جبرائیل کا رسول خدا کو قریش کی سازش سے آگاہ کرنا:
اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے رسول خدا(ص) کو قریش کی سازش سے آگاہ کیا اور انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :" وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔"
(سورہ انفال آیت 30)
ترجمہ :کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر ) خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
رسول خدا کا حضرت علی کو اپنے بستر پر سلانا:
جب رسول خدا حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوا کہ قریش کے قبائل قتل کی سازش پر معاہدہ کر چکے ہیں تو اس وقت رسول خداحضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اپنے سب سے زیادہ قابل اعتماد، سب سے قریبی، راہ خدا میں سب سے زیادہ امتحانوں سے گزرنے والے اور خدا کی اطاعت پر فورا سر تسلیم خم کرنے والے نوجوان علی بن ابی طالب(علیہ السّلام) کو بلاکر فرمایا: يا علي،
إنّ الروح هبط عليّ بهذه الآية آنفا، يخبرني أنّ قريشا اجتمعوا على المكر بي وقتلي، وأنّه أوحى إليّ ربّي عزّ وجل أن أهجر دار قومي، وأن أنطلق إلى غار ثور تحت ليلتي، وأنّه أمرني أن آمرك بالمبيت على مضجعي، ليُخفى بمبيتك عليه أثري، فما أنت قائل وصانع)؟ فقال علي: (أو تَسلمَنَّ بمبيتي هناك يا نبي الله)؟ قال: (نعم)، فتبسم علي ضاحكاً، وأهوى إلى الأرض ساجداً، شكراً بما أنبأه رسول الله من سلامته ...)
(الأمالي الصدوق : ص 465)
اے علی ابھی جبرائیل میرے پاس یہ آیت لے کر آئے ہیں، وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ، اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ قریش نے میرے ساتھ دغہ بازی اور میرے قتل کا فیصلہ کیا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے مسکن کو چھوڑ دوں اور آج ہی رات غار ثور میں چلا جاؤں اور اسی طرح خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے بستر پر رات کو سونےکے لئے کہوں تا کہ تمہارے اس بستر پر سونے سے میں پوشیدہ رہوں ،اب تم بتاؤ کہ تمہارا اس بارے میں کیا ارادہ ہے ؟
تو حضرت علی (علیہ السّلام ) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کے بستر پر میرے سونے سے آپ کی جان محفوظ ہوجائے گی تو رسول خدانے فرمایا: ہاں اس طرح سے میری جان بچ جائے گی ۔
جب مولاعلی نے رسول خداکی یہ بات سنی تو مسکرائے اور اس خوشی میں کہ رسول خدا کی جان بچ جائے گی شکر کے طور پر زمین پہ سجدہ ریز ہو گئے۔
اس کے بعد حضرت علی(ع) کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ."
( سورہ بقرہ آیت 207 )
ترجمہ: اور لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں بہت مہربان ہے۔اورپھر حضرت محمد حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ مدینہ کا جانب عازم سفر ہوئے
چنانچہ اس رات مولائے کائنات حضرت رسول خدا کی چادر اوڑھ کر
ٹھنڈی میٹھی نیند سو گئے اور کفّار مکّہ کا محاصرہ رات بھر جاری رہا -صبح سویرے جب کفّار گھر کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت علی علیہ السّلام کو بستر رسول پر دیکھا اور پھر پوچھا محمد کہاں ہیں مولا علی نے جواب دیا کیا تم ان کو میرے سپرد کر کے گئے تھے اس جواب پر وہ بوکھل گئے اور مولا علی نے ان سے کہا میں مدینے جا رہا ہو ں اب جس کو شوق ہو کہ اس کی بوٹیا ں کتّے بلّی کھائیں وہ ضرور میرے پیچھے آ جائے کفّار مولا علی کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھے اس لئے اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں