کراچی کی تاریخی عمارتیں
بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔وزیر مینش
بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، عظیم رہنما کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر مینشن کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے۔ پیلے پتھروں اور لال جالیوں والی سادہ، پر وقار وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔
تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی تاریخ کی حامل اس عمارت کو مزید دلکش اس میں رکھی بابائے قوم کی استعمال شدہ اشیاء بنا دیتی ہیں۔ پورے پاکستان میں قائد کے زیر مطالعہ رہنے والی قانون کی کتابیں صرف وزیر مینشن میں ہی موجود ہیں۔ بابائے قوم کا بستر، کچھوے کی ہڈی سے بنا چشمہ، قیمتی کپڑے، جوتے، قلم اور دیگر اشیاء کے ساتھ قائد اعظم کی زوجہ رتی جناح کا فرنیچر بھی یہاں نفاست اور احتیاط سے رکھا گیا ہے۔
یم اے جناح روڈ پر واقع ڈینسو ہال انگریز حکومت کی لائبریری تھی، جسے 1886ء میں تعمیر کیا گیا۔یہ لائبریری کراچی بندرگاہ میں تعینات افسران کے لیے بنائی گئی تھی۔میری ویدر ٹاو
قیام پاکستان کی ابتداء میں کیماڑی کے پرانے پُل سے واپسی کے سفر میں جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے ۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود
قیام پاکستان کی ابتداء میں سمندری سفر سے واپسی پر جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے۔ اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےکراچی میں ٹاور سے مراد کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم میری ویدر ٹاور قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹاور کے علاقے کو تجارتی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میںدفاتر اور بینک شامل ہیں۔ ٹاور کے قریب شہر کے مشہور کاروباری مراکز کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت بھی قائم ہے ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کر رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح ”میری اور ویدر“ کہیں غائب ہے عوام کے ذہنوں میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام یعنی ٹاور۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود یہ عمارت دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستگی کا شکار ہو رہی ہے
موہٹا پیلس" ایک ایسا محل ہے جو کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں واقع ہے یہ محل پاکستان کے قیام سے قبل "شیورام موہٹا" نامی ایک ہندو تاجر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کی رہائش کے لیے ساحل کے قریب 1927 میں سے تعمیر کروایا تھا۔"تقسیم ہند کے بعد موہٹا پیلس پاکستان کے حصے میں آگئیں بعد ازاں شہر کی مشہور عمارت ہونے کے باعث موہٹا پیلس کی عمارت کو بانی پاکستان قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو رہائش کے لیے دیدیا گیا تھا، جسے بعد میں " قصر فاطمہ" کا نام بھی دیاگیا۔ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کے کئی سالوں بعد اس عمارت کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں