ہفتہ، 20 جولائی، 2024

جب حر نے جنت کا انتخاب کیا

 

کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کب توبہ کی توفیق میسر آجاءے تو ہوا یوں کہ امام عالی مقام نے جب سفر کربلا کے دوران زبالہ نامی قریہ کی جگہ میں قیام فرمایا اور کچھ آرام کے بعد دوبارہ سفر شروع کرنے کا ارادہ کیا تب حضرت عباس سے فرمایاپانی کا وافرذخیرااپنے ساتھ لے لو اطاعت گزار بھائ  نےفوراً   تعمیل کی اور بہت بڑی تعداد میں پانی سے بھرے مشکیزے اونٹوں پر لاد دئے گئے اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا  -درمیان راہ اچانک آپ  علیہ السلا م  کے اایک صحابی نے نعرہ تکبیر بلند کیاامام  نے بھی اپنی زبان الہام بخش پر تکبیر کے الفاظ دہرائے اورتکبیر بلند کرنے کا سبب دریافت کیا  انہوں  نے جواب دیا:مولا میں کچھ کھجورکے درخت دیکھ رہاہوں، ؛دوسرے ہمراہیوں نے تعجب خیز !لہجے میں کہا کہ ہم اس جنگل سے آشنا ہیں یہاں پر تو کوئی کھجور کاباغ ہی نہیں ہے ،امام  نے فرمایا: غور سے دیکھو!،کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟صحابیوں نے جواب دیا:مولا ہمیں تو گھوڑوں کی کچھ گردنیں دکھائی دے رہی ہیں ،حضرت نے بھی ان لوگوں کے قول کی تائید کی ،یکایک ابن زیاد کالشکر آنکھوں کے سامنے تھا،اور شدت تشنگی سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں امام سے یہ منظر کربناک دیکھا نہ گیاآپ نے حکم دیاکہ ان کو سیراب کرو! ہاں ! ان کے گھوڑے بھی پیاسے نہ رہ جائیں -اس لشکر کا کمانڈر ابن زیاد کی فوج کا ایک جری جرنیل  جس کانام حر بن یزید تمیمی تھا


اس دشت میں اس جرنیل کا تمام لشکر بہت پیاسا تھا اور تمام جانور بھی  پیاسے تھے  امام عالی مقام نے فوراً  اس لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے کہا اصحاب امام نے اس  پانی سے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے  دشمن کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانا شروع کیا، پانی سے بھرے برتن گھوڑوں کے سامنے رکھے گئے یہاں  تک کہ جانور بھی سیراب ہوگئے علی ابن الطعان کہتا ہے :کہ میں لشکر حر میں تھااور اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیاتھاجب میں پہونچا تمام لشکر والے اپنے جانوروں سمیت سیراب ہو چکے تھے اور مجھ پر پیاس کاشدید غلبہ تھا جیسے ہی امام حسین نے میری حالت قریب المرگ دیکھی تو پانی کی مشکوں سے لدے ایک اونٹ کی طرف میری رہنمائی فرمائی اور مزید فرمایا:کہ جاؤ !اور اس اونٹ کو بیٹھا کر اس سے پانی اتار کر پی لو !لہذا میں اونٹ کے قریب گیااور اس کو بیٹھاکر پانی اتار کر جیسے ہی پینا چاہتاتھاپانی میرے منھ سے نکل کر زمین پر بہنے لگا حضرتؑ نے یہ منظر دیکھا  بنفس نفیس خود تشریف لائے اور مشک کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے پانی پلانا شروع کیایہاں تک کہ میں سیراب ہوگیا،اور میرے گھوڑے نے بھی جی بھر کر پانی پیا-ابن زیادکا یہ لشکر   پانی پی کر آرام کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ظہر کاوقت ہو  گیا

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حر بن یزید ریاحی قوت ادب و تہذیب کے ذریعے ایک قدم حق کی طرف آگے بڑھا ؟جیسے ہی ظہر کاوقت ہواسر کار سیّد الشہدآ ءنے اپنے قافلے کے مؤذن جناب  حجاج بن مسروق جعفی سے فرمایا :اذان دو! پھر اس کے بعد حر کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا:کہ کیا تم پنے لشکر کے ہمراہ نماز پڑھو گے؟لیکن خلاف توقع لشکر دشمن کے سپہ سالار نے جواب دیا:فرزند رسول میں تو آپ  کی معیت  میں فریضہ ظہر ادا کروں گا  -یہ ادب و تہذیب سے مملوء نماز کہ جس کو وہ فرزند رسول کی اقتداء میں پڑھنا چاہتا تھا در واقع یہ تہذیب دشمن سے بے نیازی اور پشت دکھانے کے مترادف ہے یہ چیز ان کو ایک قدم خالق حقیقی سے نزدیک لے گئی اور یہی وہ بنیادی قدم تھاکہ جو ان کے اوپر باب رحمت کھلنے کاسبب قرار پایاغرض تمام لشکر نے امام  کی اقتداء میں نماز پڑھی 

امام روؤف نے جواباً ارشاد فرمایا:" نعم ،یتوب اللہ علیک "ہاں تمہارے لئے بھی امکان  توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤاللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے   اور جیسا کہ ابن نمای حلی اپنی کتاب مثیر الاحزان میں نقل کرتے ہیں کہ حر نے امام حسین کی خدمت میں عرض کی  یابن رسول اللہ!جس وقت میں کوفہ سے باہر آیا تو میری پشت کی جانب سے ایک آواز آئی کہ اے حر!تجھے جنت مبارک ہو !حضرت نے فرمایا:"لقد اصبت اجراً و خیراً"،حر تم نے خدا کی بشارت کو اچھی طرح پہچان لیااور یزیدیوں کو چھوڑ کر اہل بیت رسول سے ملحق ہو گئے اور خود کو اس بشارت تک پہونچا دیا-حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے  بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے   پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک فوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللّه بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین علیہ السلام  کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا 


 اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے پھر اس کے بعد حر نے امام  سے اجازت لی اور میدان کارزار کی طرف روانہ ہوئے کوفیوں سے شدید قتال کیا آخر میں  جا شہادت نوش کرکے اس بشارت کو پالیا   صحاب امام حسین  نے ان کے زخموں سے چور چور بدن کو زمین سے اٹھایا اور قریب خیمہ لاکر امام کے سامنے رکھ دیامولا حر کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کے خون آلود رخسار پر اپنا دست مبارک پھیرا چہرے سے غبار کربلا کو ہٹایا اور اس جملے کو فرمایا:"انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ"اے حر!تو دنیا میں آزاد ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا تھا اور آخرت میں نیک بخت اور خوش نصیب ہے  -اور حر نے دنیا کو ٹھکرا کر آخرت کی منزل مراد پالی


1 تبصرہ:

  1. محرم کی دو اور سن 61 ہجری تھا۔ اس تمام وقت حر کا ایک ہزار فوجیوں کا لشکر قافلہ کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور اب اس پڑاؤ کے مقام پہ محاصرہ ہوتا ہے لیکن قلیل قافلہ کی ایمانی طاقت کو توڑنے کے لیے حر کا لشکر کافی نہ تھا۔ اگلے روز عمر بن سعد بھی چار ہزار سپاہیوں کی نفری کے ساتھ مقام ِکربلا پہ پہنچتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر