Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 17 فروری، 2024
خطبہ -مولا علی علیہ السلام
جمعرات، 15 فروری، 2024
اھلا و سہلاً مرحبا🌹ولادت مبارک امام زین العابدین علیہ السلام
درد جگر ٹھہر زرا
جگر (liver) ہما رے بد ن میں ایک ایسا عضو ہے جورنگت میں گہرا سرخ اور نرم گوشت کی مانند ہوتا ہے۔ جگر کوانسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جگر ہما ر ی صحت برقرار رکھنے میں کلید ی کردار ادا کرتا ہے اگر کسی و جہ سےجگر میں کو ئ خرا بی پید ا ہو جا ۓ تو علامات واضح ہونے لگتی ہیں۔جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں درد، بھوک کا احساس نہ ہونا، تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ ہو نا شا مل ہے۔جلد کی رنگت زردی مائل ہوجاتی ہے جبکہ آنکھوں میں بھی پیلاہٹ نمایاں ہوجاتی ہے۔جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔
اگر جگر کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ باآسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں مبتلا کرسکتاہے ۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سرخ خلیات میں زیادہ مقدار میں ایک زرد مادہ جمع ہوجاتا ہے۔عام طور پر جگر اس مادے کو جسم سے خارج کرتا ہے مگر جب وہ بیمار ہوتا ہے تو ایسا نہیں کرپاتا۔اگر کسی مریض کو جگر کے دائمی امراض کا سامنا ہو تو خارش کی شکایت بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اس خارش کے نتیجے میں سونا مشکل ہوسکتا ہے اور کھجانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر اس طرح کی شکایت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کر نا چا ہۓ -جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ جگر کے بیما ر ہونے پر معدے میں سیال جمع ہونے لگتا ہے جس سے پیٹ میں ورم بڑھ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے بہت زیادہ پھول گیا ہے۔جگر کے امراض کے شکار کچھ افراد کی ٹانگوں اور ٹخنوں میں یہ سیال جمع ہوجاتا ہے جس سے یہ حصے سوج جاتے ہیں، ان حالات میں نمک کا کم استعمال مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔
فضلے کی رنگت بہت زیادہ زرد ہوجاتی ہے۔ جبکہ پیشاب کی رنگت بہت زیادہ گہری براون ہوجاتی ہے۔جگر کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ جسم اور دوران خون میں زہریلے مواد کا اجتماع ہوتا ہے۔اس مواد کے نتیجے میں دماغی افعال بھی متاثر ہوتے ہیں جس سے ذہنی الجھن یا توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، چیزیں بھولنا بھی عام مسئلہ ہوتا ہے۔جگر کے ا امراض سے جسم میں زہریلے مواد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر وقت متلی ہو نے کا احساس ہوسکتا ہے یا قے کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔جگر کو زیادہ نقصان پہنچا ہو تو قے یا فضلے میں خون بھی نظر آسکتا ہے۔اگر جگر کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہلکی رگڑ سے بھی خراشیں نمایاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح اگر کسی جگہ سے خون بہنے لگے تو وہ آسانی سے رکتا نہیں، کئی بار الٹا اثر بھی ہوتا ہے یعنی جریان خون کی بجائے جگر کے امراض کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔'
جگر کے اہم افعال
آپ کا جگر تقریباً 500 مختلف کام کرتا ہے جن سے آپ کے جسم کی کارکردگی بہترین رہتی ہے۔جگر ہی پیشاب اور فضلے کے افعال کو صحت مند بناتا ہے ان میں سے دو اہم ترین کام خون صاف کرنا اور ہاضمے میں مدد دینا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صحتمند جگرتوانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔-جب جگر کو نقصان پہنچ چکا ہو تو وہ یہ کام ٹھیک طرح نہیں کر سکتا اس لیے اپنے جگر کو صحتمند رکھنا اہم ہے۔ہر طبیب کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا انتخاب ہی بہت بہتر ہوتا ہے- آپ کو غذائ چارٹ اسی عنوان کے پارٹ 2میں پڑھنے کو ملے گا۔اس اہم عضو کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جگر کی حفاظت اور صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے جگر کا عالمی دن منایا جا نے لگا ہے۔
اتوار، 11 فروری، 2024
مجلس -28 رجب -جب بدر کربلا تک آ گئ
اما م عالی مقام جب یزید کے ارادوں سے آگاہ ہو گئے تب آپ نے شہر مدینہ سے کوچ کا ارادہ کیا رات کے وقت اپنی مادر گرامی کی قبر پر آئے بہت دیر قبر سے لپٹے رہے پھر امام حسن علیہ السلام کی قبر پر حاضری دی اور نماز بجا لائے اور وداع کیا آخر شب نانا رسول اللہ کی قبر پر حاضری دی اور دو شب مسلسل اپنے جد امجد کی قبر پر رہے۔امام عالی مقام کے بھائ محمد حنفیہ کو معلوم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کوچ کر رہے ہیں تو محمد حنفیہ ملنے آئے تب ۔امام نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا: "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب”۔ترجمہ: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں) اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ اور بابا علی بن ابی طالب کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔ مکہ کی طرف روانگی-شہر مدینہ کو الوداع کرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے شعب ابی طالب کو اپنے اور اہل خانہ کے لئے قیام کا انتخاب کیا
امام حسین علیہ السلام اٹھائیس رجب کو رات کے وقت اور بروایت دیگر تین شعبان سنہ 60 ہجری کو اپنے خاندان اور اصحاب کے افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا امام حسین کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔چالیس بنو ہاشم کے گھرانے کے دو سو افراد کے ہمراہ آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔ مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین علیہ السلام پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا پُر جوش استقبال کیا ذوالحج کو امام حسین علیہ السلام، ہاشمی نوجوانوں کے ہمراہ حرم کعبہ میں موجود تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ یزید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے حاجیوں کے بھیس میں اپنے تیس افراد مکہ بھیجے ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں اور کسی بھی وقت امام علیہ السّلام کو بیت الله کی حرمت کا خیال کے بغیر قتل کر دیں گے - امام علیہ السّلام نے اس صورت حال سے اپنے ہمراہ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو آگاہ کیا -علمدار حسینی نے جب یہ جسارت سنی تو جلال میں آ گئےاور دوسرے ہاشمی جوانوں کو اکٹھا کر کے امام کو فوراً اپنے حصار میں لے لیا - امام نے جوانوں کے جوش کو دیکھتے ہوے حکم دیا کہ فوراً حرم کو چھوڑ دیا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ خون خرابے کی نوبت نہ آئے -
امام علیہ السلام نے حج کو عمرہ سے تبدیل کیا اور حرم سے دور تشریف لے گئے- سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیے گئے -امام عالی مقام اپنے ہمراہ ہاشمی جوانوں کو لے کر گھر واپس تشریف لائے - بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو صورت حال سے آگاہ کر تے ہوئے ہجرت کی تیاری کا حکم دیا - ۔ کربلا کے ریگزاروں میں کن سی مصیبت تھی جو آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے رفقا کو درپیش نہ آئی ہو لیکن آفرین ہے حضرت امام حسین علیہ السلام کے حوصلہ پر جس کا کوئی ثانی نہیں۔کربلا نام ہے ذبحِ عظیم کا جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ہی تسلسل ہے۔ ربّ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو مؤخر کر دیا تھا جس کی تکمیل کربلا کے صحرا میں رسول پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نواسے حضرت امام حسین نے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی قربانیاں دے کر کی۔ کربلا قربان گاہ بن گئی اور امام حسین علیہ السلام کی قربانی وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ترجمہ: اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ دے دیا۔ (سورۃ الصفات ۔ 107)کی تفسیر بن گئی۔
بظاہر امام حسین علیہ السلام خا ک و خون میں لت پت ہوگئے، آپ کا سرِ مقدس کربلا سے دمشق لے جایا گیا، ان پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا لیکن درحقیقت وہ سرخرو اور سرفراز ہوئے۔ مسلمانوں کے نظام میں حریتِ فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین اسطرح اٹھے جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے اور اُٹھتے ہی جل تھل کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اوردنیا کے ویرانوں کو لالہ زاربنا گئ ۔امام حسین علیہ السلام نے یہ جنگ صرف اپنے نانا کے دین کو بچانے کیلئے لڑی تاکہ خلافت ان اصولوں کے مطابق قائم ہو جو قرآنِ مجید پیش کئے۔ اگر امام حسین علیہ السلام سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے آدمیوں اور معمولی سروسامان کے ساتھ کیوں مکہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جاتے۔ ان کے دشمن صحرا کے ذروں کی طرح بے شمار تھے جبکہ دوستوں اور رفیقوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی یزداں کے اعداد کی ہے۔حروف ابجد کے حساب سے ’یزداں‘ کے 72 عدد بنتے ہیں۔
امام حسین کے تمام ساتھی بھی کربلا میں 72 ہی تھے۔حسین کا عزم و استقلال پہاڑوں کی مانند مضبوط اور استوار تھا او روہ اپنی تلوار کو دینِ حق کی عزت و بقا کیلئے استعمال کرنا چاہتے کربلا کا قیام عمل میں لا کر امام عالی مقام علیہ السلام نے رہتی دنیا تک کے لئے ایک عالمگیر پیغام دیا کہ باطل کا سامنا ہو توحق کی قربان گاہ پر اپنی جان قربان کر دوحقیقت یہ ہےکہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ان کی شان بے مثال کھڑی ہے ۔آپ اللہ سے محبت کی مثال کو امر کر گئے آپ نے زمانے کو بتا دیا کہ اللہ کی محبت ایک قوت ہے، ایک محرک ہے، جو ہمارے اندر غیر معمولی صبر اور تحمل پیدا کرتی ہے۔کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور حضرت امام حسین جیسی اعلیٰ مرتبہ کی حامل شخصیت ہی ایسی خدمت انجام دیتی ہے۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...