جمعہ، 3 نومبر، 2023

حضرت بری اما م سرکار رحمۃ اللہ علیہ

 

   برّصغیر کی تاریخ  گواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بے شمار اولیائے کرام کے قدموں نے اس خطّہءزمین کو اپنے مبارک قدموں سے فیضیاب کیا  -ان اولیائے دین میں ایک بڑا نام حضرت بری امام سرکار کا بھی ہے-بری امام  رحمۃ  اللہ علیہ(عیسوی اور (1026) ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں ایک معزز سادات کاظمیہ کے خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام  مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی ۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی ۔ سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے-حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام ؒ سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلی اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جد و جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے ۔ سید عبدالطیف بری امام کاظمی تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی ۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف ٗ کربلا ٗ سامرہ ٗ مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا ۔جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ  کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ٗ و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔

 کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی ؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے- شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ آپ کا عرس ہر سال مئی کے مہینے میں منایا جاتاہے-بر صغیر میں اسلام کی تبلیغ اور پھیلانے میں اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے ہندوستان کے اونچ نیچ اور چھوت چھات کے معاشرے میں ان صوفیاء نے ہر مذہب ٗ ملت اور قوم کے افراد کو نہ صرف اپنے قریب کیا بلکہ انسانیت کا درس دے کر ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ کیا یہی وجہ تھی کہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے ان ہی بزرگان پاک طینت نے مخلوط معاشرے اور کثیر المذاہب خطے میں امن ٗ بھائی چارے اور رواداری قائم کی ٗ آج ہم ان بزرگوں کے سبق اور درس سے دور ہو چکے ہیں اسی لیے مذہبی ٗ قومی اور نسلی تعصب نے معاشرے کو بے سکون اور بے امان کر دیاہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان میں سینکڑوں صوفیائے عظام اور بزرگان دین کی خانقاہیںموجود ہیں جہاں دلوں کو گداز اور محبت سے لبریز کیا جاتا ہے ۔ 

یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ ؒ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ٗ جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔

حضرت بری امام سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار ہے ۔ حضرت بری امام سرکار کو قطب الاقطاب اور ولی اللہ کا مقام حاصل ہوا ۔ یہ مقام تصوف میں بڑی کاوشوں ٗ محنتوں ٗ جانشفانیوں ٗ محبت ٗ لگن اور عشق حقیقی سے حاصل ہوتا ہے ۔ آپ ؒ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی زیارت کیلئے مکہ معظمہ ٗ مدینہ منورہ ٗ کربلائے معلی اوردوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود جید علماء اور اولیائے سے مزید دینی علوم اور روحانی فیوض حاصل کئے ۔ بری امام یہ سفر بارہ سال پر محیط ہے ۔ آپ مستقلاً وہاں ولی کامل حضرت حیات المیر ؒ سے بیعت تھے ۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ؒ ہی نے عطاء کیا تھا -     

اسلام آباد ٗ نام ہی ایسا ہے کہ کسی اللہ والے کی منظوری کی دلالت کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد جیسے پاکستان کے خوبصورت ترین اور دنیا کے بے مثال دارالخلافوں میں شامل شہر کی بنیاد گیارہویں صدی عیسوی میں حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار نے رکھی تھی ٗ آج بھی مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آپ کا دربار مرجع خلائق ہے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ پیٹ کی بھوک اور روح کی پیاس بجھاتے ہیں ٗ بری امام سرکار نے اس جگہ اس وقت ڈیر جمایا جب پنجاب سے کشمیر جانے والی سڑک کے نزدیک اس جنگل میں چور اور لٹیرے رہا کرتے تھے جو کشمیر جانے والے قافلوں کو لوٹ کر یہاں چھپ جاتے مگر مارگلہ کی پہاڑی کے اور ایک غار ( لوہی دندی ) میں آپ نے چلہ مکمل کیا اور تصوف و سلوک کے رمز آشنا ہوئے تو مرشد کے حکم سے اس جگہ قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب یہ جگہ "چور پور "کہلاتی تھی مگر شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ                                                            

فرزند نبی ص امام جعفر صادق علیہ السلام

  امام جعفر صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں خداوند عالم نے انسانوں کو فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت وہ کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں جانتا ہے لیکن خداوند عالم نے اسے آنکھ ،کان ،عقل اور دل وغیرہ دیے تاکہ ان اعضائے بدن سے اچھی طرح استفادہ کرتے ہوئے علم و دانش حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہےوَ اللَّهُ أَخْرَجَكُمْ‏ مِنْ‏ بُطُونِ‏ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.[سورہ نحل ، آیت ۷۸] ترجمہ: اور اللہ نے تم لوگوں کو تمہاری ماٶں کے شکم سے نکالا اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیے تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکو۔تاریخ کا مطالعہ ہم کو بتاتا  ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء تھے یا بنی عباس کے تھے ان کے پاس دنیاوی دولت کی بہتات تھی   لیکن ان کو بس ایک فکر لاحق رہتی تھی کی عوام کہیں آل رسول کی جانب نا جھک جا ئیں  یہی بے چینی ان کو اس بات پر اکساتی تھی کی امام  وقت کو کسی نا کسی طرح شہید کر دیا جائے -ان کی ساری ساری زندگیا ںاسی تگو دو میں صرف ہو گئیں لیکن وہ دلوں کو فتح کرنے میں ناکام رہے -بس وہ اپنی دولت سے عوام کو خریدتے رہے  اور نامراد ہی دنیا سے چلے گئے

عباسی خلیفہ منصور کے دور کا واقعہ ہےایک دن منصور  اپنے دربان کو ہدایت کر تے ہوئے کہنے لگا  کہ میں نے  حضرت'' امام جعفر'' صادق کو  بلایا ہے وہ جب دربار کے اندر آنے لگیں  تو ان کومیرے  پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر دینا اسی دن حضرت جعفر صادق تشریف لائے اور منصور عباسی کے پاس آ کر بیٹھ گئے منصور نے دربان کو بلا یا اس نے دیکھا کہ حضرت جعفر صادق تشریف فرما ہیں جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا دربا ن بولا خدا کی قسم میں نے حضرت جعفر صادق کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے تھے-منصور کے ایک دربان کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز اسے غمگین و پریشان دیکھا تو کہا اے بادشاہ ‘ آپ متفکر کیوں ہیں بولا میں نے علویوں کے ایک بڑے گروہ کو مروا دیا ہے لیکن ان کے سردار کو چھوڑ دیا ہے میں نے کہا وہ کون ہے ؟ کہنے لگا وہ جعفر بن محمد ہے میں نے کہا وہ تو ایسی ہستی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت میں محو رہتی ہے اسے دنیا کا کوئی لالچ نہیں خلیفہ بولا مجھے معلوم ہے تم اس سے کچھ ارادت و عقیدت رکھتے ہو میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک میں اس کا کام تمام نہ کر لوں آرام سے نہیں بیٹھوں گا چنانچہ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد آئے میں اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اسے شہید کر دینا ۔ پھر حضرت جعفر صادق کو بلایا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑ ھ رہے تھے جس کا مجھے پتہ نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے اس کا عجیب حلیہ تھا وہ لرزہ براندام برہنہ سر اور برہنہ پاؤ حضرت جعفر صادق 

کے استقبال کیلئے آیا اور اپ کے بازو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے ابن رسول اللہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو نے بلایا  میں آ گیا پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرور ہو تو فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے بجز اس اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چاہوں آ جایا کروں گا آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائے خواب (رات کو سونے کا لباس ) طلب کئے اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نما قضا ہو گئی بیدار ہوا تو نماز ادا کرکے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام کو بلایا تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا حصہ میرے محل پر وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم سے حضرت جعفر صادق کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کر دوں گا اس پر میری طبعیت غیر ہو گئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے میں نے کہا یہ جادو یاسخر نہیں ہے یہ تو اسم اعظم (قرآن کریم ) کی خاصیت ہے جو حضور نبی کریم پر نازل ہو اتھا

 ایک راوی کا بیان ہے کہ ہم حضرت جعفر صادق کے ساتھ حج کیلئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے سوکھے درختوں کے پاس ٹھہرنا پڑا حضرت جعفر صادق نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اچانک آپ نے سوکھے درختوں کی طرف منہ کرکے فرمایا اللہ نے تمہیں ہمارے لئے جو رزق و دیعت کیا ہے اس سے ہماری ضیافت کرو میں نے دیکھا کہ وہ جنگلی کھجوریں آپ کی طرف جھک رہی تھیں جن پر ترخوشے لٹک رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ اور بسم اللہ کر کے کھاؤ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھجوریں کھا لیں ایسی شیریں کھجوریں ہم نے پہلے کبھی نہ کھائی تھیں اس جگہ ایک اعرابی موجود تھا اس نے کہا آپ جیسا جادوگر میں نے کبھی نہیں دیکھا امام جعفر صادق نے فرمایا ہم پیغمبروں کے وارث ہیں ہم ساحرو کاہن نہیں ہوتے ہم تو دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی قبول فرما لیتا ہے

 اگر تم چاہو تو ہماری دعا سے تمہاری شکل بدل جائے اور تم ایک کتے میں متشکل ہو جاؤ اعرابی چونکہ جاہل تھا اس لئے کہنے لگا ہاں ابھی دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو وہ کتا بن گیا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا حضرت جعفر صادق نے مجھے فرمایا اس کا تعاقب کرو میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے گھر میں جا کر بچوں اور گھر والوں کے سامنے اپنی دم ہلانے لگا انہوں نے اسے ڈنڈا مار کر بھگا دیا واپس آیا تو تمام حال کہہ سنایا اتنے میں وہ بھی آگیا اور حضرت امام جعفر صادق کے سامنے زمین پر لوٹنے لگ ااس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا حضرت جعفر صادق نے اس پر رحم کھا کر دعا فرمائی تو وہ شکل انسانی میں آ گیا پھر آپ نے فرمایا اے اعرابی میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر یقین ہے کہ نہیں ؟ کہنے لگا   کہنے لگا ہاں جناب ایک بار نہیں اس پر ہزار بار ایمان و یقین رکھتا ہوں ان کے جد مصطفے کو بھی لوگ جادو گر کہا کرتے تھے (معاذ اللہ) اور ان کی آل پاک کے بارے میں بھی یہی خیال کرنے لگے فرق صرف یہ تھا کہ وہ کافروںمیں سے ہوتے تھے اور یہ منکرین میں سے تھا اس پر بھی خوشی ہے کہ کتابننے کے بعد راہ راست پر تو آ گیا

ایک آدمی آپ کے پاس دس ہزار دینا لے کر آیا اور کہا میں حج کیلئے جا رہا ہوں آپ میرے لئے اس پیسے کوئی سرائے خرید لیں تاکہ میں حج سے واپسی پر اپنے اہل و عیال سمیت اس میں رہائش اختیا ر کوں حج سے واپسی پر وہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے بہشت میں سرائے خرید لی ہے جس کی پہلی حد حضور پر دوسری حضرت علی پر تیسری حضرت حسن پر اور چوتھی حضرت حسین پر ختم ہوتی ہے اور یہ لو میں نے پروانہ لکھا دیا اس نے یہ بات سنی تو کہا میں اس پر خوش ہوں چنانچہ وہ پروانہ لے کر اپنے گھر چلا گیا گھر جاتے ہی بیمار ہو گیا اور وصیت کی اس پروانے کو میری وفات کے بعد قبر میں رکھ دینا لواحقین نے تدفین کے وقت اس پروانے کو بھی قبر میں رکھ دیا دوسرے دن دیکھا کہ وہی پروانہ قبر پر پڑا ہوا تھا اور اس کی پشت پر یہ مرقوم تھا کہ امام جعفر صادق نے جو وعدہ    کیا وہ پورا کیا 

جمعرات، 2 نومبر، 2023

نگلیریا دماغ کو کھا جانے والی ایک جان لیوا بیماری

 

  کراچی کے     ایک  اور نوجوان کو  موت کے فرشتے نے اچک لیا کراچی کے شہریوں کے لئے یہ کوئ  خاص خبر نہیں کیونکہ شہریوں نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے -شہر میں جگہ جگہ کچرے کےمتعفن پہاڑ ہیں لیکن اٹھانے والا کوئ نہیں -یہی وجہ کہ آئے دن شہر میں طرح طرح کی بیماریاں اور وبائیں جنم لیتی ہیں اور شہریوں کی جانیں نگل لیتی ہیں -لیکن اس خبر کا تعلّق اور بیماریوں کے بر خلاف صاف پانی سے ہے-یہ بلکل تازہ خبر ہے-کراچی میں نگلیریا سے ایک اور نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔ محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کے مطابق نارتھ کراچی کا رہائشی 22 سال کا محمد ارسل 27 اکتوبر سے نجی اسپتال میں زیرعلاج تھا۔ ترجمان صوبائی محکمہ صحت کے مطابق محمد ارسل کے پی سی آر ٹیسٹ میں نگلیریا مثبت آیا تھا۔ محکمہ صحت کے مطابق اس کے بعد علاقے سے پانی کے نمونوں کیلئے ٹاؤن سرویلنس کو آرڈینیٹر کو مطلع کر دیا ہے۔ محکمہ صحت نے بتایا کہ اس سال سندھ میں نگلیریا سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔ نگلیریا کس کو کہتے ہیں -نگلیریا ایک پانی سے پھیلنے والی خطرناک بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کی تین چار روز میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کا جرثومہ صاف کچھ گرم اور نمی والے پانی میں پایا جاتا ہے جو کہ پینے یا ناک میں پانی ڈالنے کے دوران میں انسانی دماغ میں منتقل ہو جاتا ہے اور پورے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے اس لیے اس کو دماغ کھانے والا امیبا بھی کہتے ہیں، جبکہ اس بیماری کو پھیلانے والے جراثیم کا اصل نام نگلیریا فاؤلیری ہے۔

 اس مرض کا جرثومہ چشموں، واٹر پارکوں اور مشینوں سے نکلنے والے پانی اور ایسے پانی میں پایا جاتا ہے جس میں کلورین کی کم مقدار شامل کی گئی ہو۔ یہ مرض سردیوں کی نسبت گرمیوں میں زیادہ حملہ کرتا ہے۔اس مرض میں مبتلا شخص کو شروع میں متلی ہونے لگتی ہے اور سونگھنے کی حس میں بھی فرق آ جاتا ہے-یہ مرض ابھی تک اتنا عام نہیں ہوا۔ اور پچھلے سال اس پوری دنیا میں اس مرض کے چار سو کیسز سامنے آئے۔ لیکن بہر حال اس مرض کی خطرناکی کے باعث احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے-نگلیریا کا مرض کیا ہے اور یہ کس طرح انسان کو متاثر کرتا ہے اور اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔

نگلیریا صاف پانی میں افزائش پانے والا ایسا جرثومہ ہے جو ناک کے ذریعے دماغ کی جھلی کو متاثر کرتے ہوئے انسانی دماغ کو کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔نگلیریامنہ کے ذریعے سے دماغ تک نہیں پہنچتا ہے، نہ ہی یہ جرثومہ کھارے پانی میں زندہ رہ پاتا ہے، طبی ماہرین کے مطابق نگلیریا سے بچاؤ کیلئے پانی میں کلورین کی 0٫5 فیصد ہونا ضروری ہے۔ماہرین طب کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھروں میں موجود ٹینکوں کو سال میں کم سے کم دو بار صاف کیا جائے، کلورین کی گولیوں کا استعمال کیا جائے،پینے اور وضو کیلئے پانی کو 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابالنا نگلیریا کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے شہریوں کو نگلیریا سے بچاؤ کے لیے واٹر بورڈ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار کو یقینی بنائے، اس کے علاوہ سو ئمنگ پول میں تیراکی کے دوران احتیاطی طور پر ناک کو پانی سے اوپر رکھا جائے۔یک ہفتے کے اندر رپورٹ طلب کرلی -

پیر، 30 اکتوبر، 2023

میں سہاگن بنی !مگر-اپنے ناول سے اقتباس

  مجھے یاد ہے منجھلی آ پا ایک بار اپنی سسرال سے آ کر بہت روئیں تھیں اور انہو ں نے کہا تھا امّا ں یہی حالات رہے تو میں فیصلہ لے لو ں گی '' ''امّا ں نے غضب ناک لہجے میں گرج کر کہا'' کیا فیصلہ لے, لے گی تو ؟تو منجھلی آپا نے کہا تھا میں رفاقت سے خلع لے لوں گی اور امّا ں غسل خا نے سے کپڑے کوٹنے والا ڈنڈا اٹھا لائیں تھیں اور انہو ں نے وہ ڈ نڈامنجھلی آپا کے سر پر جو اٹھایا ہم بہنیں چیخنے لگے اور ابّا نے اپنے کمرے سے دوڑتے ہوئے آ کر امّا ں پیچھےدھکیلتے ہوئے ان کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا اور کہنے لگے کیا کرتی ہو نیک بخت ،امّاں گرج کر بولیں اس کو میری نظروں سے دور کردو ورنہ آج یہ میرے ہاتھ سے مرجائے گی ،امّا ں جو کبھی کسی کو گالیاں نہیں دیتی تھیں ان کے منہ سے منجھلی آپا کے لئے گالیوں کا فوّارہ نکلا اور انہو ں نے ابّا سے چیخ کر کہا یہ اپنی بہنوں کی قبر کھودنے چلی ہے میں اسی کو ختم کر کے چھٹّی کروں اور پھر ابّا منجھلی آ پا کو ان کی سسرال چھوڑ آئے تھے پھر منجھلی آ پا ہمارےگھر کئ ہفتے تک نہیں آئیں تھیں اور اس کے بعد ہم کو پتا چلا کہ وہ موت کے منہ میں پہنچ گئ ہیں مگر ہماری امّاں کا دل نا پسیجا پھر ایک روز ابّا ان سے ملنے گئے تو واپسی پر بہت دل گرفتہ دکھائ دئے اور رات کو مجھے امّاں اور ابّا کی  باتیں کو آوازیں سنائ دینے لگیں  پہلے ابّا کی کمزور لہجے میں آواز آئ ابّا کہ رہے تھے لگتا ہے منجھلی مر جائے گی تب بھی تمھارے کان پر جوں نہیں رینگے گی تو امّاں نے ابّا کو اپنی رعب دارآواز میں جواب دیا اسلا م الدّین موت زندگی اللہ کے ہاتھ ہے وہ جتنی لائ ہے اس سے کوئ نہیں چھین سکتا ہےپھر ابّا نے امّاں سے کہا، میں منجھلی کے گھر ہوتا آیا ہوں ،اس کی طبیعت بے حد خراب نظر آرہی تھی بلکل زرد چہرہ ہو رہا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہےابّا کا لہجہ منجھلی آپا کا زکر کرتے ہوئے اور بھی آزردہ ہو گیا او ر ابّا پھر کہنے لگے نیک بخت تم ہمیشہ منجھلی کو ڈانٹ کر چپ کر دیتی ہو کبھی تو اس کی بھی سن لو ، شائد وہ سچ ہی کہتی ہو ،لیکن امّاں خاموش رہیں لیکن جب ابّا نے کہا-مجھے لگتا ہے منجھلی سسرال کے دکھ ا ٹھا کر مر جائے گی تب امّاں کی خاموشی کی مہر ٹوٹی ابّا کی بات پر امّاں نے ان کو بھڑک کر جواب دیا ، اسلام الدّین پرائے لوگوں میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے،وہ اگر مشکل میں بھی ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں بیٹی کو بلا کر سینے پر مونگ دلنے کو بٹھا لوں ،رہا مرنے اور جینے کا حساب تو جس کی امانت ہے وہ جانے ،لیکن اللہ ہی نے تو نباہ نا ہونے کی صورت میں علیحد گی کی گنجائش رکھّی ہے ،ابّا نے دھیمے لہجے میں کہااور میں نے اپنی جاگتی آنکھو ں سے منجھلی آپا کے جنازے کو قبرستان جاتے دیکھا حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی منجھلی آپا کی شادی سے خو ف ذدہ ہو گئ تھی

 پھر رات کے سکوت میں امّا ں کی آواز مجھ کو سنائ دی

 یاد ہے تمھاری امّاں نے تمھاری چھوٹی بہن نادر ہ کو اس کی سسرال کی مصیبتوں کا رونا سن سن کر کیسے طمطراق سے یہ کہ کر خلع دلوایا تھا کہ ہماری بیٹی کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں یہ خلع نادرہ نے امّاں کے گلے منڈھ کر کہا تھا،،،آ پ میری ماں تھیں ،طلاق لینے میں میری حوصلہ افزائکرنے کے بجائے مجھے سمجھا بجھا کر سسرال بھیجنا تھا ،

 یو ن طلاقن بیٹیا ں ماؤں کے کلیجے پر مونگ دلتی ہیں طلاق کے بعد سارے میکے کا جینا حرام کر کے رکھ دیتی ہیں ،یاد تو ہو گا تمھیں ،ابّا خاموشی سے سنتے رہے اور امّاں نے کہا ،اسلا م الدّین میں تم کو طعنے نہیں دے رہی ہوں بلکہ حقیقت بتا رہی ہو ں ،میرے آگے ابھی تین پہاڑ رکھّےہیں ان کو کھسکاؤں یا بیاہی کو بھی طلاقن بنا دوں انصا ف سے سوچو کہ میں کیا کہ رہی ہوں اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس دکھیا کو دوجی سسرال بھی کیسی ملی-پھر اس نے مرتے دم تک طعنے سنے کہ تو طلاقن ہے اس لئے اپنی اوقات میں رہ کر بات کر وہ تو اللہ نے اس کا پردہ رکھ کر اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ ساری عمر ہی روتی رہتی بہن تمھاری اسی لئے سیانوں کی کہاوت ہے "دوجے میاں سے پہلامیاں ہی بھلا "تم مرد زات ہو ایسی نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہو جس گھر میں ایک طلاق ہو جاتی ہے اس گھر میں دنیا والے رشتے ناطے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ہمارےساتھ بھی یہ لوگ ایسا ہی کریں گے

 ابھی دل پربھاری پتھّر رکھ کر صبر کر لو- اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ،،امّاں کی بات کے جواب میں ابّا کی ایک ٹھنڈی سسکاری سی مجھ کو سنائ دی تم کتنی صحیح با ت کر رہی نیک بخت کہ ہم کو اب باقی کی فکر کرنی چاہئے چہ جائکہ ہم بیاہی بیٹیوں کی الجھنوں میں گرفتاررہیں اورامّاں کی باتوں کے جواب میں ابّا نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا فریال کے رشتے کا کیا ہواتو امّا ں نے ان کو جوابدیا ،ابھی تو بس سلام آیا ہے ،، جب پیام آئے تو جان لو کہ اب بیٹی کو رخصت کرنا ہے ،لیکن تمھارے ماموں کی بیٹی اپنے دیور کے لئے نرگس کا ہاتھ مانگ رہی ہے ،،میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں وہکون سے اچھّے ہیں ،ظالموں کے نرغے میں ایک منجھلی کو ہی دے کر پچھتا رہی ہوں ، ابّا نے کہا

 ہا ں نیک بخت بڑی کو اٹھائے بغیر چھوٹی کو کیسے اٹھا دیں ،نہیں اسلام الدّین بڑی چھوٹی کی کوئ بات نہیں ہے جس کا رشتہ پہلے آئے اسی کو اٹھا نا ہےدیکھ نہیں رہے ہو نرگس کیسے ڈھور ڈنگروں کی طرح منہ کو آرہی ہے رشتہ اچھّا ہوتا تو اس کوفریال سے پہلے ہی ر خصت کر دیتی امّاں نے کہا اور میں اندر سے لرز کر رہ گئ اور پھر ماحول میں رات کا سکوت چھا گیا پھر کچھ ثانئے کے بعد امّاں کی آواز آئ ،اسلام الدّ ین تم بیٹی کی طرف سے اپنا دل میلا نہیں کرنا میں نے اسکو جنم دیا ہے اس کی تکلیف پر میری کوکھ پھڑکتی ہے میں راتوں کو سکون سے سوتی نہیں ہوں مگر میں کیا کروں ،مجبور ہوں ،تم بے فکر رہو کل میں اس کی سسرال جا کر کچھ اس کے ہاتھ پر چپکےسے دے آؤں گی اب تم بھی سو جاؤ سویرے کے اٹھے ہوئے ہو امّاں نے ابّا سے کہا اور پھرشائد میں خود سو گئ تھی

  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر