ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بٹالہ انڈسٹری پاکستان کی صنعتی ایمپائر کس طرح تباہ کر دی گئ

   ء1907انیس سو سات  میں مشرقی پنجاب  کے شہر بٹالہ کے ایک رہائشی    مہر میراں  بخش کے آنگن میں ایک  بچے نے جنم لیا  بچے کے والد اپنے اس نومولود کو آ گے چل کر ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ روپ میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن مہر  میران بخش   کی بے وقت موت  نے  ان کو یہ خوبصور ت  دن دیکھنے سے محروم کر دیا    -لیکن  اس ہونہار بیٹے نے  اپنے باپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنا کر اعلی ٰ تعلیم حاصل کی اور 1930ء میں مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے  ساتھ ہی  انہوں نے دو کمروں اور ایک برآمدے  کے گھر میں اپنی پہلی صابن  مل لگائی‘ یہ صابن بناتے تھے‘ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے‘‘ لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی‘ یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی‘ یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں چھا گئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے‘


پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار‘ زمین جائیداد اور بینک بیلنس کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے‘ سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے‘ لاہور اور بٹالہ کے درمیان 53 کلو میٹر کا  فاصلہ ہے‘آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا‘ یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے‘ بٹالہ میں ان کی فیکٹریوں کا کیا سٹیٹس تھا؟ آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجئے‘ ہندوؤں اور سکھوں نے ان کی ملوں پر قبضہ کیا‘ کاروبار کو آگے بڑھایا اور آج بٹالہ لوہے میں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے‘ سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947ء میں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا‘ انہوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا‘


یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا‘ 1932ء میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کے نام پر ”بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (بیکو BECO )“ کی بنیاد رکھی۔جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا سی ایم لطیف چاہتے تو بھارت میں رہ کر اپنا کاروبار بچا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی فیکٹریاں اور اپنا سب کچھ بھارت میں ہی چھوڑا اور پاکستان کی محبت میں ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔سی ایم لطیف نے لاہور میں بیکو کمپنی کے نام سے صنعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دسمبر 1947ء کو انہوں نے لاہور کے پسماندہ  علاقے بادامی باغ میں پھر سے کمپنی کو زیرو سے آغاز کیا کاروباری دنیا میں  وہ   چودھری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انہیں ”سی ایم لطیف“ کے نام سے جانتی تھی‘ور  محض تین سال کی انتھک محنت کے بعد کمپنی کے قیام کو مضبوط بنیاد پر کھڑا کر دیا۔ محمد لطیف اب سی  ایم لطیف کے نام سے جانے جاتے تھے  -اورکمپنی میں انہوں نے سٹیل ورکس، سٹیل فاؤنڈری، سٹیل رولنگ ملز، آئرن فاؤنڈری، مشین ٹول شاپ، ڈیزل انجن شاپ، سٹرکچرل شاپ اور جنرل انجینئرنگ شاپ سمیت 8 شعبے قائم  کئے جن میں دن اور رات کا م ہوتا تھا ۔


 بیکو میں اس وقت مشینوں کے پرزہ جات، واٹر پمپس، پاور لومز، کرینیں، الیکٹرک موٹرز اور سائیکل تیار کیے جاتے تھے۔ بیکو 60ء اور 70ء کی دہائی میں ایک بین الاقوامی اور پاکستان کا قابل فخر ادارہ بن چکا تھا۔ مختلف ممالک کے سربراہان بیکو کا دورہ کرنے کے لئے بادامی باغ آیا کرتے تھے اور اپنے انجینئرز کو بھی بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ چین کے اس وقت کے وزیراعظم چو این لائی نے بیکو کا دورہ کیا اور اپنے انجینئرز بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجا، چو این لائی نے بیکو کے سٹرکچر اور انتظامی امور کی طرز پر چین میں باقاعدہ ادارے اور فیکٹریاں قائم کی۔وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی‘ شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کیلئے لاہور آتے تھے‘ چو این لائی ان کی فیکٹری‘ ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں‘



چو این لائی کے علاوہ شام کےسر  براہ مملکت حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ بھی بیکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین کے ساتھ ساتھ جاپان اور جرمنی کے انجینئرز بھی بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ آج ان تینوں ممالک کے انجینئرنگ نے اپنا لوہا منوایا۔ اپنے عروج کے زمانے میں بیکو میں 6000 لوگ ملازمت کیا کرتے تھے۔ سی ایم لطیف دوراندیش انسان تھے۔ انہوں نے ایک ایسا مثالی ادارہ قائم کر دیا تھا جو اپنے وقت کا شاہکار اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھا۔ مگر کیا کیجئے کہ بدقسمتی چپکے سے ان کے ادارے کا پیچھا کر رہی تھی۔یکم جنوری 1972ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اقتصادی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے 31 اہم صنعتی اداروں کو nationalize کرنے یعنی قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا جس میں بیکو بھی شامل تھا۔ ایک ہی رات میں سی ایم لطیف سے سب کچھ چھین لیا گیا، ان کے سالوں کی محنت ضائع کردی گئی اور ان کو ان کے اپنے ہی ادارے سے نکال کر ادارے کو حکومت پاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیا۔


جمعرات، 24 اپریل، 2025

ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کیا ہے



    ہر زمانے میں  اللہ  پاک مجبور مخلوق  کی داد رسی کے لئے کسی کا انتخاب کرتا ہے    شنتا راتری   بھی  انڈونیشا  کی ٹرانس جنڈر  کمیونٹی کے لئے سایہ دار  درخت کی مانند تھیں لیکن مارچ     2025 کا مہینہ  انڈونیشیا  کی ٹرانسجنڈر  کمیونٹی کے لئے  ایک بڑے نقصان کا مہینہ رہا  جب ان کی مذہبی  راہنما  اور مدد گار شنتا راتری  ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں ۔ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان  اب اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں ۔اور خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔


انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں -ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔


رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔  ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔


یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔چار برس قبل پارلیمان سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر دوبارہ شور کیوں؟اگر آفس کارڈ نہ ہوا تو مجھے دوبارہ سیکس ورکر سمجھا جائے گا‘ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔


انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی ہے                                             

بدھ، 23 اپریل، 2025

کپاس کی فصل سے ہمارا بے رحم رویہ

 کپاس  کی تباہی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب  کپاس کی  پیداوار دینے والی زرخیز زمینوں پر  گنے کی کاشت شروع کی گئ  اور گنے کی کاشت زاتی  منافع کی بنیاد پر تھی  کیونکہ صاحب اقتدا ر طبقے  نے چینی  کا   منافع بخش کاروبار شروع کیا   اس کاروبار میں  ارب پتی خاندان کے خاندان  ملوں کے مالک بن گئے او رقومی مفاد پر زاتی مفاد غالب آ گیا- طرفہ تماشہ   کاشتکاروں  پربھاری ٹیکسز  لاگو کئے گئے  اور بجلی کی مہنگائ   نے کپاس کی فصل   اور فوائد سے  قوم کو محروم کر دیا  -اس وقت صورت حال یہ ہے    کہ ذرائع  وزارت خوراک و تحقیق کے مطابق، وزیراعظم کو رپورٹ دی گئی کہ پچھلے دس سالوں میں نہ کوئی نئی کپاس کی اقسام متعارف کرائی گئیں اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تحقیق کی گئی۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2012-13 میں 1 کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے گھٹ کر 2024-25 میں صرف 50 لاکھ گانٹھوں پر آ گئی ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ذرائع نے بتایا کہ "کپاس   کے اوپر  ہونے کی وجہ سے PCCC فنڈز سے محروم رہی، جبکہ PARC       ہونے والی  فیصلہ سازی سے روک دیا گیا۔ وزیراعظم کو زراعت سے جڑے افراد اور تنظیموں کی جانب سے بارہا شکایات موصول ہوئیں کہ ادارے زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی، مگر کوئی قابل عمل منصوبہ پیش نہ کیا جا سکا، جلہ جیم (نامہ نگار )مثالی کاشتکار میاں محمد عاصم ارائیں نے کہا کہ کپاس کی نقد آور فصل صرف کاشتکار کی ہی ضرورت نہیں بلکہ زر مبادلہ کا باعث ہے۔کپاس کی فصل کی بربادی پر حکومت فوری توجہ کر ے  جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چارلاکھ  گانٹھ روئی موجود ہے مگر ان کا کوئی خریدار نہیں  زراعت ملکی مجموعی آمدنی کا خاطر خواہ حصہ ہے مگر ہر فصل پر کسانوں کو تحفظات ہیں  جو قومی المیہ ہے۔


انہوں نے وزیر اعظم سے  کاٹن کی عدم  فروخت کا نوٹس لے کر کسانوں کے مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا ہے ۔پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل ملز بند کیوں پڑی ہیں؟سندھ میں کپاس کی 100 فیصد فصل تباہ: محکمہ زراعت سندھ کیا پاکستان 21 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف حاصل کر پائے گا؟پاکستانی کسانوں نے کپاس کی کاشت سے منہ موڑ لیا، آخر وجہ کیا ہے؟آل پاکستان کسان اتحاد کے جزل سیکریٹری رانا محمد ظفر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کپاس کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن سرکار آج تک پاکستانی ماحول کے مطابق بیج تیار نہیں کر سکی ہے۔ پھول اور گوڈی کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً چھ سو سے زیادہ بیج کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر جعلی اور ناقص معیار کا بیج تیار کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہے اور معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن سرکار ایکشن نہیں لے رہی۔’ہندوستان میں صرف 50 کمپنیاں کپاس کا بیج بناتی ہیں اور وہ معیاری ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے اور معیار بھی بہتر ہے۔ انڈین پنجاب میں کسان کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں کسان کی آمدن کا بڑا حصہ صرف بجلی کے بلوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ جعلی پیسٹی سائیڈ اور ادویات کی بھرمار ہے اور کسان کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جعلی ادویات استعمال کرکے نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘ایپٹما پنجاب کے چیرمین اسد شفیع نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیکسٹائل اور کسان کی تباہ حالی میں بیوروکریسی کا بڑا کردار ہے۔ بیوروکریسی نے دھاگے کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔جس کی وجہ سے درآمد سستی ہو گئی ہے اور کپاس کے کاشت کار نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔


 اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دبئی  کے راستے بھارتی دھاگہ درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے‘جبکہ چائنا  سے بھی امپورٹ  جاری ہے - (اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ تقریباً 11لاکھ 92 ہزار بیلز امریکہ سے خریدی گئی ہیں۔ پوری دنیا کے دس سے زیادہ ممالک سے ابھی تک 30 سے 35 لاکھ بیلز درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 55 لاکھ بیلز درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔’اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سفید لنٹ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے سفید لنٹ درآمد کرنے پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ایسے فیصلوں کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔  ایک وقت تھا کہ پاکستان کپاس کا تقریبا سب سے بڑا برآمدکندہ تھا۔ لیکن آج حالات 180 ڈگری سے تبدیل ہو گئے ہیں۔‘ان کے مطابق ’مکمل قصور سرکار کا نہیں ہے، کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں کپاس کے بیج اور فصل پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام نہیں ہو سکا۔ ملز مالکان نے ادارے بنائے، چائنیز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ (پی سی جی اے)کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ روئی(درآمدی روئی)ڈیوٹی فری اور ٹیکس فری ہے جبکہ پاکستانی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔


امریکن کاٹن کو پاکستان میں امپورٹ کے لیے فری ہینڈ حاصل ہے جب کہ پاکستانی کاٹن پر  ایک درجن سے زائد ڈیوٹیز اور ٹیکس عائد ہیں۔بھاری ٹیکسوں نے کاشتکاروں اور کاروباری طبقات کو کپاس کی فصل سے بہت دور کر دیا ہے جبکہ کپاس لاوارث فصل ہو کر رہ گئی ہے۔ملکی جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چار لاکھ گانٹھ سے زائد روئی غیر فروخت شدہ سٹاک میں موجود ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ پی سی جی اے نے بطور ایسوسی ایشن    کے بھرپور مہم، تحریک  اور عہدے داروں،ممبران  کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کپاس کی بقا و بحالی کے لیے حکومتی اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومتی سطح پر  سود مند اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔کپاس کی بقا و بحالی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہ ہے۔ہمارا اور ہمسایہ ملک کا موسم، کلچر، کاشتکاری کے طریقہ کار اور دیگر عوامل یکساں ہیں۔گزشتہ 20 سال میں ہمسایہ ملک میں کپاس کی فصل 35 ملین (تین کروڑ 50 لاکھ) گانٹھ سے زائد ہے جبکہ وطن عزیز میں کپاس کی پیداوار پانچ سے آٹھ ملین (5080 لاکھ) گانٹھ  سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر سے آٹھویں نمبر پر چلا گیا ہے ٹیکسٹائل اور کپاس کی فصل کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر *کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی: تحقیق و ترقی میں عدم توجہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ*پی سی جی اے کی جانب سے آج جاری کردہ کپاس کے اعدادوشمار کے مطابق یکم ستمبر 2024 تک کل کپاس کی آمد 1,225,946 گانٹھیں ہیں جبکہ گزشتہ سال 2023 میں  آج کی تاریخ میں کپاس کی آمد 3,041,104 گانٹھیں تھیں۔ یعنی کے گزشتہ برس کے مقابلے میں امسال 60% کپاس کی گانٹھیں کم ہوئی ہیں۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو امسال ابتک 4 لاکھ 52 ہزار 855 گانٹھیں پیدا ہوئیں


 جبکہ گزشتہ سال آج کی تاریخ میں 10 لاکھ 68 ہزار 796 گانٹھیں حاصل ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں پنجاب میں 58% کم پیداوار ہوئی۔ جبکہ سندھ میں امسال ابتک 7 لاکھ 73 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 19 لاکھ 72 ہزار 308 گانٹھیں پیدا ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں سندھ میں 60% کم پیداوار حاصل ہوئی۔ جبکہ بلوچستان میں امسال ابتک 34 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں ہیں -کپاس کی اگیتی کاشت میں ایک ماہ کی تاخیر، جون و جولائی میں گرمی کی لہر کے طویل دورانیہ کی وجہ سے فروٹ شیڈنگ، اگست میں شدید بارشوں اور سفید مکھی و گلابی سنڈی کا حملہ کپاس کی پیداوار میں کمی وجوہات ہیں۔ اسی طرح اگر کپاس کے رقبہ میں کمی کی بات کی جائے تو اس کی بنیادی وجوہات میں حکومتی سطح پر کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان نہ ہونا، دیگر مسابقتی فصلات کے مقابلہ میں کپاس کی فصل کا منافع بخش نہ ہونا، مارکیٹ میں مڈل مین کی مناپلی کی وجہ سے قیمت میں مصنوعی گراوٹ کی وجہ سے کپاس کے کاشتکاروں کو نقصان ہورہا ہے۔کپاس کی پیداوار اور رقبہ میں 2016 سے مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہمیں اپنی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے چیلنجز سے بچاؤ کے لیے کپاس کی جدید جینیاتی اقسام تیار کرنا ہوں گی جس کے لیے کپاس کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کثیر فنڈنگ درکار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قومی سطح پر پاکستان کے سب سے بڑے کپاس کے تحقیقی ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو ٹیکسٹائل انڈسٹری اور حکومت کی جانب سے سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پورے ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ 2016 سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی ایماء پر تقریباً 80 فیصد ٹیکسٹائل ملوں نے کاٹن سیس دینا بند کر دیا ہے اور تب سے کپاس کی پیداوار جمود کا شکار ہے۔


منگل، 22 اپریل، 2025

ایم این اے کا عہدہ ' پاکستان کا سب سے بڑا منافع بخش منصب

 یر ابھی حال ہی میں  چند ہفتے ہوئے   قومی اسمبلی  کے ممبران نے   اپنی تنخواہ پونے دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے تک کر لی ہے مگر پانچ لاکھ روپے تنخواہ کے بعد بھی وہ ہا ؤ س میں نہیں آتے۔ اب   پاکستانی عوام  کی سمجھ  میں ضرور آ یا ہوگا  کہ لوگ سیاستدان بننے کے لیے کیوں اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ تو صرف قانونی پیسے ہیں۔ ابھی   ترقیاتی کاموں کے نام پر ملنے والے اربوں روپے کی بات  کا زکر نہیں آیا ہے ۔میر ے قارئین  نے ہمارے وطن کے سابق وزیر خزانہ  جناب  مفتاح اسماعیل کا یہ بیان  بھی  ضرور سنا ہو گا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ اس سال ممبرانِ اسمبلی کے لیے ساڑھے پانچ سو ارب روپے ترقیاتی فنڈ رکھا گیا ہے۔ نامہ  نگار  کہتے ہیں اپریل  2025 کے مہینے میں  جمعرات کے روز ایک دفعہ پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانے کا دل کیا مگر پھر خبر ملی کہ اجلاس ملتوی ہو گیا ہے۔ پتا چلا کہ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لیے ایوان کے اندر جتنے ارکان کے موجود ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی تعداد میں ممبران موجود نہیں تھے۔ آپ کا سوال ہو گا کہ کتنے ارکان ضروری ہوتے ہیں جس کے بعد ہا ؤس کا اجلاس ہو سکے۔ اس کام کیلئے غالباً84 ممبران کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگلا سوال ہو گا کہ اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد کتنی ہے۔ میرا جواب سن کر شاید آپ کی آنکھیں حیرت سے پھیل جائیں کہ تین سو چالیس ممبران میں سے چوراسی ممبران بھی ہاؤس میں نہیں آتے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر یہ اسمبلی کیا کر رہی ہے‘ اس پر اربوں کا بجٹ کیوں خرچ ہو رہا ہے؟


 اگر اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرنی تو پھر اس ایوان میں جانے کے لیے یہ سب ایم این ایز اپنا تن من دھن کیوں لگا دیتے ہیں؟ اپنی زندگیاں کیوں خراب کر لیتے ہیں؟ پولیس‘ تھانے‘ کچہریاں‘ جیلیں‘ یہ سب کچھ کیوں بھگتتے ہیں اگر انہوں نے اسمبلی کے اندر اجلاس میں بیٹھنا ہی نہیں؟ تین سو چالیس میں سے صرف چالیس‘ پچاس ممبران ہی اجلاس میں آئے اور باقی تقریباً تین سو ایم این ایز نے اجلاس میں جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یا تو وہ اپنے علاقوں سے ہی نہیں چلے کہ چھوڑو! مقصد اسمبلی میں پہنچنا تھا‘ پہنچ گئے ہیں‘ تنخواہ وقت پر مل رہی ہے‘ الائونس مل رہا ہے‘ فری پی آئی اے کی ٹکٹیں مل رہی ہیں‘ دوائی علاج سب کچھ مفت ہے‘ عالمی دورے مفت ہیں‘ پارلیمنٹ لاجز میں کمرے ملے ہوئے ہیں۔ اگر چیئرمین کمیٹی ہیں تو پھر ایک سرکاری گاڑی مع پٹرول اور ڈرائیور بھی ملی ہوئی ہے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو سفارتی پاسپورٹس بھی ملے ہوئے ہیں‘ جن پر وہ دنیا کے ساٹھ ستر سے زائد ممالک کے ایئرپورٹ پر اتر کر محض انٹری ویزہ لے کر جا سکتے ہیں۔


 اب اگر اجلاس میں شریک نہیں بھی ہوئے تو پریشانی کی کیا بات ہے‘ کیونکہ اجلاس میں حاضری بائیو میڑک سسٹم سے نہیں ہوتی بلکہ اب بھی وہاں ہاتھ سے حاضری لگتی ہے اور ایک رجسٹر رکھا ہوتا ہے جس پر اسمبلی کا ایک اہلکار حاضری لگاتا ہے۔ ماضی میں تو کچھ ایم این ایز نے اس اہلکار کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی کہ میں اجلاس میں آؤں یا نہ آؤں‘ میری حاضری لگا دینا۔ چند ممبران اسمبلی خود بھی ایک دوسرے کی جعلی حاضری لگا دیتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ انہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ جعلی حاضری لگاتے ہیں۔ اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے۔ اب ہر ایم این اے کو اجلاس میں شریک ہونے پر فی اجلاس دس ہزار روپے ملتے ہیں۔ پہلے پانچ ہزار روپے تھے‘ جو اب دو گنا ہو چکے ہیں۔ ممبرانِ اسمبلی اجلاس میں بھی نہیں آنا چاہتے اور دس ہزار روپے بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ آپ پوچھیں گے کہ کیا ان کو تنخواہ نہیں ملتی کہ دس ہزار روپے الائونس بھی دیا جاتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ انہیں پہلے پونے دو لاکھ روپے کے قریب تنخواہ ملتی تھی‘ جو ان کے نزدیک کم تھی۔ حالانکہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا الگ سے الائونس ملتا ہے‘ جس سے لگ بھگ تنخواہ کے برابر الائونس بھی ہر ماہ مل جاتا تھا۔


ہمارے محبوب معاشی ماہر ڈاکٹر محبوب الحق نے 1985ء کی اسمبلی میں سیاستدانوں کو   ترقیاتی کاموں کے نام  اربوں روپئے  دینے کے نا م پر  یہ قانون بنایا  تھا کہ تم لوگوں کا کام قانون سازی اور ملک چلانا نہیں ہے‘ بلکہ  ملک میں ترقیاتی کا م کرنے ہیں  ‘ تم اپنی  مرضی کا ٹھیکیدار  لاؤ  اور اس کو ٹھیکہ دلوا کر اس سے اپنا کمیشن کھرا کر و۔ پھر ڈاکٹر محبوب الحق کی بدولت ٹھیکیدار دوست جمہوریت کا دور شروع ہوا اور جیبیں بھرنا شروع ہوئیں۔ اب ہر کوئی سیاست میں داخل ہونے کے لیے بے چین ہونے لگا اور اخلاقیات وغیرہ سب کھوہ کھاتے چلے گئے اور پھر چل سو چل۔ اب پیسہ ہی سب کا پیر بن گیا۔  اس پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز پر ممبران تیس فیصد کمیشن لیتے ہیں۔ (یقینا سب ممبران نہیں لیتے لیکن اکثریت کے بارے میں یہی تاثر ہے اور یہ بات ایک سابق وزیراعظم کہہ رہا ہےاب آپ بتائیں کہ اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کون سا ہو سکتا ہے کہ اتنے مالی مفادات ہوں‘ پھر ٹی وی چینلز پر بحث مباحثہ‘ مفت مشہوری‘سوشل میڈیا پر فالوونگ‘ ضلع بھر میں رعب ودبدبہ‘ پوری ضلعی بیورو کریسی آپ کے ماتحت‘ تھانہ کچہری سب کچھ آپ کے کنٹرول میں۔ علاقے کے جو لوگ ووٹ نہ دیں ان کا جینا تک حرام کر دیں۔ اتنا سب کچھ لینے کے باوجود بھی اگر یہ تین سو سے زائد ایم این ایز اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوں تو پھر آپ کیا کہیں گے؟


آپ کچھ کہیں یا نہ کہیں‘ انہیں پتا ہے کہ ان کا وزیراعظم بھی اسمبلی نہیں آتا‘ ان کا کسی نے کچھ بگاڑ لیا ہے؟ نواز شریف صاحب آٹھ آٹھ ماہ تک اسمبلی نہیں جاتے تھے۔جبکہ ان کے گھر خواتین  کو بھی پابندی سے ہر مہینہ  یہ    فنڈز گھر بیٹھے ملتے تھے عمران خان صاحب چھ چھ ماہ اسمبلی سے غیر حاضر رہے۔ شہباز شریف صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو نوے فیصد حاضری تھی اور جب سے وزیراعظم بنے ہیں‘ حاضری بیس فیصد بھی نہیں ہے۔ ممبران اپنے ہاؤ س کے کپتان کو دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ہاؤس نہیں آتے اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا لہٰذا انہیں کسی نے کیا کہنا ہے؟کل ہی میں ایم این اے نفیسہ شاہ صاحبہ کو حامد میر کے شو میں  ممبران اسمبلی کو ملنے والے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے فوائد گنوا رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتیں سن کر شاہد خاقان عباسی یاد آ رہے تھے کہ کتنی بڑی رقم کمیشن کی نذر ہو جاتی ہے اور ان فنڈز کا مقصد حلقے کے لوگوں کی ترقی اور فلاح سے زیادہ اسمبلی ارکان کی فلاح ہوتا ہے۔ چلیں آپ ترقیاتی فنڈز میں سے اپنا حصہ بھی لیں‘ تنخواہیں بھی لیں‘ مفت پی آئی کی ٹکٹیں بھی لیں‘ مفت علاج‘ پروٹوکول‘ گاڑیاں لیں‘ بیرونی دورے بھی کریں لیکن اس کے باوجود اگر اجلاس میں 84 ایم این ایز شریک نہ ہوں تو آپ نے اس سب کا کیا کرنا ہے؟اسمبلی کی کارروائی دیکھنے اور رپورٹ کرنے کا بھی الگ سے سیاسی چسکا ہے۔ جسے ایک دفعہ لگ جائے پھر مشکل ہی چھوٹتا ہے۔ کیونکہ بہتی گنگا میں اشنان کسے برا لگ سکتا ہے  لیکن سوچیں کہ آپ اپنا چسکا پورا کرنے جائیں تو پتا چلے کہ آج تین سو ممبران کا موڈ نہیں تھا لہٰذا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب کل ان صاحبان کا موڈ بنا تو پھر دیکھیں گے  اور  وزیر با تدبیر حاضر ہوں گے؟یا نہیں اور اجلاس پھر ملتوی ہو جائے گا ۔

 -یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے  تلخیص   کر کے دیا ہے

پیر، 21 اپریل، 2025

ایسٹر کے تہوار کی تاریخی اہمیت

   یہ روائت ون گارٹن  شہر میں  چلی  آ رہی ہے کہ   موسم سرما کے اختتام پر  جب  پورے ماحول میں  بہاروں کی آ مد کا  پتا دیتیں  نرم ہوائیں فضاؤں میں       خوشبو اور رنگ بکھیرتی ہیں، تو دنیا بھر کی مسیحی برادری ایک ایسے روحانی اور خوشی سے بھرپور تہوار کا جشن  ایسٹر  مناتی ہے-ایسٹر کا تہوار  جو نہ صرف ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد ہے بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی پیغام دیتا ہے،  ۔ایسٹر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ یہ عیسائی عقیدے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندگی پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو مسیحی ایمان کے مطابق جمعہ کے روز صلیب پر چڑھائے گئے اور پھر اتوار کو زندہ ہو کر واپس آئے۔بائبل کی مقدس روایات کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے دن مصلوب کیے جانے کے بعد ان کا جسد مبارک صلیب سے اتار کر ایک چٹانی غار میں دفن کیا گیا۔ اس غار کے دہانے کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا گیا تھا۔تاہم، روایات بیان کرتی ہیں کہ جب کچھ افراد اتوار کے روز اس غار پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ پتھر ہٹا ہوا ہے اور غار خالی ہے۔


اس منظر نے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ اسی واقعے کی یاد میں اتوار کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ایسٹر کی تاریخ کیسے طے ہوتی ہے؟ایسٹر کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے، کیونکہ یہ قمری کیلنڈر کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر، یہ تہوار موسمِ بہار کے پہلے مکمل چاند کے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مارچ کے آخر یا اپریل کے وسط تک کبھی بھی آ سکتا ہے۔ اس گنتی میں مسیحی روایتی چاند کیلنڈر کی جھلک نظر آتی ہے، جو قدرتی نظم و ضبط سے جڑا ہوا ہے۔ایسٹر کے موقع پر جو علامتیں سب سے نمایاں ہوتی ہیں وہ ہیں رنگین انڈے اور خرگوش انڈا نئی زندگی، تخلیق اور اُمید کی علامت سمجھا جاتا ہے، جو حضرت عیسیٰ کی واپسی کی یاد بھی دلاتا ہے۔جبکہ خرگوش ایک قدیم علامت ہے، جو افزائش اور بہار کی آمد کا پیغام لیے ہوتا ہے۔ان رنگ برنگے انڈوں کو تلاش کرنے کا کھیل، جسے ’ایسٹر ایگ ہنٹ‘ کہا جاتا ہے، خاص طور پر بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ چاکلیٹ، رنگین پیپرز میں لپٹے تحائف، اور خرگوش کی شکل کے میٹھے لوازمات اس تہوار کو نہایت دلکش بنا دیتے ہیں۔


ایسٹر سے پہلے کا عرصہ، جسے ”لینٹ“ کہا جاتا ہے، چالیس دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران مسیحی برادری روزہ، عبادت اور سادگی کی زندگی کو اپناتی ہے۔ کچھ مخصوص کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے تاکہ جسمانی خواہشات سے بالاتر ہو کر روحانیت کی طرف بڑھا جا سکے۔ ایسٹر اس چالیس روزہ ریاضت کا اختتام بھی ہوتا ہے، جس کے بعد خوشی اور جشن کا آغاز ہوتا ہے۔ شہرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جہاں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں  عیسائی روایات کے مطابق گالگوتھا'حضرت عیسیٰؑ کے پہلو میں پیوست کردیاتا کہ حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کے خاتمے کا یقین ہو جائے ۔نیزہ مارنے کے سبب حضرت عیسی ٰ ؑ کے خون کے چھینٹے اس رومن سپاہی کے چہرے پر پڑے جیسے ہی مسیح کا خون اس سپاہی کے منہ پرپڑا تو اسے اس کے معجزاتی کرشموں کا احساس ہونا شروع ہوگیا لہذا اس نے گالگوتھا کی مٹی کے ساتھ آمیزہ بنا کر ان خون کے قطروں کو ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔بپتسمہ (baptized) لینے کے بعد اس سپاہی نے یروشلم کو خیر باد کہہ دیااور عیسائیت کا مبلغ بن گیااور اسی پاداش میں اسے قتل کردیا گیا اس سپاہی نے حضرت عیسی ٰ کے خون اور مٹی والا صندوق مرنے سے پہلے چھپا دیا جو صدیوں چھپا رہا ۔


پھر ایک نابینا شخص کو وہ صندوق ملا جس کی اطلاع ملتے ہی عیسائی شہنشاہ ہنری سوئم ، پوپ اور مقامی ڈیوک بھی پہنچ گئے ۔ نابینا کو صندوق کی برکت سے بینائی مل گئی لیکن ساتھ ہی صندوق کی ملکیت کا تنازعہ کھڑا ہو گیا جو خون خرابے تک جا پہنچا بالآخر عیسائی شہنشاہ ہنری سوئم ، پوپ اور مقامی ڈیوک نے حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھائے جانے والے مقام کی مٹی اور خون کا آمیزہ برابر تقسیم کرلیا۔ قصہ مختصر یہ کہ مقدس خون اور خاک کے آمیزے کا ایک چھوٹا سا حصہ کئی معجزات بکھیرنے اور مزیدکئی حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد وین گارٹن (Weingarten) میں پہنچ گیا جہاں گیارھویں صدی عیسوی میں جس تاریخ کو یہ مقدس خون اور خاک کا تبرک اس قصبے میں پہنچا وہ ایسنشن ڈے (Ascension day) کے بعد آنے والا جمعہ تھا ۔اسی دن کی یاد میں گذشتہ کئی صدیوں سے حضرت عیسی ٰ ؑ کے خون کا جلوس ایسنشن ڈے(جو ایسٹر کے چالیس روز بعد منایا جاتا ہے) کے بعد آنے والے جمعہ کو وین گارٹن (Weingarten) کی گلیوں اور سڑکوں میں اپنے مقرر کردہ روٹ پر نکالا جاتا ہے اس جلوس کوبلٹ رٹ (Blutritt) کہا جاتاہے جس میں ایک بلڈ رائڈر (خونی گھڑ سوار )ایک جواہرات جڑی صلیب جس میں یہ خون اور خاک کڑھائی کی طرح پرو دیا گیا ہے کو اٹھائے نکلتا ہے جس کے ساتھ دو سے تین ہزارگھڑ سوار(بلڈ رائیڈرز blood riders) ٹیل کوٹ اور مخصوص ہیٹ پہنے شریک ہوتے ہیں اور پوری دنیاسے ہزاروں لاکھوں افراد یہ خون کا تاریخی جلوس دیکھنے جمع ہوتے ہیں ۔


اس جلوس کے دوران والدین اپنے نوجوان بچوں کوتھپڑ مارنے کی رسم بھی ادا کرتے ہیں ۔حضرت عیسی ٰ کے خون میں لتھڑی خاک (تعزیہ )کے ساتھ نکالا جانے والا یہ جلوس 950سال سے وین گارٹن (Weingarten) میں جاری ہے اسی طرح کے جلوس (Blutritt) یورپ اور جرمنی کے مختلف علاقوں میں بھی نکالے جاتے ہیں ۔ لیکن Weingarten کا جلوس یورپ میں سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔

اتوار، 20 اپریل، 2025

انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز تہہ میں دبے گمشدہ شہراٹلانٹس کا انکشاف

   میں لکھنے  سے پہلے حسب معمول انٹر نیٹ پر سرچ کر رہی تھی کہ  اچانک میری نظروں کے سامنے ایک   آرٹیکل  آ گیا جو انٹارٹیکا  سے متعلق تھا بس میں نے اپنی پوری توجہ ادھر لگا دی -کیونک میں اکثر یہ ضرور سوچتی تھی کہ کینیڈا کی سرزمین پر  تین ہزار سے زائد اقسام کی چھوٹی سے چھوٹی اور قوی الجثہ ڈائناسور کس طرح زندہ رہی ہو ں گی  چنا نچہ اس مضمون سے   مجھے انٹارکٹیکا کی تہہ میں ناسا کی دریافت ایک اٹلانٹس شہر کی ہسٹری ہاتھ لگی-اٹلانٹس کے تذکرے سے پہلے یہ بھی اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گی پتھر کے زمانے  کا مکمل شہر بھی بحر اوقیانوس  کی میلوں نیچے  تہہ میں دریافت ہو چکا ہے  اب  بات کرتے ہیں  کہ اٹلانٹس شہر  کیسا تھا -مبصرین نے افریقی ساحل سے 600 میل دور سمندر کی تہہ میں ایک بڑے شہر کی لائنوں کی نشاندہی کی تھی۔ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اس ممکنہ شہر کا احاطہ ہو سکتا ہے جس کا ذکر یونانی فلسفی افلاطون نے کیا تھا تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ یہ لائنیں سونار سے حاصل کی گئی معلومات ہیں۔-


ایسا نہیں تھا کہ اٹلانٹس کوئ چھوٹا موٹا سا شہر تھا بلکہ یہ زندگی سے بھرپور ایک ایسا شہر تھا جس میں زندگی سانس لیتی تھی اس کے اچانک غائب ہونے سے دنیا حیران ہو گئ لیکن پھر بھول بھی گئ کہ یہی زندگی چلن ہے-لیکن یہ شہر محققین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا  رہا ہے۔گوگل کے بیان کے مطابق اس معاملے میں جو چیز لوگوں کو دکھائی دے درہی ہے وہ سمندری تہہ سے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے کے عمل کا طریقہ ہے۔ یہ لکیریں اعدادوشمار جمع کرنے والے کشتیوں کے راستے کی نشاندہی کرتی ہیں۔خیال رہے کہ گوگل ارتھ کی مدد سے کئی دلچسپ دریافتیں کی گئی ہیں جن میں موزنبیق میں پریسٹائن کے جنگلات بھی شامل ہیں جو ماضی کی نامعلوم انواع کا گھر ہوا کرتے تھے اور وہیں قدیمی رومن وِلا کے بقایاجات ملے تھے۔دو ہزار سال قبل افلاطون نے پہلی مرتبہ تصوراتی شہر اٹلانٹس کا تذکرہ کیا تھا جو قدیم زمانے میں ہی تباہ ہو گیا تھا افلاطون نے ایک ایسے شہر کے بارے میں لکھا ہے جو بہت ترقی یافتہ تھااوردولت اور انتہائی خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال تھا۔اس شہر کے بارے میں یہ بحث عام ہے کہ اگر یہ شہر تھا تو کس جگہ تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شہر کیوبا کے نزدیک تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تصوراتی شہر بحرِ اوقیانوس کے درمیان واقع تھا۔


تہہ میں دبے گمشدہ شہر کے بارے میں نئے انکشافات نے دنیا بھرکے  سائنسدانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کو چکرا کر رکھ دیا ہے، ناسا کی جانب سے اس گمشدہ شہر کے حوالے سے جو نئی تصاویر پیش کی ہیں ان کے مطابق یہ شہر اپنے دور کے بہترین فن تعمیر کا نمونہ تھا بلکہ اس شہر میں ہزاروں سال قبل ہونے والی تعمیرات موجودہ دور کے جدید فن تعمیر سے کسی طرح کم نہیں تھیں، ریسرچرز نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ گوگل ارتھ نے اس شہر میں ایک عظیم الجثہ سیڑھی کاپتہ چلایا ہے جو گوگل کی تحقیق کے مطابق ایک پہاڑ کے قریب سے ملی ہے ۔ محققین کاخیال ہے کہ اس دور میں لوگ پہاڑ پر چڑھنے کیلئے یہ سیڑھی استعمال کرتے ہوں گے۔ محققین کے مطابق یہ سیڑھی یو ایف او پر اترنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی یا یو ایف او کے لائٹ ہائوس تک پہنچنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی جو یو ایف او کی جانب آنے والوں کو راہ دکھانے کیلئے لگائے گئے ہوں گے۔


ناسا کی نئی دریافت کے بعد اس پراسرا علاقے کی پراسراریت میں اضافہ ہوگیاہے ،لیکن اب وقفے وقفے سے ہمیں اس علاقے کے بارے میں نئی معلومات ملنے کے ساتھ ہی نئی نئی تصاویر بھی مل رہی ہیںجس سے ہمیں اس خطے میں جاری تبدیلیوں کا پتہ چلنے کے ساتھ ہی ایسے حیرت انگیز شواہد بھی مل رہے ہیں جن سے اس برفانی براعظم میں ماضی میں موجود زندگی اور اس علاقے میں رہنے والوں کے مہذب ،تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہونے کی بھی نشاندہی ہورہی ہے اوریہ ظاہر ہورہاہے کہ اس حیرت انگیز براعظم میں برف تلے قدیم اسٹرکچر موجود ہیں،جن کے منظر عام پر آجانے سے اس علاقے میں موجود تہذیب کاپتہ چلانا آسان ہوجائے گا۔حال ہی میں ناسا نے سیٹلائٹ کے ذریعے جس پراسرار سیڑھی کی تصویر جاری کی ہے اسے بہت سے حلقے قدیم اہرام یا اٹلانٹس میں موجود قدیم دور کے عبادت خانے سے تعبیر کررہے ہیں۔


حقیقت کیا ہے اور نئے تصویر کسی سیڑھی کی ہے ،کسی اہرام کی ہے یا کسی عبادتگاہ کی ہے ،اس حوالے سے بحث غالباً اس علاقے میں زمین کے نیچے دبے ہوئے کسی اور آثار کی تصاویر سامنے آنے تک جاری رہے گی تاہم ناسا کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی تازہ ترین تصاویر سے اس خیال کی تصدیق ہوگئی ہے کہ انٹارکٹیکا میں قدیم تہذیب دفن ہے ۔خیال کیا جاتاہے کہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کے نیچے اٹلانٹس کا 12ہزار سال قدیم شہر دبا ہواہے ،اور 12ہزار سال قبل تک انٹارکٹیکا میں برف کانام ونشان تک نہیں تھا اور اٹلانٹس نامی یہ پر رونق شہر آباد تھا لیکن پھر اس شہر کو برف نے ڈھانپنا شروع کیا اور اس پورے شہر کو برف نگل گیا۔ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی انٹارکٹیکا کی تصاویر سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس کے نیچے ایک شہر کے آثار موجود ہیں اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ آثار 12ہزار سال قبل موجود اٹلانٹس کے ہیں جس کا کوئی سراغ نہیں مل رہاتھا۔ گوگل کی اس سے قبل جاری کی گئی تصاویر سے یہ بھی ظاہر ہوتاتھا کہ ایک اہرام جیسی عمارت کا اوپری حصہ اب برف سے سراٹھارہاہے۔اس طرح نئی تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بھی کسی حد تک ثابت ہوتاہے کہ ہزاروں سال قبل آباد اٹلانٹس نامی شہر کے لوگ بھی مصر کے قدیم لوگوں کی طرح فن تعمیر کے ماہرتھے ۔اس خیال کو ماہرین کے اس خیال سے بھی تقویت ملتی ہے کہ برف سے سر اٹھاتا نظر آنے والا اہرام نما عمارت کا یہ سرا اس بات کاثبوت ہے کہ اس جگہ قدیم شہر اٹلانٹس آباد تھا جہاں خوبصورت عمارتیں اور اہرام موجود تھا لیکن یہ شہر برف میں دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیاتھا۔


 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر