  یہ تہوار دھنتیرس سے شروع ہوتا ہے، نرک چتردشی دوسرے دن منائی جاتی ہے، دیوالی تیسرے دن، چوتھے دن دیوالی پاڑوا شوہر بیوی کے رشتوں کے لیے وقف ہے اور پانچواں دن بھاؤبیج بھائی بہن کے رشتوں کے لیے مخصوص ہے، اس پر یہ تہوار ختم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر دھنتیرس، دسہرا کے اٹھارہ دن بعد پڑتا ہے۔جس رات کو ہندو دیوالی مناتے ہیں، اُسی رات کو جین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں جشنِ چراغاں دیوالی مناتے ہیں،سکھ پیروکار اس تہوار کو انچواں اور آخری دن ’بھیادوج‘ کہلاتا ہے، یہ بہن بھائیوں کے رشتے کے جشن کا دن ہوتا ہے، اس موقع پر بہنیں اپنے بھائیوں اور سرپرستوں کے لیے خصوصی دعا کرتی ہیں،

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر