جمعہ، 2 فروری، 2024

گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی حساس علاقہ ہے

    گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی  اسٹرٹیجک علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کو جوڑتا ہے -آپ اس علاقے کو شاہراہ ریشم کے مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہین ۔ مشرقی حصہ اپنی بلند بالا خوبصورت برفانی چوٹیوں کی دولت سے مالا مال ہے۔ غیر ملکی کوہ پیماؤں کی پسندیدہ ان چوٹیوں میں مشہور زمانہ کے ٹو، بالتورہ، تیری کانگری، ہڈن پیک، گشہ بروم، براڈپیک، کے 6،کے7 ،پیو، ہرموش، دیران، راکا پوشی اور دستگل سر شامل ہیں۔ شاہراہ ریشم کے اس حصے میں خپلو، اسکردو، دیو سائی کا میدان، کچھورا جھیل، شنگریلا جھیل، کنکورڈیا، سنو لیک، عطاآباد جھیل سست اور خنجراب پاس سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سارا حسن رکھتے ہیں، بھارت نے وہاں پر کافی فلیتے لگانے کی کوشش کی اور اس کی کوششوں کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، کئی عجیب واقعات ہوئے، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، ہائیکرز کو بے دریغ مار ڈالا گیا اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کو کافی نقصان پہنچایا گیا، کئی فوجی افسران شہید کئے گئے مگر پھر اِن واقعات کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ثبوت حاصل کر لئے گئے جن سے یہ پتہ چل گیا کہ کون سی طاقت ان واقعات کے پیچھے تھی۔

 جب     گلگت بلتستان    کے علاقے کے لوگوں کے لئے گندم کی سبسڈی ختم کر دی گئی ،وہاں عوام کئی روز سراپا احتجاج رہے۔ اس علاقے کے لوگوں کو یہ سبسڈی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس لئے دی تھی کہ وہاں گندم پیدا نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ رعایت اُن کو دوبارہ دی جاتی سو مرکزی حکومت نے وہ اب بحال کر دی ہے۔ اِس خطے میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے اِس لئے بھی کہ یہ ایک انتہائی اہم خطہ ہے مگر صاحبان اقتدار نے یہاں الٹی گنگا بہانے کا پروگرام بنا ڈالا ہے جس پر تیزی سے عمل درامد ہو رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان معاشی کوریڈور بنانے کا پروگرام روبہ عمل ہے، بھارت نے اس معاشی کوریڈور پر احتجاج کیا ہے اور اس کے علاوہ مغرب کو بھی یہ بات پسند نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اس پر گہری نظر رکھ رہا ہے اور حالات و معاملات خراب کرنے میں لگا ہوا ہے، اس وجہ سے اس علاقہ میں بےچینی پیدا ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہئے، 

ماضی کی حکومت نے پاسپورٹ کے حصول کو اس قدر مشکل بنا دیا تھا بلکہ اس کا حصول یا تو بڑی سفارش یا صرف رشوت کے ذریعے ہی ممکن تھا، نہ پاسپورٹ کا کاغذ تھا اور نہ ہی وہ چھپتا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے بچے غیرملکی تعلیم سے محروم ہو گئے۔ کئی لوگ ملازمتوں سے گئے۔ کئی تاجر بڑے بڑے آرڈر کو حاصل کرنے میں ناکام ہوئے، کئی لوگ رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونے سے رہ گئے اور ساری عمر کا ملال کا روگ لگا بیٹھے۔ اس شخص کی شبانہ روز کی کاوشوں نے پاسپورٹ کے محکمے کی ہئیت کو بدل ڈالا۔ پرانے تعطل میں پڑے پاسپورٹ کے منتظر لوگوں کے پاسپورٹ کو قلیل ترین مدت میں اُن کے حوالے کیا گیا اور ایک سسٹم وضع کرایا کہ پاسپورٹ کے حصول کا کیا طریقہ ہو گا، کتنی مدت میں کس کیٹیگری کا پاسپورٹ طلبگار کو مل جائے گا۔ ایسا شخص اگر گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری مقرر ہوا ہے تو اِس کے معنی ہیں کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ 

پاکستان کو حالات نے ایک عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے، اِس وجہ سے کہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اس کا اسٹرٹیجک محل و قوع ہے، اس کے پاس بے پناہ معدنی دولت ہے اور سارے وسائل سے مالا مال ممالک کے راستے یہاں سے گزرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اِن حقیقتوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں،پاکستان کیونکہ نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں اتر رہا ہے، کمزور ہے، ملک میں بدامنی ہے، اس لئے اُس کو کافی مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسری ابتلاء میں اُسے مبتلا کر دیا جاتا ہے، پاکستان ایک طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف طالبان اُس کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، اب سیاسی و خاکی کشمکش کے ساتھ میڈیا کے ساتھ بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے، یہ بارودی فلیتے ہیں انہیں جلد سے جلد بے اثر کر دیا جائے تو پاکستان کے لئے بہتر ہے، اِن معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا دینا چاہئے۔ 

 دُنیا کے ممالک سارے عالم میں سونے کی تلاش کرتے رہے کہ کہیں سے بڑی تعداد میں سونے کے ذخائر نکل آئیں، وہ علاقہ پاکستان نکلا جس میں سونا بڑی مقدار میں موجود ہے۔ ایک ریکوڈک ہے جہاں 1400 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر ہیں اور ہنزہ کی پہاڑیوں میں اِس سے کہیں زیادہ سونا موجود ہے۔ اِس لحاظ سے گلگت اور ہنزہ کو پاکستان کو پُرامن رکھنا چاہئے اور یہاں پر گرفت کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ سیکورٹی کے زاویہ سے بھی اس کی سیکورٹی انتہائی سخت کرنا پڑے گی۔ چن چن کر ایسے افسران کو تعینات کرنا پڑے گا جو ملک و قوم کے لئے اپنی جان نثار کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور ساری صورتِ حال کو سمجھتے ہوں تاکہ ہم آسانی سے پاکستان کی فلاح و بہبود کے پروگرام کو پایۂ تکمیل کو پہنچا سکیں، معاشی کوریڈور کو مکمل کرسکیں، سیاسی کشمکش سے گریز، جنگجوئی اور مہم جوئی سے اُسی طرح سے گریز کرنا ہو گا جس طرح سے چین نے کئی عشروں تک خاموش رہ کر اپنے آپ کو معاشی طور پر منظم کیا یا پھر روس نے اپنی معیشت کی بحالی کے بعد اب دُنیا کے معاملات پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور تمام افراد کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اِس میں پاکستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے سامان اسی زمین میں  ہیں،   


جمعرات، 1 فروری، 2024

حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م مو سی علیہ ا لسلا م

 

 


حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م  مو سی  علیہ ا لسلا م   و خواہر اما م رضا علیہ السلام  ایک بلند و بالا مقام کی حامل بی بی تھیں۔ آئمہ طاہرینؑ نے آپؑ کا تذکرہ بڑے احترام سے کیا ہے حتی آپؑ کی ولادت سے پہلے بلکہ آپؑ کے والد ماجد کی بھی ولادت سے پہلے ان معظمہ کا نام بعض آئمہؑ کی لسان مبارک پر جاری ہوا اور انہوں نے ان معظمہؑ کے حوالے سے بعض فرامین جاری  کئے -امام صادقؑ علیہ السلام ایک اور حدیث میں ولادت سے قبل آپؑ کی زیارت اور جائے دفن کا ذکر کرتے ہیں اور شیعوں کو اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قم شہر، ہمارا حرم ہے، وہاں  ائمہ کی  اولاد میں سے فاطمہ نامی ایک خاتون دفن ہوں گی، جو بھی ان کی زیارت کرے گا، اس کیلئے بہشت ثابت ہے-

آپ کی والدہ ماجدہ تقویٰ اور شرافت میں تاریخ کی ایک کم نظیر شخصیت ہیں۔واضح ہے کہ ماں باپ کی شخصیت کے اولاد کی روح اور جسم پر اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خصوصیت حضرت فاطمہ معصومہؑ کے وجود میں بھی ظاہر ہوئی۔ آپؑ کو دونوں طرف سے فضائل ہی فضائل وراثت میں ملے۔ حضرتؑ کی باقی اولاد پر حضرت معصومہؑ کی برتری کا راز شاید اسی نکتے میں پنہان ہے۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس راہ میں حضرتؑ کی ذاتی سعی و کوشش بے اثر تھی بلکہ تمام انفرادی شائستگیوں کے علاوہ جو آپؑ نے اپنی ذات میں ایجاد کی تھیں؛ ان عوامل و اسباب سے بھی اخلاقی و عملی ترقی کے مراحل کی تکمیل ہوئی۔

 مروی ہے کہ حضرت رضاؑ نے فرمایا: جو قم میں معصومہؑ کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔ اگرچہ حضرت معصومہؑ کے مقام و عصمت پر شواہد و قرائن بہت زیادہ ہیں۔ تاہم امامؑ کا یہ فرمان بھی شاید اشارہ ہو کہ حضرت معصومہؑ عصمت کے مقام کی حامل ہیں، در ضمن یہ سخن اس امر کو بھی واضح کر رہا ہے کہ: یہ لقب حضرت رضاؑ سے فاطمہ کبریٰ کو عطا ہوا ہو ورنہ ان کا نام معصومہؑ نہیں تھا۔وسیع پیمانے پر شفاعت-انبیا و اولیا کی شفاعت کا عقیدہ مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے۔ شفاعت کے اعلیٰ ترین مقام پر رسول اکرمؐ فائز ہیں کہ جسے قرآن کریم میں مقام محمود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خانوادہ رسول کی دو خواتین عظیم مقامِ شفاعت کی حامل ہیں:۱۔خاتون محشر، صدیقہ اطہر، حضرت فاطمہ زہراؑ-۲۔ شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہؑ کہ جن کا مقام حضرت زہراؑ کے بعد ہے۔ امام جعفر صادقؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: تَدخل بِشفاعتها شیعتنا الجنته باجمعهم. ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

شہر مقدس قم میں تشریف آوری:صاحب كتاب تاريخ قم نے لکھا ہے کہ: سن 200 ہجری میں خلیفہ عباسی مامون نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینہ سے مرو (خراسان) اپنا ولیعہد بنانے کے لیے بلایا اور سن 201ہجری میں امام رضا کی بہن اپنے بھائی سے ملنے کے لیے مرو کی طرف روانہ ہوئیں -لیکن جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہلبیت علیہ ا لسلا م جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستے میں حائل ہو گئے اور حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کر دی۔ نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔سیده  معصومہ   سلا م اللہ علیہ نے بهی قم کا انتخاب کیا:بہر کیف حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفر کو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیااور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے ۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے اپنے خادم سے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لیے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ  شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ، 

 اب یہ نورانی مکان شہر قم میں بیت النور کے نام سے مشہور ہے اور ساری دنیا سے آنے والے زائرین بی بی کے نورانی اور مقدس حرم کی زیارت کرنے کے ساتھ ساتھ بی بی کی اس عبادتگاہ کی بھی زیارت کرتے ہیں۔بی بی سلا م اللہ علیہ کی وفات کے بارے میں بھی کتب متقدمین میں کوئی ذکر نہیں ہوا، لیکن کتب متاخرین میں انکی شہادت 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری کو ذکر کی گئی ہے۔ آپ کی 28 سال کی عمر میں شہادت ہوئی-۔نقل ہوا ہے کہ جب بی بی سلا م اللہ علیہ کو دفن کرنے کے لیے قبر کو تیار کیا گیا، اب یہ مسئلہ تھا کہ کون قبر میں جائے اور کون بی بی کو دفن کرے، ابھی  جنازے کے  شرکاء نے دیکھا کہ اچانک  ایکسمت  سے  گھوڑے پر سوار  دو نقاب دار  آتے ہوئے دکھائی دئیے اور انھوں نے آ کر بی بی کے   دفن کا سارا انتظام کیا۔  دفن کرنے کے بعد وہ دو بندے کسی سے بات کیے بغیر گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں سے آئے تھے، وہاں واپس چلے گئے۔ پھر یہاں نماز مودت ادا کرنے کے لئے محبان اہلبیت علیہ ا لسلا م  جوق در جوق آنے لگے ۔ عاشقان ولایت وامامت کے لیے یہ بارگاہ دار الشفاء ہوگئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا ۔ مشکل کشاء کی بیٹی ،لوگوں کی بڑی بڑی مشکلوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور نا امیدوں کے لیے مرکز امید بن گئیں ۔ 

 ۔

 

بدھ، 31 جنوری، 2024

کلّو چھو لے والے کی شادی part-2

 

- کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ  گئ-   قسط نمبر  1 یہاں پر ختم ہوئ تھی

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا- میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھےکچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،


امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ مگر کیسے ؟


دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن اگلی گلی میں تو رہتی ہے ،اگلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی تھی      -بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آگئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے

 مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسمیں دلہن کو  یکّہ سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئیں ،اور پھر دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،


دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ دولہا نے سامنے ہی بچھے پلنگ پر دلہن کو لڑھکا دیا ،اور گھر کی عورتوں نے اس کو سیدھا کیا لیکن اس نے شرم کے مارے اپنے گٹھری نما ہاتھ پاؤں کھولے نہیں یوںہی گھٹنو ں میں سر دے کے بیٹھی رہی ،اب کھیر چٹائ کی رسم کی پکار پڑی لیکن اس کے ساتھ ہی کمرے میں ایک اور آواز گونجی سب کمرے سے چلے جاؤ دلہن کے دادا دعا ء کرنے آ رہے ہیں بس کمرے میں دولہا دلہن رہیں گے اس کے ساتھ کمرے سے سارے بچّے ہنکا دئے گئے اور ہم دونوں سہیلیوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی ،یہ میرے بچپن کی ایک معصوم سے نوجوان کی یادگار شادی تھی ،ان کی رسمیں انکی بولیان کا ہر انداز ہم سے جدا تھا لیکن بہت ہی سادہ اور  خوش رنگ ،یہ میرے ابتدائ بچپن کا ایک یادگار واقعہ بن چکا تھا  

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر