ہفتہ، 21 جنوری، 2023

ہجرت کی شب مسہری

حضرت علی علیہ السلام کی عمر مبارک اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو قربانی کے لیے پیش کرنا فدویت وجاں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ حضرت نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو تبلیغ اسلام اور الہی پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے سے روکنے کے لیے جب قریش کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو انہوں نے رسول خدا کو ان کے بستر پر ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا اور قتل کی سازش اس طرح سے تیار کی کہ قتل کا ناپاک ارادہ رکھنے والے قریش کے تمام قبائل میں سے ایک ایک فرد لیا جائے اور وہ تمام افراد مل کر رسول خداحضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر حملہ کر کے انہیں قتل کردیں اس طرح سے رسول خدا کے قتل میں تمام قبائل شامل ہوجائیں گے اور رسول خدا حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا قبیلہ یعنی بنی ہاشم تمام قبائل سے اس قتل کا بدلہ نہیں لے پائے گا اور نہ ہی اس کے پاس تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔

 جبرائیل کا رسول خدا کو قریش کی سازش سے آگاہ کرنا: اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے رسول خدا(ص) کو قریش کی سازش سے آگاہ کیا اور انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :" وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔" (سورہ انفال آیت 30) ترجمہ :کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر ) خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ رسول خدا کا حضرت علی کو اپنے بستر پر سلانا: جب رسول خدا حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوا کہ قریش کے قبائل قتل کی سازش پر معاہدہ کر چکے ہیں تو اس وقت رسول خداحضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اپنے سب سے زیادہ قابل اعتماد، سب سے قریبی، راہ خدا میں سب سے زیادہ امتحانوں سے گزرنے والے اور خدا کی اطاعت پر فورا سر تسلیم خم کرنے والے نوجوان علی بن ابی طالب(علیہ السّلام) کو بلاکر فرمایا: يا علي،

 إنّ الروح هبط عليّ بهذه الآية آنفا، يخبرني أنّ قريشا اجتمعوا على المكر بي وقتلي، وأنّه أوحى إليّ ربّي عزّ وجل أن أهجر دار قومي، وأن أنطلق إلى غار ثور تحت ليلتي، وأنّه أمرني أن آمرك بالمبيت على مضجعي، ليُخفى بمبيتك عليه أثري، فما أنت قائل وصانع)؟ فقال علي: (أو تَسلمَنَّ بمبيتي هناك يا نبي الله)؟ قال: (نعم)، فتبسم علي ضاحكاً، وأهوى إلى الأرض ساجداً، شكراً بما أنبأه رسول الله من سلامته ...) (الأمالي الصدوق : ص 465) اے علی ابھی جبرائیل میرے پاس یہ آیت لے کر آئے ہیں، وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ، اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ قریش نے میرے ساتھ دغہ بازی اور میرے قتل کا فیصلہ کیا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے مسکن کو چھوڑ دوں اور آج ہی رات غار ثور میں چلا جاؤں اور اسی طرح خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے بستر پر رات کو سونےکے لئے کہوں تا کہ تمہارے اس بستر پر سونے سے میں پوشیدہ رہوں ،اب تم بتاؤ کہ تمہارا اس بارے میں کیا ارادہ ہے ؟ تو حضرت علی (علیہ السّلام ) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کے بستر پر میرے سونے سے آپ کی جان محفوظ ہوجائے گی تو رسول خدانے فرمایا: ہاں اس طرح سے میری جان بچ جائے گی ۔

 جب مولاعلی نے رسول خداکی یہ بات سنی تو مسکرائے اور اس خوشی میں کہ رسول خدا  کی جان بچ جائے گی شکر کے طور پر زمین پہ سجدہ ریز ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علی(ع) کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ." ( سورہ بقرہ آیت 207 ) ترجمہ: اور لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں بہت مہربان ہے۔اورپھر حضرت محمد حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ مدینہ کا جانب عازم سفر ہوئے

چنانچہ اس رات مولائے کائنات حضرت رسول خدا کی چادر اوڑھ کر
 ٹھنڈی میٹھی نیند سو گئے اور کفّار مکّہ کا محاصرہ رات بھر جاری رہا -صبح سویرے جب کفّار گھر کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت علی علیہ السّلام کو بستر رسول پر دیکھا اور پھر پوچھا محمد کہاں ہیں مولا علی نے جواب دیا کیا تم ان کو میرے سپرد کر کے گئے تھے اس جواب پر وہ بوکھل گئے اور مولا علی نے ان سے کہا میں مدینے جا رہا ہو ں اب جس کو شوق ہو کہ اس کی بوٹیا ں کتّے بلّی کھائیں وہ ضرور میرے پیچھے آ جائے کفّار مولا علی کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھے اس لئے اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے ،

بلبل صحرا ریشماں اور منقبت علی مولا (ع)

cript async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506" crossorigin="anonymous">







  
 فوک موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے یہاں سے شہرت حاصل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہمارے فوک سنگرز میں طفیل نیازی ،عالم لوہار، شوکت علی، عاشق جٹ، منصور ملنگی اور دیگر بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے فوک میوزک میں نام پیدا کیا۔
 ایسا ہی ایک خوبصورت نام گلو کارہ ریشماں کا بھی ہے۔ ریشماں جنہیں بلبل صحرا کا اعزاز ملا۔ ا ن کی دلنواز گائیکی نے پاک و ہند کی دھرتی پر طویل عرصہ اپنی صحرائ گائیکی کے رنگ بکھیرے وہ جب کسی مقام پر گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ سننے والے ریشماں کی صحرائی آواز میں کھو جاتے۔ ان کی آواز ہجر کا ایسا استعارہ ہے جس میں ڈار سے بچھڑنے والی ہرنی اور کونج کی درد بھری پکار کو بخوبی محسوس کیاجا سکتا ہے۔
مئی 1947ء کو راجھستان کے شہر بیکا نیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی بچی کے والدین انتہائی غربت کے عالم میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان آ گئے اور یہاں نگری نگر ی گا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے۔ ریشماں بچپن سے اپنی آواز گڑوی کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ گڑوی کی آواز کی لے ملاتے ہوئے مدھر سُروں میں کھو جاتی تھی۔ اس کی آواز میں صحرائی اور دیہی ماحول کی عکاسی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارتی ۔ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین سے عقیدت اس کی آواز اور خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔ 
بیکا نیر کے ایک بنجارہ خاندان میں انتہائ پسماندہ خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والی میں آنکھ کھولنے والی ریشماں کو معلوم نہیں تھا کہ ایک روز ہاتھ میں پکڑی ہوئ گڑوی کے ساتھ وہ کس طرح اوج ثرّیا پر جا پہنچیں گی
-ہوا یوں کہ ریشماں کے بھائ کی شادی میں یکے بعد دیگرے رکاوٹوں کا سامنا تھا ایک اچھّی بہن ہونے کے ناطے ریشماں نے منّت مانی کہ اس کے بھائ کی اچھّی سی شادی ہوجائے تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر مولا علی کی منقبت گائے گی-دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی بھائ کی شادی ہوگئ تب ریشماں نے پنجاب سے سندھ کا سفر منّت بڑھانے کے لئے کیا اورمزار مبا رک پہنچ کر بے منقبت گائ۔منقبت کی گائیکی میں نا جانے کیا ا ثر تھا مجمع بھی بے خودی کے عالم خاموش ہو کر محو سماعت ہو گیا ۔اس روز شائد آسمان پر پروردگار عالم نے 
 ر یشماں کی منقبت کو اس کا صلہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔چنانچہ اسی دن اس دور کے نامور ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی  بھی درگاہ پر آئے ہوئے تھے انہوں نے  ریشماں کو 
گاتے ہوئے سنا 
  اور منقبت کے ختم پر وہ ریشماں کے پاس آئے اور اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم جب کبھی کراچی آئو تو میرے پاس چلی آنا۔ چنانچہ ریشماں کا خاندان جب شہر آیا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئے ۔گیٹ پر جب ریشماں نے گیلانی صاحب کا کارڈ دکھایا تو اسے فوری طور پر خاندان سمیت اندر بلا لیا گیا۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ صحرائوں کی خاک چھاننے والی ایک سادہ سی غریب لڑکی کو جب ریڈیو کے اسٹوڈیو میں لایا گیا اور اسے کہا گیا کہ بس تم گانا شروع کرو۔ اِدھر اُدھر مت دیکھنا۔ بس پھر میں گاتی چلی گئی۔
سلیم گیلانی نے اسے صوفیانہ کلام ریکارڈ کرانے کے حوالے سے جب کچھ کہا تو بقول ریشماں مجھے ان کی بات سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔ بہر حال وہ مائیک کے سامنے گاتی چلی گئی۔ ریشماں نے اپنے ریڈیو آڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اس کی گائی دھمال کیا نشر ہوئی کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ صحرا کی یہ بلبل اپنی پہلی ہی دھمال سے ہٹ ہو گئی۔ ایک اخبار نے سرورق پر جب ریشماں کا ٹائٹل چھاپا تو بقول ریشماں میں اپنی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر یہ خوف بھی ہوا کہ کہیں میری بنجارہ فیملی میری تصویر دیکھ کر مجھے مار ہی نہ دے۔ اس دور میں ہمارے خاندان میں تصویر بنوانا اور پھر اس کا چھپنا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ریشماں نے سٹال سے سارے میگزین خرید کر چھپا دیے۔
سٹال والے نے ریشماں کو پہچان لیا ۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ بی بی تمہاری تصویر پورے ملک نے دیکھ لی ہے۔ اب میگزین چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ریشماں میگرین چادر میں چھپا کر گھر لے گئی اور اکیلے میں گھنٹوں بیٹھی اپنی تصویر دیکھتی رہی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی اس لئے وہ صرف تصویریں دیکھتی رہی ۔پھر بعد میں اس نے ایک پڑھے لکھے شخص سے جب اپنا انٹرویو سنا تو وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے بارے میں اتنی تعریفیں اور باتیں لکھ دی گئی ہیں۔
ریشماں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات بیان کرتے چلیں کہ انہیں تمام عمر اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بہت غم رہا۔ ریشماں نے خود اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پوری دنیا میں گائیکی کے حوالے سے بہت مشہور ہوئیں تو امریکہ کے صدر جانسن نے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ پھر جب وہ امریکی ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز سے باہر آئیں تو امریکی صدر نے ہاؤآر یو۔پہلا جملہ یہ کہا کہ تو مجھے سمجھ نہ آیا اور میں بہت ہی شرمندہ ہوئی کہ اتنے بڑے ملک کے صدر کی عزت افزائی پر میں جواب میں ایک جملہ ادا نہ کر سکی۔ بہرحال میرے ہمراہ ایک ترجمان نے بتایا کہ صدر امریکہ آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ ریشماں کا کہنا تھا اس واقعہ کے بعد میں نے پاکستان واپس آتے ہی اپنے بڑے بیٹے سانول کو فوری طور پر سکول میں داخل کرا دیا اور سوچا کہ میں اسے اتنا تعلیم یافتہ ضرور بنائوں گی کہ اسے کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی طبیعت میں رکھ رکھائو اوربولنے کے آداب بھی آ گئے مگر اس کی طبیعت کی روایتی سادگی ہمیشہ قائم رہی۔ وہ کسی تصنع کے بغیر گفتگو کرتی اور ہر ایک پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولتی۔ گزرتے وقت کیساتھ ریڈیو سے گائے ہوئے اس کے نغمات جب سرحد پار فضائوں میں گونجے تو اسے وہاں بھی سرکاری سطح پر جانے کا موقع ملا۔ ریشماں کو دورہ ہندوستان کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی قیمتی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے اسے بھارت میں رہنے اور تمام تر آسائشیں دینے کا وعدہ کیامگر ریشماں نے شکریے کے ساتھ ان کی آفرکو مسترد کر دیا البتہ جہاں وہ پیدا ہوئی اور پلی تھی اس نے اپنے گاؤںط کیلئے سڑکیں بنوانے اور صحت کے حوالے سے ضروری آسائشیں مہیا کرنے کا وعدہ اندرا گاندھی سے لیا جو فوری مان لیا گیا۔اور پھر حسب معمول قدرت خدا کےچھیاسٹھ برس کی عمر میں خدائے واحد کی  بارگاہ میں چلی گئ۔

منگل، 17 جنوری، 2023

احمد فراز شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ

 



مکمل نام: سید احمد شاہ علی

تخلص: مقبول، احمد فراز

تاریخِ پیدائش: 12 جنوری 1931

مقامِ پیدائش: کوہاٹ، برٹش انڈیا، موجودہ پاکستان

تاریخِ وفات: 22 اگست 2008

مقامِ وفات: اسلام آباد، پاکستان

آخری آرامگاہ: ایچ-ایٹ قبرستان، اسلام آباد، پاکستان

والد کا نام: آغا سید محمد شاہ

تعلیمی سفر: ایم اے اردو اور فارسی، پشاور یونیورسٹی، پشاور، پاکستان

شعری وابستگی: 1950 سے 2008

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ بھی شاعر تھے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں طالب علمی کے دور میں ہی احمد فراز شعر و ادب  کی دنیا سے مانوس ہو چکے تھے-۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور وہیں ان دونوں زبانوں کو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تاہم انھوں نے سکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان میں بعد ازاں ملازمت اختیار کر لی۔

ازاں بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد  وہ اردو شاعری کی تاریخ کے بڑے شعراء میں شامل تھے - عوام اور خواص دونوں میں مقبول، وہ برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کی شاعری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی گیا۔  احمد فراز نے اردو شاعری اور ادب میں تقریباً ایک الگ سوچ اور فرقے کی سی حیثیت اختیار کی۔ انھیں کثرت سے عالمی مشاعروں میں دوسرے ممالک میں بلایا جاتا تھا۔ پہلے انہوں نے عشق مجاز کی دنیا میں قدم رکھّااور محبت، عشق، ہجر و وصال کی شاعری کہی لیکن رفتہ رفتہ ان کی شاعری میں ملکی حالات کی نسبت سے بغاوت اور انقلاب کی جھلک دکھائ دینے لگی اس طرح وہ انقلاب اور بغاوت کے شاعر بھی بن گئے -۔

 ان کا خود کہنا تھا ہے کہ اردو زبان میں شاعری سے پہلے انہوں نے کچھ اورزبانواں میں شاعری کی لیکن اس شاعری وہ مانوس نہیں ہو سکے اور بالآخر جب اردو زبان کی شاعری شروع کی تب ان کے دل سے آواز یہی وہ میدان جہاں ان کو شاعر کرنی ہے اور پھر زمانے نے دیکھا کہ احمد فراز نے زردو شاعری کے میدان میں  شہرت کی بلندی کے سنگھاسن پر بٹھا  دیا جس پر وہ تا دم وفات بیٹھے ہوئے تھے- ان کی شاعری کی اس جہت نے ان کو کچھ لوگوں کی نظروں معتوب کیا لیکن مگر آخر کار ان کی شہرت اور مقبولیت غالب رہی۔ ان کو پاکستان اور بیرونِ ممالک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 2004 میں ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ہلالِ امتیاز دیا گیا جو انھوں نے 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے واپس کر دیا

احمد فراز ماضی کے ایک پورے عہد میں نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے۔ ان کے نظریات کی بناء پر انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکراؤ کا سامنا رہا اور وہ جلا وطن بھی رہے۔ 1980 میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دورِ جلا وطنی میں لکھی گئی ان کی نظمیں “دیکھتے ہیں” اور “محاصرہ” کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔احمد فراز نے شاعری میں 13 کتابیں اپنے ادبی ورثہ میں  چھوڑیں ہیں جو سب کی سب اردو دنیا میں مقبول عام  ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی اور فراز کو شہرت ملنے لگی۔ ان کی دیگر کتابوں میں جاناں جاناں، درد آشوب، خوابِ گل پریشاں ہے، نایافت، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، بودلک، غزل بہانہ کروں اور میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہیں۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے

احمد فراز مختلف حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ 1976 میں قائم ہونے والے ادارہ اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بعد ازاں اس کے چیئرمین بھی رہے۔ آخری زمانے میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہے۔ ان کے کلام کو بے شمار چھوٹے بڑے گلوکاروں نے گایا جن میں نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، رونا لیلیٰ اور جگجیت سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ احمد فراز کے گیت اور غزلیں فلموں کی زینت بھی بنے۔احمد فراز کا انتقال 22 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ہوا۔ اور اسلام آباد کی زمین میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے

 

اتوار، 15 جنوری، 2023

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم

<\head>pbr />

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم 

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''۔

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔لکھنو کے مشہور عزاخانے-

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی ۔محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے:

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن زات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے خود اٹھاتے  


عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[2]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔

"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[3]۔

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔

"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر