اتوار، 11 فروری، 2024

مجلس -28 رجب -جب بدر کربلا تک آ گئ

ِ


اما  م عالی مقام جب یزید کے ارادوں سے آگاہ ہو گئے تب آپ نے شہر مدینہ سے   کوچ کا ارادہ کیا رات کے وقت اپنی  مادر گرامی  کی قبر پر آئے  بہت دیر قبر سے لپٹے رہے  پھر امام حسن علیہ السلام   کی قبر پر حاضری دی اور نماز بجا لائے اور وداع کیا  آخر شب نانا  رسول اللہ کی قبر پر حاضری دی اور دو شب مسلسل اپنے جد امجد کی قبر  پر رہے۔امام عالی مقام کے بھائ محمد حنفیہ کو معلوم ہوا کہ  امام حسین علیہ السلام مدینہ سے کوچ کر رہے ہیں تو محمد حنفیہ ملنے آئے تب ۔امام  نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا: "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب”۔ترجمہ: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں) اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ  اور بابا علی بن ابی طالب  کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔ مکہ کی طرف روانگی-شہر مدینہ  کو الوداع کرتے ہوئے آپ  علیہ السلام نے شعب ابی طالب کو اپنے  اور اہل خانہ کے لئے قیام کا انتخاب کیا 

امام حسین علیہ السلام    اٹھائیس رجب کو رات کے وقت  اور بروایت دیگر تین شعبان سنہ 60 ہجری کو  اپنے خاندان اور اصحاب کے  افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔  اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا  امام حسین کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔چالیس بنو ہاشم کے گھرانے کے دو سو افراد کے ہمراہ  آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے ۔ مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین  علیہ السلام    پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے  اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا پُر جوش استقبال کیا ذوالحج کو امام حسین علیہ السلام، ہاشمی نوجوانوں کے ہمراہ حرم کعبہ میں موجود تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ یزید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے حاجیوں کے بھیس میں اپنے تیس افراد مکہ بھیجے ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں اور کسی بھی وقت امام علیہ السّلام  کو بیت الله کی حرمت کا خیال کے بغیر قتل کر دیں گے - امام علیہ السّلام نے اس صورت حال سے اپنے ہمراہ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو آگاہ کیا -علمدار حسینی نے جب یہ جسارت سنی تو جلال میں آ گئےاور دوسرے ہاشمی جوانوں کو اکٹھا کر کے امام کو فوراً اپنے حصار میں لے لیا - امام نے جوانوں کے جوش کو دیکھتے ہوے حکم دیا کہ فوراً حرم کو چھوڑ دیا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ خون خرابے کی نوبت نہ آئے -

امام علیہ السلام   نے حج کو عمرہ سے تبدیل کیا اور حرم سے دور تشریف لے گئے- سر کے بال اتروا کر احرام کھول دیے گئے -امام عالی مقام اپنے  ہمراہ ہاشمی  جوانوں کو لے کر گھر واپس تشریف  لائے - بی بی زینب سلام اللہ علیہا  کو صورت حال سے آگاہ کر تے ہوئے   ہجرت کی تیاری کا حکم دیا -  ۔ کربلا کے ریگزاروں میں کن سی مصیبت تھی جو آلِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے رفقا کو درپیش نہ آئی ہو لیکن آفرین ہے حضرت امام حسین علیہ السلام   کے حوصلہ پر جس کا کوئی ثانی نہیں۔کربلا نام ہے ذبحِ عظیم کا جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ کربلا میں امام  حسین علیہ السلام  کی شہادت  حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ہی تسلسل ہے۔ ربّ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو مؤخر کر دیا تھا جس کی تکمیل کربلا کے صحرا میں   رسول پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نواسے حضرت امام حسین نے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی قربانیاں دے کر کی۔ کربلا قربان گاہ بن گئی اور امام حسین   علیہ السلام   کی قربانی وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ  ترجمہ: اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ دے دیا۔ (سورۃ الصفات ۔ 107)کی تفسیر بن گئی۔

 بظاہر امام حسین   علیہ السلام   خا ک و خون میں لت پت ہوگئے، آپ  کا سرِ مقدس کربلا سے دمشق لے جایا گیا، ان پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا لیکن درحقیقت وہ سرخرو اور سرفراز ہوئے۔  مسلمانوں کے نظام میں حریتِ فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین اسطرح اٹھے جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اُٹھتی ہے اور اُٹھتے ہی جل تھل کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اوردنیا کے ویرانوں کو لالہ زاربنا گئ ۔امام حسین   علیہ السلام   نے یہ جنگ صرف اپنے نانا کے دین کو بچانے کیلئے لڑی تاکہ خلافت ان اصولوں کے مطابق قائم ہو جو قرآنِ مجید پیش کئے۔ اگر امام حسین علیہ السلام   سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے آدمیوں اور معمولی سروسامان کے ساتھ کیوں مکہ معظمہ سے کوفہ کی طرف جاتے۔ ان کے دشمن صحرا کے ذروں کی طرح بے شمار تھے جبکہ دوستوں اور رفیقوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی یزداں کے اعداد کی ہے۔حروف ابجد کے حساب سے ’یزداں‘ کے 72 عدد بنتے ہیں۔

 امام حسین کے تمام ساتھی بھی کربلا میں 72 ہی تھے۔حسین کا عزم و استقلال پہاڑوں کی مانند مضبوط اور استوار تھا او روہ اپنی تلوار کو دینِ حق کی عزت و بقا کیلئے استعمال کرنا چاہتے کربلا کا قیام عمل میں لا کر امام عالی مقام علیہ السلام   نے رہتی دنیا تک کے لئے  ایک عالمگیر پیغام دیا  کہ باطل کا سامنا ہو توحق کی قربان گاہ پر اپنی جان قربان کر دوحقیقت یہ ہےکہ امام حسین علیہ السلام   کی شہادت پر ان کی شان بے  مثال کھڑی ہے ۔آپ اللہ سے محبت کی مثال کو امر کر گئے آپ نے زمانے کو بتا دیا کہ اللہ کی محبت ایک قوت ہے، ایک محرک ہے، جو ہمارے اندر غیر معمولی صبر اور تحمل پیدا کرتی ہے۔کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور حضرت  امام حسین جیسی اعلیٰ مرتبہ کی حامل شخصیت ہی ایسی خدمت انجام دیتی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر