جمعرات، 20 مارچ، 2025

بلوچستان کا فخر پاکستان بیٹا' ڈاکٹر یارجان عبدالصمد

 


 بلوچستان کا فخر پاکستان بیٹا' ڈاکٹر یارجان عبدالصمد  -    20 مارچ 1986 کو کیچ مکران (بلیدہ) میں پیدا ہو کر اپنے گھرانے کے ہمراہ کراچی کے سب سے پسماندہ علاقے لیاری میں آن بسا 'گھر والوں کے ساتھ 'ساتھ وہ خود بھی علم کا شیدا ئ تھا ۔ پرائمری تعلیم   روز ایجوکیشنل  سوسائٹی کے وائٹ روز اسکول بغدادی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اسکول کے مراحل  طے کر کے وہ کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے مشہور اسکول/کالج کی پرنسپل صاحبہ بہت ہی اسمارٹ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون  کے روبرو  پیش ہوا  اور  میٹرک کا سرٹیفکٹ اور دیگر کاغذات  دمکتے ہوئے چہرے  کے ساتھ پیش کئے تو لڑکے کے والد نے بتایا وہ اپنے اسی لڑکے کو اس اسکول میں داخل کرانے آئے ہیں۔ میڈم نے صرف ایک سوال کیا: "آپ کہاں سے آئے ہیں؟"جب میڈیم کو پتہ چلا وہ بلیدہ (بلوچستان) کے ہیں اور اب لیاری میں رہتے ہیں اور وہیں سے آئے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں: "دیکھیں! یہاں وقت ضائع نہ کریں۔ جہاں سے آپ آئے ہیں وہیں جاکر کھیتی باڑی کریں اور سکون کی زندگی گزاریں!"۔ یہ سن کر باپ بیٹا خاموشی کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ باپ نے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نے پہلے کہا ہمیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔ 


لیکن اس ہونہار طالب علم نے اور اس کے باہمت باپ نے حالات کے حوصلہ ہارنے کے بجائے نئے راستے پر چل پڑے 'یہاں تک کہ ڈی جے سائینس کالج سے پاس آوٹ کرکے وہ کےپی کے مایہء ناز درس گاہ غلام اسحٰق خان  آف انجینئیرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنولوجی تک جا پہنچے جہاں سے یار جان عبدالصمد کو  ان کے قابل اور مشفق اساتذہ   نے مزید  تراش کر ہیرہ بنا یا اور پھر ان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اسکالرشپ کے ساتھ امریکہ بھیجاگیا۔ ماسٹرز کے مراحل طے کرکے انہوں نے ٹیکنولوجی کے شعبہ میں امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایم آئی ٹی  یونیورسٹی میں انہوں نے عملی طور پر جاپان اور جرمنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف خلائی سائنس کے شعبہ میں اپنی استعداد بڑھائی بلکہ اس سرکل میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ گو کہ وہ ابھی نوجوان ہی ہیں لیکن اس عمر میں وہ کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ٹیکنولوجی  پڑھاتے ہیںاورآجکل "Space Base Project" سے منسلک ہیں۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے نکل کر "خلا" کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں سے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے۔ خاص طور پر وائٹ روز اسکول کے منتظمین۔ ٹیچرز اور اپنے دوستوں کے ایک حلقہ سے ان کا ناطہ جڑا رہا۔ دو دن پہلے روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے ڈائرکٹر انور علی بھٹی نے اپنے سابق طالبعلم یارجان بلوچ کے ساتھ ایک بہت ہی حسین شام منائی۔


 اس دلفریب تقریب میں ڈاکٹر صاحب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کیمبرج یونیورسٹی یو کے سے آن لائن رہے۔ پہلے تو بھٹی صاحب۔ میڈم نجمہ۔ سابقہ ٹیچرز سر تبسم۔ سر ماجد اور اپنے کئی کلاس فیلوز کی باتیں سنتے رہے اور پھر محبت اور اپنائیت سے اپنے اسکول کے یادگار لمحات کو خوشی سے لبریز چہرے کے ساتھ ان سب سے شئیر کیا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر یارجان بلوچ کی باتیں ہم نے بھی سنیں۔ سوچ رہے تھے سائنسدان قسم کے آدمی ہیں اور اب "آسمانوں میں" رہتے ہیں اس لئے جو بات کریں گے وہ اول تو فلسفہ اور سائنسی فارمولوں پر مبنی ہوگی اور پھر انداز بھی کچھ "شاہانہ" قسم کا ہوگا لیکن یقین جانئیے اس نوجوان کو ہم نے خلا میں نہیں زمین ہی پر پایا۔ نرم لہجہ۔ سادہ الفاظ۔ انکساری کا مظاہرہ۔ یہ سب ان کے اچھے کردار کی نشانیاں تھیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی کامیابی (گرچہ وہ آخر تک انکساری سے کام لیتے رہے کہ ابھی تو ان کا علمی سفر شروع ہوا ہے) کو مسلسل جدوجہد۔ آگے بڑھنے کے عزم و ہمت اور ذہن میں منزل کے تعین سے جا ملالیا لیکن ہمارا خیال ہے ان کے چہرے پر ہروقت جو مسکراہٹ ہمیں نظر آئی یہی وہ راز ہے جو ان کی خوداعتمادی کی عکاسی کرتی ہے یہی وہ کنجی ہے جس نے ایک غریب اور پسماندہ ماحول میں پلنے والے ایک باہمت نوجوان کے لئے علم و آگہی کے تمام دروازے کھول دئے۔ ہمارے سب نوجوانوں کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانے اور آگے بڑھنے کے لئے اسی کنجی کی کھوج لگانی ہوگی۔۔ آج وہی لڑکا انگلستان کے کیمبرج یونیورسٹی میں نہ صرف ایک استاد ہے بہ خلائی سائنس سے وابستہ پہلا پاکستانی نوعمر سینئر ریسرچ سائنٹسٹ ہے 

 اس خوبصور ت سچی کہانی کے پس پردہ دیکھئے کہ ہمارا سماج  یارجان عبدالصمد جیسے ہونہاروں سے بھرا پڑا ہے جنکے لئے جان عبد الصمد جیسے والد چاہئے جو ان کو حالات کی بھٹی میں جلنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو باور کروائیں کہ ہم تمھارے ساتھ کھڑے ہیں 'میرا سلام ہو جان عبد الصمد کے والد گرامی پر -یہ تحریر میں نے انٹر نیٹ سے لے کر خود تلخیص کی ہے -تحریر کے خالق رمضان بلوچ ہیں 

1 تبصرہ:

  1. اللہ پاک ہمارے وطن کے تمام اساتذہ کو جو اپنی محنت شاقہ سے طالب علموں کو تراش کر ہیرے بناتے ہیں دنیا اور عقبیٰ کی نعمتوں سے مالا مال کر دے آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر