- موقر روز نامے انٹر نیٹ پر رقم طراز ہیں -صوبہ سندھ میں آوارہ کتے اور بے یارو مددگار شہری- رواں برس کتے کے کاٹنے کے سندھ میں کتنے کیس رجسٹر ہوئے کتے کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ ڈویژن میں پیش آئے - ڈان نیوز کے مطابق صوبہ سندھ میں رواں سال ستمبر تک کتوں کے کاٹنے سے 12 شہری انتقال کرچکے ہیں جبکہ 2 لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد کو کتوں نے کاٹ کر زخمی کیا ہے۔انچارج ڈاگ بائیٹ کلینک سول ہسپتال ڈاکٹر رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے کے یومیہ 120 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، بچے اور بزرگ افراد کم مزاحمت کے باعث زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 27 ہزار 333، فروری میں 27 ہزار 473، مارچ میں 29 ہزار 426 کتوں کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔رواں سال اپریل میں 25 ہزار 514، مئی میں 25 ہزار 311، جون میں 22 ہزار 305، جولائی میں 22 ہزار 558 کیسز، اگست میں 22 ہزار 575 اور ستمبر میں 24 ہزار سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئےکاش پیپلز پارٹی میں کوئ ادارہ ایسا بھی ہو جو عوام کی جانوں کا اس طرح بیدردی سے زیاں ہونے سے روک سکے -بخت آور نے حکم تو لگا دیا کہ کتوں کا ہلاک نا کیا جائے لیکن وہ جانوں کے اس زیاں پر تو بلکل خاموش ہیں۔
رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے پر کم از کم 15 منٹ کے لیے ڈیٹرجنٹ، صابن سے متاثرہ جگہ کو دھونا چاہیے اور اینٹی ریبیز ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل کرنا چاہیے۔ کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹنے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں سندھ میں ساحلی ضلعے ٹھٹہ کے شہر ساکرو میں 14 سالہ کاشف سہراب کو جب کتے نے کاٹا تو ان کے والدین یہ سوچ کر ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے کہ کتا پالتو ہے باؤلا یا آوارہ نہیں۔ لیکن چند ماہ بعد کاشف کی طبیعت بگڑنے لگی اور بروقت ویکسین نہ لگنے کے باعث وہ مر گیا۔ کاشف سہراب کے پڑوسی محمد اسلم نے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ تقریباً نو ماہ قبل کاشف کو کتے نے کاٹا اور چند روز قبل جب اس کی حالت بگڑی تو والدین اسے مقامی مولوی کے پاس دم کروانے لے گئے۔ مولوی صاحب کے مشورے پر کاشف کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں ویکیسن دستیاب نہیں تھی۔ بعد ازاں کاشف کے لواحقین اسے جناح ہپستال کراچی لے گئے جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ جناح ہسپتال کے شعبۂ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ کاشف کو دو روز قبل تقریباً صبح چھ بجے ہسپتال لایا گیا تھا لیکن ایک، ڈیڑھ گھنٹے میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔
’جناح ہسپتال میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب ہے لیکن سندھ میں بالعموم اس کی قلت ہے۔ اس ویکسین کے ساتھ متاثرہ فرد کو ربیز امینوگبلن بھی لگنا چاہیے جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ربیز ہو جائے گی۔‘ سندھ کے سب سے بڑے سرکاری ہپستال جناح پوسٹ گریجوئیٹ میں رواں برس کتے کے کاٹنے کے تقریباً چھ ہزار کیسز آ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسی طرح کیسز آتے رہے تو ان کے ہسپتال میں بھی یہ ویکیسن ختم ہو جائے گی۔ محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹے کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ اور سب سے کم کراچی ڈویژن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں کتے کاٹے کے کیسز کی تعداد 22 ہزار 822 ہے، حیدرآباد ڈویژن میں لگ بھگ 21 ہزار، شہید بینظیر آباد ڈویژن میں 12 ہزار سے زیادہ، میر پور خاص ڈویژن میں چھ ہزار 774 اور کراچی ڈویژن میں 320 واقعات پیش آئے ہیں۔
انڈیا نے ویکسین فراہم کرنے سے معذرت کیوں کی؟ پاکستان میں کتے کاٹے کی ویکیسن پڑوسی ممالک انڈیا اور چین سے درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم اب انڈیا نے مزید ویکیسن فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کی صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد پچھلے دنوں بتا چکی ہیں کہ انڈیا اور چین نے اینٹی ریبیز ویکسین فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یاسمین راشد کے مطابق انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا۔ عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں کتے کے کاٹے کے 36 فیصد کیسز انڈیا میں ہوتے ہیں۔ انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا ہے انڈیا اینٹی ریبیز ویکسین پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ماینمار، ترکی اور افریقی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ جناح ہپستال کے شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ چین کی ویکسین پر پاکستان کو اعتماد نہیں کیونکہ ویکسین جب تک ایف ڈی اے یعنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظور شدہ اور عالمی ادارۂ صحت سے تصدیق شدہ نہ ہو تو تب تک وہ اس ویکسین استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔
سندھ کے ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر مقصود کی جانب سے تمام ڈویژن کے کمشنروں کو خط تحریر کیا گیا ہے جس میں آوارہ کتوں کے معاملے سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ چند سال قبل جب بلدیاتی اداروں نے آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا تو ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس تنطیم کا کہنا تھا کہ کتوں کو زہر دیکر مارنے کی بجائے اس کی نس بندی کی جائے، جس کے بعد کراچی میں انڈس ہسپتال میں اس حوالے سے ایک منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے جو عوام کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے صرف انسانوں کے لیے ہی خوفناک ثابت نہیں ہو رہے بلکہ یہ چند چھوٹے اور معصوم جانوروں پر بھی حملہ آور ہو کر ان کو بآسانی نگل لتیے ہیں، جبکہ انسان ان جانوروں کو زہریلے کتوں کے خوف سے بچا بھی نہیں پاتے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آوارہ کتوں کو ختم کیا جائے اگر بخت آور بھٹو اجازت دیں تب۔