اس مرتبہ چودہ اگست 2024ءکے دن یوم آزادی پر یورپی یونین کی سفیر ڈاکٹر ریناکیونکا نے جنگ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ زندگی میں پہلی بار آئیں اور یہ خوشگوار سیاحتی سفر میں کبھی بھی بھلا نہیں سکوں گی۔ پچاس کلومیٹر کا پہاڑوں پر سفر چار گھنٹے دس منٹ میں طے کیا گیا۔ اگر پاکستان حکومت کروڑوں لگاکر اسے وادی کاشان ناران کے معیار کا تعمیر کرائے تو اس سے اربوں حاصل کر سکے گی ۔ سکردو (اسپیشل رپورٹ:حنیف خالد) دیوسائی نیشنل پارک قدرت کا عجوبہ‘ دنیا کی بلند ترین تازہ پانی کی جھیلیں ہیں،غیرملکی سفیروں کی 14ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی تقریب‘ قومی پرچم لہراتے رہے ، دیوسائی نیشنل پارک جو پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع ہے‘ کا شمار دنیا کے سب سے بلند سطح مرتفع (plateau) میں ہوتا ہے جس کی اوسط بلندی 4114میٹر ہے۔ 1993ء میں قائم کیا گیا یہ پارک ہمالین براؤن بیئر (بھورے ریچھوں) کی نسل کی حفاظت کیلئے خاص طور پر بنایا گیا تھا جو اس علاقے میں ایک نایاب نوع ہے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی دوسری سالانہ انٹرنیشنل سمٹ کے اختتام پر ایف پی سی سی آئی کے برسر اقتدار گروپ یو بی جی کے سیکرٹری ظفر بختاوری کا یورپی یونین سمیت پندرہ سفیروں اور انکی فیملی بچوں کو 14سے 15ہزار فٹ بلند PLATAEU پر لے جا کر سیرو تفریح ظہرانے کی دعوت دینا اور دریائے سندھ کا منبع دکھانا انکے لئے تاحیات تجربہ رہے گا۔
غیرملکی سفیروں نے چودہ ہزار فٹ بلند ترین مقام پر جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کی ۔دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلومیٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گذرتے۔ یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے پانچ دریا عطا کئے ہیں اور ان میں دریائے سندھ دنیا کا بائیسواں طویل دریا سمجھا جاتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کوانتالیس قدرتی اور آٹھ غیر قدرتی جھیلیں عطا کی ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان کو دیا ہے۔ دنیا کے بائیس ممالک پہاڑوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کے حصے میں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی (کے ٹو) کے ساتھ ساتھ دنیا کے دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین عظیم پہاڑی سلسلے بھی آئے ہیں۔ یورپی ممالک صحرائوں سے محروم ہیں جبکہ پاکستان کو دنیا کا بیسیواں بڑا صحرا ملا ہے۔پاکستان عالمی سطح پر سونے کے ذخائر کے حوالے سے پانچواں بڑا ملک ہے اور ہماری ان کانوں میں سینکڑوں ارب ڈالروں کا سونا موجود ہے۔ ہمارے پاس کوئلے کے پا نچویں بڑے اور تانبے کے ساتویں بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اللہ پاک نے پاکستان کو دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کانیں عطا کی ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہے، پانچ دریا ہیں جو کم کم ملکوں کو نصیب ہوئے ہیں -پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس قدر زرخیر مٹی دی ہے کہ سونا اگلتی اور دھرتی پر چلنے والوں کی خوراک کا نہایت آسانی سے بوجھ اٹھا سکتی ہے۔
کرہ ٔاَرض پر پھیلے ہوئے دو سو انچاس ممالک میں سے پاکستان گنے کی پیداوار میں پانچواں اور چینی کی برآمد میں نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے اور چاول کی برآمد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ پیاز کی پیداوار کے حساب سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے اور چنے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آم کی پیداوار کے لئے پاکستان عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے،دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دیتی ہے
۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔ رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دینی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہ مضمون میں نے روزنامہ جنگ سے لیا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں