بدھ، 7 جون، 2023

شاہد ہے ادائے میثم بھی

 

 

شاہد ہے ادائے میثم بھی ہم ہیں وہ علیؑ کے دیوانے

جس پیڑ پہ پھانسی لگنی ہے اُس پیڑ کو پانی دیتے ہیں

میں نے یہ شعر لکھنو کے ایک شاعر جن کا نام مجھے نہیں معلوم ان کی منقبت سے لیا ہے-روائت ہے کہ مولا علی نے ایک بار کسی درخت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میثم تم کو میری محبّت کے جرم میں اس پیڑ پر پھانسی دی جائے گی-تب سے حضرت میثم تمّار اس درخت کو بڑی تو جہ سے پانی دیا کرتے تھے-وہ علم تفسیر میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔  مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ 

لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے یہ خبر کہانت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں بعد میں حضرت علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کیا اور جب ان کا نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا: "میرا نام سالم ہے"؛ حضرت علیؑ نے فرمایا: "پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عجمی والدین نے تمہارا نام "میثم" رکھا تھا"، میثم نے تصدیق کردی  امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "اپنے سابقہ نام کی طرف لوٹو جس سے پیغمبرؐ نے بھی تمہیں پکارا ہے"، میثم نے قبول کیا اور ان کی کنیت "ابو سالم" ٹھہری۔

 ان کی دوسری کنیت "ابو صالح" تھی۔ عاشق علی میثم تمار کی شہادت نمونہ حق گوئی ہےامام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل جناب میثم کی 60 ہجری میں ابن زیاد کے حکم سے شہادت ہوئی۔22 ذي الحجہ سنہ 60 ہجری قمری کو رسول اکرم حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم کے یہ صحابی میثم تمّار شہید ہوئے ۔میثم تمّار ایک غلام تھے جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کردیا تھا ۔وہ حضرت علی علیہ السلام کے بھی انتہائي قریبی ساتھی اور وفادار صحابی تھے ۔میثم تمار کو اموی حکمرانوں نے اہل بیت رسول (ص) سے مودت و عقیدت کے جرم میں شہید کردیا۔آپ کا مزار عراق کے شہر کوفے میں مرجع خلائق ہے جب عبید اللہ بن زیاد کوفہ آیا تو اس نے معرف کو بلایا اور اس سے میثم کے بارے میں تفتیش کی، معرف نے کہا: حج پر گئے ہیں، ابن زیاد نے کہا: اگر اس کو نہ لایا تو تجھے قتل کردوں گا، معرف نے مہلت مانگی، اور جناب میثم کے استقبال کیلئے قاسدیہ گیا اور جناب میثم کے آنے تک وہیں پر انتظار کرتا رہا ، پھر ان کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا،

جس وقت مجلس میں داخل ہوئے تو حاضرین نے کہا یہ علی(علیہ السلام)کے سب سے نزدیکی دوست ہیں، عبید اللہ نے کہا: کیا تم میں جرائت ہے کہ علی سے بیزاری اختیار کرو،جناب میثم نے فرمایا: اگر میں یہ کام نہ کروں تو تم کیا کروگے؟ اس نے کہا خدا کی قسم تمہیں قتل کردوں گا، جناب میثم نے فرمایا: میرے مولا علی(علیہ السلام)نے مجھے خبر دی ہے کہ تو مجھے قتل کرے گااور دوسرے نو افراد کے ساتھ عمرو بن الحریث کے گھر میں پھانسی پر لٹکائے گا۔عبیداللہ نے حکم دیا کہ مختار اور میثم کو زندان میں ڈال دو، میثم نے مختار سے کہا تم آزاد ہوجاؤ گے لیکن یہ شخص مجھے قتل کرےگا، پھر مختار کو قتل کرنے کیلئے باہر لے گئے، اسی وقت ایک قاصد یزید کے پاس سے آیا کہ مختار کو آزادکردے، لیکن میثم کو عمرو نب الحریث کے گھر میں پھانسی دیدے، عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ پھانسی دینے کی جگہ کو صاف کردے اور اور گھر میں خوشبو لگادے ،میثم نے دار سے اہل بیت (علیہم السلام)کے فضائل بیان کرنے شروع کئے اور بنی امیہ پر لعنت کی اور بنی امیہ کے منقرض ہونے کی خبر دی، یہاں تک کہ ابن زیاد کو خبر دی گئی کہ میثم نے تجھے ذلیل و رسوال کیاہےاس ملعون نے حکم دیا کہ ان کے منہ کو لگام سے باندھ دو تاکہ بول نہ سکے-

تیسرے دن اس ملعون کو ایک اسلحہ مل گیا اس نے کہا : خدا کی قسم اس اسلحہ کو تمہارے ضرور ماروں گا، جبکہ جناب میثم دن میں روزہ سے تھے اور رات کو عبادت خدا میں مشغول رہتے تھے اس نے وہ اسلحہ آپ کے پیٹ کے نیچے مارا جو اندر تک چلا گیا، تیسرے دن آپ کی ناک سے خون آیا اورآپ کی ڈاڈھی اور سینہ مبارک پرجاری ہوگیااور آپ کی روح عالم بقاء کی طرف پرواز کر گئی۔ میثم کی شہادت امام حسین(علیہ السلام)کے کربلا میں داخل ہونے سے دس روز قبل ہوئی،۔رات کو سات  خرما فروش خاموشی سے آئے اور انہوں نے جسد مبارک کو سولی سے اتار کر مخفی طورپر نہر کے کنارے دفن کردیا، پھر اس کے اوپر پانی ڈال دیا تاکہ کسی کو آپ کی قبر کا پتہ نہ چلے، اس کے بعد ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ کی قبر کو بہت تلاش کیا لیکن انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اتوار، 4 جون، 2023

نوابین کی ریاست بہاول پور

<\head>

 

نوابین کی ریاست بہاول پور کے لئے بتایا جاتا ہے کہ بغداد کی تباہی کے بعد وہاں سے آئے ہوئے عبّاسی حکمرانوں نے-نواب صادق محمد خان اول عباسی کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی نے 1774ءمیں دریائے ستلج کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک نئے شہر بہاول پور کی بنیاد رکھی اور ریاست کے وسط میں ہونے کی بنا پر اسے ریاست کا دار الخلافہ قرار دیا گیا،یہ بڑے ہی صاحبان علم و ہنر کے دلدادہ حاکم ثابت ہوئے اور انہوں نے بہاول پورکے چپّہ چپّہ پر علم کی شمعیں جلانے کے لئے اسکول 'کالج' مدرسوں کا جال بچھا دیا اتو دوسری جانب انتہائ خوبصورت عمارتوں کی بنیادیں رکھتے گئے -وہ اب اگلے جہان جا چکے ہیں لیکن بہاول پور کی سرزمین پر ا نکی یادگاریں ایک جانب علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی تعمیرات سیّاحوں کو دعوت نظارہ دیتی دکھائ دے رہی ہیں

تاریخ کہتی  ہے کہ مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔ نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔

نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ے جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔

ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ 

اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔ قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکرغیر آباد زمینوں کو لہلہاتی فصلوں کے کھیتوں میں بدل دیا 

 ۔ عباسی خاندان نے اپنے دور میں بہاولپور میں جو خوبصورت اور عظیم الشان محلات بنوائے تھے ان میں نور محل، دربار محل، نشاط محل، ڈیرہ نواب صاحب کا صادق گڑھ پیلس شامل ہیں جبکہ قلعہ جات میں قلعہ ڈیراور، قلعہ موج گڑھ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ ولر، قلعہ پھولڑہ، قلعہ مٹو اور قلعہ بجنوٹ وغیرہ شامل ہیں، نوابوں نے فن تعمیرات کے نمونہ محلات تو اس وقت شہر کے قریب خوبصورت اور پرفضا مقامات پر بنوائے تھے، جبکہ قلعہ جات شہر سے دور ریگستان میں ریت کے  ٹیلوں کے درمیان بنائے گئے تھے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر