ہفتہ، 4 مارچ، 2023

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

ہجرت کا پر مصائب سفر طے کرنے کے بعد جب ہم اپنے تنکوں سے بنے آشیانے میں بیٹھے اس کے بعد میری بسم اللہ کا وقت آیا تب والدہ کے نزدیک میری تعلیمی زندگی کی ابتداء کے لئے ہر بات ثانوی ہو گئ اور میری بسم اللہ کوفوقیت ہو گئ میری والدہ اکثر کہتی تھیں جس نے قران دل لگا کر پڑھنا شروع کیا سمجھ لو علم اس سے خود دوستی کرنے کا خواہا ں ہو جاتا ہے-،مجھے یاد ہے گھر میں ایک خاص چہل پہل سی ہو رہی تھی اور پھر سہ پہر کے وقت پنجتن پاک کی نذراورمرحومین کی فاتحہ بھی بسم اللہ سے پہلے ہی دی گئ تھی،،مجھے میری پیاری امّی جان نے اپنے ہاتھوں سے سموکین کے کڑھے ہو ئے گلے اور پف والی آستینو ں کی فراک زیب تن کی اور پھر میرے والد مرحوم جو خود بڑے ہی علم دوست انسان تھے ان سے کہا آئے بچّی کو بسم اللہ پڑھا دیجئے،
مین تخت پر بچھی اجلی چاندنی پر جا کر بیٹھی اب گھر کے سارے افراد بلا لئے گئے اور تخت پر بھی جگہ نہیں رہی باقی بھی تخت سے نزدیک ہی رہے اور امّی جان نے میرے سامنے اپنے ہاتھ کے کاڑھے ہوئے کار چوبی گلابی تکئے پرعربی قاعدہ رکھ کر اس کا پہلا صفحہ کھولا اور میری انگشت شہادت پکڑ کر حرف الف پر رکھّا ،اور والد صاحب نے مجھے پورے الف تا ے حروف پڑھائے ،اور پھر دعائیں مانگیں جن میں میرے حصول علم کی دعاء اہمیت کی حامل تھی-پھر والد صاحب نے مجھے اپنے ہاتھ سے امّی جان کی تیّار کی ہوئ خوشبودار کھیر کھلائ اور دعا دی اور اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نقد رقم بھی ہاتھ پر رکھّی- یہ میری بچپن کی زندگی کا خوبصورت اور یادگار دن تھا ،اس دن کے بعد میری امّی جان میرے لئے بھی ا یک ملتانی مٹّی سے نفاست سے لیپی ہو ئ تختی تیّار کرنے لگیں یہ ہمارے گھر کا دستور تھا کہ جب بچّے کی لکھائ میں پختگی محسوس کی جاتی تب وہ تختی کی لکھائ سے برئ الذّمّہ کیا جاتا تھا ،اگر اس سے پہلے وہ کبھی تختی لکھنے پر چوں چرا کرتا تو امّی جان ناراض ہو کر کہتیں ،پہلے اپنی لکھائ میں پختگی پیدا کرو تب ہی تختی چھوٹے گی ،

والدہ گرامی کی اس وقتی سختی نے ہم سب بہن بھائیو ں کی لکھا ئ کو بہت اچھا رنگ دیا اور ہم سب بہن بھائو ں نے اچھّے رسم الخط کو اپنی زندگی مین شامل کر لیا جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہو- اس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے-

 یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیااس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرے-خیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھا-میری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل گئ- اس زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایا- اللہ پاک ھم سبکو آزمائش سے ھر بری گھڑی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین

 تختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے اس وقت کہ فرستوں کی ضرورت نہیں تھ۔فرست ہوتی ہی نہیں تھی ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اورتختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اور حلاوت تھی جو آج خوابوں میں بھی نصیب نہیں-

 اب میں قلم کہانی کے اختتام پر اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ دیویزن پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر