ا مریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طورپر منظور کیا گیا، عید نوروز- کو تاریخی اور ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔امرکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، عید نوروز کو ایک تاریخی و ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔یکم مارچ کو منظور کی گئی اس قرار داد میں نوروز کو تین ہزار سالہ قدیمی جشن قرار دیا گیا ہے۔واشنگٹن کی بلدیہ کی قرار داد میں آیا ہے کہ نوروز کا جشن اسلامی جمہوریہ ایران، افغانستان، تاجکستان، آذربائیجان اور دنیا کے دیگر علاقوں کے تیس کروڑ سے زائد لوگ مناتے ہیں۔قاب ذکر ہے کہ ایرانی ہجری شمسی سال کے پہلے دن یا بیس اور اکیس مارچ کو ایران، افغانستان، تاجیکستان، ترکمنستان، عراق، جمہوریہ آذربائیجان اور پاکستان و ہندوستان میں بھی نوروز کا جشن منایا جاتا ہے جبکہ ایران سمیت نو ملکوں میں اکیس مارچ کو اس جشن کے موقع پر عام تعطیل بھی کی جاتی ہے۔
نوروز کا مطلب نیا دن! عید نوروزتاریخ کے آئینے میں اسے نوروز جمشیدی کہا جاتا ہے. يہ دن فارسيوں كے پسندیدہ تہواروں ميں سے ایک تہوار اور عظيم جشن مانا جاتا ہے۔ كہا جاتا ہے كہ اس جشن كو سب سے پہلے منانے والا شخص فارسيوں كے ہی قديم بادشاہوں ميں سے ایک بادشاہ جمشيد تھے ۔ اور انھیں “جمشاد” ميں سے مانا جاتا ہے-ظاہر ہے اس تہوار کی ابتدا جمشید کے زمانے سے ہوئی ۔ کہتے ہیں کے جمشید اسی دن تخت نشیں ہوا تھا ۔ جمشید کے بعد بھی ایرانی بادشاہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا ۔ خصوصاً ساسانی حکمران اس دن اپنا دربار منعقد کرتے تھے۔ امرا و اراکینِ، بادشاہ سلطنت کے بارگاہ حضور تحفے پیش کرتے اور پھر بادشاہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا کرتے تھے ۔اسی دن صوبوں کے نئے گورنروں کا تقرر کیا جاتا۔ نئے نئے قیمتی و خوبصورت سکے ڈھالے جاتے ۔ آتش کدوں کی صفائی کا بہت ہی خاص اہتمام کیاجاتا ۔ اسی لئے ہی جشنِ جمشیدی تو نوروز کا دوسرا نام پڑا ۔نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’نیا دن‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے
۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ تہوار ہر سال 21مارچ کو منایا جاتا ہے۔ شمسی ماہ کے حساب سے 21 مارچ کو سورج قطر فلک پر اپنا ایک سالہ سفر تمام کرتا ہے اور تمام 12 برجوں سے گزر جاتا ہے۔ 21 مارچ کو 24 گھنٹوں میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب سورج آخری برج سے گزر کر پہلے برج حمل میں داخل ہو جاتا ہے اس وقت کو شرف آفتاب کہا جاتا ہے۔ اس دن کو ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے اور جن ممالک یا علاقوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے وہاں کئی قسم کی مذہبی روایات کا تذکرہ ملتا ہے-تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دریائے نیل اور فرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب نے اپنے بعد آنے والی تمام تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہے۔ نامور مورخ سبط حسن لکھتے ہیں “وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول نوروز کاتہوار جسے اہل عکاد وسومیر ’اکی تو‘ کہتے تھے۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نیسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار ’’تشری‘‘ کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔
۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص و مستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21 مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمدبہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ایرانی کیلنڈر کے مطابق 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرتی ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں کہ ’’نوروز کائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن، وہ عظیم فاتح دن جب ہر ایک مظہر پیدا ہوا‘‘۔ نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔بلتستان کی دستیاب تاریخ کے مطابق یہاں نوروز کا تہوار ہمیشہ سے روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے یہاں کی قدیم لوک روایات میں بھی کئی حوالے ملتے ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ چونکہ یہ زرتشت مذہب کے تہواروں میں سے ایک ہے اور بلتستان میں ماضی بعید میں زرتشت مذہب بھی رائج رہا اس لیےتب سے یہ تہوار بلتستان میں رائج چلا آرہا ہے۔ لیکن بعض مورخین کا خیا ل ہے کہ یہ تہوار بلتستان میں ایران سے آیا ہے۔ چودہویں صدی کے دوران بلتستان میں دین اسلام ایرانی مبلغین کی آمد کے بعد آیا اور ان مبلغین نے جہاں بلتستان سے بدھ مت اور اُن سے منسوب روایات اور ثقافت کے خاتمےکے لیے کامیاب جد وجہد کی وہیں اس کے ساتھ ایرانی تہذیب و ثقافت کو بھی یہاں متعارف کرایا جس کا ایک مظہر نوروز کا تہوار ہے۔ بلتستان کی تہذیب و ثقافت پر ایران کی دیگر کئی روایات کے گہرے نقوش آج بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ نوروزکا تہوار در اصل بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جانے والاتہوار ہے۔ اسےایک طرح سے جشن بہاراں کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ کیونکہ بلتستان اور ایران کے موسمی حالات ایک جیسے ہیں، دسمبر سے مارچ کے وسط تک پڑنے والی شدید سردی کے بعد تیسرے ہفتے سے لوگ کاشت کاری سے فارغ ہوجاتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے۔ شدید ترین سردی کے کھٹن اور صبر آزما کئی مہینے گزانے کے بعد جب موسم بہار کی جانب اَنگڑائی لیتا ہے تو اہل بلتستان خوشی کے اظہار کے لئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں اور کئی روز جاری رہنے والی ان رنگا رنگ تقریبات میں محو رہتے ہیں۔نوروز پر بلتستان میں کئی دنوں تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تہوار پر بلتستان میں دوسری بڑی دوعیدوں کی طرح نوروز پر بھی لوگ نئے کپڑےزیبِ تن کرتے اور گھروں میں انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں۔
رشتہ دار وعزیر واقارب ایک دوسرے کے گھر عید ملنے جاتے ہیں۔ سی ،او،کی تنظیم میں شامل ملکو ں کو چاہیے کہ جشن نوروز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 21 سے 31 مارچ تک رکن ممالک کے دارالحکومتوں، اسلام آباد، کابل، باکو، تہران، آستانہ، بشکش، دوشنبے، انقرہ، اشک آباد اورتاشقند میں مشترکہ ثقافت کی بنیادپر مل کر روزانہ پروگرام کریں، جشن نوروز کے معنی نئے دن یا دنوں کے ہیں یوں اگر21 مارچ سے 31 مارچ 2018 ء میں یا آئندہ سال جشن نوروز میں یہ ممالک اپنے اپنے ملکوں میں ویزوں کی پابندی ختم کرد یں، اپنے اپنے ملکوں کی فضائی کمپنیوں کے ٹکٹوں پر ٹیکس کی چھوٹ دیں تو ان ملکوں کی چالیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے لاکھوں افراد مشترکہ تہذیب ،ثقافت ، اور تاریخ کے حامل ملکوں میں ایک دوسرے سے آسانی سے مل سکیں گے، اور یورپ کی طرح یہ بھی آج کے زمانے میں جنگوں کی بجائے امن وآتشی ، دوستی و اخوت کے رشتوں کو مضبوط کر سکیں گےپاکستان کا بیشتر علاقہ موسمیاتی،جغرافیائی اور ماحولیاتی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ملکوں بھار ت،بنگلہ دیش،سری لنکا وغیرہ سے بہت مختلف ہے اس لیے یہاں کیثقافت،تہذیب وتمدن، ادب سب ہی بھارت ، بنگلہ دیش سے مختلف ہیں اور اگر ان میں کچھ چیزیں مشترکہ دکھائی دیتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ وہ تاریخ ہے جس میں حملہ آور فاتحین افغانستان، ایران اور سینٹر ل ایشیا سے آئے اور پھر برصغیر پر تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ ہندوستان میں تین موسم ہوتے ہیں جن میں موسم گرما ،جاڑا یعنی موسم سرما اور برسات، ہزاروں برس سے برسات کو موسم بہار کی طرح ہندی،بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں کی شاعری میں پیش کیا جاتا ہے، اور جہاں تک تعلق موسم بہار اور خزاں کا ہے تو ان کا ذکر فارسی شاعری سے ہندوستان میں آیا اور اپنے ساتھ غزل سمیت شاعری کی دیگر اصناف کو بھی لایا،
ان میں سے کچھ پہلوئوں پر تحقیقی اعتبار سے معروف دانشور،ماہر قانون اعتزاز احسن نے اپنی کتاب سندھ ساگرمیں لکھا ہے۔ہمارے ہاں بلوچستان کے سرد علاقوں گلگت ،بلتستان،آزاد جموںوکشمیر،خیبر پختونخوا کے بیشتر اور سرد علاقوں میں چار موسم بہت واضح طور پر اور پوری شدت اور اپنے مناظر کی پہچان کے ساتھ آتے ہیں۔ موسم گرما جو سرد علاقوں میں خوشگوار اور فرحت بخش ہوتا ہے جو ن ، جولائی اور اگست کے تین مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے بعد موسم گرما ڈھلتا ہے خوبانی، زرد آلو،آڑو، بادام ،چیری ، ناشپاتی، سیب ، پستہ،انار، شنے، جنگلی زیتو ن، سنجداور سایہ دار درختوں میں چنار، عیش، چنبیلی، اور دیگر درختوں کے سبز پتے ہلکی ٹھنڈی خشک ہوائوں کے چلنے سے اپنے رنگ بدلنے لگتے ہیں اور مختلف درختوں کے پتوں کے سائز اوراُن کی سا خت کے لحاظ سے خزاںکا یہ عمل ستمبر سے شروع ہوتا ہے اور نومبرکے وسط تک مکمل ہوتا ہے۔پندرہ اکتوبر تک یہ موسم رنگوں کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ مختلف درختوں کے پتے سرخ ، نارنجی،کاسنی، ملگجی ،گلابی ، سرمئی، دھانی اور زرد رنگوں میں نظر آتے ہیں عموما یکم نومبر سے یہ پتے سرد اور تیز ہوائوں سے گرنے لگتے ہیں اور وادیوں، باغات اور جنگلوں میں روز ہی یہ زمین پر چادر کی طرح پھیلے ہوتے ہیں اور اب چرواہے نہ صرف اپنے ریوڑ یہاں چراتے ہیں بلکہ روز گرنے والے ان پتوں کو بڑی بڑی بوریوں میں بھر بھر کر لاتے اور اسٹور کرتے ہیں، پندرہ نومبر تک اکثر درخت پتوں سے بالکل خالی ہوجاتے ہیں ماسوئے صنوبر اور ایسے صدابہار درختوں کے جن کے پتے سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔اب ان تمام پہاڑی اور سرد علاقوں میں جو ہمارے خطے کے اعتبار سے ایران، افغانستان، کرغیزستان، آذربائجان، ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان، ترکی، عراق، شام، مصر، فلسطین وغیرہ پر مشتمل یہاں ان سردعلاقوں میںزندگی مشکل سے مشکل تر ہونے لگتی ہے۔
کھیتوں اور باغات جہاں صرف موسم گرما میں ایک ہی فصل ہوتی ہے اور اس کا پیداواری موسم خزاں کے آغاز پر ختم ہوجا تا ہے اور اب صرف اور صرف بھیڑوں کے ریوڑ ہوتے ہیں اور وادیوں میں گھاس اور جھاڑیاں بھی خشک ہوتی ہیں۔ اب شدید سردموسم کی تیاریاں ہوتی ہیں، بھیڑوں کی اُون سے بنے قالین اور رضائیاں باہر نکل آتی ہیں۔خشک لکڑیاں اور معدنی کوئلہ اسٹور کیا جاتا ہے، نر اور جوان بھیڑوں کو ذبح کرکے الائش نکال کر ان کی کھال پر سے بال صاف کرکے ان ہی علاقوں میں خودرو پیدا ہونے والی ہینگ اور نمک لگا کر ان سالم دمبوں، بھیڑوں کو سایہ دار جگہ پر خشک کیا جاتا ہے، یہ سب عمل زیادہ تر ان ملکوں کے دیہی علاقوں میں ہوتا ہے، پھر نومبر کے وسط سے سردی شروع ہوتی ہیاور خصوصا ً برفباری اور شدید برفباری میں ہر طرف ہر شے برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے۔ اب اگر برف کی تہہ زیادہ موٹی ہو تو چرواہے گھروں سے نہیں نکلتے کہ ان کی بھیڑوں کے منہ اس برف کے نیچے دبی خشک گھاس تک نہیں پہنچتے۔ اب وہ اپنے دیہاتوں میں گھروں کے بڑے صحنوں یا باڑوں پر وہی خشک پتے ان مال مویشیوں کو کھلاتے ہیں جو انہوں نے موسم ِ خزاں میں جمع کیے تھے، سردی زیادہ ہوتی ہے تو وہی خشک گوشت،جسے ہمارے ہاں،لاندی، کہا جاتا ہے ’عالمی یوم نوروز‘ کا مقصد قدیم ترین تہذیب کو زندہ رکھنا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے 21 مارچ کو نوروز ڈے قرار دیے جانے کے بعد اب ہر سال دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان میں جہاں پارسی کمیونٹی نے ’نوروز‘ کو 20 مارچ کو مذہبی انداز میں منایا، وہیں 21 مارچ کو اسے عالمی یوم نوروز کے طور پر منانے کے انتظامات کیے گئے۔
علی ابن خانس نے روایت کیا ہے کہ نوروز کے دن، میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام (ع) نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، یہ وہ دن ہے جسے ایرانی بہت اچھا سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔ تو امام نے کہا: میں تمہیں اس کی وجہ بیان کروں کرنا ہوں؛ جو کہ بہت پرانی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ بات آپ سے سیکھتا ہوں تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمنوں کا قلع قمع ہوجائے۔تو انہوں نے فرمایا: اے معلی! نوروز کا دن وہ دن ہے جب خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شراکت نہیں کریں گے اور انبیاء اور ائمہ (ع) پر ایمان لائیں گے۔ نوروز پہلا دن ہے جب سورج طلوع ہوا تھا اور اچانک ہوا چل رہی تھی اور اس دن زمین کا تارا پیدا ہوا تھا .
.. نوروز کا دن وہ دن ہے جب علی (ع) نے نہروان میں خارجیوں کو قتل کیا تھا۔ اس دن زمین کے پھول پیدا ہوئے تھے۔ اسی دن نوح علیہ السلام کا کشتی پہاڑ جودی پر اترا تھا۔ یہ وہی دن ہے جب جبریل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے۔ اسی دن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا تھا۔ اسی دن ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی (ع) کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قریش کے بتوں کو اکھاڑ پھینکا ... ایسے ہی دن حضرت مہدی (ع) حاضر ہوں گے اور ہمیں ایسے ہی دن انکے ظہور کی توقع ہے، کیونکہ نوروز ہمارا اور ہمارے شیعوں کا ہے۔ نوروز سفر اور کھیتی باڑی اور ضروریات کی تلاش میں بہت اچھا ہے، اس دن شادی کرنا بہت مناسب ہے۔(١) اس کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ شیخ طوسی اور دوسرے بعد کے لوگوں نے نوروز کے لئے خصوصی اعمال بیان کیے ہیں، ان میں: غسل، روزہ ، نماز وغیرہ شامل ہیں (٢)یہ بھی روایت ہے کہ احمد ابن فہد حلی رحمة اللہ علیہ کتاب مہذب البارع میں فرماتے ہیں کہ: نوروز ایک عزیز اور اعلی درجہ کا دن ہے۔ (٣) مرحوم سید مرتضیٰ، علامہ بہاءالدین علی ابن حمید نے معلی ابن خنیس کا حوالہ دیتے ہوئے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا کہ: نوروز وہ دن ہے جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے لئے غدیر میں ایک معاہدہ کیا اور اپنے بعد انہیں امام مقرر کیا۔۔۔ ،اور کوئی نوروز نہیں گزرتا ہے مگر یہ کہ ہم اس دن قائم آل محمد علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہوتے ہیں اور نوروز ہمارے دنوں میں سے ایک ہے۔ (4حاجی شیخ عباس قمی رحمة اللہ علیہ ، قیمتی کتاب مفاتیح الجنان کے گیارہویں باب میں ، نوروز کے لئے مخصوص اعمال لے کر آئے ہیں ، جن میں: دعا ، متعدد دعائیں اور صدقہ کرنا ہے۔ انہوں نے چھٹے امام علیہ السلام سے یہ بھی روایت کیا کہ جب نوروز آئے تو غسل کریں اور اپنا صاف ستھرا لباس پہنیں اور بہترین خوشبو سے اپنے آپ کو خوشبو عطا کریں۔ اس دن کے پروگراموں میں ہمدردی ، مریضوں ، مذہبی رہنماؤں ، اسکالرز اور والدین سے ملاقات شامل ہیں۔