ہفتہ، 15 اپریل، 2023

مفت آٹے کی تقسیم میں بھگدڑ

  

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔

ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔ 

ساہیوال کے قائد اعظم اسٹیڈیم میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2 خواتین جاں بحق جب کہ 45 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ 19 زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ٹیچنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری اور ضلع انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا ہے۔

بھگدڑ مچنے اور خواتین کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے آٹے کی فراہمی روک دی جس پر وہاں آنے والی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں مرگئیں مگر پھر بھی آٹا نہیں دیا جا رہا ہے۔ آج یہاں سے آٹا لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب اس حوالے سے کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ ایپ بند ہونے کے باعث آٹے کی ترسیل کو روکا گیا ہے۔ 

جہانیاں میں بھی مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے ایک بزرگ خاتون جاں بحق جب کہ دو خواتین بے ہوش ہوگئیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت رشیداں بی بی کے نام سے ہوئی ہے۔ خاتون کی ہلاکت کے بعد افسران آٹا پوائنٹ سےغائب ہو گئے۔ٹبہ سلطان پور میں شدید بدنظمی اور بھگدڑ مچنے سے 4 خواتین بے ہوش ہوگئیں جب کہ سیکیورٹی نہ ہونے پر انتظامیہ آٹے کی فراہمی بند کرکے فرار ہوگئی۔ آٹا نہ ملنے پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں احتجاج کیا۔

سرائےعالمگیر میں بزرگ خاتون رش کے باعث گر کر زخمی ہوگئی، بہاولنگر میں ڈونگہ بونگا بنگلہ سینٹر پر آٹا پوائنٹ پر بدنظمی کے باعث تین خواتین بے ہوش ہوگئیں شہریون نے آٹا فراہمی کی بندش پر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دے کر مین ہائی وے ہارون آباد روڈ بلاک کر دیا۔خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔

خانیوال میں لائیواسٹاک دفتر میں قائم مفت آٹا پوائنٹ پر شدید بدنظمی اور بھگدڑ کے نتیجے میں 60 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں خواتین اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

حاصل پور میں آٹا سیل پوائنٹ پر مفت آٹا لینے کے لیے آنے والے شہریوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ دھکم پیل کے باعث عیدگاہ آٹا پوائنٹ کی دیوار گرگئی جب کہ بدنظمی کی وجہ سے ایک خاتون بیہوش ہوگئی۔ چیچہ وطنی میں  بھی مشتعل خواتین نے آٹا نہ ملنے پر بائی پاس روڈ بلاک کر دیا اور پولیس پر تشدد کا الزام لگایا۔ لیاقت پور میںض مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے 73 سالہ بزرگ محمد انور کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

اس کے علاوہ ٹانک، دیپالپور، قائد آباد، بصیر پور، شجاع آباد ودیگر علاقوں میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں خواتین زخمی اور بے ہوش ہوگئیں۔درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے مفت آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار انتہاٸی ناقص ہے جس کی وجہ سے عوام میں پریشانی کے باعث بھگدڑ مچ جاتی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ تقسیم کے ناقص طریقہ کار پر ذمہ داروں کے خلاف کاررواٸی کا حکم دیا جائے جبکہ آٹے کا معیار بھی عالمی لیب سے چیک کروانے کی استدعا کی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی جس کے نتیجے میں 11 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اندوہناک واقعہ کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں واقع فیکٹری میں پیش آیا تھا جہاں راشن کی تقسیم کی جارہی تھی، تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں اور خواتین سمیت 11 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد خواتین بے ہوش ہوگئیں۔

سورج اور چاند زمین کے مدار میں

 

مکمل سورج گرہن

مکمل سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند زمین اور سورج کے درمیان میں آجائے لیکن کچھ اس طرح کہ چاند کا زمین سے فاصلہ اتنا ہو کہ وہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لے، مکمل سورج گرہن میں چاند سورج کا 'روشن کرّہ' یعنی فوٹو سفئیر ڈھانپ لیتا ہے لیکن سورج کی فضا، جسے "کورونا" کہا جاتا ہے، نظر آنے لگتی ہے جو کہ ایک دلکش منظر ہوتا ہے کیونکہ روشن کرّے کی موجودگی میں کورونا کو دیکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، کورونا ہی وہ جگہ ہے جہاں سورج کے دھماکے ہوتے ہیں اور پلازما سورج کے اطراف میں پھیل جاتا ہے۔ مکمل سورج گرہن میں سورج کو چاند کے مکمل ڈھانپنے کو ہی مثال بنا کر شمسی سائنسدان بھی جب تحقیق کے لیے سورج کی تصویر لیتے ہیں تو سورج کے روشن کرّے کو اسی طرح ڈھانپ کر اس کی فضا کی جانچ کرتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن جزوی سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب پورا چاند زمین اور سورج کے مدار کی سیدھ میں نہ ہو، اس وجہ سے جب چاند سورج کے سامنے سے گزرتا ہے تو چاند کا کچھ حصّہ ہی سورج کو ڈھانپتا ہے۔حلقہ نما سورج گرہن

حلقہ نما سورج گرہن اس وقت پیش آتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان میں تو آجائے لیکن اپنے مدار کے اس مقام پر چاند کا زمین سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے زمینی باشندوں کے لیے چاند مکمل طور پر سورج کے روشن کرے کو ڈھانپ نہ پائے، اس کے نتیجے میں سورج کا درمیانی حصّہ چھپ جاتا ہے جبکہ اطراف میں روشن حلقہ بن جاتا ہے۔کراچی: سورج اور چاند گرہن کیوں ہوتا ہے اور اس سلسلے میں سائنس کیا کہتی ہے اس بات سے شاید کم ہی لوگ واقف ہوں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ چاند اور سورج کو گرہن کب اور کن وجوہات کی بنا پر لگتا ہے۔

سورج گرہن کی تاریخ

سورج گرہن کو قدیم و جدید مذاہب میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھا جاتا ہے جب کہ بعض مذاہب میں اسے منحوس بھی سمجھا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک سورج کا گرہن لگنا اللہ کی بندوں سے ناراضی کی نشانی ہے۔اسلام میں سورج گرہن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’سورج اور چاند اللہ کے متعین کردہ راستے پر چل رہے ہیں اور گردش میں ہیں‘‘۔ سائنسی حقیقت میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ سورج اور چاند زمین کے گرد اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔

سورج / چاند گرہن میں اسلامی احکامات

سورج گرہن کے وقت اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ’’صلوۃ کسوف‘‘ ادا کرو جس کا اردو ترجمہ ’’نمازِ خوف‘‘ کے ہیں جب کہ چاند گرہن کے وقت کسی بھی خاص عبادت کا حکم نہیں دیا گیا۔سورج گرہن کب ہوتا ہے؟

زمین پر سورج گرہن اُس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کے دوران سورج اور زمین کے درمیان میں آجاتا ہے، جس کے بعد زمین سے سورج کا کچھ یا پھر پورا حصہ نظر نہیں آتا۔چاند کا زمین سے جتنی مسافت کا راستہ ہے اُس سے 400 گنا زیادہ راستہ سورج اور چاند کے درمیان ہے اس لیے زمین سے سورج گرہن واضح طور پر نہیں دیکھا جاتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سورج گرہن کو پوری دنیا میں دیکھا جاسکے۔

سائنسدان سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میں جاتے ہیں کیونکہ مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 7 منٹ چالیس 40 تک برقرار رہتا ہے، البتہ جزوی سورج گرہن کو سال میں کئی بار دیکھا جا سکتا ہے۔

زمین کو مکمل سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند کا فاصلہ زمین سے اتنا ہو کہ جب وہ سورج کے سامنے آئے تو سورج مکمل طور پر چھپ جائے چونکہ چاند اور زمین کے مدار بیضوی ہیں اس لیے کے مدار چاند کا زمین سے فاصلہ بدلتا رہتا ہے اس لیے ہر دفعہ مکمل سورج گرہن نہیں لگتا۔مکمل سورج گرہن کے وقت چاند کا فاصلہ زمین سے نسبتاً کم ہوتا ہے، سورج کے مکمل چھپ جانے کی وجہ سے خطے میں نیم اندھیرا ہو جاتا ہے اور دن کے وقت ستارے نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر یہ گرہن ایک مقام پر سات منٹ چالیس سیکنڈ تک ہی ہوتا ہے اور اکثر اس کا دورانیہ کم بھی ہوتا ہے، زمین کے جس خطے میں مکمل سورج گرہن لگتا ہے وہاں دوبارہ 340 سال بعد اس طرح کا گرہن لگنے کے اثرات ہوتے ہیں۔

حلقی سورج گرہن

زمین پر حلقی سورج گرہن اُس وقت لگتا ہے کہ جب چاند سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے مگر اس کا سورج سے فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ سورج کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتا۔ اس صورتِ حال میں چاند کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور سورج کی روشنی زمین پر پڑتی ہے۔

مخلوط سورج گرہن

زمین پر بعض اوقات سورج گرہن اس طرح نظر آتا ہے کہ بعض جگہ پر مکمل سورج گرہن نظر آتا ہے اور کسی مقام پر مخلوط نظر آتا ہے، اس صورت میں حلقی سورج گرہن کا حلقہ بہت باریک ہوتا ہے اس لیے زمین پر مخلوط قسم کے سورج گرہن بہت کم نظر آتے ہیں۔

جزوی سورج گرہن

یکم اگست 2008 کو پاکستان میں نظر آنے والا سورج گرہن

جزوی سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند اور سورج ایک دوسرے کے سامنے نہ ہوں اور چاند جزوی طور پر سورج کو زمین سے چھپا رہا ہو۔ ایسی صورتحال میں ممکن ہے کہ زمین کے مختصر حصے پر سورج گرہن اور ایک بڑے حصے پر جزوی گرہن نظر آئے۔

سورج گرہن کس تاریخ کو ہوتا ہے؟

کسی بھی چاند اور سورج گرہن میں 13.9 سے 15.6 دن کا فرق ہوتا ہے، اسلامی مہینے کی تاریخ کے حساب سے چاند کو گرہن 13، 14 یا 15 کو  جبکہ سورج گرہن 28 یا 29 کو ہوتا ہے۔

اب تک دیکھا جانے والا سب سے طویل سورج گرہن

اب تک کا سب سے لمبا سورج گرہن سن 1999 میں یورپ میں دیکھا گیا ہے اور  یہ تاریخ میں اب تک کا سب سے دیر تک نظر آنے والا سورج گرہن تھا۔

سورج گرہن کی اقسام

مکمل سورج گرہن

حلقی سورج گرہن

مخلوط سورج گرہن

جزوی سورج گرہن

مکمل سورج گرہن

حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ

 


حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ -     امام علی نقی علیہ السلام کے دو بیٹے سید علی اور سید احمد عباسی خلیفہ کی دشمنی سے بچنے کے لیے مدینہ سے ہجرت کر کے ازبکستان کے شہر بخارا میں آ گئے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے شہر کا انتخاب کیا - یہ خواجہ نظام الدین کے والد گرامی تھے، خدا ان کو سلامت رکھے، جن کی اولاد کو نقوی سادات کہا جاتا ہے - اور جو شہر بخارا میں رہے انہیں بخاری کہا جاتا ہے، جو حضرت سلطان کی اولاد ہیں۔ المشائخ محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء۔ وہ یوپی کے مشہور شہر بدایوں میں صفر کے آخری بدھ کو پیدا ہوئے۔ . والدین: حضرت کی والدہ اور والدہ دونوں نہایت نیک اور پرہیزگار بزرگ تھے۔ والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا اور والد کا نام گرامی سید احمد تھا۔ ایک ماں کا خواب: سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالیٰ نے دو بچوں سے نوازا۔

  ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے نام سے مشہور ہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ"  اور ان کے چچا زاد بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپکے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ تھے-  والدین:آپکے نانا سید عرب کی صاحبزادی "سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا (آپکی والدہ ماجدہ)"  جو زھد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں-عبادت گزار اور شب بیدار تھیں-اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں-ان کو اپنے وقت کی "رابعہ عصری" کہا جاتا تھا- آپکے دادا حضرت سید علی بخاری کے صاحبزادے "سید احمد (آپکے والد ماجد)"  جو  نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال تھے-آپکے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ"  اور آپکے نانا "سید عرب بخاری رحمتہ اللہ علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے-دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ "حضرت سید احمد علی رحمتہ اللہ علیہ"   کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا" سے کردی-

* کم سِنی ہی میں والد ماجد کا وصال ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا-لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ کی مادر گرامی حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا ایک امیر و کبیر بزرگ حضرت خواجہ عرب علیہ الرحمہ کی صاحبزادی تھیں - لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کی جانب نگاہ نہ کی-جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے۔آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرادیتیں۔اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی، اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہوجاتا-جس روز فاقہ ہوتا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں۔’’بابا نظام! آج ہم سب اﷲ کے مہمان ہیں‘‘

حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا  کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد" سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اﷲ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اﷲ کی مہمانی کا ذکر سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو۔پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنی محترم ماں کے حضور عرض کرتے

’’مادر گرامی! اب ہم کس روز اﷲ کے مہمان بنیں گے؟‘‘ والدہ محترمہ جواب دیتیں’بابا نظام! یہ تو اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنالے گا‘‘حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے۔

’’اے اﷲ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا‘‘

ﷲ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پانچ سال کی عمر میں یہ دعا، یہ خواہش اور یہ آرزو! اہل دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی… مگر وہ جنہیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا- وہ اس راز سے باخبر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا-اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ انتہائی کم سنی کے عالم میں اﷲ کا مہمان بننے کی آرزو کیوں کرتے تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم:

 آپ پر اللہ کا  فضل و کرم تھا اس لئے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کر لیا-اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت اختیار فرمائی-آپ کے استاد محترم مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی ذوق کو دیکھتے ہوۓ آپ پر خصوصی توجہ دی- ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب "قدوی" ختم کی-* دستار فضیلت:جب امام قدوری علیہ الرحمہ کی  کتاب قریب الختم تھی-تو ایک دن آپ کے استاد محترم مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ نے حضرت نظام الدین علیہ الرحمہ سے فرمایا۔’’سید! اب تم ایک منقبت اور بڑی کتاب ختم کررہے ہو۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ اپنے سر پر دانشمندی کی دستار بندھواؤ‘‘حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں -پھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے   اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا۔

 اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا نے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علماء کو دعوت دی۔جب بدایوں کے ممتاز و جلیل القدر علماء جمع ہوچکے تو "مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ"  نے اپنے شاگرد کے سر پر دستار فضیلت باندھی ۔ حاضرین نے اس مجلس روحانی میں بڑا جانفزا منظر دیکھا۔ زمانۂ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کررہا تھا۔دستار بندی کے بعد "مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ" نے "حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ" سے دعا کی درخواست کی۔

"حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ"  نے ایک نظر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی طرف دیکھا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے۔خلفاء:

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔

چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

* جانشین و خلٰیفہ اکبر:

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا-

 اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-

انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔

انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔

* تصانیف:

 * راحت القلوب

(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)

مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،

*افضل الفوائد

(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)

* فوائدالفواد

(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ الرحمۃ)

• سیر الاولیاء

* وصال:

خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا-

 * مزارِ پر انوار:

آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔

مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :

خلفاء:

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔

چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

* جانشین و خلٰیفہ اکبر:

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا-

 اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-

انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔

انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔

* تصانیف:

 * راحت القلوب

(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر)

مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،

*افضل الفوائد

(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)

* فوائدالفواد

(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ الرحمۃ)

• سیر الاولیاء

* وصال:

خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا-

 * مزارِ پر انوار:

آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔

مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :

جمعہ، 14 اپریل، 2023

پچاسی فیصد شیعہ مسلمانو٘ں کی ریاست ''آزر بائجان ''

 

 

آذربائیجان (Azerbaijan) جس کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی، شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے جنوب مغرب میں واقع نگورنو کاراباخاور سات مزید اضلاع نگورنو کاراباغ کی 1994ء کی جنگ کے بعد سے آرمینیا کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قراردادوں نے آرمینیا سے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔ ملکی رقبے میں تیس مربع کلومیٹر کے لگ بھگ کے چند جزائر بھی ہیں جو بحیرہ قزوین میں واقع ہیں۔

آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ 11 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔

بعد میں آنے والے سلجوقیوں پر اتابک نے فتح پائی۔ سلجوقیوں کے دور میں مقامی شعرا جیسا کہ نظامی گنجوی اور خاگانی شیروانی نے فارسی ادب کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ سب آج کل کے آذربائیجان میں ہوا۔ اس کے بعد یلدرمیوں نے مختصر قیام کیا اور ان کے بعد امیر تیمور آئے۔ جس کی مدد نوشیرواں نے کی۔ امیر تیمور کی موت کے بعد یہ علاقہ دو مخالف ریاستوں میں بٹ گیا۔ ان کے نام کارا کوئینلو اور اک کوئینلو تھے۔اک کوئینلو کی موت کے بعد سلطان اذن حسن نے آذربائیجان کی پوری ریاست پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواں شاہوں کے پاس آیا جنھوں نے 861 سے 1539تک بطور خود مختار مقامی حکمران کے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ شیروانیوں کے بعد صفویوں کی باری آئی اور انہوں نے شیعہ اسلام اس وقت کی سنی آبادی پر زبردستی لاگو کیا۔ اس ضمن میں انہیں سنی عثمانیوں سے جنگ بھی کرنا پڑی۔

کچھ عرصہ بعد صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کر لیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918ء میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936ء میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ 

ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔آذر بائیجان کا آفیشل نام ریپبلک آف آذر بائیجان ہے۔ آذر بائیجان کا نام فارسی اور ترکش زبان سے نکلا ہے۔ آزر کہتے ہیں ”آگ“ کو اور ”بائیجان“ کا مطلب حفاظت کرنے والے یعنی آگ کی حفاظت کرنے والوں کا ملک۔ اس ملک کا 92 فی صد رقبہ ایشیا اور 5 فی صد رقبہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔اس ملک کو آگ کی حفاظت کرنے والا ملک کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اقمنڈس نے 550 قبل مسیح میں اس خطے پر فتح حاصل کی تھی اور اسی کی وجہ سے یہاں مجوسی، یعنی آگ کے بجاری مذہب کے ماننے والوں کی ترویج ہوئی۔ جس کی جھلک آج بھی جا بجا نظر آتی ہے، تاریخی طور پر یہ خطہ قفکاضی البانیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پانچویں صدی قبل مسح میں آگ کے پجاریوں نے حکومت بنائی۔ چوتھی صدی قبل مسح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد، یہاں دیگر ملحق علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔ عرب اموی خلیفہ نے ساسیوں اور باذر بینیوں کو شکست دے کر قفکاضی البانیا کو فتح کیا تھا۔

عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سلاریوں کے قبضوں میں چلا گیا۔ گیارہویں صدی میں یہاں پر ترک قبیلوں نے قبضہ جمایا۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواساحوں کے پاس آ گیا، جنہوں نے 861 سے 1539 تک حکومت کی۔ تاریخی حوالوں سے 15 صدی سے قبل آذر بائیجان سنی اکثریتی ملک تھا، جب کہ 16 صدی میں شاہ اسماعیل صفوی نے اقتدار سنبھالا، جس کے بعد یہاں پر شیعہ مسلمان مذہب اسلام کو فروغ ملا۔1918ء میں اس خطے پر روس نے قبضہ کر لیا۔ 70 سال تک سویت یونین کی غلامی میں رہنے کے بعد، 1991ء میں سوویے یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد آذر بائیجان کو آزادی کا سورج دیکھنے کو ملا۔ اسی وجہ سے آذر بائیجان کے لوگ ہر سال 30 اگست کو اپنا آزادی کا دن مناتے ہیں۔مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک آذر بائیجان ہے۔ اس کے مشرق میں بحریہ قزوین، شمال میں روس، شمال مغرب میں جارجیا اور ترکی، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا واقع ہے۔ آذر بائیجان میں 80 فی صد آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے لیکن یہ ملک سیکولر ملک کہلاتا ہے

آذر بائیجان کے 7 اضلاع پر 1994ء میں آرمینیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ آرمینیا کے قبضہ کے آگے آج تک کچھ نہ کر سکا۔ آرمینیا عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ان کی 97 فی صد آبادی عیسائی ہے۔ بلآخر آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان آج اکتوبر 2020ء میں جنگ جیسا ماحول بن چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق آرمینیا سے چند علاقے جنگ کر کے واپس لے لئے گے ہیں، لیکن درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تاحال جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں پاکستان اور ترکی آذر بائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر طرح سے وسائل مہیا کرنے کو بھی تیار ہیں۔آذربائیجان تیل او گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ آذر بائیجان میں گیس کے پہاڑ بتائے جاتے ہیں، جہاں سے ہر وقت گیس ہی نکلتی رہتی ہے۔ کچھ اس سرزمین کو اسی وجہ سے ”لینڈ آف فائر“ بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے، جہاں 1847ء میں پہلی مرتبہ خام تیل نکالا گیا تھا۔ یہاں خام تیل کو ”نفتالن“ بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ خام تیل سے غسل کرتے ہیں۔ موسم بہار، موسم خزاں میں یہاں کے تمام ہوٹل سیاحوں کی وجہ سے بک ہو جاتے ہیں۔

کیوں کہ سیاحوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خام تیل سے غسل کر سکیں، ان کا کہنا یہ ہے یہ عمل غسل 70 سے زائد بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ 12 صدی کا قصہ سناتے ہیں کہ ایک کارواں کا اونٹ بیمار ہو گیا، وہ اس کو وہیں چھوڑ کر چلے گے۔ بیمار ہونٹ کے پاس تیل کا وافر ذخیرہ موجود تھا۔ بیمار اونٹ اس میں گر گیا۔ کچھ ہفتے بعد جب وہ کارواں لوٹا تو اسی اونٹ کو بالکل تندرست پایا، تب سے لوگوں نے خام تیل کو آب شفا سمجھ کر نہانے شروع کر دیا ہے۔2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق، آذر بائیجان کی کل آبادی ایک کروڑ 46 لاکھ پانچ سو 16 افراد پر مشتمل ہے، اور اس ملک میں بے روزگاری کی شرح 13.4 فی صد کے قریب ہے۔ یہیں دنیا کا سب سے بڑا KFC بھی ہے، یہاں تعلیم کی شرح 99.8 فی صد ہے۔ یہاں کی سب سے مشہور بلڈنگ کیپسین کے کنارے واقع ہے۔ ہوٹل کی عمارت آگ کے شعلوں کے مانند دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے اس ہوٹل کو ”فلیم ٹاور“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آذر بائیجان کے دار الحکومت باکو کی جدید ترین عمارت تصور کی جاتی ہے۔ اس عمارت کو ”لینڈ آف فائر“ کے نظریے کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ ایک مسلم ملک ہے لیکن یہاں عام طور پر لڑکیاں یورپی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ یہاں خواتین میں پردے کا رواج نہیں دیکھا جاتا۔ شاید اسی لئے یہاں ایک ہزار سے زائد ایڈز کے مریض بھی پائے جاتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے یہ ملک سیاحوں کے حوالے سے جنت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور ایران، وہ ممالک ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے اس ملک کو تسلیم کیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کی طرح آج تک آرمینیا کو آزاد ملک کے طور تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس ملک کا سب سے بڑا تہوار جشن نوروز ہے۔آذر بائیجان میں ایک ایسا پھول بھی پایا جاتا ہے، جو پانچ وقت کی اذان کے وقت کھل اٹھتا ہے۔ لال شہباز قلندر کے نام سے شہرت پانے والے بزرگ سید عثمان مروندی بھی اسی ملک کے گاؤں مروند میں پیدا ہوئے تھے۔ آذر بائیجان تاریخی اعتبار سے ایک مسلمان ملک ہے،جس کے اوپر یورپ کی تمدّن کی پوری پوری چھاپ ہے


جمعرات، 13 اپریل، 2023

برج حمل 2023 اور آپ کے ستارے

 

 

حمل

برج حمل کا مختصر جائزہ

تاریخ پیدائش 21 مارچ تا 20 اپریل

حاکم سیارہ مریخ

خصوصیات پراعتماد، رہنما ، پرجوش، خودپسند

موزوں برج اسد قوس

غیر موزوں برج سرطان میزان جدی

قابل برداشت برج ثور جوزا دلو حوت

غیرجانبدار برج سنبلہ عقرب

حمل لوگ کیسے ہوتے ہیں؟

حمل لوگ فطری طور پر بہت تیز ہوتے ہیں. وہ تیزی سے بات کرتے ہیں . تیزی سے سوچتے ہیں، تیزی سے چلتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ صبر کا مظاہرہ نہیں کرتے. جن میں یہ تیزی نہ ہو وہ حمل لوگ نہیں ہو سکتے.یہ لوگ چیلنج کا مقابلہ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں. یہ پیدائشی لیڈر ہوتے ہیں.یہ بڑی قوّت,شان اور عزم کے ساتھ اپنا راستہ بناتے ہیں.آپ انکو کوئی کام کرنے کو کہیں اور سمجھ لیں کہ وہ کام ہو گیا. یہ لوگ پہلے کرتے ہیں, اور بعد میں سوچتے ہیں اور جب یہ چل پڑیں تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے.یہ برج جرّات اور بہادری سے تعلق رکھتا ہے. یہ لوگ تصوراتی ہوتے ہیں اور انکی خواہشات زندگی سے بڑی ہوتی ہیں. ہر چیز یا بات جو انہیں اچھی لگتی ہے یہ اس کے بارے میں بہت پرجوش ہوتے ہیں.اور جو انہیں اچھی نہ لگے, اس کے بارے میں بہت بے صبرے ہوتے ہیں.اگر یہ ناخوش یا ناراض ہوں تو طوفان برپا کر دیتے ہیں مگر یہ طوفان دیر پا نہی رہتا. آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کھول لیں تو انکا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہوگا اور آپ انکے چہرے کو ہشاش بشاش پائیں گے مگر بہت سے لوگ اسے نہیں سمجھتے کہ انکی ناراضگی عارضی ہے.

ایک منفی حمل بڑا اکڑ باز ہوتا ہے اور خراب موڈ میں بالکل قصائی لگتا ہے جیسے ابھی کسی کو چھری مار دے گا لیکن جب اسکا غصہ اتر جاتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے کیے پرشرمندہ ہوتا ہے بلکہ معافی بھی مانگ لیتا ہے.ان لوگ کی ایک بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ سچائی کی قدر کرتے ہیں اور اگر کوئی بات منطقی انداز سی کی جائے تو وہ پوری توجہ سے اسے سنتے اور مانتے ہیں.ان میں تمام تر منفی خصوصیات کے علاوہ معصومیت کا عنصر بھی موجود ہے. جب یہ اپنی خراب کردہ کسی صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو انتہائی معصوم لگتے ہیں. یہ لوگ بہترین لوگ سے دوستی رکھتے ہیں اور بہترین تقریبات میں شرکت کرتے ہیں. دولت, رتبہ, گلیمر اور شان و شوکت ان کی ترجیحات میں شامل ہیں اور وہ ان تمام چیزوں کے باوجود بھی سب میں نمایاں نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں. حمل لوگ کی خودی ان کے لیے بے حد اہم ہے اور وہ اپنی طاقت کو محسوس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو کہ ایک مثبت بات ہے مگر جب ایک بچوں کی طرح خود پسند شخص کا کسی دوسرے انفرادی طور پر طاقتور شخص سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر مسئلہ بن جاتا ہے.

یہ لوگ جانتے ہیں کہ اپنے نظریات کو کس طرح استعمال میں لانا ہے اور بعض اوقات یہ اپنے نظریات کے لحاظ سے وقت سے آگے ہوتے ہیں. یہ لوگ اپنی حد سے بھی آگے جا کر سوچتے ہیں اور جو کام بھی کر رہے ہوتے ہیں, اس کے بارے میں ان کی سوچ بڑی مثبت ہوتی ہے. ان کا یہی رویہ انکی غیر معمولی ذہنی اور جسمانی توانائی کے امتزاج سے انہیں طاقتور بناتا ہے.ایک کمزور اور اپنی حد میں رہنے والے شخص کے بارے میں ان کا رویہ منفی ہوتا ہے. یہ لوگ سمارٹ اور فیشن کے شوقین ہوتے ہیں اور جسے حاصل کرنا چاہیں,جلدی سے حاصل کر لیتےہیں.یہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ کمزور لوگ اپنی حدوں میں کیوں رہتے ہیں اگر آپ پیار سے انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں تو سمجھ بھی جائیں گے مگر جب اگلی بار اس طرح کی صورت حال ان کے سامنے ہوگی تو وہ دوبارہ بے صبری کا مظاہرہ کریں گے.یہ لوگ تجربات کے شوقین ہوتے ہیں یہ موجد اور بہادر ہوتے ہیں. ان کے قہقہے اور جوش مردہ دلوں کو بھی گرما دیتے ہیں. کامیابی ان کی شخصیت کے لئے لازمی جزو ہے بعض اوقات یہ گھمنڈی بھی ہوتے ہیں. برج حمل قربانی کی علامت ہے جبکہ اس برج کی علامت مینڈھا ہے. مینڈھا موسم بہار کی بھی علامت ہے.حمل لوگ فطری طور پر نیک,دل کش اطوار اور اچھی دماغی طاقت کے مالک ہوتے ہیں.یہ لوگ چاھتے ہیں کہ دوسرے ان پر بھروسہ کریں یا ان کے دست نگر بن کر رہیں. ان کے اندر یہ بڑی اچھی خوبی ہے کہ یہ ڈپلومیسی سے کام لے کر دوسروں کو اپنی ذات میں دلچسپی لینے پر مائل کر دیتے ہیں یا وہ ان کے خیالات اور مشوروں پر عمل کرنے لگتے ہیں.حمل لوگ بہادری کی حد تک حوصلہ مند اور مہم جوئی کے شوقین ہوتے ہی

حمل لوگ پیار کرنے والے, خوش اخلاق اور سخی ہوتے ہیں. جذباتی اعتبار سے یہ بڑے حساس اور تیز مزاج ہوتے ہیں اور ذرا سی بات پر غصہ میں آ جاتے ہیں. بعض اوقات غصہ ان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے. حمل لوگ کے اندر بغض و کینہ ہوتا ہے. یہ لوگ جارحیت پسند, خود سر اور پختہ ارادے کے مالک ہوتے ہیں. اس قسم کی شخصیت اور مزاج کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی تقدیر خود بناتے ہیں اور بگاڑتے ہیں. حمل لوگ کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ ایک مسئلے کے باریک نقاط کو سمجھ سکیں.ان کے مقابل اوسط ذہن کے مالک لوگ کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے. حمل لوگ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہو کر نقصان اٹھاتے ہیں. ان میں ایک صلاحیت اور بھی ہوتی ہے کہ یہ زیادہ کوشش کئے بغیر کافی معلومات اور تربیت حاصل کر

ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ذرا بھی ترنگ میں ہوں تو کسی بات پر بغیر سوچے سمجھے عمل کر بیٹھتے ہیں. ان کو چاہیے کہ اپنے جذباتی نظریات کا ہوشیاری سے جائزہ لیتے رہیں اور فوراً اس پر ہرگز عمل نہ کریں. بہت سے حمل لوگ بڑنےذہین ہوتے ہیں لیکن اس شعبہ میں بھی وہ ہر اول دستہ کا کام کرتے ہیں.مجموعی طور پر حمل لوگ میں اتنی زیادہ خود اعتمادی ہوتی ہے کہ دوسرے ان سے سبق حاصل کر سکتے ہیں. چونکہ انکی جڑیں چٹانوں کی طرح مضبوط ہوتی ہیں اس لئے وہ زندگی کے بڑے بڑے خطرناک بحرانوں سے بچ کرنکل جاتے ہیں. حوصلہ اور خود اعتمادی ان کو فطری طور پر لیڈر بنا دیتی ہے. وہ حقیقی طور پر دوسروں کو کنٹرول نہیں کر سکتےاس سال برج حمل ایک طائرانہ نظر

نیا سال ان کے لیے نئے چیلنجز اور ڈھیروں خوشیوں والا ہوگا۔

 ۔تمام برج میں پہلے نمبر پر موجود حمل سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ افراد سال کے آغاز  پر کچھ غیر یقینی صوتحال اور الجھنوں کا شکار رہ سکتے ہیں لیکن سال کے وسط کے بعد سے کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے پھر چاہے وہ نوکری ہو یا کاروبار۔ نئے سال کی آمد اور آغاز کے موقع پر ہم سب کی یہ خواہش بھی ہوگی کہ سالِ گزشتہ کی مشکلات اور تکالیف کو دفن کرکے نئے سال میں ایک نئے، خوشگوار، پُرجوش اور کامیاب سفر کا آغاز کریں۔ہرچندکہ، نئے سال میں دنیا کو کئی جاری اور نئے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے،لیکن نئے سال کے آغاز سے زیادہ پُرامید کوئی اور چیز کیا ہوسکتی ہے؟ 2023 ہمیں مل کر کام کرنےاور باہر کی دنیا کے ساتھ ساتھ، اپنی اندر کی دنیا سے تعلقات کو نئی شکل دینے کا موقع فراہم کرے گا۔اہرین کے مطابق، برجوں کی چال اور زائچہ کی روشنی میں 2023دنیا کے لیے کسی بڑی تبدیلی کا سال ثابت ہوسکتا ہے

نئے سال میں سیاروں کا پہلا اہم ٹرانزٹ 7 مارچ کو ہوگا، جب ذمہ دار زحل وجدانی حوت میں منتقل ہوگا، جس سے نئی شروعات کے لیے گنجائش بنے گی۔ حوت ایک طاقت ور برج ہے اور اس کی خصوصیات بڑی حد تک پھپھوندی کی طرح ہیں۔ جیسے بوسیدہ چیزوں کو کسی نئی اور خوبصورت چیز میں بدل دینے کی صلاحیت۔جب دائرے والا سیارہ اس متغیر پانی کے نشان سے گزرتا ہے، تو وہ ہمیں فرسودہ تصورات اور غیر صحت مند نمونوں کو چھوڑنے کی ترغیب دینے اور اپنے اور دوسروں کو زیادہ قبول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زحل، حوت میں تین سال کے لیے رہے گا، جس سے ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کے طور طریقے بدلنے کا موقع ملے گا۔کچھ روز بعد، 23 مارچ کو، تبدیلی لانے والا سیارہ پلوٹو ترقی پسند دلو میں داخل ہوگا، جو طاقت کے ساتھ ہمارے تعلق کو تبدیل کردے گا۔ علم نجوم میں، پلوٹو اجتماعی ارادے کی نمائندگی کرتا ہے، اور جب وہ اس طے شدہ ہوا کے نشان والے برج میں رہتا ہے، تو وہ ہم سے رکاوٹیں توڑنے اور اس بات پر غور کرنے کو کہتا ہے کہ انسانیت کے لیے کیا بہتر ہے۔ اس پورے سفر کے دوران، ہم اپنے آپ کو فتح کرنے کی اپنی ضرورت سے دور ہوتے ہوئے اور انقلابی نظریات سے بھرے آزادی کے نئے رویے کی طرف بڑھتے ہوئے پا سکتے ہیں۔ آخری بار پلوٹو، دلو میں1778 سے 1798 تک تھا، اس دوران دنیا نے صنعتی انقلاب، روشن خیالی اور فرانسیسی انقلاب کے آغاز کو دیکھا۔

جب سال کا پہلا چاند گرہن باہمت دلو میں 19 یا 20 اپریل (ٹائم زون کے لحاظ سے آپ دنیا کے جس خطے میں رہتے ہیں) آئے گا، جہاں دلچسپ مواقع آپ کے انتظار میں ہوں گے۔ چاند گرہن کا اثر ’سپر پاورڈ‘ نئے چاند کی طرح ہوتا ہے، جو ایسی تبدیلیاں لاتا ہے جو آپ کی روح کی نشوونما میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر یہ چاند گرہن خاص طور پر اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، تو آپ اس پر تیزی سے عمل پیرا ہونے کا دباؤ محسوس کرسکتے ہیں۔ تاہم آپ کو ہمارا مشورہ یہ ہوگا کہ کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ایک لمحہ رُکیں اور ان فیصلوں کے ممکنہ اثرات پر غور کریں۔ اس کے بعد ہی آپ اُبھرنے والے چیلنجز اور تبدیلیوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔5مئی کو، ایک اور چاند گرہن ایماندار عقرب میں آئے گا۔ جذبات اُبھارنے والے یہ واقعات ہمیں اپنے احساسات کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان عادات، لوگوں یا حالات سے چھٹکارا پانے میں مدد کر سکتے ہیں، جو اب ہمارے مفاد میں نہیں رہے۔ عقرب میں اس چاند گرہن کے دوران، محسوس کیا جاسکے گاکہ ان دنوں آپ اپنی زندگی کے کچھ زیادہ کام کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنی جذباتی بیساکھیوں کو چھوڑ کر ’مائنڈفل نیس‘ پر کام کریں۔

اس کے بعد، خوش قسمت مشتری 16 مئی کو ثور میں داخل ہوگا، جس سے ہمیں ایک نئے انداز میں کثرت کو ظاہر کرنے کا موقع ملے گا۔پچھلے سال جب مشتری، مسابقتی حمل سے گزرا تھا تو اس نے ہمیں اپنے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے برعکس، ثور میں مشتری کے آنے پر ہم اپنے صبر، ہمدردی اور سخاوت کی خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے، سب سے زیادہ ترقی کر سکیں گے۔ ہمیں جو کچھ ملا ہے، اگلے 12 مہینوں میں اس پر خوش رہنے پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم متعدد اہداف کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی توانائی کو بکھرنے کا خطرہ مول نہ لیں۔.

SIUT کے میر کا رواں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی-part 2

 

 

  کچھ لوگ دنیا میں ایک خاص مشن کے تحت آتے ہیں اور عوام النّاس کی بے لوث خدمت کا بیڑہ اٹھا کراپنے کام میں جُٹ جاتے ہیں -میں نے جب اپنے وطن کے مایہء ناز مسیحا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو دیکھا تو میرے دل سے ان کے لئے بے اختیار دعائیں نکلیں-تو آئیے جانتے ہیں کہ یہ محترم اور معزز ہستی کس طرح زینہ بہ زینہ اپنے مشن کی تکمیل تک پہنچی..  ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔ یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔

 ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔

سندھ اسمبلی نے 1991 میں سول اسپتال کے گردہ وارڈ کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کیا۔ 2005 میں ایس آئی یو ٹی کو چیریٹل ٹرسٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگادی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسزمشین کے ذریعے خون صاف کراکے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔

 انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے علما سے اس بارے میں آراء جمع کیں۔ اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لیے سیمینارز اور کانفرنس منعقد ہوئیں اور ذرایع ابلاغ پر بھرپور پروگرام منعقد کیے گئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایس آئی یو ٹی میں ہر سال گردے کی پیوندکاری کے 544 آپریشن ہوتے ہیں، یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ سیوٹ میں گزشتہ سال کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ 8 لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اسی طرح 7 لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے،

 اس طرح 22 ڈائیلاسز کے سیشن ہوئے اور ایس آئی یو ٹی کی لیب میں 4کروڑ ٹیسٹ کیے گئے۔ ایک زمانے میں سیوٹ کی پرانی عمارت کی چھت پر مختلف جانوروں کے لیور کے آپریشن کے تجربات ہوتے تھے مگر سیوٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ ہوا، یوں مریضوں کے لیے مفت میں ایک نئی سہولت مہیا ہو گئی اور اب لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے والے مریض بھی ایس آئی یو ٹی کا رخ کرنے لگے۔ جب 2005 میں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو ادیب صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ مظفرآباد اور متاثرہ علاقوں میں گئے جہاں سیکڑوں مریضوں کے آپریشن کیے گئے اور ایک جدید اسپتال حکومت آزاد کشمیر کے حوالے کیا گیا۔ ملک میں گزشتہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں ایس آئی یو ٹی کی ٹیموں نے مریضوں کی جانیں بچانے کے لیے حیرت انگیز خدمات انجام دیں۔

ایس آئی یو ٹی کے دو سیٹلائٹ اسٹیشن ڈرگ روڈ کینٹ بازار اور اپوا اسپتال ناظم آباد میں کام کر رہے ہیں جہاں روزانہ مریضوں کاڈائیلاسز کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ایک اہم کارنامہ سکھر میں ایک مکمل اسپتال کا قیام ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کے عزائم بلند ہیں مگر ان عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔

گلگت- بلتستان -تہذیب و ثقافت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر

 

 

تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے۔ قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس کی جڑوں میں جاندار تہذیب اور مثبت ثقافت کی آبیاری ہورہی ہو۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان کی تہذیب و ثقافت میں رنگا رنگی اور بو قلمُونیّت ہے ۔ فنون ہوں یا دستکاریاں، نغمے ہوں یا لوک گیت، زبانیں ہوں یا لباس ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جتنی رنگا رنگی پاکستان کی رسوم و تقریبات ، تہواروں ، لباسوں اور زبانوں میں ہے، اتنی ہی رنگا رنگی علاقائی ادب ، لوک کہانیوں ، لوک داستانوں ، لوک رومان اور دیگر ثقافتی اقدار میں بھی ہے۔ عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت  بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ، یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔

 خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے '' گلگت بلتستان'' کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔ ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔

دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی۔ اشاعت اسلام کی وساطت سے ایران و عرب کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار رہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے مغلیہ دربار کے ساتھ تویہاں کے راجائوں کے ازدواجی رشتے قائم تھے جس نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کو مزید جلا بخشی ہے۔ نیز کشمیر ، لداخ ، تبت اور یار قند و کاشغر کے ساتھ بھی آمدورفت اور تجارتی ، سفارتی اور ثقافتی تعلق ٹھوس بنیادوں پر استوار تھے۔ یوں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کے مختلف شعبوں یعنی فن تعمیر ، رسوم و تہوار ، ادب وشاعری ، موسیقی ، صنعت و حرفت اور خوراک و لباس پر گردو نواح کے ان علاقوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس سے تہذیب و تمدّن کے جو خدوخال اُبھرے ہیں وہ تحقیق کرنے والوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

داستان گوئی گلگت بلتستان میں قدیم زمانے سے انسانی تہذیب و ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ دادااور دادی اماں کی صورت میں تقریباً ہر گھر میں قصہ گو موجود ہوتے ہیں۔ بچے روتے تو دادا یا دادی جن بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں سے ان کے دل بہلا لیتے۔ ویسے تو گلگت  بلتستان میں چھوٹی بڑی کہانیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن داستان کیسر اس علاقے کے تاریخی و اہم ترین تہذیبی آثار میں سے ہے۔ یونیسکو نے کیسر داستان کو دنیا کی طویل ترین داستان قرار دیا ہے جو منگولیا سے گلگت  بلتستان تک کے وسیع و عریض خطے کی زبان، رسم و رواج، فکرو فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی ماخذ ہے۔ اس داستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں داستان کیسر کو گیسرالوجی کے نام سے باقاعدہ ایک علم قرار دے کر تحقیق کے لئے کئی محکموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اسی طرح پولو گلگت  بلتستان کا قدیم قومی کھیل ہے اور دنیا میں اس کھیل کی ابتداء قبل مسیح کے دور میںیہیں سے ہوئی تھی۔ پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کی گواہی دنیا کے تمام انسائیکلوپیڈیاز اور ڈکشنریاں دے رہی ہیں۔ آج بھی یہ کھیل قدیم انداز میں صرف گلگت  بلتستان میں ہی کھیلا جاتا ہے۔

گلگت  بلتستان میں بولی جانی والی زبانیں شینا، بلتی، بروشسکی، وخی اور کھوار قدیم لسانی آثار میں سے ہیں جن کے دامن مختلف تہذیبوں کے رنگوں سے مالا مال ہیں۔ یہ زبانیں ہزاروں سالوں سے مختلف وادیوں میں اپنے اپنے ماحول اور مزاج کے مطابق ارتقا پذیر ہوتی رہی ہیں۔ یہ زبانیں لوک ادب کے اعتبار سے بہت ثروت مند ہیں جن میں داستانوں، کہانیوں، لوک گیتوں، پہیلیوں، لوریوں، کہاوتوں، روایتوں اور ضرب الامثال کا وافر  ذخیرہ اس علاقے کے ثقافتی آثار کا خزانہ ہے۔ ان زبانوں میں بے شمار محبت کے گیت گائے جا چکے ہیں اور معلوم نہیں ان رومانوی غزلوں نے کتنے نوجوانوں کے سینوں میں عشق کی  آگ سلگا دی ہے۔

گلگت  بلتستان میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں چٹانوں اور پتھر کی سلوں پر منقش جانوروں اور مہاتما بدھ کی تصویریں، ہندسوں ا سٹوپاز کے نقوش اور بدھ مت کے گومپوں کے آثار انقلابات زمانہ کے ہاتھوں مٹ جانے کے باوجود اب بھی باقی ہیں۔ اس طرح کے چٹانی نقش و نگار ماضی میں ان علاقوں میں موجود طبعی ماحول کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ گلگت نپورہ میں چٹان پر منقش ''یاچھینی'' اور سکردو منٹھل میں واقع بدھا پتھر کا دربار بدھ مت کے مذہبی آثار میں سے اہم ترین ورثہ ہیں۔ داریل میں قائم بدھ مت یونیورسٹی اور شگر میں واقع سکیورلونگ گومپہ کی روایات سے ان علاقوں کی قدیم تاریخ و تہذیب کے کئی باب کھلتے ہیں۔یہاں کی خوراک میں گلگت کے نسالو و ڈائو ڈائو، ہنزہ نگر کے چھپ چھورے، شربت اور درم پھٹی،  بلتستان کے مارزن، پڑاپو اور ازوق دسترخوان کی زینت بن جائیں تو نہ صرف دیکھنے والوں کے منہ سے بے اختیار رال ٹپکنے لگتی ہے بلکہ اس علاقے کے لوگوں کی صحت و توانا جسم کا راز بھی انہی خالص غذائوں میں نظر آتا ہے۔

یہ دنیا کی ہر قوم کا دستور ہے کہ جب انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو رقص و سرور کی محفلیں جمتی ہیں۔ گلگت  بلتستان کا علاقہ موسیقی و رقص کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ یہاں ایران وعراق، ہندوستان و تبت اور وسط ایشیائی ریاستوں کی موسیقی کے حسین امتزاج پر مبنی درجنوں اقسام کے راگ اور دھنیں رائج ہیں ان میں حریب کے نام سے ساٹھ سے زیادہ اقسام کے پکے راگ  بلتستان و ہنزہ میں اب بھی رائج ہیں۔  بلتستان کے شمشیر رقص گاشوپا، چھوغو پراسول اور پھورگون کار جبکہ ہنزہ کے اپی ژھونٹ، الغنی اور دنی جیسے رقص کا تماشا دیکھنے کے بعد یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قراقرم و ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان بسنے والے یہ کوہستانی لوگ کس قدر باذوق اور رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔الحمدللہ گلگت  بلتستان کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ مہمان نوازی، دیانت داری اور خلوص و محبت ان کی قومی پہچان ہے۔ اللہ رب العزت کی رضا اور اُس کی طرف سے متعین برگزیدہ ہستیوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادات بجا لانا اور محافل و مجالس کا انعقاد کرنا گلگت  بلتستان کے باسیوں کا شیوہ رہا ہے۔

گلگت  بلتستان کی اس سرزمین رنگ وبو پر مختلف ادوار میں رائج مظاہر پرستی ، زرتشتی ، بون مت، ہندومت اور بدھ مت جیسے ادیان و نظریات اور عقائد نے اس علاقے کی تہذیب و تمدن کی بنیادی پرداخت میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ بالخصوص دین فطرت اسلام نے پرانی تہذیبوں پر دوررس اثرات ڈالتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اتنی تہذیبی و تمدنی رنگارنگی کی آماجگاہ رہا ہو۔ ان تہذیبی، تاریخی اور تمدنی حقائق کے اجزائے ترکیبی کی تحقیق کے لئے گزشتہ دو صدیوں کے دوران غیر ملکی سیاحوں،محققین اور تاریخ نویسوںنے وقتاً فوقتاً یہاں آکر خامہ فرسائی کی ہے لیکن پھر بھی اس شعبے کا ہر پہلو اپنے اندر تاریخ و ادب اور تہذیب و ثقافت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے سینے میں لے کر دعوت فکر دے رہا ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے کسی ملک کے تاریخی وثقافتی ورثوںاور سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں اب تک پاکستان کے صرف چھ مقامات موہن جوداڑو، تخت باہی ، قلعہ روہتاس، قلعہ لاہور، ٹیکسلا اور مکلی کا قبرستان شامل ہیں۔ یہ بات ہم بلا خوف ِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے علاوہ صرف گلگت  بلتستان میں درجنوں تاریخی و ثقافتی مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ ان میں تین سو سے پانچ سو سال کی قدیم مساجد، خانقاہیں، قلعے اور مزارات گلگت  بلتستان کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شامل کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے جہاں تاریخی و ثقافتی مقامات اور سیاحوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی درکار ہوتی ہے وہاں امن و امان کا قیام بھی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایک عرصہ تک امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر رہا۔ اب حالات بڑی حد تک معمول پر آ چکے ہیں اور سیّاحوں نے پاکستان کی طرف رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ خوش قسمتی سے گلگت  بلتستان کا پرامن اور پر سکون ماحول دنیا میں مثالی اور عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گلگت  بلتستان میں تیس لاکھ سیاحوں کی آمد کا اندازہ لگایا گیا ہے ۔

سیاحت دنیا بھر میں اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسے دنیا کے مختلف ممالک میں انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے ۔تہذیبی و ثقافتی اقدار اور تاریخی آثار کو ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لئے بروئے کار لانا دانشمند قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ ہماری ثقافتی سرگرمیاں پائیدار قومی تعمیر و ترقی کی ضامن ہونی چاہئیں۔ ہماری ادبی رعنائیوں ، ثقافتی رنگارنگیوں اور آثار قدیمہ کو سیاحت سے مربوط کر کے ملک کو اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے گلگت  بلتستان کو مشرق کا سوئٹزرلینڈ بنانا ہو گا۔وطن عزیز پاکستان میں گلگت  بلتستان جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے سیاحت کے لئے موزوں ترین خطہ ہے ۔ لیکن ان سیاحتی مقامات اور آثار کو دانشمندانہ طریقے سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور سیاحوں کے لئے درکار سہولتوں کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔  نیز گلگت  بلتستان کے لوگوں کو ماضی کے تناظر میں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاکر اور علاقے کی تہذیبی و ثقافتی قدروں کو محفوظ کرکے سیاحتی مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یوں گلگت  بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور یہ شعبہ پاکستان کے لئے پائیدار اقتصادی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا


مولائے کائنات مشاہیر عالم کی نظر میں

 

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علی (علیہ السلام) کا بڑا عاشق تھا اس نے ایک کتاب(صوت العدالۃ الانسانیہ) یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو وہ کافی بے چین ہو گیا لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ جب یہ کتاب چھپ گئی اور مقبول ہو گئی تو اس کی اشاعت سے اسے بھرپور منافع ہوا جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کر اسے واپس کرنا چاہی تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علی (علیہ السلام) کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؓ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اس لئے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا ،جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا ،اس لئے میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اس لئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔ 

سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخِ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے غدیر خُم کے دن اعلان فرمایا جس کا میں مولا ہوں اُس کے علیؓ مولا ہیں۔

(امام احمد بن حنبل نے المسند ج1 ص 152)

قرآن و حدیث میں مولا علیؓ پاک کی بیشمار فضیلت بیان کی گٸی ہے لیکن میں نے سوچا کہ اس بار یہ بیان کیا جاٸے کہ غیر مسلم مولا علی علیہ السلام کو کس طرح مانتے ہیں۔

کیونکہ حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت ایسی ہے کہ جس کو اپنے تو اپنے غیروں نے بہی تسلیم کیا جب حضرت علی علیہ السلام کے اوصاف دیکھے تو دنگ رہ گئے اور شانِ علیؓ لکھنے اور بیان کرنے پر مجبور ہو گٸے 

عظمتِ مولا کاٸنات پر مختلف مذاہب کے مصنفین نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ہر ایک کتاب حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک حصے کو بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو تمام نوع انسانی بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و مکتب ، قوم و ملت ، شرق و غرب زندگی کے تمام مراحل ، شعبے اور ادوار کے لئے مشعل راہ ہے۔ آج علماء و دانشور اپنی علمی پیاس بجھانے اور ناخواندہ اپنے ہادی سے درس ہدایت کی تلاش میں ہیں زاہد ، متقی ، عابد امام المتقین کی تلاش میں ہیں ۔ حقوق انسانی سے لے کر حقوق غیر بشری تک یا گھریلو حقوق سے لےکر عالمی طبقاتی و غیر طبقاتی حقوق تک سب فطری طور پر ایک ایسے ہی فطری رہنماء کی تلاش میں ہیں سیاستدان اپنی سیاست ، دیندار اپنے دینی مسائل ، تاجر اپنی تجارت کے معاملات میں ، محقق اپنی تحقیق کے مراحل میں ، فطرت سلیم جیسے کامل ترین رہنماء کی تلاش میں ہیں مختلف مکاتب ومسالک ، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے نبی کریمﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔

اس تحریر کی ابتداء ایک (ہندو پنڈت اچاریہ پرمود کرشنا)

کی منقبت سے کر رہا ہوں جو ایک ہندو ہوکرحضرت علیؓ کیلئے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے۔

 

میرے سینے کی دھڑکن ہیں میری آنکھوں کے تارے ہیں۔

سہارا بے سہاروں کا نبیﷺ کے وہ دُلارے ہیں۔

سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا،

علی جتنے تمہارے ہیں علی اتنے ہمارے ہیں۔

نبیﷺ نورِ خدا ہے تو علی نورِ نبیﷺ سمجھو

نہ اس سے کم گوارا تھا نہ اس سے کم گوارا ہے۔

سمندر درد کا اندر مگر میں پی نہیں سکتا

لگے ہوں لاکھ پہرے پر لبوں کو سی نہیں سکتا

علی والو علی کے عشق کی یہ داستان سن لو

اگر علی کا ذکر نہ ہو تو یہ بندہ جی نہیں سکتا۔

جس کسی نے بہی اس عظيم شخصیت کے کردار،گفتار اور اذکار ميں غور کيا، وہ دريائے حيرت ميں ڈوب گيا اور شانِ علیؓ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔

ايک غیر مسلم محقق لکھتا ہے کہ حضرت علی عليہ السلام وہ پہلی شخصيت ہيں جن کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے وہ سب کے دوست ہيں اور اُن کی موت پيغمبروں کی موت جیسی ہے-

معروف سکھ دانشور، شاعر و ادیب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتا ہے۔ 

تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے

کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے

ہم سلامت ہیں زمانے میں تو ان شاء اللہ

تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے۔ 

تھامس کار لائیل لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ایک عظیم ذہن رکھتے تھے اور بہادری ان کے قدم چومتی تھی، ہم علی(علیہ السلام )کو اس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں، وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے، ان کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے، ان کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے، وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش بھی تھی پھر اچانک کوفہ میں کسی بہانے سے انہیں قتل کردیاگیا، ان کے قتل کی وجہ حقیقت میں ان کا درجہء کمال تک پہنچا ہوا عدل تھا، جب علی(علیہ السلام) سے اُن کے قاتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے، اگر آپ نے قصاص لینا چاہا تو آپ صرف ایک ہی ضرب لگا کر سزا دیں گے اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے۔

تھامس کار لائل مزید لکھتا ہے کہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھے۔

برطانوی تاریخ دان ایڈورڈ گبن۔

(1737-1794) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کی فصاحت تمام زمانوں میں زندہ رہے گی، بلاشبہ خطابت اور تیغ زنی میں وہ یکتا تھے۔

شامی نژاد امریکی پروفیسر فلپ کے (1886-1978) لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں کیلئے فراخ دل تھے۔

 

اسکاٹش سیاستدان سر ویلیم مور (1918-1905) کا ماننا ہے کہ سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی اور انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسولِ خداﷺ کے نام کر دیا تھا۔ 

جیرالڈ ڈی گورے (1897-1984) لکھتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی کی مثال رہیں گے۔ 

برطانوی ماہر تعلیم ولفرڈ میڈلنگ

(1930-2013) لکھتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخ دلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔ 

معروف مورخ چارلس ملز لکھتا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم کہ جس میں علیؑ جیسا عادل انسان پیدا ہوا، نبی اللہ سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰیؑ سے حضرت ہارونؑ کو تھی۔

برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) کہتا ہے کہ خانہ خدا میں حضرت علی کی ولادت ایک ایسا خاصا ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔(9) بھارتی صحافی ڈی-ایف-کیرے، 1911-1974، لکھتا کہ علی (علیہ السلام) کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

 (ایک عیسائی محقق ڈاکٹر شبلی شُمَیّل

کتاب ادبیات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکیمی، صفحہ250)

حضرت علی پاک (علیہ السلام ) تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی۔

تھامس کارلائل لکھتا ہے: ”ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی۔

یہ جرمنی کا ایک مشہور و معروف شاعر ہے جو حضرت علی (علیہ السلام ) کے بارے میں لکھتا ہے ۔

علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور اُن پر فدا ہونے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ وہ شریف النفس اور بلند مرتبہ کے جوان تھے۔ ایسےپاک نفس کے مالک تھے جو مہربانی اور نیکی سے بھرا ہوا تھا۔ اُن کا دل جذبہ ایثار اور ہمدردی سے لبریز تھا۔ وہ بپھرے ہوئے شیر سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع تھے، ایسی شجاعت جو لطف و مہربانی، ہمدردی اور محبت کے جذبات سے سرشار تھی”۔

واشنگٹن ارونیک Washington Irving-یہ امریکہ کے ایک محقق اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں : علی علیہ السلام کا تعلق عرب قوم کے با عظمت ترین خاندان یعنی قریش سے تھا ۔ وہ تین بڑی خصلتوں ، شجاعت ، فصاحت اور سخاوت کے مالک تھے ۔ ان کے دلیرانہ اور شجاعانہ روح کی وجہ سے انہیں شیر خدا کا لقب ملا ۔ وہ لقب جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں عطا کیا

حضرت مولا علی (علیہ السلام)

کی ان تمام صفات کو ایک شاعر استاد شہریار ایک شعر میں یوں بیان کرتا ہے 

نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند 

متحیرم چہ نامم شہ ملکِ لافتیٰ را

میں علی (علیہ السلام) کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ اس شہ ملکِ لافتیٰ کو کیا کہوں.

جُرجی زیڈان : Jurji Zaydan

یہ عرب کے مشہور و معروف عیسائی دانشور اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے حوالے سے لکھتے ہیں : اگر میں کہوں کہ( مسیح حضرت عیسی) علی علیہ السلام سے بالا تر تھے تو میری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور اگر میں کہوں کہ علی علیہ السلام مسیح سے بالاتر تھے تو میرا دین اجازت نہیں دیتا

جارج جرداق مزید لکھتا ہے کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟۔۔۔جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اس کا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اس کو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان شعر میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اس کے قلم سے علی (علیہ السلام) کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں۔

خلیل جبران لبنانی عیساٸی کہتا ہے کہ میرے عقیدے کے مطابق حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا مردِ عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔

معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شہیدِ امام ہے کہ جس کی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے، جنگ احد میں رسول خدا کی تلوار ذوالفقار سے زرہوں اور سپروں کے سینے چاک کرکے حملے کئے، قلعہ خیبر پر حملہ کیا تو اپنے طاقتور ہاتھوں سے اس سنگین لوہے کے دروازے کو اکھاڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ پیامبر ﷺ کو ان سے شدید محبت تھی اور وہ ان کے اوپر مکمل اعتماد کرتے تھے۔

معروف اسکالر میڈم ڈیلفائی رقمطراز ہیں کہ ع فیصلوں کے وقت انتہائی درجے تک عادلانہ فیصلے کرتے تھے، علیؑ قوانین الہٰی کے اجرا میں سختی سے کام لیتے تھے، علیؑ وہ ہستی ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت جن کے تمام اعمال کی رفتار بہت ہی منصفانہ ہوتی تھی، علی وہ ہیں کہ جن کی دھمکی اور خوشخبری قطعی ہوتی تھی، پھر لکھتی ہیں کہ اے میری آنکھوں گریہ کرو اور اپنے اشکوں کو میرے آہ و فغاں کے ساتھ شامل کرو کہ اہل بیت کو کس طرح مظلومانہ طریقے سے شہید کردیا گیا

“گبرےیل ڈانگیرے” (Gabriel Dangyry)

لکھتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکیں ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدانِ جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو علومِ الہیہ کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتبِِ فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں، جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں لیکن حضرت علی پاک (علیہ السلام) ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلند پایہ قاضی تھے اور مکاتب فکر کے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے حضرت علی پاک ( علیہ السلام) شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو۔”

میرے سامنے فضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا، جن کی شمارش سے میں قاصر تھا۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔ “حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اور بہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) “حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) “حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) “سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) “حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے۔” (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984) “حضرت علیؑ کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔”

معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013) “خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ہاروں کو تھی۔” معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826) “خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔” برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) “علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔” امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859)ٖ “میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔” بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974) اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیر مسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جا پہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائیں، تب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے تک بھی پہنچنا ممکن نہیں۔ اب بھی اگر لوگ علی ؑ کا دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں موازنہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔ اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمﷺ کے بعد مقامِ احبیت میں سب سے محبوب ترین ہستی حضرت مولا علی پاک ( علیہ السلام) کی ہے

 

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر