جمعرات، 8 فروری، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

   -گھرکے انگن سے میری تعلیم کی ابتداء  تختی لکھنے سے ہوئ اب میں اس دور کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ وقت ایک خوب صورت رنگین تتلی کی مانند تھا -اب مجھے ناشتہ کے فوراً بعد باورچی خانے میں ہی امّی جان قران پاک پڑھایا کرتی تھیں -قران پاک کے بعد کچھ دیر کا وقفہ مل جاتا تھا جیسے آدھا گھنٹہ اس ٹائم میں میرا چھوٹا بھائ میری گود میں رہتا تھا آدھے گھنٹے کے بعد حساب کا وقت ہو تا تھا -میں نے پہاڑے اس طرح سیکھے تھے -دو ایکم دو-دو دونی چار-پہاڑَ ے بس تین چار تک ہی یاد کیئے تھے کی امّی جان نے ایک دن مجھ سے کہا باہر جا و اور کچھ کنکریاں  لے آو -کنکریوں کا سائز شیشے کی کنچے کی گولیوں سے کچھ کم  ہونا چاہئے-میں کچھ دیر میں پچاس کنکریا ں چن کر لے آئ -مجھے اس وقت گنتی روانی سے نہیں آتی تھی اس لئے میں زمین پر دس-دس کنکریا             ں لگ الگ رکھتی گئ جب پانچ جگہ رکھ لیں تب جمع کر کے ڈبّے میں ڈالا اور لاکر امیّ جان کے سامنے ڈبّہ رکھ دیا  - -امّی جان نے ان کنکریوں کو صابن سے دھویا اور ساتھ ہی ڈبّہ بھی دھو کر اوندھا رکھ دیا -جب ڈبّہ اور کنکریا ں خشک ہو گئیں  کنکریا ں  اس میں رکھتے ہوئے امّی جان مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں -دیکھو بیٹا یہ تمھارا گنتی اور حساب کا ڈبّہ ہے اب میں اس سے تم کو حساب سکھاوں گی 

 میری قلم کہانی میری زبانی جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہواس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیا-

اس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرےخیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھامیری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل      گئ س زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،

اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایاہم بہن بھائیوں  میں صفائی سے سلیٹ اورتختی لکھنے  کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔۔ کس کے پاس سرکنڈے کے چھوٹے اور بڑے  عمدہ قلم ہیں۔ کون اپنے قلم سے لفظوں کی گولائیاں خوب صورت بناتا ہے۔ نقطے کیسے لگانے ہیں اور کہاں لگانے ہیں۔  اس زمانے میں خوشخطی کی بہت اہمیت اس لئے ہوتی تھی   کیونکہ کسی بھی شخص کی شخصیت کا اندازہ اس کی تحریر سے لگایا جاتا تھا ۔شائد یہی وجہ تھی کہ امی جان ہم بچوں کی خوشخطی پر بہت توجہ دیتی تھی- کون جھوم جھوم کر اونچی آوازمیں گنتی، پہاڑے اور نظمیں سنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے اولین  جماعتوں کے مشاغل تھے۔

ت کے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر