بدھ، 23 اپریل، 2025

کپاس کی فصل سے ہمارا بے رحم رویہ

 کپاس  کی تباہی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب  کپاس کی  پیداوار دینے والی زرخیز زمینوں پر  گنے کی کاشت شروع کی گئ  اور گنے کی کاشت زاتی  منافع کی بنیاد پر تھی  کیونکہ صاحب اقتدا ر طبقے  نے چینی  کا   منافع بخش کاروبار شروع کیا   اس کاروبار میں  ارب پتی خاندان کے خاندان  ملوں کے مالک بن گئے او رقومی مفاد پر زاتی مفاد غالب آ گیا- طرفہ تماشہ   کاشتکاروں  پربھاری ٹیکسز  لاگو کئے گئے  اور بجلی کی مہنگائ   نے کپاس کی فصل   اور فوائد سے  قوم کو محروم کر دیا  -اس وقت صورت حال یہ ہے    کہ ذرائع  وزارت خوراک و تحقیق کے مطابق، وزیراعظم کو رپورٹ دی گئی کہ پچھلے دس سالوں میں نہ کوئی نئی کپاس کی اقسام متعارف کرائی گئیں اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تحقیق کی گئی۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2012-13 میں 1 کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے گھٹ کر 2024-25 میں صرف 50 لاکھ گانٹھوں پر آ گئی ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ذرائع نے بتایا کہ "کپاس   کے اوپر  ہونے کی وجہ سے PCCC فنڈز سے محروم رہی، جبکہ PARC       ہونے والی  فیصلہ سازی سے روک دیا گیا۔ وزیراعظم کو زراعت سے جڑے افراد اور تنظیموں کی جانب سے بارہا شکایات موصول ہوئیں کہ ادارے زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی، مگر کوئی قابل عمل منصوبہ پیش نہ کیا جا سکا، جلہ جیم (نامہ نگار )مثالی کاشتکار میاں محمد عاصم ارائیں نے کہا کہ کپاس کی نقد آور فصل صرف کاشتکار کی ہی ضرورت نہیں بلکہ زر مبادلہ کا باعث ہے۔کپاس کی فصل کی بربادی پر حکومت فوری توجہ کر ے  جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چارلاکھ  گانٹھ روئی موجود ہے مگر ان کا کوئی خریدار نہیں  زراعت ملکی مجموعی آمدنی کا خاطر خواہ حصہ ہے مگر ہر فصل پر کسانوں کو تحفظات ہیں  جو قومی المیہ ہے۔


انہوں نے وزیر اعظم سے  کاٹن کی عدم  فروخت کا نوٹس لے کر کسانوں کے مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا ہے ۔پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل ملز بند کیوں پڑی ہیں؟سندھ میں کپاس کی 100 فیصد فصل تباہ: محکمہ زراعت سندھ کیا پاکستان 21 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف حاصل کر پائے گا؟پاکستانی کسانوں نے کپاس کی کاشت سے منہ موڑ لیا، آخر وجہ کیا ہے؟آل پاکستان کسان اتحاد کے جزل سیکریٹری رانا محمد ظفر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کپاس کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن سرکار آج تک پاکستانی ماحول کے مطابق بیج تیار نہیں کر سکی ہے۔ پھول اور گوڈی کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً چھ سو سے زیادہ بیج کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر جعلی اور ناقص معیار کا بیج تیار کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہے اور معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن سرکار ایکشن نہیں لے رہی۔’ہندوستان میں صرف 50 کمپنیاں کپاس کا بیج بناتی ہیں اور وہ معیاری ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے اور معیار بھی بہتر ہے۔ انڈین پنجاب میں کسان کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں کسان کی آمدن کا بڑا حصہ صرف بجلی کے بلوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ جعلی پیسٹی سائیڈ اور ادویات کی بھرمار ہے اور کسان کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جعلی ادویات استعمال کرکے نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘ایپٹما پنجاب کے چیرمین اسد شفیع نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیکسٹائل اور کسان کی تباہ حالی میں بیوروکریسی کا بڑا کردار ہے۔ بیوروکریسی نے دھاگے کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔جس کی وجہ سے درآمد سستی ہو گئی ہے اور کپاس کے کاشت کار نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔


 اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دبئی  کے راستے بھارتی دھاگہ درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے‘جبکہ چائنا  سے بھی امپورٹ  جاری ہے - (اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ تقریباً 11لاکھ 92 ہزار بیلز امریکہ سے خریدی گئی ہیں۔ پوری دنیا کے دس سے زیادہ ممالک سے ابھی تک 30 سے 35 لاکھ بیلز درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 55 لاکھ بیلز درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔’اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سفید لنٹ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے سفید لنٹ درآمد کرنے پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ایسے فیصلوں کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔  ایک وقت تھا کہ پاکستان کپاس کا تقریبا سب سے بڑا برآمدکندہ تھا۔ لیکن آج حالات 180 ڈگری سے تبدیل ہو گئے ہیں۔‘ان کے مطابق ’مکمل قصور سرکار کا نہیں ہے، کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں کپاس کے بیج اور فصل پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام نہیں ہو سکا۔ ملز مالکان نے ادارے بنائے، چائنیز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ (پی سی جی اے)کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ روئی(درآمدی روئی)ڈیوٹی فری اور ٹیکس فری ہے جبکہ پاکستانی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔


امریکن کاٹن کو پاکستان میں امپورٹ کے لیے فری ہینڈ حاصل ہے جب کہ پاکستانی کاٹن پر  ایک درجن سے زائد ڈیوٹیز اور ٹیکس عائد ہیں۔بھاری ٹیکسوں نے کاشتکاروں اور کاروباری طبقات کو کپاس کی فصل سے بہت دور کر دیا ہے جبکہ کپاس لاوارث فصل ہو کر رہ گئی ہے۔ملکی جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چار لاکھ گانٹھ سے زائد روئی غیر فروخت شدہ سٹاک میں موجود ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ پی سی جی اے نے بطور ایسوسی ایشن    کے بھرپور مہم، تحریک  اور عہدے داروں،ممبران  کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کپاس کی بقا و بحالی کے لیے حکومتی اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومتی سطح پر  سود مند اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔کپاس کی بقا و بحالی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہ ہے۔ہمارا اور ہمسایہ ملک کا موسم، کلچر، کاشتکاری کے طریقہ کار اور دیگر عوامل یکساں ہیں۔گزشتہ 20 سال میں ہمسایہ ملک میں کپاس کی فصل 35 ملین (تین کروڑ 50 لاکھ) گانٹھ سے زائد ہے جبکہ وطن عزیز میں کپاس کی پیداوار پانچ سے آٹھ ملین (5080 لاکھ) گانٹھ  سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر سے آٹھویں نمبر پر چلا گیا ہے ٹیکسٹائل اور کپاس کی فصل کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر *کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی: تحقیق و ترقی میں عدم توجہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ*پی سی جی اے کی جانب سے آج جاری کردہ کپاس کے اعدادوشمار کے مطابق یکم ستمبر 2024 تک کل کپاس کی آمد 1,225,946 گانٹھیں ہیں جبکہ گزشتہ سال 2023 میں  آج کی تاریخ میں کپاس کی آمد 3,041,104 گانٹھیں تھیں۔ یعنی کے گزشتہ برس کے مقابلے میں امسال 60% کپاس کی گانٹھیں کم ہوئی ہیں۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو امسال ابتک 4 لاکھ 52 ہزار 855 گانٹھیں پیدا ہوئیں


 جبکہ گزشتہ سال آج کی تاریخ میں 10 لاکھ 68 ہزار 796 گانٹھیں حاصل ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں پنجاب میں 58% کم پیداوار ہوئی۔ جبکہ سندھ میں امسال ابتک 7 لاکھ 73 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 19 لاکھ 72 ہزار 308 گانٹھیں پیدا ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں سندھ میں 60% کم پیداوار حاصل ہوئی۔ جبکہ بلوچستان میں امسال ابتک 34 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں ہیں -کپاس کی اگیتی کاشت میں ایک ماہ کی تاخیر، جون و جولائی میں گرمی کی لہر کے طویل دورانیہ کی وجہ سے فروٹ شیڈنگ، اگست میں شدید بارشوں اور سفید مکھی و گلابی سنڈی کا حملہ کپاس کی پیداوار میں کمی وجوہات ہیں۔ اسی طرح اگر کپاس کے رقبہ میں کمی کی بات کی جائے تو اس کی بنیادی وجوہات میں حکومتی سطح پر کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان نہ ہونا، دیگر مسابقتی فصلات کے مقابلہ میں کپاس کی فصل کا منافع بخش نہ ہونا، مارکیٹ میں مڈل مین کی مناپلی کی وجہ سے قیمت میں مصنوعی گراوٹ کی وجہ سے کپاس کے کاشتکاروں کو نقصان ہورہا ہے۔کپاس کی پیداوار اور رقبہ میں 2016 سے مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہمیں اپنی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے چیلنجز سے بچاؤ کے لیے کپاس کی جدید جینیاتی اقسام تیار کرنا ہوں گی جس کے لیے کپاس کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کثیر فنڈنگ درکار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قومی سطح پر پاکستان کے سب سے بڑے کپاس کے تحقیقی ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو ٹیکسٹائل انڈسٹری اور حکومت کی جانب سے سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پورے ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ 2016 سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی ایماء پر تقریباً 80 فیصد ٹیکسٹائل ملوں نے کاٹن سیس دینا بند کر دیا ہے اور تب سے کپاس کی پیداوار جمود کا شکار ہے۔


1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر