مئی 1818 کو پرشیا (موجودہ جرمنی) کے شہر ٹریئر میں اقامت پذیر ایک وکیل کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہوا۔جس کا نام کارل رکھا گیااس کی پیدائش سے ایک سال قبل اسکے والد کو یہودییت چھوڑنی پڑی کیونکہ 1815 میں پرشیا کی حکومت نے یہودیوں پر سرکاری نوکری کرنے پر پابندی لگا دی تھی اور ایک سال بعد وکالت کرنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ وکیل صاحب نے وکالت کے پیشے کی خاطر عیسائیت اختیار کر لی۔کارل نے سترہ سال کی عمر تک اپنے ہی شہر سے تعلیم حاصل کی لیکن اعلی تعلیم کے لیے اسے پہلے بون اور پھر برلن کی درس گاہوں میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ برلن میں وہ ہیگل نامی فلسفی سے بہت متاثر ہوا اور اس کے نظریات پر ہونے والی بحث میں شریک رہا۔ ہیگل کا ایک بنیادی نقطہ نگاہ یہ تھا کہ انسانی تاریخ تصادم پر قائم ہے، ایک نظریہ دوسرے سے ٹکرا کر تیسرے نظریے کو جنم دیتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔برلن میں ہی کارل نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ تئیس (23) برس کی عمر میں کارل نے اپنی بچپن کی محبت، ’جینی‘ سے شادی کی۔ شادی کے وقت جینی کی عمر ستائیس سال تھی۔
کارل نے 1842 میں کولون شہر کا رخ کیا اور وہاں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد ہی اس کی ذہانت اور علمیت کے بل بوتے پر اسے اخبار کا مدیر مقرر کر دیا گیا-کارل نے آزادی صحافت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی کیونکہ اس کے لئے پابند ماحول میں لکھنا آسان نہیں تھا اس لئے جب اس نے لکھنے کے لئے قلم کی آزادی مانگی تو اس پر حکومت وقت کی جانب سے سختی آئ لیکن اس کی جرات کو اس دور کے درمیانے طبقے نے سراہا۔ اس نے بادشاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور درمیانے طبقے کی خواہشات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔اس دور کی آمریت کو کولون کے درمیانے اور کاروباری طبقے کی آواز میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی اور کچھ ہی مہینوں بعد روس کے زار کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کے جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔
1843ء میں پیرس شہر ہر طرح کے انقلابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کارل نے کولون کے ناکام تجربے کے بعد پیرس سے ایک ماہنامہ شروع کرنے کا ارادہ کیا - اس شمارے میں بھی دو مضامین تو کارل کے ہی تھے۔ ۔ان مضامین کے نتیجے میں اس ماہنامے پر جرمنی میں پابندی لگ گئی، ۔ان حالات میں کارل نے ہمت نہیں ہاری اور ایک جرمن زبان کے اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا۔ ۔فرانس کے بعد کارل، جینی اور کارل کے قریبی دوست اینگلز نے بیلجیم کا رخ کیا۔ وہاں جانے سے پہلے کارل اور اینگلز نے برطانیہ کا ایک دورہ کیا اور مانچیسٹر میں محنت کش طبقے کے حالات نے کارل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔بدحالی اس نہج پر تھی کہ مائیں کام پر جاتے وقت اپنے شیر خوار بچوں کو چرس پلاتیں تاکہ ان کی واپسی تک بچے سوئے رہیں، بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی تاکہ خاندان کا بوجھ کم ہو سکے، سات سال کی عمر تک پہنچتے ہی لڑکے کام پر لگ جاتے۔ ایک سو بیس افراد کے استعمال کے لیے ایک غسل خانہ موجود تھا۔ جوتے پہننا ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی۔
بیلجیم میں قیام کے دوران کارل نے اینگلز کے ساتھ مل کر کتابیں لکھنے میں وقت صرف کیا۔ اس کے علاوہ اس نے یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی ایک تنظیم قائم کی اور لندن میں قائم ایک ملتی جلتی تنظیم کا بھی حصہ بنا۔1848 میں اس نے ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں اس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنے کا پیغام دیا۔ اس کتابچے کا نام “Communist Manifesto” تھا اور پہلی دفعہ وہ جرمن زبان میں لندن سے شائع ہوا۔بعدازاں کارل کو اس ملک سے بھی نکال دیا گیا اور اس نے باقی عمر انگلستان کے شہر لندن میں گزاری۔ کارل کو آج دنیا کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے دنیا کی تاریخ پر جتنا اثر کارل مارکس کے نظریات نے ڈالا، اتنا کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہوا۔
سنہ 1848ءکا دور چل رہا تھا جب پیرس میں انقلاب آیا جس کے باعث بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کے قیام کے لیے کوشش کی گئی۔ جب انقلابی کوششیں اور لڑائی طول پکڑ گئی تو پیرس کے درمیانے طبقے نے انقلابیوں کی حمایت ترک کر دی اور انقلاب ناکامی کا شکار ہوا۔ اس واقعے کے بعد سے کارل کو درمیانے طبقے کی سوچ (جسے فرانسیسی زبان میں بورژوا سوچ کہا جاتا ہے) سے سخت نفرت ہو گئی۔ اس نے اس سوچ کو آمریت سے بھی بدتر قرار دیا اور اس کے مطابق محنت کش کو آزادی کے لیے صرف حکومتی نہیں بلکہ بورژوا سوچ کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد جتنی پذیرائی حاصل ہوئی، اس کی زندگی کے دوران اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوئی۔ اس کے نظریات میں اپنی کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علم بلند کیا۔مارکس نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا ا جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا -اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک وہ سرمایہ داری کے خلاف حالت جنگ میں زندہ رہا اور اپنے ادھورے خوابوں سمیت مر گیا
کارل مارکس کے نظریت کو پہلے دنیا غلط کہتی رہی لیکن با الآخر اس کے نظریات کی حامی ہو گئ
جواب دیںحذف کریں