ہفتہ، 20 جولائی، 2024

جب حر نے جنت کا انتخاب کیا

 

کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کب توبہ کی توفیق میسر آجاءے تو ہوا یوں کہ امام عالی مقام نے جب سفر کربلا کے دوران زبالہ نامی قریہ کی جگہ میں قیام فرمایا اور کچھ آرام کے بعد دوبارہ سفر شروع کرنے کا ارادہ کیا تب حضرت عباس سے فرمایاپانی کا وافرذخیرااپنے ساتھ لے لو اطاعت گزار بھائ  نےفوراً   تعمیل کی اور بہت بڑی تعداد میں پانی سے بھرے مشکیزے اونٹوں پر لاد دئے گئے اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا  -درمیان راہ اچانک آپ  علیہ السلا م  کے اایک صحابی نے نعرہ تکبیر بلند کیاامام  نے بھی اپنی زبان الہام بخش پر تکبیر کے الفاظ دہرائے اورتکبیر بلند کرنے کا سبب دریافت کیا  انہوں  نے جواب دیا:مولا میں کچھ کھجورکے درخت دیکھ رہاہوں، ؛دوسرے ہمراہیوں نے تعجب خیز !لہجے میں کہا کہ ہم اس جنگل سے آشنا ہیں یہاں پر تو کوئی کھجور کاباغ ہی نہیں ہے ،امام  نے فرمایا: غور سے دیکھو!،کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟صحابیوں نے جواب دیا:مولا ہمیں تو گھوڑوں کی کچھ گردنیں دکھائی دے رہی ہیں ،حضرت نے بھی ان لوگوں کے قول کی تائید کی ،یکایک ابن زیاد کالشکر آنکھوں کے سامنے تھا،اور شدت تشنگی سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں امام سے یہ منظر کربناک دیکھا نہ گیاآپ نے حکم دیاکہ ان کو سیراب کرو! ہاں ! ان کے گھوڑے بھی پیاسے نہ رہ جائیں -اس لشکر کا کمانڈر ابن زیاد کی فوج کا ایک جری جرنیل  جس کانام حر بن یزید تمیمی تھا


اس دشت میں اس جرنیل کا تمام لشکر بہت پیاسا تھا اور تمام جانور بھی  پیاسے تھے  امام عالی مقام نے فوراً  اس لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے کہا اصحاب امام نے اس  پانی سے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے  دشمن کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانا شروع کیا، پانی سے بھرے برتن گھوڑوں کے سامنے رکھے گئے یہاں  تک کہ جانور بھی سیراب ہوگئے علی ابن الطعان کہتا ہے :کہ میں لشکر حر میں تھااور اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیاتھاجب میں پہونچا تمام لشکر والے اپنے جانوروں سمیت سیراب ہو چکے تھے اور مجھ پر پیاس کاشدید غلبہ تھا جیسے ہی امام حسین نے میری حالت قریب المرگ دیکھی تو پانی کی مشکوں سے لدے ایک اونٹ کی طرف میری رہنمائی فرمائی اور مزید فرمایا:کہ جاؤ !اور اس اونٹ کو بیٹھا کر اس سے پانی اتار کر پی لو !لہذا میں اونٹ کے قریب گیااور اس کو بیٹھاکر پانی اتار کر جیسے ہی پینا چاہتاتھاپانی میرے منھ سے نکل کر زمین پر بہنے لگا حضرتؑ نے یہ منظر دیکھا  بنفس نفیس خود تشریف لائے اور مشک کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے پانی پلانا شروع کیایہاں تک کہ میں سیراب ہوگیا،اور میرے گھوڑے نے بھی جی بھر کر پانی پیا-ابن زیادکا یہ لشکر   پانی پی کر آرام کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ظہر کاوقت ہو  گیا

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حر بن یزید ریاحی قوت ادب و تہذیب کے ذریعے ایک قدم حق کی طرف آگے بڑھا ؟جیسے ہی ظہر کاوقت ہواسر کار سیّد الشہدآ ءنے اپنے قافلے کے مؤذن جناب  حجاج بن مسروق جعفی سے فرمایا :اذان دو! پھر اس کے بعد حر کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا:کہ کیا تم پنے لشکر کے ہمراہ نماز پڑھو گے؟لیکن خلاف توقع لشکر دشمن کے سپہ سالار نے جواب دیا:فرزند رسول میں تو آپ  کی معیت  میں فریضہ ظہر ادا کروں گا  -یہ ادب و تہذیب سے مملوء نماز کہ جس کو وہ فرزند رسول کی اقتداء میں پڑھنا چاہتا تھا در واقع یہ تہذیب دشمن سے بے نیازی اور پشت دکھانے کے مترادف ہے یہ چیز ان کو ایک قدم خالق حقیقی سے نزدیک لے گئی اور یہی وہ بنیادی قدم تھاکہ جو ان کے اوپر باب رحمت کھلنے کاسبب قرار پایاغرض تمام لشکر نے امام  کی اقتداء میں نماز پڑھی 

امام روؤف نے جواباً ارشاد فرمایا:" نعم ،یتوب اللہ علیک "ہاں تمہارے لئے بھی امکان  توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤاللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے   اور جیسا کہ ابن نمای حلی اپنی کتاب مثیر الاحزان میں نقل کرتے ہیں کہ حر نے امام حسین کی خدمت میں عرض کی  یابن رسول اللہ!جس وقت میں کوفہ سے باہر آیا تو میری پشت کی جانب سے ایک آواز آئی کہ اے حر!تجھے جنت مبارک ہو !حضرت نے فرمایا:"لقد اصبت اجراً و خیراً"،حر تم نے خدا کی بشارت کو اچھی طرح پہچان لیااور یزیدیوں کو چھوڑ کر اہل بیت رسول سے ملحق ہو گئے اور خود کو اس بشارت تک پہونچا دیا-حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے  بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے   پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک فوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللّه بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین علیہ السلام  کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا 


 اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے پھر اس کے بعد حر نے امام  سے اجازت لی اور میدان کارزار کی طرف روانہ ہوئے کوفیوں سے شدید قتال کیا آخر میں  جا شہادت نوش کرکے اس بشارت کو پالیا   صحاب امام حسین  نے ان کے زخموں سے چور چور بدن کو زمین سے اٹھایا اور قریب خیمہ لاکر امام کے سامنے رکھ دیامولا حر کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کے خون آلود رخسار پر اپنا دست مبارک پھیرا چہرے سے غبار کربلا کو ہٹایا اور اس جملے کو فرمایا:"انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ"اے حر!تو دنیا میں آزاد ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا تھا اور آخرت میں نیک بخت اور خوش نصیب ہے  -اور حر نے دنیا کو ٹھکرا کر آخرت کی منزل مراد پالی


جمعہ، 19 جولائی، 2024

اسیران حرم دربار ابن زیاد میں

 

 چشم دید گواہوں  کے مطابق اسیران آل  رسول  اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں لایا گیا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسینؑ کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پھر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا  دیگر اسیر خواتین کے حصار میں تھیں اور دربار میں آنے کے بعد کونے میں بیٹھ گئیں۔عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان ہے کون ہے؟ جناب زینب  سلام اللہ علیہا نے جواب نہیں دیا۔عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: وہ پیغمبر کی نواسی زینب ہیں۔عبيدالله بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔


زینب سلام اللہ علیہا   نے اس بد بخت کو جواب دیا-- تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازااور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟زینب  سلام اللہ علیہا : اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کے مقدر میں اللہ تعالی نے شہید ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کریں گے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!ابن زیاد: اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کے خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو ٹھنڈک دی۔


زینب سلام اللہ علیہا : خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، ہمارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری دلی تسکین کا باعث ہو تو تم نے شفا کو پایا ہے۔ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور  قافیے میں بات کرتا تھازینب سلام اللہ علیہا نے جب کہا: «ہم نے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا..... اے ابن مرجانہ تمہاری ماں تم پرروئے.....ان جملوں اور جناب زینب (س) کی نپی تلی اور باوقار گفتگو کو سن کر ابن زیاد غصہ میں آ گیا اوراس نے جناب زینب  کو سزا دینا چاہی لیکن وہ اس پر قادر نا ہو سکا۔۔

اس کے بعد ابن زیادہ ملعون  نے امام سجا دعلیہ السلام  کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین علیہ السلام ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجادعلیہ السلام  نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجادعلیہ السلام نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین علیہ السلام کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا

: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے بڑھ کر فرمایااے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔ امام سجادعلیہ السلام  نے فرمایا -اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجادعلیہ السلام  نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے  فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔اسیران کربلا کے سامنے اپنی بے بسی دیکھ کراس ملعون نے دربار برخاست کر دیا 

جمعرات، 18 جولائی، 2024

جب ہنگام عصر تمام ہوا

 

ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب  صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل کرنے چلا ہئے ,,,,,جناب زینب کی تنبیہ وہ بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ تاکہ حسین کا بیمار اور باقی سب بھی جل راکھ ہو جائیں اور بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو چھوڑ کر جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی اور ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی


ایسے وقت میں بی بی زینب سیّد سجّاد کو خیمے میں چھوڑ کر چھوٹے بچّوں کوایک جگہ جمع کرنے کے لئےجیسے ہی سیّد سجّاد کے خیمے سے باہرآ  کر بچّون کی جانب متوجّہ ہوئیں ویسے ہی شمر لعیں اور اس کے ساتھیوں نے بیمار کربلا کے خیمے کو آگ لگا دی اور پھر بی بی زینب سب کو چھوڑ کر وارث امامت کی جان بچانے کے لئے بھڑکتے اورآگ اگلتے شعلوں کی پروا نا کرتے ہوئے بیمار کربلا کےخیمے میں داخل ہو کر جناب سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر اٹھا کرجلتے ہوئے خیمے سے باہر لےآ ئیں اور اپنے وارث امامت بھتیجے کو صحرائے کربلا کی گرم ریت پر لٹا دیا ,,,اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود  یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل مقصود تک ضرور پہنچا دے ،وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا


،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح کے اجالے پھیل رہئے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے ہوئے  گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔ قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں ا


ور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  فوج اشقیاء کے حکم سے  پس گردن بندھوائے  ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ( آپ ) کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا،،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا 


اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا خیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہئے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی پھو پھی کی جانب جلدی سے آگئے اور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہئے ،


منگل، 16 جولائی، 2024

عباس علمدارپیکر وفا و شجاعت کی مثال

 

حضرت غازی عباس علمدار  -تعا رف وسیرت وکردار  -حضرت عباس علیہ السلام کو ان دو کنیتوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ابو الفضل آپ کی اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ایک بیٹے کا نام ''فضل'' تھا کہ جس کی وجہ سے آپ کی کنیت ابوالفضل مشہور ہے اور یہ کنیت حقیقت میں آپ کی ذات کے عین مطابق ہے کیونکہ ابوالفضل کا معنی ''جود و سخاوت کے مرکز'' ہے"حضرت عباس علیہ السلام کے لئے فقط یہ فخر ہی کافی ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے بھائی ہیں سبحان اللہ.حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر اور شجاع  قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور  تھے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔

حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک  امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اہلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں  میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے


 چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن غازی عباس علیہ السلام ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کر کے پالا  تھا-  اور اسی  سبب ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فنو ن حربی ' سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی  عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔


باطل کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور ہر خیر و بھلائی کا علمبردار ہو گا۔ پس تاریخ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اہل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کی طرف سے برپا ہونے والی جنگوں میں حضرت عباس علیہ السلام دشمنوں کے خلاف لڑنے والے ایسے مجاہد اسلام تھے کہ جن کا سامنا کوئی نہیں کر سکتا تھا'آپ کی وفا اور شجاعت بے مثال ھے-  مولائے کائنات  کے د ور خلافت میں  جو جنگیں  اسلام دشمنوں کی جانب سے مسلط کی گئیں  ان جنگوں میں  جناب عباس علیہ السلام نے دشمنوں کے بڑے غرور و تکبر سے بھرے ہوئے جرنیلوں کو فی النار کیا اور دشمن کی پوری فوج پر موت کی پرچھائیوں کو طاری کر دیا  جناب عباس علیہ السلام کی زندگی میں لاتعداد لوگ ان کی جودوسخا کی بارش سے سیراب ہوتے رہتے تھے اور آنے والا کوئی بھی سائل اور محتاج کبھی خالی نہیں گیا تھا-حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی  -  

یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے پیٹھ پیچھے حملہ کردیا۔نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو زخمی ہوگئے۔ عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے۔ بازوؤں کے زخمی ہونے کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔امام حسین جب حضرت عباس کے قریب پہنچے تو وہ زخموں سے چور تھے، حضرت عباس نے اپنے بھائی  امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہی شہادت پائی۔ انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی


پیر، 15 جولائی، 2024

بی بی معصومہ قم سلام اللہ علیہا

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  

                                                                                                                                                                                             

بی بی  معصومہ  قم سلام اللہ علیہا کا اسم مبارک فاطمہ ہے اورآپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔آپ کے پدر بزرگوار شیعوں کے  ساتویں امام حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام ہیں ۔آپ کی ولادت با سعادت اول ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں ۔آپ کے والدگرامی امام موسیٰ علیہ السلام  کی شہادت، ہارون کے قید خانہٴ بغداد میں ہوئی ۔والد کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا  علیہ السلام  کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔


لیکن سن 200  ہجری قمری میں مامون عباسی کے بے حداصرار اوردھمکیوں کی وجہ سے امام رضا  علیہ السلام سفر کرنے پر مجبور ہوئے امام علیہ السلام  علیہ السلام نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہانے بھی وطن کو الوداع کہااور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں آپ  کا ایران کی طرف ہجرت کرنا اور شہر مقدس قم میں تشریف آوری:سن 200 ہجری میں خلیفہ عباسی مامون نے امام علی بن موسی الرضا  علیہ کو مدینہ سے مرو (خراسان) اپنا ولیعہد بنانے کے لیے بلایا اور سن 201ہجری میں امام رضا  علیہ السلام کی بہن  بی بی معصومہ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے مرو کی طرف روانہ ہوئیں


-نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ  سلام اللہ علیہانے امام رضا کے خط لکھنے اور ان کے بلانے پر یہ سفر شروع کیا تھا۔حضرت معصومہ سلام اللہ علیہااپنے رشتے داروں کے ساتھ ایک کاروان کی شکل میں ایران تشریف لائیں۔ اس طولانی سفر میں حضرت معصومہ، حضرت زینب کی طرح راستے میں مختلف مقامات پر لوگوں کو رسول خدا (ص) کے اہل بیت اور انکے علمی، دینی، معرفتی مقامات ، امامت و ولایت کے معنی و مفہوم کو، امام حق و امام باطل کے بارے میں اور روشن فکر والی باتیں بتاتی رہیں۔اسی روشن فکری کی وجہ سے جب یہ کاروان ساوہ کے مقام پر پہنچا تو اہل بیت کے دشمنوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں بی بی کے سارے بھائی اور بھائیوں کے بیٹے شہید ہو گئے۔ بی بی اپنے عزیزوں اور پیاروں کے جنازے خون میں غرق دیکھ کر بہت سخت بیمار ہو گئیں۔


امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ سلام اللہ علیہانے بھی وطن کو الوداع کہااور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ جانب خراسان روانہ ہوئیں۔ ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہورہاتھا، یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب  سلام اللہ علیہاکی سیرت پرعمل کر کے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مومنین اور مسلمانوں تک پہنچا رہی تھیں یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو  مامون  کےمقرر کردہ  دشمنان اہلبیت   کے ایک گروہ نےحضرت معصومہ  سلام اللہ علیہاکے کاروان سے  جنگ شروع کر دی۔  اس اچانک حملے میں  کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت معصومہ  سلام اللہ علیہااس عظیم غم کے اثر  سے بیمار ہو گئیں 


اب  غم و ندوہ کے سبب خراسان کے سفر کو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیا۔  موسی بن خزرج محب امام    نے  قم میں بی بی کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ۔ اس نے راستے سے ہی  بی بی کے شتر کی لگام کو تھاما اور انکو اپنے گھر شہر قم میں لے آيا۔بزرگان قم جب اس پر مسرت خبر سے مطلع ہوئے تو سیدہ کے استقبال کے لیے دوڑ پڑے، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام  اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے وارد قم ہوا   اور فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا  وارد  قم  ہوئں  یہاں جیسے  ہی اہل قم کو آپ کی آمد کی اطلاع ملی آپ کی زات مرجع خلائق بن گئ ۔اور اسی مکان میں   10 ربیع الثانی سن 201 ہجری میں سترہ      دن بعد آپ کی شہادت ہوئ


اتوار، 14 جولائی، 2024

کشمیر میں شیعت کا فروغ کیسے ہوا؟

   میرے لئے  یہ بات واقعئ باعث ِحیرت  تھی    جب میں نے پڑھا  کہ کشمیر میں شیعہ مسلک شروع سے ایک علیحدہ مسلک  نہیں سمجھا جاتا  تھا بلکہ اہلسنت اور شیعہ ملکر امام حسین کا غم مناتے تھے-لیکن  اس دور سے پہلے یہاں اسلام  کا وجود نہیں تھا اور پھر یوں ہوا کہ اس وادئ جنت نظیر میں صوفیائے کرام 'اولیا ءعظام  کا     ورود  شروع ہوا -جن اولیائے دین کے قدم یہاں جم گئے ان کے یہاں  اگلی پیڑھی پر  مزید اولیا ء نے  جنم  لیا  اور انہوں نے ہدایت اور رہنمائی کی خاطر عوام الناس کے لئے اپنی زندگیاں  وقف کر دیں ۔لیکن  جتنے بھی خدا دوست سالک، رشی وصوفی وارد کشمیر ہوئے ان میں سے کسی نے بھی لوگوں پر اتنااثر نہیں ڈالا جتنا حضرت شاہ ہمدانؒ کی شخصیت نے ڈالاہے۔حضرت امیر کبیرؒ، سید السادات، جامع الکمالات، ولایت پناہ، معمار تقدیر، علی ثانی، شاہ ہمدانؒ، خاندان نبوت کے علم وعرفان کے پیکر   ۱۲ رجب، ۷۱۴ ہجری کو ایران کے مشہور شہر ہمدان میں جلوہ افروز ہوئے۔ 


آپ بہ یک وقت ایک عالم، برجستہ مبلغ، پرہیز گار صوفی، متقی رہبر اور اعلیٰ پایہ کے ادیب تھے۔  آپ روحانی  پیشوا بھی تھے۔ آپ کے والد بزرگوار سید شہاب الدین   ہمدان کے حاکم اعلیٰ تھے اور محاصرین نے آپکے علم وفضل اور زہد و تقوایٰ کی بہت تعریف کی ہے۔ حضرت سید نے پوری زندگی اسلام کی بقا اور اسکی نشر واشاعت کے لئے وقف رکھی۔ ان کی مساعی جمیل اور فیوض کا نتیجہ ہے کہ کشمیر میں اسلام کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے کے بجائے جگمگاتے ہوئے سورج کی طرح منور اور روشن ہوا۔ شاہ ہمدانؒ کی کشمیر آنے سے پہلے ہی ترکستان کے سید زادے شیخ شہاب الدین سہروردی کے شاگر حضرت بلال ؒ المعروف بلبل شاہؒ کے ہاتھوں رینچن شاہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد کشمیر میں نہ صرف مسلم حکومت قائم ہوی بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور لسانی نظام میں بھی اسلامی عناصر کا غلبہ  بڑھتا  چلتا گیا۔ جب آپ کے مبارک قدم اس جنت نظیروادی پر پڑے اس کے ساتھ ہی امیروں، وزیروں اور دیگر اشخاص بھی  شیعہ اسلام کے دائرے میں آگئے۔  اور اس ساتھ  کشمیر میں فارسی نظم ونثر اور دیگر علوم وفنون کے ساتھ مساجد و خانقا ہیں بھی تعمیر ہوئی ان میں ایک خانقاہ سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارے تعمیر ہوئی جو بلبل لنگر کے نام سے آج بھی موجود ہے۔ اس طرح کشمیر میں تبلیغ   ' اسلام کے   ابتدائ دور  میں  میر سید علی ہمدانیؒ کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔


 آپ نے کشمیر میں شیعیت اسلامی    تعلیمات کا دائرہ بڑھایا    جن سے متاثر ہو کر ہزاروں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور سنی مسلمان بھی اس سلسلے کی طرف راغب ہوتے چلے گئے۔ کشمیر  کی شیعی فکر   پر   اثنا عشری مسلک کی تعلیمات کی گہری چھاپ ہے۔اس طرح   کشمیر میں شیعہ اسلام پھیلانے میں میر سید علی ہمدانیؒ کا   کردار رہا ہے،اور یہ تعلیمات تبت، لداخ اور بلتستان میں بھی پھیل گئیں-آج کے کشمیر میں  انہی کی  بدولت شیعہ  پھل پھول رہے ہیں -تفصیلات کے مطابق اہل تشیع  و اہل سنت ماہ محرم کے ابتدائی 10 دن کے دوران مختلف مقامات سے جلوس نکالتے ہیں جن کا آخری پڑاؤ سری نگر کے علاقے حسن آباد میں ہوتا ہے۔ لیکن ان علاقوں کے رہائشی افراد کا سڑکوں کے ذریعے رابطہ نہیں اس لئے  اہل تشیع حسن آباد پہنچنے کے لیے متبادل راستے یعنی کشتیوں کے ذریعے آبی راستے استعمال کرتے ہیں۔


یہ جلوس ڈل جھیل کے اندرونی علاقوں کے کنڈی محلہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر جیسے ہی جلوس ان علاقوں سے گزرتا ہے دوسرے ڈل علاقوں کے لوگ بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جلوس ٹنڈ محلہ، کنڈ محلہ، صوفی محلہ، نالہ محلہ اور گچی محلہ جیسے کئی علاقوں سے گزرتا ہے۔ لوگ ان کشتیوں میں جمع ہوتے ہیں اور پھر حسن آباد کی طرف جاتے ہیں جہاں وہ 10 محرم کو ماتم کرتے ہیں۔ کشمیر  کے شیعہ محرم کی پہلی سے دسویں تاریخ تک ہر رات مرثیہ خوانی کرتے ہیں اور لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ دس دنوں کے بعد ہر شب جمعہ کو عزاداری کی جاتی ہے شیعہ کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ تلاوت، مرثیہ، نوحہ، جلوس، تعزیہ داری، علم شریف، ذوالجناح کے جلوس نکالتے ہیں۔ زیارات و سلام پڑھی جاتی ہے۔ واقعہ کربلا کے حوالے سے تقاریر کیے جاتے ہیں۔ کشمیرکے قریہ قریہ، نگر نگر سے 07 محرم الحرام کے جلوس برآمد ہو تے ہیں سرینگر کے تاریخی کاٹھی دروازہ سے مرکزی جلوس عزاء برآمد ہوتا ہےجس میں  ہزاروں  شیعہ و سنی عزادارن مظلوم کربلا  کو  پرسہ دیتے ہوئے سینہ زنی کرتے ہیں - 


مقبوضہ کشمیر  سے  بھی  اسی طرح   وادی کے گوشہ  گوشہ سے محرم الحرام کے جلوس برآمد ہوتے ہیں اور عزاداری عام طور پر امام بارگاہوں یا ماتم سرائیوں میں کی جاتی ہے۔ بعض اوقات عزاداری کے جلوس سڑکوں اور گلی کوچوں کے علاوہ   لاتعدادکشتیوں   کے زریعہ  نکلتے ہیں  ان کشتیوں پر یا حسین اور لبیک یا حسین کے بڑے بڑے بینر لگے ہوتے ہیں   - اور سیاہ لباس میں ملبوس عزادار سیاہ پرچم کے علاوہ   دیگر علم مبارک اپنے ہاتھوں میں  بصد احترام  تھامے ہوئے   ہوتے ہیں اور کشتیوں پر ماتم اور نوحہ خوانی ہو رہی  ہو تی   ہے-کشمیر کے تمام  اضلاع جیسے اننت ناگ بارہ مولا  اور سرینگر  میں عزاداری کے بڑے بڑے جلوس  صبح 'صبح  برآمد ہو تے  ہیں سرینگر کے کوہ ماراں کے دامن میں واقع تاریخی کاٹھی دروازہ سے عزاداری کا مرکزی اور سب سے بڑا جلوس برآمد ہوتا  ہے جس میں  ہزار وں سوگوار  شرکت کرتے  ہیں جلوس حسن آباد کے   تاریخی امام باڑہ  پر اختتام پذیر ہوتا ہے حسن آباد تک  جانے کے لئے تمام کشتیوں کے عزادار جھیل ڈل کے کنارے اتر کر پیدل حسن آباد جاتے ہیں اور وہاں مجلس عزاء میں شامل ہوتے ہیں   1989 سے سرینگر کے ان دو بڑے مرکزی جلوسوں پر پابندی عائد تھی لیکن سرکاری پابندیوں کے باوجود عزادارن حسین پابندیوں کو خاطر میں نا لاتے ہوئے ان جلوسوں کو برآمد کرنے میں اپنے جان کی بازی لگا رہے تھے اور ہرسال بے شمار عزادار سرکاری فورسز کی بربریت سے زخمی ہوتے  رہے  اور سینکڑوں کی تعداد میں عزادارن کو گرفتار بھی کیا جاتا  رہا ہے

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر