ہر زمانے میں اللہ پاک مجبور مخلوق کی داد رسی کے لئے کسی کا انتخاب کرتا ہے شنتا راتری بھی انڈونیشا کی ٹرانس جنڈر کمیونٹی کے لئے سایہ دار درخت کی مانند تھیں لیکن مارچ 2025 کا مہینہ انڈونیشیا کی ٹرانسجنڈر کمیونٹی کے لئے ایک بڑے نقصان کا مہینہ رہا جب ان کی مذہبی راہنما اور مدد گار شنتا راتری ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں ۔ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان اب اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں ۔اور خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔
انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں -ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔
رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔ ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔چار برس قبل پارلیمان سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر دوبارہ شور کیوں؟اگر آفس کارڈ نہ ہوا تو مجھے دوبارہ سیکس ورکر سمجھا جائے گا‘ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔
انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی ہے
دنیا کے تمام مہذب لوگوں کو ٹرانسجنڈر کمیونٹی کا خاص خیال رکھنا چاہئے
جواب دیںحذف کریں