script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506"
crossorigin="anonymous">
اِنشاء جی کا شُمار بلا شبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز اور بلند پایہ قَلم کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے، ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے، سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پا یا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں ۔
اِبنِ اِنشاء کا اصل نام شیر مُحَمّد خان تھا۔ انہوں نے قلمی نام (اِبنِ اِنشاء) اِختیار کیا۔ جمیلُ الدین عالی نے اِبنِ اِنشاء کو "اِنشاء جی" کہا جِس کی وجہ سے اِبنِ اِنشاء "اِنشاء جی" ہی ہو گئے
اِنشاء جی 15 جون 1927ء کو مُوضع تھلہ، تحصیل پھلور، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام چوہدری مُنشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ اِنشاء جی نے 1942ء میں لُدھیانہ ہائی سکول سے دَرجہ اَوّل میں میٹرک کا اِمتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انبالہ چھاؤنی میں مِلٹری اکاؤنٹس میں بطَورِ کلرک بھرتی ہو گئے۔ کم آمدنی، گھریلو اُلجھنوں اور دفتری مَصرُوفیات کے باوجُود اُنہوں نے تعلیمی سِلسِلہ مُنقطع نہیں ہونے دیا، چُنانچہ 1944ء میں مُنشی فاضِل کا اِمتحان پاس کرنے کے بعد اُنہوں نے 1946ء میں جامِعہ پنجاب سے بی اے کی ڈِگری حاصِل کی۔
گریجویشن کرنے کے بعد اِنشاء جی نے مِلٹری اِکاؤنٹس کی مُلازمت کو خیر باد کہا اور دہلی جا کر امپیریل کونسل آف ایگریکلچر میں بھرتی ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے اور 1947ء سے 1949ء تک ریڈیو پاکستان لاہور میں کام کرتے رہے۔ جُولائی 1949ء میں وہ ریڈیو پاکستان کی مُلازمت کے سِلسِلے میں کراچی مُنتَقِل ہو گئے جہاں اُنہوں نے اُردو کالِج کراچی میں داخلہ لیا اور 1953ء میں اُردو زُبان وادب میں ایم اے کیا۔
وہ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے رُکن بنے اور 1962ء میں نیشنل بُک کونسل (اب اِس اِدارے کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کہا جاتا ہے) کے ڈائریکٹر مُقرَّر ہوئے اور طویل مُدّت تک اِس عُہدے پر تعیّنات رہے۔ اِبنِ اِنشاء ٹوکیو بُک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کوپبلیکیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مَجلِسِ اِدارت کے رُکن بھی تھے۔ زندگی کے آخری اَیّام میں حُکُومتِ پاکستان نے اُنہیں اِنگلستان میں تعیّنات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا عِلاج کروا سکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اُردو اَدب کے اِس مایہ ناز ادیب اور بنجارے شاعِر کو اُن کے لاکھوں مَدّاحوں سے جُدا کرکے ہی دَم لیا۔
اِبنِ اِنشاء کو بَچپن ہی سے شِعر گُوئی کا شُوق تھا۔ زمانہِ طالِب عِلمی میں اُنہوں نے "اصغر، قیصر، مایُوس اور مایُوس صِحرائی" تَخَّلُص اَپنائے تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں اُنہیں کئی سانِحات اور مَحرُومیوں (بِالخُصُوص پِہلی شادی میں ناکامی) کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعِری میں فَلاکَت، درد وغم، حُزنُ ومَلال اور اُداسی وپُژمُردگی کی بازگَشت بَکثرت سُنائی دیتی ہے۔ اُن کی بہت سی غزلیں اور نظمیں اُن کی ذہنی کیفیات کی غَمَّاز وعَکَّاس ہیں۔ وہ خُود کِہتے ہیں کہ: "میری نظموں میں وَحشَت، سُپُردگی اور ربودگی میری زندگی ہے۔" اِنشاء جی نے بھرپُور شاعِری کی ہے جِس میں جوگ بَجوگ کی کہانیاں اور ویرانئی دل کی حَسرت ومَاتم کی حکایتیں ہیں۔ اُن کی شاعِری میں فقر، طنطنہ، وارفتگی اور آزارگی پائی جاتی ہے۔
اِنشاء جی کا پِہلا مجمُوعہ کلام 1955ء میں "چاند نِگر" کے نام سے شائع ہُوا۔
اِس کے عِلاوہ اُن کے شِعری مجمُوعوں میں "اِس بستی کے اِک کُوچے میں
(1976ء) اور دلِ وحشی (1985ء) شامِل ہیں۔ اِنشاء جی نے بَچّوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔
۔ اُن کے سفرناموں میں "چلتے ہو تو چین کو چلیے (1967ء)، آوارہ گرد کی ڈائری (1971ء)، دُنیا گُول ہے (1972ء)، ابنِ بطوطہ کے تعاقُب میں (1974ء) اور نَگری نَگری پِھرا مُسافِر (1989ء)" شامِل ہیں۔ عِلاوہ ازیں اُن کی دیگر کِتابوں میں "اُردو کی آخری کتاب (1971ء)، آپ سے کیا پردہ، خُمارِ گندم (1980ء) باتیں اِنشاء جی کی اور قِصّہ ایک کنوارے کا" قابلِ ذکر ہیں۔
ابن انشاء کا خوبصورت انشائیہ ’’خطبہ صدارت حضرت ابن انشاء‘‘ کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے اور ان کی بہترین انشاء پردازی کا اندازہ لگائیے۔
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک زمانہ تھا ہم قطب بنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستا رہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کیا۔ پھر اخبار شاعر میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگو ں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بد دل ہو کر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ بولے میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سب ہی سمجھدار لوگوں کی ہے۔
اِنشاء جی ایک مُتَرَجِم کی حیثِیّت سے بھی بُلند مُقام پر فائز ہیں۔ اُنہوں نے کثیر تعداد میں منثُور ومنظُوم کِتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا-خمار گندم سے لیا گیا سبق
اِبنِ اِنشاء نام ہم نے نہ جانے کَب رکھا تھا اور کیوں رکھا تھا۔ نَیا نام رکھنے کا فائِدہ یہ ہُوا کہ لوگ سَیّد اِنشاءالله خاں اِنشاء کی رِعایَت سے ہمیں بھی سَیّد لِکھنے لگے یعنی گھر بیٹھے ہماری تَرَقِّی ہو گئی۔ لکھنؤ والوں نے اَلبَتّہ ہماری زُبان کے نَقائِص کے لیے اِسی کو بَہانا بَنا لیا کہ ہاں دِلّی والے ایسی ہی زُبان لِکھا کرتے ہیں۔ پِھر ایک روز ایسا ہُوا کہ ایک صاحِب نے آکر ہمارا ہاتھ اَدب سے چُوما اور کہا: والله! آپ تو چُھپے رُستم نِکلے۔ آپ کا کَلام پَڑھا اور جِی خُوش ہُوا۔ ہم نے اِنکِسار بَرتا کہ ہاں کُچھ ٹُوٹا پُھوٹا کِہہ لیتے ہیں۔ آپ نے کون سِی غزل دیکھی ہماری۔ حافظے پر زور ڈال کر کہنے لگے پھر کبھی سناو ں گا آپ ابھی اپنا تازہ کلام سناِئے