اس مرگ ناگہاں کے کھیل میں حصّہ لینے والے نوجوان کاش جان سکیں کہ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ والدین و خاندان کے لیے کتنی جاں کنی کا باعث ہوتا ہے،اس کھیل میں نوجوان موٹر سائیکل کو تیز چلانے کے دوران اچانک اگلا پہیہ ہوا میں اٹھا دیتے ہیں اور سارا وزن پچھلے پہیے پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح موٹر سائیکل ایک پہیہ پر چلتی ہے ۔ ایک طرف دیکھنے والے کے یہ منظر بڑا ہی سنسنی خیز اور تھرل سے بھر پور محسوس ہوتا ہے تو دوسری طرف موٹر سائیکل چلانے والے کو ایک فاتحا نہ جذبہ سے ہمکنار کرتا ہےاور اسے پھر بار بار اس موت و زندگی کا کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ون ویلرز کو اس کا انجام معلوم نہیں کہ کھیل ہی کھیل میں کس' کس کا 'کیا کیا نقصان ہوسکتا ہے۔پاکستان میں ون ویلنگ کا شوق پورے پاکستان میں لاتعداد نوجوانوں کی جانیں لے چکا ہے لیکن اس خونی شوق پر حکومت نے کوئ پابندی نہیں لگائ ہے سوائے پکڑ دھکڑ کر کے جرمانے وصول کر کے بائیک رائیڈرز کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میں خود اس بات کی گواہ ہوں کہ ایک نوجوان رات کے آٹھ بجے کےوقت اپنے گھر پر سکون سے بیٹھا تھا کہ ایک دوست نے آ کر اسے بلایا نوجوان چلا گیا اور زرا سی دیر میں اطّلاع آئ کہ موٹر سائکل گڑھے میں گر جانے کے سبب نوجوان جان بحق ہو گیا ہے نیو ائرکا ہلّا گُّلا ہو یا عید کا موقع ہو کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکلیں دندناتی دیکھی جا سکتی ہیں-اور اسی اگست کے مہینے کی چھبّیس دو ہزار بائیس کی شام جب ایک نوجوان اپنے باپ کی قبر پرفاتحہ پڑھ کر نارمل اسپیڈ پراپنے گھر واپس جا رہا تھا سامنے سے آنے والے دو بائیک رائیڈرز جن میں ایک بائیک پر لیٹ کر انتہائ تیز اسپیڈ میں آ کر اس نے نارمل جاتے ہو ئےنوجوان کو ہٹ کیا اور اس کے اگلے لمحہ دوسرا بائیک رائیڈر جس نے اپنا ایک وہیل اوپر اٹھایا ہوا اس کا اٹھا ہوا وہیل پوری قوّت سے آ کر نوجوان کے سینے سے ٹکرا یا اورنوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور پسماندگان میں جوان بیوہ اور دو بر س کا معصوم بچّہ پیچھے چھوڑگیا
ون ویلنگ کا شوق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہمارے محترم صحافی جناب منصور مہدی اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے کا شوق معاشرے میں کتنی تیزی سے نوجوانوں میں پھیل رہا ہے اس کا مجھے اندازہ اس وقت ہوا جب میں ون ویلنگ کے حوالے سے سٹوری کے لیے معلومات لینے ایس ایس پی آفس گیا۔ جہاں سے اگرچہ مجھے پورے شہر کے مکمل اعداد و شمار تو نہ مل سکے کہ ماہانہ یا سالانہ اوسط ً کتنے نوجوان اس کھیل کی بھینٹ چڑھ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں(پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے اعداد وشمار ہم اکٹھے نہیں کرتے تاہم اگر کبھی اوپر سے کوئی حکم آئے تو فوری طور پر شہر کے تھانوں سے فون پر معلومات لے لی جاتی ہیں) مگردفتر مذکور سے کچھ ایسی معلومات ملی کہ جس سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کھیل نہ صرف نوجوان بلکہ چھوٹی عمر کے لڑکوں کہ جنہیں بچے ہی کہا جا سکتا ہے میں کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ون ویلنگ کرنے والوں میں کئی طرح کے لڑکے شامل ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لڑکے ہوتے ہیں کہ جو صرف اور صرف ون ویلنگ کرتے ہیں اور ان کا کسی جرم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ دوسری قسم میں ون ویلنگ کرنے والے نوجوان نہ صرف ہلڑ بازی کرتے ہیں بلکہ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر شور کرتے ہیں اورفیملیز کو تنگ کرتے ہیں۔ تیسرے ان میں جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور ون ویلنگ کی آڑ میں رات کو سڑکوں پر پھرتے رہتے ہیں اور جب موقع ملتا ہے تو شہریوں کو لوٹ بھی لیتے ہیں۔آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ اب لاہور میں لڑکے ہی نہیں لڑکیا ں بھی ون ویلنگ کرتی ہیں۔ون ویلنگ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں ایک ہی لڑکا موٹر سائیکل چلاتا ہے اور ون ویلنگ کرتا ہے جبکہ دوسری میں ایک موٹر سائیکل پر دو لڑکے ہوتے ہیں جن میں سے ایک موٹر سائیکل کے بیلنس کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ دوسرا اسے چلاتے ہوئے مختلف نوعیت کے کرتب دکھاتا ہے۔ شہر میں اب تک دو ایسے جوڑے دیکھنے میں آئے ہیں کہ جو ون ویلنگ کرتے ہیں۔ان میں ایک جوڑا تو ممی ڈیڈی گروپ سے تعلق رکھتا ہیں ، دونوں نے جین کی پینٹس اور ٹی شرٹس پہنی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے جوڑے میں لڑکی برقعہ میں ملبوس ہوتی ہے تا ہم چہرے پر نقاب ہوتی ہے۔
اس بارے میں معاشرے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ لڑکپن اور جوانی کی عمر کا تقاضا ہے کہ اس عمر میں نوجوان کوئی اچھوتا یا نیا کام کرنے کی کوشش کر کے دنیا اپنی جانب متوجّہ کریں ون ویلنگ محض ایڈونچر ہے اور کچھ نہیں۔ جیسے پچھلی جنریشن کے افراد اپنے بچپن میں غلیل سے شکار کرتے، پتنگیں اُڑاتے تھے، درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتے تھے تو ان کا یہ ایڈونچر ہی تھا۔ اب ہم کمپیوٹر ایج سے گزر رہے ہیں چنانچہ نوجوان تھرلنگ کا شوق ون ویلنگ کے ذریعے پورا کر رہے ہیں تو حکومت کو چاہے کہ وہ نوجوانوں میں کھیلوں کی صحت مند سرگرمیوں کے فروغ پالیسی بنائے۔
دورِ جدید کے کھیلوں اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کا کام ہے۔ ان کھیلوں کے فروغ کے لانفراسٹرکچر موجود ہے، ادارے قائم ہیں لیکن افسران اور عملہ تنخواہیں لے رہا ہے مگر منصوبہ بندی سرپرستی اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا اور مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے اور نوجوانوں تک اس کا ابلاغ نہیں۔ اسلام آباد میں اتنا بڑا جدید سپورٹس کمپلیکس ہے۔ اس میں کھیلوں کے لئے سہولتیں موجود ہیں۔ سپورٹس کمپلیکس میں دو سوئمنگ پولز ہیں جن کی ماہانہ فیس ہزاروں میں ہے جس سے صرف معاشرے کی ایلیٹ کلاس ہی فیضیاب ہو سکتی ہے