جمعہ، 21 مارچ، 2025

سرکاری اسکولوں میں گدھے اور بھینسیں رہتی ہیں


تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :عمران علی لے آئوٹ :توقیر عباس تعلیم ہماری ترجیح ہے -فلاحی اداروں کی متفقہ را ئے

شرکاء:فاروق احمد کملانی ڈائریکٹر بنو قابل الخدمت ۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان، سربراہ کوہی گوٹھ اسپتال اور چانسلر ملیر یونیورسٹی فیاض الرحمٰن ،جنرل منیجر احسان ٹرسٹ۔ احمد علی صدیقی، سابق خزانچی احسان ٹرسٹ مصدق عزیز ، سربراہ ریسورس موبلائزیشن گرین کریسنٹ ٹرسٹ ۔ معین خان ، سیکریٹری اطلاعات المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی۔نثار احمد ،ٹرسٹی عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ۔ شاہین رحمٰن ، صدر مداوا ویلفیئر سوسائٹی۔ بنو قابل الخدمت کی بڑی کاوش اور حافظ نعیم الرحمٰن کا خیال تھا:  فاروق کملانی،تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی تعلیم کسی کی ترجیح نہیں:  ڈاکٹر ٹیپو سلطان احسان ٹرسٹ 4 ہزار سے زائد بچوں کو تعلیمی قرضہ فراہم کرچکا:  فیاض الرحمٰن،دینی مدارس کے طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے قرض حسنہ دیتے ہیں:  ،گرین کریسنٹ کے تحت 30ہزار بچوں کو تعلیم دے چکے:  مصدق عزیزعالمگیر ویلفیئر اسکولوں میں کورسز اور یونیفارم فراہم کررہا ہے:  نثار احمد ،سندھ حکومت اسکولوں کی حالت بہتر کرنے میں سنجیدہ نہیں:  شاہین رحمٰن موضوع: ’’فلاحی تنظیموں کا تعلیم کے فروغ میں کردار‘‘  ملک جس تیزی سے معاشی مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی،جو کل تک لوگوں کی مدد کرتے تھے ان میں بہت سے آج خود مدد کیلئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں،ایسے میں فلاحی اداروں پر جہاں ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وہیں ان کیلئے فنڈز کے حصول کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔


دنیا فورم نے اس مرتبہ بھی اپنی روایت کے مطابق رمضان میں فلاحی اداروں کیساتھ فورم کا اہتمام کیا تاہم اس بار صرف ایک مسئلے پر بات کی اور وہ تھی تعلیم کی فراہمی۔ الخدمت ویلفیئر فائونڈیشن کے تعاون سے اس کے مرکزی دفتر میں دنیا فورم میں مختلف فلاحی اداروں نے جب یہ بتایا کہ جدید تعلیم ہی نہیں بلکہ عام تعلیم کی فراہمی میں انہیں کن مشکلات کا سامنا ہے تو سن کر دکھ ہوا۔وہ ادارے جن کی وجہ سے معاشرے میں خیر کا جذبہ قائم ہے اور کچھ امیدیں باقی رہتی ہیں وہی مشکلات سے دوچار ہیں،فلاحی اداروں کو تعلیم کے میدان میں بھی کافی مشکلات کا سامناہے جبکہ وہ غریب بچوں کو ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم کی فراہم کیلئے کوشاں ہیں،ایسے سرکاری تعلیمی ادارے جہاں گدھے اور بھینسیں بندھی ہیں اور ویران پڑے ہیں وہ فلاحی ادارے گود لے کر چلانا چاہتے ہیں تو بھی حکومت ان کیساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے جدید آئی ٹی کے مہنگے ترین کورسز مفت کرائے جانے ،ٹیکنیکل ہنر سکھانے اور پرائمری سے میٹرک تک مفت تعلیم کی فراہمی جیسے اقدامات کو حکومت کو سراہنا چاہیے۔ہم دنیا فورم کے توسط سے حکومت سے امید کرتے ہیں کہ ہمار ی رپورٹ کے بعد حکومت فلاحی اداروں کی درخواستوں پر ضرور غور کریگی اور بند اسکول اور کالجز انہیں دے کر تعلیم کے فروغ میں کم ازکم اس حد تک تو ساتھ دیگی تاکہ غریب کا بچہ محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے زیور سے محروم نہ رہ جائے ۔ شکریہ (مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹر فورم روزنامہ دنیا کراچی)

برائے رابطہ:

0092-3212699629

0092-3444473215

 امیر جماعت اسلامی کراچی نے بھارتی شہر بنگلورکی طرح کراچی کو بنیاد بناتے ہوئے کام شروع کیا۔ آئی ٹی کو بڑھائیں توبڑا ریونیو پیدا کرسکتے ہیں جس سے تعلیمی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں،ڈائریکٹر بنو قابل  سرکاری اسکول گود لینے کی کوشش کی ،کہا گیا گود لیں لیکن صرف سہولتیں فراہم کریں ،اساتذہ بھرتی کریں او ر تنخواہ دیں،پہلے سے موجود اساتذہ کو نہ چھیڑیں،چانسلر ملیر یونیورسٹی اسپتال گود لینے کیلئے ڈائریکٹرسے سب طے پاگیا، آخر میں ڈائریکٹر نے ہوٹل بلایااور کہا کہ 15لاکھ روپے نذرانہ دیناہوگا،جو لوگ فلاحی اداروں کو نہیں چھوڑتے وہ ملک کوکیا بخشیں گے،سیکرٹری اطلاعات المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی عموماً! وڈیرے اور جاگیر داربچوں کی تعلیم چاہتے ہیں، تعلیم کے فروغ کیلئے کام کرنے والی فلاحی تنظیمیں مل کر ایک پلیٹ فارم سے کام کریں تو تعلیمی مسائل حل ہوسکتے ہیں،سربراہ ریسورس موبلائزیشن گرین کریسنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں سلائی مشین اور کڑھائی کی تربیت دیتے ہیں،کورس مکمل کرنے والی خواتین کو روزگار کے حصول کیلئے مشینیں اور لیپ ٹاپ بھی دیئے جاتے  ہیں، ٹرسٹی عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹدستگیر میں 5اسکول ویران پڑے ہیں،عزیز آباد کے 8 سرکاری اسکولوں کی حالت اچھی نہیں ،ہم نے گود لیکر چلانے کی پیشکش کی لیکن اِدھر سے اُدھر درخواستیں جاتی رہیں اور کام نہیں ہوا،صدر مداواٹرسٹ  ضرورت مند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سود سے پاک قرضے دیتے ہیں تاکہ ذہین بچے محض پیسہ نہ ہونے سے اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہیں،



 ان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء بھی شامل ہیں،جنرل منیجر احسان ٹرسٹ کئی بچے 90اور80 فیصد نمبر کے باوجودمحض غربت کی وجہ سے یونیورسٹی میں داخلے کی کوشش نہیں کرتے جبکہ ہر یونیورسٹی کے پا س کچھ نہ کچھ فنڈز ہو تا ہے،لیکن معلومات نہیں ہوتیں،سابق خزانچی احسان ٹرسٹ دنیا: بنو قابل کیا ہے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں ؟ فاروق احمد کملانی: بنو قابل الخدمت ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بڑی کاوش ہے جوامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا خیال تھا۔ کراچی میں 18ملین نوجوان ہیں۔ روایتی تعلیم کے نتیجے میں بچوں کو آگے جاکر نوکریوں کے مسائل آرہے ہیں ۔شہر می بچے تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ہنرمند نہیں ہیں۔ ملازمت کیلئے کوشش کررہے ہیں قابل بھی ہیں لیکن عملی مہارت                               نہیں  دنیا: بنو قابل کیا ہے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں ؟ فاروق احمد کملانی: بنو قابل الخدمت ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بڑی کاوش ہے جوامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا خیال تھا۔کراچی میں 18ملین نوجوان ہیں۔ روایتی تعلیم کے نتیجے میں بچوں کو آگے جاکر نوکریوں کے مسائل آرہے ہیں ۔شہر می بچے تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ہنرمند نہیں ہیں۔ ملازمت کیلئے کوشش کررہے ہیں قابل بھی ہیں لیکن عملی مہارت نہیں جس کی وجہ سے اچھے مواقع نہیں مل رہے،انہی نوجوانوں کوقابل بنانے کیلئے قابل بنو منصوبہ بنایا ہے۔آئی ٹی انڈسڑی کوسامنے رکھتے ہوئے کورسز ڈیزائن کئے ہیں،جون جولائی میں رجسٹریشن کی تو اندازہ تھا 500 سے ہزار بچے آجائیں گے۔ انہیں آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ سے الحاق کرادیں گے اوربچوں کی فیسیں ادا کریں گے پہلے یہی منصوبہ تھا،لیکن جب رجسٹرشن شروع کی تو ہزار سے زائد بچے رجسٹرڈ ہوگئے ،ان میں میٹرک،انٹر او ر گریجویٹ کے طلباء شامل ہیں، 70


ہزار سے زائد افراد نے ٹیسٹ دیئے۔پہلے فیز میں 10 ہزار بچوں کو منتخب کیا، انٹرویو لیے اورکلاسوں میں منتقل کیا،کورسزمیں تعلیم کے ساتھ جدید لیب بھی ہیں جس میں ایڈوانس لیپ ٹاپ اور Sarvar Based سسٹم دیوار پر اسکرین ہے۔آئی ٹی کی بات کریں تو پڑوسی ملک بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری 2022ء کی رپورٹ کیمطابق آئی ٹی بر آمدات 227بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ تحقیق کے مطابق سعودی عرب اور ایران کی تیل کی برآمد بھی ا س سے کم ہے۔اس وقت بھارت بڑی معیشت بن رہا ہے،جبکہ پاکستان اب تک 3.5 بلین ڈالر تک پہنچا ہے۔پاکستان کی آئی ٹی وژن پالیسی 2018 ء میں2025ء تک کا ہدف بھی 20بلین ڈالر ہے۔امیر جماعت اسلامی کراچی نے شہر کی صورت حال پر پہل کرتے ہوئے فیصلہ کیاہے کہ جس طرح بھارت نے بنگلور شہر کو بنیاد بناتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر میں ترقی کی ،ہم نے بھی کراچی کو بنیاد بناتے ہوئے کام شروع کیا۔ آئی ٹی کو بڑھائیں توبڑا ریونیو پیدا کرسکتے ہیں جس سے تعلیمی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔دنیا: کورسز کے بعد ملازمت کے کیا مواقع ہوں گے؟

جاری ہے

جمعرات، 20 مارچ، 2025

بلوچستان کا فخر پاکستان بیٹا' ڈاکٹر یارجان عبدالصمد

 


 بلوچستان کا فخر پاکستان بیٹا' ڈاکٹر یارجان عبدالصمد  -    20 مارچ 1986 کو کیچ مکران (بلیدہ) میں پیدا ہو کر اپنے گھرانے کے ہمراہ کراچی کے سب سے پسماندہ علاقے لیاری میں آن بسا 'گھر والوں کے ساتھ 'ساتھ وہ خود بھی علم کا شیدا ئ تھا ۔ پرائمری تعلیم   روز ایجوکیشنل  سوسائٹی کے وائٹ روز اسکول بغدادی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اسکول کے مراحل  طے کر کے وہ کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے مشہور اسکول/کالج کی پرنسپل صاحبہ بہت ہی اسمارٹ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون  کے روبرو  پیش ہوا  اور  میٹرک کا سرٹیفکٹ اور دیگر کاغذات  دمکتے ہوئے چہرے  کے ساتھ پیش کئے تو لڑکے کے والد نے بتایا وہ اپنے اسی لڑکے کو اس اسکول میں داخل کرانے آئے ہیں۔ میڈم نے صرف ایک سوال کیا: "آپ کہاں سے آئے ہیں؟"جب میڈیم کو پتہ چلا وہ بلیدہ (بلوچستان) کے ہیں اور اب لیاری میں رہتے ہیں اور وہیں سے آئے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں: "دیکھیں! یہاں وقت ضائع نہ کریں۔ جہاں سے آپ آئے ہیں وہیں جاکر کھیتی باڑی کریں اور سکون کی زندگی گزاریں!"۔ یہ سن کر باپ بیٹا خاموشی کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ باپ نے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نے پہلے کہا ہمیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔ 


لیکن اس ہونہار طالب علم نے اور اس کے باہمت باپ نے حالات کے حوصلہ ہارنے کے بجائے نئے راستے پر چل پڑے 'یہاں تک کہ ڈی جے سائینس کالج سے پاس آوٹ کرکے وہ کےپی کے مایہء ناز درس گاہ غلام اسحٰق خان  آف انجینئیرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنولوجی تک جا پہنچے جہاں سے یار جان عبدالصمد کو  ان کے قابل اور مشفق اساتذہ   نے مزید  تراش کر ہیرہ بنا یا اور پھر ان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اسکالرشپ کے ساتھ امریکہ بھیجاگیا۔ ماسٹرز کے مراحل طے کرکے انہوں نے ٹیکنولوجی کے شعبہ میں امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایم آئی ٹی  یونیورسٹی میں انہوں نے عملی طور پر جاپان اور جرمنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف خلائی سائنس کے شعبہ میں اپنی استعداد بڑھائی بلکہ اس سرکل میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ گو کہ وہ ابھی نوجوان ہی ہیں لیکن اس عمر میں وہ کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ٹیکنولوجی  پڑھاتے ہیںاورآجکل "Space Base Project" سے منسلک ہیں۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے نکل کر "خلا" کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں سے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے۔ خاص طور پر وائٹ روز اسکول کے منتظمین۔ ٹیچرز اور اپنے دوستوں کے ایک حلقہ سے ان کا ناطہ جڑا رہا۔ دو دن پہلے روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے ڈائرکٹر انور علی بھٹی نے اپنے سابق طالبعلم یارجان بلوچ کے ساتھ ایک بہت ہی حسین شام منائی۔


 اس دلفریب تقریب میں ڈاکٹر صاحب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کیمبرج یونیورسٹی یو کے سے آن لائن رہے۔ پہلے تو بھٹی صاحب۔ میڈم نجمہ۔ سابقہ ٹیچرز سر تبسم۔ سر ماجد اور اپنے کئی کلاس فیلوز کی باتیں سنتے رہے اور پھر محبت اور اپنائیت سے اپنے اسکول کے یادگار لمحات کو خوشی سے لبریز چہرے کے ساتھ ان سب سے شئیر کیا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ کی باتیں ہم نے بھی سنیں۔ سوچ رہے تھے سائنسدان قسم کے آدمی ہیں اور اب "آسمانوں میں" رہتے ہیں اس لئے جو بات کریں گے وہ اول تو فلسفہ اور سائنسی فارمولوں پر مبنی ہوگی اور پھر انداز بھی کچھ "شاہانہ" قسم کا ہوگا لیکن یقین جانئیے اس نوجوان کو ہم نے خلا میں نہیں زمین ہی پر پایا۔ نرم لہجہ۔ سادہ الفاظ۔ انکساری کا مظاہرہ۔ یہ سب ان کے اچھے کردار کی نشانیاں تھیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی کامیابی (گرچہ وہ آخر تک انکساری سے کام لیتے رہے کہ ابھی تو ان کا علمی سفر شروع ہوا ہے) کو مسلسل جدوجہد۔ آگے بڑھنے کے عزم و ہمت اور ذہن میں منزل کے تعین سے جا ملالیا لیکن ہمارا خیال ہے ان کے چہرے پر ہروقت جو مسکراہٹ ہمیں نظر آئی یہی وہ راز ہے جو ان کی خوداعتمادی کی عکاسی کرتی ہے یہی وہ کنجی ہے جس نے ایک غریب اور پسماندہ ماحول میں پلنے والے ایک باہمت نوجوان کے لئے علم و آگہی کے تمام دروازے کھول دئے۔ ہمارے سب نوجوانوں کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور آگے بڑھنے کے لئے اسی کنجی کی کھوج لگانی ہوگی۔۔ آج وہی لڑکا انگلستان کے کیمبرج یونیورسٹی میں نہ صرف ایک استاد ہے بہ خلائی سائنس سے وابستہ پہلا پاکستانی نوعمر سینئر ریسرچ سائنٹسٹ ہے 

 اس خوبصور ت سچی کہانی کے پس پردہ دیکھئے کہ ہمارا سماج  یارجان عبدالصمد جیسے ہونہاروں سے بھرا پڑا ہے جنکے لئے جان عبد الصمد جیسے والد چاہئے جو ان کو حالات کی بھٹی میں جلنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو باور کروائیں کہ ہم تمھارے ساتھ کھڑے ہیں 'میرا سلام ہو جان عبد الصمد کے والد گرامی پر -یہ تحریر میں نے انٹر نیٹ سے لے کر خود تلخیص کی ہے -تحریر کے خالق رمضان بلوچ ہیں 

بدھ، 19 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیور سٹی-part-2

  جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے معاملات تو میری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔یہاں کوئی سسٹم آپریشنل نہیں تھا، تمام سسٹمزٕ کمپرومائز ہوچکے تھے، فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبُرد ہورہی تھی، شعبہ ہیومن ریسورس کا کچھ پتا نہیں تھا، غیرقانونی ترقیاں اور بھرتیاں ہورہی تھیں۔ ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی سب سے بڑی پوسٹ گریڈ اٹھارہ کی تھی جواب گریڈ بیس ہوگئی ہے ۔ اس طرح کے بے تحاشا معاملات ایسے تھے جو خلاف ضابطہ چل رہے تھے۔ کوئی بھی اشتہار تین ماہ کے لیے موثر ہوتا ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں چھے ماہ تک کی توسیع کردیں، لیکن ہمارے ہاں اشتہار دس، دس سال چلتے تھے۔ ہماری ساری بھرتیاں پرانی تاریخ میں ہوتی ہیں، نہ صرف بھرتیاں بلکہ انہیں تنخواہوں کی ادائیگی پرانی تاریخوں سے ہوتی ہے۔ یعنی کہ جامعہ کراچی لاکھوں روپے کی ادائیگی غیرقانونی کرتی ہے۔اس بابت ہمیں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی کہہ چکا ہے کہ ادائیگیوں کا یہ نظام درست نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی نیب نے ہمیں ایسے 49 پوائنٹس کی نشان دہی کی ہے جہاں چیزیں غلط ہورہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی بے تحاشا باتیں ہیں۔

 

یہاں اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن گیا تھا، ہر آدمی صبح وقت پر آتا نہیں تھا لیکن شام میں دیر تک دفتر میں بیٹھا رہتا تھا، کیوں کہ اوورٹائم لگ رہا تھا۔ اگر سچ کہا جائے تو حالات ابھی بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں، مگر ہم نے بے تحاشا تبدیلیاں کی ہیں، یہاں معاملہ اتنا خراب تھا کہ آپ کتنی بھی تبدیلیاں کرلیں وہ کم ہی لگتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے دروازے بند کرنا شروع کیے۔ پہلے ایک بینک ڈرافٹ پر پچاس، ساٹھ داخلے ہوجاتے تھے اور بعد میں وہ ڈرافٹ بھی واپس ہوجاتا تھا، ہم نے اس خردبرد کو روکنے کے لیے رقم کی وصولی اور ادائیگی کو بینک ویری فیکیشن سے مشروط کردیا کہ جب تک بینک تصدیق نہیں کرے گا۔اس وقت تک وہ ادائیگی، ادائیگی نہیں سمجھی جائے گی۔ صرف کلیکشن کو بینک کے ساتھ مربوط کرنے سے ہماری لکویڈیٹی بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ تو کرپشن کے چھوٹے چھوٹے معاملات تھے،اب ہم جامعہ کراچی میں مکمل طور پر ای آر پی (انٹر پرائیز ریسورس پلاننگ) سسٹم کے نفاذ ک عمل نہ ہوسکا -


 سسٹم کے نفاذ کی طرف جا رہے ہیں، اگر ہم اسے مکمل طور پر نافذ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا تھا یہ پورے شہر کو پتا ہے۔ ہم نے داخلے کے نظام کو آن لائن کردیا، اب کوئی آدمی چاہے وہ گلگت میں ہو یا مٹھی میں، وہ وہاں بیٹھ کر داخلے کے تمام مراحل مکمل کرسکتا ہے، اب اسے کراچی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ دو سال میں ہونے والے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ہمیں اس ضمن میں بے ضابطگیوں کا پتا چلا تھا تو ہم نے فوراً ایسے داخلے منسوخ کردیے۔ ہمارا داخلے کا نظام ننانوے اعشاریہ نو فی صد میرٹ پر آگیا ہے۔یہی طریقۂ کار ہم ایگزامیشن پر بھی لاگو کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس پر میں اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا کیوں کہ ایگزامینیشن کا نظام بہت بڑا ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں اور بے تحاشا کرپشن ہے، لیکن ہم نے اس میں ہونے والی کرپشن اور نقل کے رجحانات کو بتدریج کم کیا ہے، لیکن اس شعبے کو مکمل طور پر کرپشن سے پاک کرنے میں وقت لگے گا 


۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جامعہ کراچی کے ننانوے فی صد استاد بہت محنت کرتے ہیں، ایمان دار ہیں،  لیکن ماضی میں کچھ لوگ بشمول پروفیسر یہاں سرگرم تھے ، رجسٹرار آفس ان کے کنٹرول میں تھا ۔ وہ یہاں بیٹھ کر مافیا کی طرز پر معاملات چلاتے تھے وہ یہاں عملی طور پر وائس چانسلر بنے بیٹھے تھے ۔ ہم نے جامعہ کراچی کو اپنے قواعد اور ضوابط پر چلانا اور دوسروں کی مداخلت کو کم کرنا شروع کیا، ورنہ یہاں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک صاحب آئے انہوں نے کسی طالب علم کو پاس کرنا تھا تو اس کی فائل نکلوائی، اس پر نوٹ بنوایا، رجسٹرار سے منظوری کے دستخط کروائے اور وائس چانسلر کے سامنے رکھ کر انہیں دستخط کرنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے ان کا یہ نظام بھی ختم کردیا، تو آج جو بھی پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں وہ کرپشن کا نظام ٹوٹنے کا ردعمل ہے۔

 

ایکسپریس: جامعہ کراچی ایک عرصے سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے جامعہ کے لیے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟ کیا اس گرانٹ سے جامعہ کراچی کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوئی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: حکومت کے بہت سارے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، ہم سے بات کی، ہمارے مسائل سمجھنے کی کوشش اور ان کے حل میں دل چسپی ظاہر کی۔گورنر سندھ اور کئی وفاقی وزراء نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے کیے گئے سارے وعدے حقیقت کا روپ دھار لیں گے، مگر فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم وہ ہماری بات سن تو رہے ہیں۔ گذشتہ سال کافی طویل عرصے کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہمارے لیے تقریباً۔ایک ارب اسی کروڑ روپے کی ڈیولپمنٹ گرانٹ کی منظوری دی۔ اس گرانٹ سے آرٹس فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور ایک ویژیول اسٹیڈیز کا بلاک بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ ہمیں لیباریٹری کے لیے آلات خریدنے ہیں۔ اس گرانٹ کی پہلی قسط کے ڈھائی کروڑ روپے (پچیس ملین) مل چکے ہیں ۔ایکسپریس: گذشتہ ماہ جامعہ کراچی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے کا چیک جاری کیا، اس سے جامعہ کے ماہانہ اخراجات میں کس حد تک کمی واقع ہوگی؟

 

منگل، 18 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیور سٹی حصہ اول

 پاکستان  کا علمی سرمایہ   ڈاکٹر محمد اجمل خان  وائس  چانسلر آف کراچی یونیور سٹی -سائنس کے میدان میں ڈاکٹر محمد اجمل خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ڈاکٹر صاحب  پاکستان  کا وہ  علمی سرمایہ ہیں کہ اگر ان کو  پاکستان  کا وزیر خزانہ بنا دیا جائے تو وہ بہت قلیل عرصے میں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں -یہ میری زاتی رائے ہے اور ساتھ ہی میری خوش نصیبی ہے کہ  میں آج کے علمی مفلس اورقلاش پاکستان میں ایک علمی دولت سے مالامال  ہستی کے بارے میں  تحریر پیش کر رہی ہوں ساتھ ہی ایکپریس کی شکر گزار ہوں جس نے محنت کے ساتھ  ڈاکٹر صاحب کی  یونیورسٹی کے علمی شہر کے بارے میں محنت کی تفصیل فراہم کی -اب ڈاکٹر صاحب  کا تفصیلی تعارف اور اور کی علمی کاوشیں جو ایکسپریس نے مجھ   جیسی/جیسے قارئین  تک پہنچائیں میں وہ لفظ اور حرف کی تبدیلی کے بغیر اپنے قارئین تک پہنچا رہی ہوں -


ڈاکٹر صاحب نے جامعہ کراچی سے 1973 نباتیات میں بی ایس سی آنرز اور1974 میں نباتیاتی ماحولیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1977میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1985میں امریکا کی اوہائیویونیورسٹی سے نمک زدہ پودوں کی ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ایک سال بعد وطن آکر جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے اور پھر یہیں سے نباتیات میں ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی۔ ہیلو فائٹ (نمکین زمین پر قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) ان کی تحقیقی دل چسپی کا محور ہے۔


ڈاکٹر محمد اجمل خان نے 40 سال پر محیط تدریسی وتحقیقی کیریئر میں بے شمار اعزازات حاصل کیے اور مختلف بین الاقوامی جامعات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر پاکستان نے ڈاکٹر محمد اجمل خان کو ان کی سائنسی خدمات پر 2001 ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 2007 ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے 2005 ء میں انہیں ’ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ 2012 ء میں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے اور بعدازاں قطر یونیورسٹی کے فوڈ سیکیوریٹی پروگرام کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ڈاکٹر محمداجمل خان کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب اور قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بہ حیثیت سائنسی مشیر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے قطر یونیورسٹی میں ’مرکز برائے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سائنسی جرائد میں ڈاکٹرمحمد اجمل خان کے400 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔


 ڈاکٹر محمد اجمل خان کو 2004 میں ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے اپنا فیلو مقرر کیا۔ سائنس کے شعبہ نباتیات میں نمایاں مقام رکھنے والے ڈاکٹر محمد اجمل خان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں جامعہ کراچی کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفت گو کی گئی جو نذرقارئین ہے۔ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: والد صاحب تقسیم سے پہلے سول سروس میں تھے، تقسیم کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور واپڈا سکھر میں کلرک کی ملازمت کرلی۔ چھے برس کی عمر میں والد صاحب برین ہیمرج کی وجہ خالق حقیقی سے جاملے، اور ہم سب کی کفالت کی ذمے داری بڑے بھائی پر آن پڑی، جو اس وقت انٹر میں زیرتعلیم تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم شاہ فیصل کالونی کراچی کے سرکاری اسکول سے حاصل کی، میٹرک کے بعد جامعہ ملیہ کالج، ملیر میں داخلہ لے لیا۔ 


انٹر کے بعد جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرزشعبہ نباتیات میں داخلہ لے لیا۔ایکسپریس: آپ کو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں، آج آپ جامعہ کراچی کو کہاں دیکھتے ہیں؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دو سال پہلے جب میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے انٹرویو دے رہا تھا تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کے معاملات کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے اور آپ اسے کس طرح سر انجام دیں گے؟ تو اس وقت میرا جواب کچھ یوں تھا کہ معاملات کا ٹھیک ہونا اور نہ ہونا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن میں اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔اس چیلینج کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ میں 1977سے جامعہ کراچی سے منسلک ہوں، یہ اور میں الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ معاملہ نوکری کا نہیں میرے اس جامعہ سے قائم دیرینہ رشتے کا ہے، آپ مجھے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کا موقع دیں، تاکہ آخری وقت میں مجھے اس بات کا افسوس نہ ہو کہ میں اپنی مادر علمی کے لیے کچھ کر نہیں سکا۔ 

 جاری ہے

پیر، 17 مارچ، 2025

مقدونیہ نا ئٹ کلب آتشزدگی کا اندوہنا ک حادثہ

 م دنیا میں نائٹ کلبس میں پیش آنے والے حادثات پر نظر ڈالیں تو کچھ اس طرح  خطوط بنتے ہیں--- 25 جولائی 2016- امریکی ریاست فلوریڈا میں حکام کے مطابق ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور 16 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ اتوار کی شب فورٹ میئرز نامی شہر میں رات ساڑھے 12 بجے (04:30 جی ایم ٹی) کلب بلو میں پیش آیا۔12 جون 2016-امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں پولیس کے مطابق ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک بیان میں فائرنگ کے اس واقعے کو ’درجنوں معصوم لوگوں کا خوفناک قتل عام‘ قرار دیا ہے۔31 اکتوبر 2015-رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ کے ایک نائٹ کلب میں آتشزدگی سے کم از کم 27 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ تقریباً 150 افراد زخمی ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق آگ لگنے کے وقت نائٹ کلب میں جاری راک کنسرٹ سننے اور دیکھنے کے سینکڑوں افراد وہاں موجود تھے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہلاکتیں بھاگنے کی دوڑ میں کچلنے اور دھوئیں کے سبب دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ نائٹ کلب کے باہر افرا تفری کا ماحول تھا کیونکہ لوگ اپنے عزیزوں کی تلاش میں بے چین نظر آ رہے تھے۔


  شمالی مقدونیہ کے نائٹ کلب میں آگ لگ گئ -حکام کا کہنا ہے کہ شمالی مقدونیہ میں نائٹ کلب میں آگ لگنے سے کم از کم 59 افراد ہلاک او155 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔آگ تقریباً 02:30 (01:30 GMT) کوکانی کے پلس کلب میں لگی، جو دارالحکومت اسکوپجے سے 100 کلومیٹر (60 میل) مشرق میں واقع ایک قصبہ ہے، جہاں 500 افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ DNK کے کنسرٹ میں شرکت کر رہے ہیں، جو ملک میں ایک مشہور ہپ ہاپ جوڑی ہے۔وزیر اعظم ہرسٹیجان میکوسکی نے اسے ملک کے لیے ایک "مشکل اور انتہائی افسوسناک دن" قرار دیا، جس میں کئی "نوجوان جانیں" ضائع ہوئیں۔پولیس نے نائٹ کلب تک رسائی روک دی ہے کیونکہ تحقیقات جاری ہیں۔ اتوار کی سہ پہر کو ایک اپ ڈیٹ میں، وزیر داخلہ پینس توسکووسکی نے کہا کہ کلب کے پاس کام کرنے کا قانونی لائسنس نہیں ہے۔توسکوفسکی نے صحافیوں کو بتایا کہ حکام آگ سے منسلک بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔وزیر نے کہا کہ زخمیوں میں سے 20 سے زیادہ اور ہلاک ہونے والوں میں سے تین کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔پہلے اندازوں کے مطابق شرکاء کی تعداد 1,500 بتائی گئی تھی، لیکن اس کے بعد حکام نے اس تعداد کو کم کر دیا ہے۔


اس مقام کو مقامی پریس میں ایک "ترقی یافتہ نائٹ کلب" کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو پہلے قالین کا گودام رہا تھا۔جب آگ لگی، یہ DNK کے لیے ایک کنسرٹ کر رہا تھا - 2002 میں تشکیل پانے والا ایک بینڈ، جو گزشتہ دہائی کے دوران شمالی مقدونیائی چارٹ میں سرفہرست ہے۔ابتدائی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے توسکووسکی نے کہا کہ آگ آتش گیر آلات کی چنگاریوں سے شروع ہوئی تھی جو چھت سے ٹکرائی تھی، جو کہ انتہائی آتش گیر مادے سے بنی تھی۔رائٹرز 16 مارچ 2025 کو شمالی مقدونیہ کے قصبے کوکانی میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد نائٹ کلب کے باہر کا منظر-کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں لوگ ڈی این کے بینڈ کے کنسرٹ میں شریک تھے۔فوٹیج میں بینڈ کو اسٹیج پر بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب دو بھڑک اٹھتے ہیں، جس کے بعد چنگاریاں تیزی سے پھیلنے سے پہلے چھت پر آگ پکڑ لیتی ہیں۔بی بی سی کے ذریعے تصدیق شدہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ چھت پر لگی آگ کے شعلوں کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ کلب ابھی بھی بھرا ہوا تھا اور کچھ لوگ باہر جانے کے بجائے آگ بجھانے کی کوششوں کو دیکھ رہے تھے۔


رپورٹس بتاتی ہیں کہ دیسی ساختہ نائٹ کلب میں صرف ایک ہی داخلہ اور خارجی راستہ تھا، جس سے خوف و ہراس پھیل گیا۔20 سالہ ماریجا تسیوا نے چینل 5 ٹی وی کو بتایا کہ وہ کلب میں اس وقت پھنس گئی جب لوگ باہر نکلنے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ اس نے باہر نکلنے کا انتظام کرنے سے پہلے زمین پر گرنا اور افراتفری کے دوران روندا جانا یاد کیا۔اس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’میں نہیں جانتی کہ کیسے، لیکن کسی طرح میں باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔‘‘ "اب میں ٹھیک ہوں، لیکن بہت سے لوگ مر چکے ہیں۔"اس نے مزید کہا کہ اس کی 25 سالہ بہن - جسے اس کا خاندان پہلے تلاش کر رہا تھا - مر گئی تھی، یہ کہتے ہوئے: "میں بچ گئی تھی اور وہ نہیں تھی۔"رائٹرز ماریجا تسیوا-ماریجا تسیوا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آگ لگتے ہی سب نے چیخنا شروع کر دیا، لیکن "صرف ایک ہی باہر نکلنا" تھا۔ریڈ کراس کے رضاکار مصطفیٰ سیدوف نے کہا کہ متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر 18-20 سال کی عمر کے نوجوان تھے۔انہوں نے مزید کہا، "صورتحال سفاکانہ، افراتفری کا شکار ہے، کہانیاں بہت افسوسناک ہیں، اور بدقسمتی سے بہت سے نوجوان جانیں ضائع ہو گئے


 ہیں۔"حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہلاکتیں "ضرورت نہیں" تھیں اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔شمالی مقدونیہ کے وزیر داخلہ توسکووسکی نے پہلے کی ایک تازہ کاری میں کہا تھا کہ اس وقت مرنے والوں میں سے 35 کی شناخت ہو چکی تھی۔کوکانی کے ہسپتال کے ڈائریکٹر نے پہلے کہا تھا کہ عملہ شناختی کارڈز کی کمی کی وجہ سے مریضوں کی شناخت کرنے میں مشکلات کا شکار تھا۔انہوں نے کہا کہ مرنے والوں کی عمریں 14 سے 24 سال کے درمیان تھیں۔ اٹھارہ مریضوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔حکومت نے سات روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے، اور حکومت اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے کہ یہ واقعہ کیسے سامنے آیا۔وزیر اعظم میکوسکی نے کہا کہ حکومت "مکمل طور پر متحرک ہے اور اس کے نتائج سے نمٹنے اور اس سانحے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی"۔یورپی رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے، یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ یورپی یونین "اس مشکل وقت میں شمالی مقدونیہ کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑی ہے"۔ہمسایہ ملک سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچک نے اسے "انتہائی شدت کا المیہ" قرار دیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ خدشہ بدستور برقرار ہے کہ "اس وقت مزید بہت سے لوگ زخمی ہونے کی سطح کو برداشت نہیں کر سکیں گے"۔شمالی مقدونیہ کے کوکانی علاقے میں ایک میوزک بینڈ کی لائیو پرفارمنس کے دوران ایک پرہجوم نائٹ کلب میں آگ لگنے سے کم از کم 59 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مقدونیہ کے وزیر داخلہ پینس توسکووسکی نے کہا کہ نائٹ کلب میں آتشزدگی کے سلسلے میں چار افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ مقدونیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ پولیس نے واقعے کے سلسلے میں نائٹ کلب کے مالک کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے وقت کلب میں ایک میوزک بینڈ پرفارم کر رہا تھا جب کہ دوست اور خاندان کے کئی افراد موجود تھے۔ 

خیبر شکن علی مولا (ع)

خیبر شکن علی مولا (ع)خیبر کا علاقہ اور اس کے کئی قلعے یہودی فوجیوں کے مرکز تھے اور یہ مسلمانوں کے خلاف خود بھی سازشیں کرتے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے خیبر کے یہودیوں نے قبیلہ بنی نضیر کو بھی اپنی پناہ میں رکھا۔ خیبر میں بے شمار یہودی آباد تھے اور یہ بڑا شہر تھا۔بنو قریظہ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے مشکلات کا شکار کر دیا تھا خیبر کے یہودیوں نے نجد کے قبیلے کے ساتھ بھی معاہدے کیے تھے جن کی رو سے وہ مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کے در پر تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے پیارے نبی 1600 کی فوج کے ساتھ جن میں سے 100 سے زائد گھڑ سوار بھی شامل تھے جنگ کی نیت سے روانہ ہوئے اور پانچ چھوٹے قلعے فتح کر لیے اور اس کے ساتھ ہی خیبر کا محاصرہ کر لیا یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔یہودیوں نے اپنا ساز و سامان اور خواتین و بچوں کو علیحدہ علیحدہ قلعوں میں حفاظت کے لیے پہنچا دیا،


 باقی دو قلعوں کو جن میں قلعہ قموص بھی شامل تھا ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں، مگر مسلمان کامیاب نہ ہو سکے۔اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا ’’کل میں علم اس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ اسے شکست ہوگی اور نہ وہ میدان چھوڑے گا‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام خواہش کرنے لگے کہ یہ سعادت ان کے نصیب میں ہو۔دوسرے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو طلب کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! علیؓ آشوب چشم میں مبتلا ہیں‘

ندا کے معنی آواز دینا ہیں )  اور پھر حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ علی علیہ لاسلام کو آواز دیجئے جو کہ مظہر  العجائب ہیں تو انہیں اپنا مددگار پائیے گا ۔ مصیبتوں میں سب پریشانی وغم اب دورہوتے جاتے ہیں حضور کی ولایت سے یا علی یا علی یا علی ۔۱؂جواہر خمسہ مترجم اردو مرزا محمد بیگ نقشبندی دارالاشاعت کراچی ص ۲۸۲ و۴۵۳-- حضرت علیؓ کو پتا چلا کہ بارگاہ نبوی ﷺ سے بلاوا آیا ہے تو آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، آپؓ اسی وقت صحت مند ہوگئے اور پھر پوری زندگی آشوب چشم میں مبتلا نہ ہوئے۔

ناد علی ؑ_

نَادِ عَلِيّاً مَظْهَرَ الْعَجَائِبِ

تَجِدْهُ عَوْناً لَكَ فِي النَّوَائِبِ

كُلُّ هَمٍّ وَ غَمٍّ سَيَنْجَلِي

بِوَلَايَتِكَ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِی

جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ قلعہ کو فتح کرنے کے لیے پہنچے تو یہودیوں میں سے ایک شخص جوکہ پہلوان تھا اس کا نام مرحب تھا، اس کی جوانمردی کی بہت شہرت تھی، عرب میں ایک سو سواروں کے لیے اکیلا ہی کافی تھا، اس کے ساتھ جنگ شروع ہوئی، حضرت علیؓ نے ایسا وار کیا کہ اس کا سر درمیان سے دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار مرحب کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی، اور اس وار کی گونج دور تک گئی۔مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام فوج حضرت شیرخدا رضی اﷲ تعالٰی عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں ۔ اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر مرحب، حارث، اسیر، عامر وغیرہ کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بناکر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔


 یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ بعد کو چالیس آدمی اس کو نہ اٹھا سکے۔2(زرقانی ج ۲ص۲۳۰ )جنگ جاری تھی کہ حضرت علی شیرخدارضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کمال شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے خیبر کو فتح کرلیا اور حضرت صادق الوعد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان صداقت کا نشان بن کر فضاؤں میں لہرانے لگا کہ’’کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تَعَالٰی فتح دے گا وہ اللہ عزوجل و رسول وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا محب بھی ہے اور اللہ و رسول عز وجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا محبوب بھی۔‘‘بے شک حضرت مولائے کائنات رضی اﷲ تعالٰی عنہ اللہ عزوجل و رسول وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ہیں ۔ اوربلاشبہ اللہ تَعَالٰی نے آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ تَعَالٰی نے آپ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر