ہفتہ، 25 اکتوبر، 2025

انڈونیشیا کی ثقافتی کشتی ریس میں ننھا ڈانسرریان

انڈونیشیا میں کشتی رانی کے مقابلے کی تاریخ کئ سو سال پرانی ہے اس مقابلے میں بہت بڑی تعداد میں کشتیا ں شامل ہوتی ہیں ہر کشتی پر متعدد کشتی راں  اپنے ہاتھوں میں چپو لے کر بیٹھے ہوتے ہیں جو  ریفری کی وسل کے ساتھ چپو چلاتے ہوئے سمندر کے سینے پر دوڑنے لگتے ہیں -کشتی رانوں کی ہمت افزائ کے لئے ایک ایک کشتی راں بغیر چپو کے کھڑا ہوتا ہے جو گیت گا کر یا نعرے لگا کر اپنی کشتی کے ملاحوں کی ہمت بندھاتا ہے ایسے ہی ایک کشتی پر آ پ گیارہ برس کے ننھے ڈانسر ریان کو دیکھ سکتے ہیں ریان ارکان بھی اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے کشتی کے فرنٹ پر ڈانس میں محو تھا کہ ان کی ویڈیو نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی اور ان کا کیا گیا ڈانس ورلڈ سینسیشن بن گیا۔کالا چشمہ اور نیلا لباس پہنے کشتی پر جھومتے 11 سالہ ریان کون ہیں جن کا ڈانس دنیا بھر میں وائرل ہو رہا ہےیہ پہلے صرف ایک ڈانس تھا،پھر وائرل میم بنا اور اب بڑے ایتھلیٹ اس رقص میں شامل ہو گئے ہیں۔


 گذشتہ کچھ  مہینوں  پہلے   سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ایک ویڈیو بار بار نظر آتی  رہی ہے جس میں ایک انڈونیشین لڑکا ریس میں حصہ لینے والی کشتی کے کنارے کھڑا رقص کر رہا ہے۔ اس کم عمر لڑکے نے نیلے رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے، آنکھوں پر کالا چشمہ ہے اور سر پر ایک ٹوپی بھی پہنی ہوئی ہے۔سوشل میڈیا پر اس لڑکے کے عمل کو 'اورا فارمنگ' کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ 'اورا فارمنگ' انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب لوگوں پر سحر طاری کرنا ہوتا ہے۔اس لڑکے کا یہ ڈانس اتنا وائرل ہو چکا ہے کہ امریکی فٹبالر ٹریوس کیلسی، فارمولہ ون ڈرائیور ایلکس ایلبن اور پیرس سینٹ جرمین کی فُٹبال ٹیم بھی انھیں کاپی کرتی ہوئی نظر آئی۔دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کو اپنے سحر میں جکڑ لینی والی اس ویڈیو کے پیچھے ایک 11 سالہ لڑکا ہے جس کا نام ریان ارکان ہے۔انھوں نے بی بی سی انڈونیشیا کو بتایا کہ اس ویڈیو کو بنانے کا آئیڈیا انھیں یوں ہی اچانک بیٹھے بیٹھے آگیا۔وہ کہتے ہیں کہ 'یہ ڈانس میں نے خود بنایا تھا اور یہ سب بہت اچانک ہوا۔'ریان کا تعلق انڈونیشیا کے علاقے کوانتان سنگنگی ریجینسی سے ہے اور وہ پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں۔


 یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی تھی جب وہ پہلی مرتبہ کشتیوں کی ریس (پاکو جالور) میں پہلی مرتبہ حصہ لے رہے تھے۔ کشتی میں سوار ریان دراصل 'توگک لوان' تھے۔ 'توگک لوان' کا کام کشتی چلانے والوں کو پُرجوش رکھنا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر ہر طرف پھیل جانے والی اس ویڈیو میں ریان انڈونیشیا کا ثقافتی لباس تیلوک بیلنگا پہنے ہوئے ہیں جبکہ انھوں نے سر پر مالے ریو رومال سر پر باندھا ہوا ہے۔جس کشتی کے کنارے پر کھڑے ہو کر وہ ہوائی بوسے اچھال رہے ہیں اور رقص کر رہے ہیں اُسے دراصل 11 لوگ مل کر چلا رہے ہیں۔اس ویڈیو کو متعدد گانوں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے اور جون سے لے کر اب تک اس ویڈیو پر کروڑوں ویوز آ چکے ہیں۔ایک ویڈیو کلپ کے نیچے کمنٹ میں لکھا ہے کہ 'اس لڑکے کو 'دا ریپر' کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کبھی شکست نہیں کھاتا۔'ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ 'یہ بھائی مخالفین کو شکست بھی دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنے سحر میں بھی جکڑ رہے ہیں۔'سوشل میڈیا پر بہت سارے صارفین ریان کے ڈانس کی نقل کر کے اپنی ویڈیوز اپلوڈ کر رہے ہیں۔


ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ 'یہ بھائی مخالفین کو شکست بھی دے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنے سحر میں بھی جکڑ رہے ہیں۔'سوشل میڈیا پر بہت سارے صارفین ریان کے ڈانس کی نقل کر کے اپنی ویڈیوز اپلوڈ کر رہے ہیں۔سپورٹس ٹیموں نے بھی ان کی ویڈیو کو دیکھا ہے۔ یکم جولائی کو فرانسیسی فٹبال ٹیم پیرس سینٹ جرمین نے بھی اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں کھلاڑی ریان کی طرح ڈانس کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس ویڈیو کو صرف پہلے دس دنوں میں 70 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا تھا۔بدھ کو انڈونیشیا کے وزیرِ ثقافت فضلی زون نے ریان کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کشتی کے کنارے پر رقص۔ شاید اسی وجہ سے اس کردار کے لیے بڑوں کے بجائے بچوں کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا آسان ہوتا ہے۔'تاہم ریان کی والدہ رانی رداوتی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے رقص کو دیکھ کر پریشان ضرور ہوئی تھیں 'یہ پریشانی لاحق رہتی ہے کہ کہیں وہ گِر ہی نہ جائے۔' تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بیٹے ایک ماہر تیراک ہیں۔'اگر وہ کبھی پانی میں گِر جائے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ چپّو لگنے سے زخمی نہ ہو جائے۔'

بدھ، 22 اکتوبر، 2025

آسمان کی خوبصورت زینت"چاند"

 



 · 
چاند ہماری زمین کا ایک سیارچہ ہے۔ زمین سے کوئی دو لاکھ چالیس ہزار میل دور ہے۔ اس کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔چاند کا دن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چاند کا مدار زمین کے اردگرد بڑھ رہا ہے یعنی اوسط فاصلہ زمین سے بڑھ رہا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سےسمندر میں مد و جزر بھی پیدا ہوتا ہے۔


سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔چاند کی ہییت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص سمتار سے زمین کے قریب ایک خاص راستے (trajectory) پر آنا ضروری ہو گا، جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔ 
ہمارا ایمان ہے کہ سورج اور چاندبھی اللہ کی مخلوق ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا {وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ} وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔( الأنبیاء : ۳۳ )



ہمارا ایمان اس بات پر بھی ہے کہ سورج اور چاند دو نوں چلتے ہیں جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالی نے فرمایا {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ(۳۸) اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا(۳۸) وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ(۳۹) اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے (۳۹) لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ(۴۰)} نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں (۴۰) ۔ (یس :۳۸-۴۰)اور یہ دونوں اللہ کے حکم سےچلتے ہیں، ان دونوں کےچلنے میں بندوںہی کافائدہ ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کے لئے بہت بڑی رحمت ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے { وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ}اسی نے تمہارے لئے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔(ابراھیم :۳۳)


انسان کی رہنمائی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو حواس خمسہ کی نعمت سے بہرہ ور کیا ہے لیکن حواس خمسہ کئی مرتبہ حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سراب ہے کہ انسان صحرا یاچمکتی ہوئی دوپہر میں کچھ فاصلے پر پانی کھڑا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ عقل انسانی اس کی رہنمائی کرتی ہے کہ آنکھ حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہی۔ اسی طرح بخار کی حالت میںجب میٹھی چیزبھی انسان کو کڑوی محسوس ہوتی ہے تو انسان کی عقل اس کی رہنمائی کرتی ہے کہ اشیاء حقیقت میں کڑوی نہیں ہیں بلکہ بخار کی وجہ سے کڑوی محسوس ہورہی ہیں۔ حواس خمسہ کو لگنے والے ٹھوکر کی صورت میں انسان کی رہنمائی اس کی عقل کرتی ہے۔ اسی طرح اگر انسانی عقل حیرانگی ،تشویش، وہم اور شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے تو وحی الٰہی انسان کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ وحی کی رہنمائی کے بغیر انسان عقائد اور ایمانیات کے باب میں کئی مرتبہ حیرانگی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں اچھی خاصی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی کئی مرتبہ پتھروں، مورتیوں اوربتوں کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔کچھ یہی معاملہ اجرام سماویہ کے ساتھ بھی رہا ہے ۔ مختلف ادوار کا انسان ستاروں کے بارے میں مافوق الفطرت تصورات کا حامل رہا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگ بت پرستی کے ساتھ ساتھ ستارہ پرست بھی تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے چاند ،ستارے اورسورج کی حقیقت پر غور کیا اور جب ہر ایک کو  ڈوبتے ہوئے دیکھا تو بستی کی بداعتقادی سے لاتعلقی کا اظہار فرما    یا

ازمنہ قدیم میں گھر 'گھر بتوں کی پوجا کیسے شروع ہوئ

 

 


 


حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کا نام شیث تھا-والدہ کا نام قیشوش بنت برکابیل تھا‘‘- آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت مبعوث فرمایا جب بتوں کی عبادت اورشیطانوں کی  اطاعت شروع ہوچکی تھی-لوگ کفراور گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے  کلام مقدس میں بارہا مقامات پر بتوں کی پوجا سے روکا گیا ہے اور ان کی مذمت اور بے بسی کا جابجا ذکر کیا گیا ہے کہ نفع اور نقصان کا تعلق ان سے نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا نفع کرسکتے ہیں جب ان کی ماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اوپر سے مکھی کو بھی نہیں اُڑا سکتے تو تمہارا نفع اور نقصان کیا کرسکتے ہیں-تو گھر 'گھر بت رکھنے  کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ابن جریر ؒ نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام)کے درمیان کچھ نیک لوگ تھے اور ان کے پیروکار ان کی اقتداء کرتے تھے جب وہ نیک لوگ فوت ہوگئے تو ان کے پیروکاروں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں تو اس سے ہماری عبادت میں زیادہ ذوق اور شوق ہوگا سو انہوں نے اُن نیک لوگوں کی تصویریں بنادیں-


جب وہ فوت ہوگئے اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ملعون نے ان کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ ان کے آباء تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور اسی سبب سے ان پر بارش ہوئی سو انہوں نے ان تصویروں کی عبادت کرنا شروع کردی-وَد، یغوث، یعوق، سراغ، نسر ودان تمام نیک تھا-امام ابن حاتم ؒ نے امام باقر ؒ سے روایت کی کہ وَد ایک نیک شخص تھا اوروہ اپنی قوم میں بہت محبوب تھا-جب وہ فوت ہوگیا تو اس کی قوم کے لوگ بابل کی سرزمین میں اس کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر روتے رہے-جب ابلیس نے ان کی آہ و بکاہ دیکھی تو وہ ایک انسان کی صورت میں    آیا اور کہنے لگا مَیں نے تمہارے رونے کو دیکھا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ مَیں تمہارے لئے بت کی ایک تصویر بنادوں تم اپنی مجلس   میں اس تصویر کو دیکھ کر اسے یاد کیا کرو تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا تو اس نے بت کی تصویر بنادی جس کو وہ اپنی مجلسوں میں رکھ کر اس کا ذکر کیا کرتے-


جب ابلیس نے یہ منظر دیکھا تو کہا مَیں تم میں سے ہر ایک کے گھر بت کا ایک مجسمہ بناکر رکھ دوں تاکہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں بت کاذکر کیا کرے انہوں نے اس بات کو بھی مان لیا پھر ہر گھر میں وَد کا ایک بت بنا کر رکھ دیا گیا- پھر ان کی اولاد بھی یہی کچھ کرنے لگی پھر اس کے بعد ان کی جو بھی  نسلیں آئیں تو وہ بھول گئی کہ وَد ایک انسان تھا- وہ اس  کوخدا مان  کر اس کی عبادت کرنے لگیں -پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس بت کی پرستش شروع کردی -پس اللہ پاک کو چھوڑ کر جس بت کی سب سے پہلے پرستش شروع کی گئی وہ وَد نام کا بت تھا


-حافظ ابن عساکر(رضی اللہ عنہ)حضرت شیث علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم( علیہ السلام) کے چالیس (۴۰)بچے تھے بیس (۲۰)بیٹے اور بیس (۲۰)بیٹیاں ان میں سے جنہوں  نے طویل عمر یں پائیں-ہابیل،قابیل ، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا آپ (علیہ السلام) کے ایک بیٹے وَد تھے جنہیں شیث اور’’ھبۃ اللہ‘‘ کہا جاتا تھا-تمام بھائیوں نے سیارت ان کے سپردکر رکھی تھی-سراع، یغوث، یعوق اور نسر ان کی اولاد تھی-ابن ابی حاتم میں حضرت عروہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) بیمار ہوئے توآپ کے پاس اس وقت پانچ(۵) بیٹے تھے-وَد، یغوث، یعوق، سواع اور نسر-وَد سب سے بڑا اور سب سے زیادہ فرمانبردار اور حسن سلوک والا تھا عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمر و بن لحیّ بن قمعہ تھا-یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا اس نے تین سو چالیس سال کی طویل  عمر پائی  


کعبہ کی تولیت پانچ سو سال تک اس کے اور اس کی اولاد کے پاس رہی اور اس نے بت پرستی کو رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں صرف کیں-کعبۃ اللہ جس کو حضرت خلیل (علیہ السلام) 

نے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا اسی بدبخت کے زمانے میں بت خانہ بنا-  

 مراۃ العارفین سے اقتباس


منگل، 21 اکتوبر، 2025

قدیم یونان کی سات دانا شخصیات پارٹ 2

 

بقراط کے دونوں بیٹوں تھیالیس اور ڈراکو کے ایک ایک بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر بقراط تھا۔ سورانس کا کہنا ہے کہ بقراط نے علم طب اپنے باپ اور دادا سے سیکھا تھا جبکہ دوسرے علوم ڈیموکریٹس اور گور جیاس سے حاصل کیے۔ افلاطون نے مقالات حکمت میں لکھا ہے کہ بقراط نے اسکلیپیون کی شفا بخش درس گاہ سے تعلیم حاصل کی اور طب کی تربیت لی تھی۔ بقول افلاطون بقراط نے اسکلیپیون میں تھیرس کے حکیم اعظم ہیروڈیکوس آف سیلیمبریا سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔بقراط کی بعض تصانیف میں نرمی، شفقت، انکسار، تواضع و محبت جیسی ہدایات ملتی ہیں چونکہ ہمارے ہاں اس کی تصانیف کا سب سے پہلے ترجمہ ہوا اور یہ دنیا کا کامل ترین طبیب تھا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فن طب پر لوگوں کی رائے یہاں نقل کروں۔فن طب کی اختراع و مخترع کے مختلف علماءمیں اختلاف ہے۔ اسحق بن حنین اپنی تاریخ میں کہتا ہے کہ ایک قوم اہل مصر کو فن طب کا موجد سمجھتی ہے اور ساتھ ہی ایک حکایت بھی سناتی ہے کہ پرانے زمانے میں مصر کی ایک عورت ہمیشہ رنج و غم اور غیض و غضب کا شکار رہا کرتی تھی اور ساتھ ہی چند بیماریوں مثلاًضعف معدہ، فساد خون، احتباس حیض میں مبتلا تھی۔ ایک دفعہ اتفاقاً نرنجیل شامی (ایک پودا) کو کھا بیٹھی اور تمام روگ دور ہوگئے اس تجربے سے اہل مصر نے فائدہ اٹھایا اور فن طب کا آغاز ہوگیا۔ 

 

بعض علماءفلسفے، طب اور دیگر صنائع کا موجد ہرمس (حضرت ادریسؑ) کو قرار دیتے ہیں۔ بعض اختراع کا سہرا اہل قوس (یاقولوس) کے سرباندھتے ہیں۔بعض ساحروں کو اس کا موجد قرار دیتے ہیں بعض کے ہاں اس کی ابتداءبابل، بعض کے ہاں ایران، بعض کے ہاں ہندوستان، بعض کے ہاں یمن اور بعض کے ہاں مقلب سے ہوئی۔یحییٰ نحوی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ جالینوس کے زمانے تک8 بڑے بڑے طبیب گزرے ہیں۔ اسقلیبوس اول، غورس،مینس، برمانیذس، افلاطون الطبیب، اسقلیبیوس دوم، بقراط اور جالینوس۔اسقلیبوس اول اور جالینوس کے درمیان 5560 سال کا عرصہ حائل ہے اسی طرح ہر طبیب کی وفات اور دوسرے کی ولادت تک سینکڑوں سال کے لمبے لمبے وقفے ہیں۔بقراط اپنے زمانے میں ریئس الاطباءتھا۔ یہ اسقلیبوس ثانی کے شاگردوں میں سے ہے۔ اسقلیبوس کی وفات کے وقت اس کے3 شاگرد زندہ تھے یعنی ماغاریس، فارخس و بقراط، ماغارلیس ومارخس کی وفات کے بعد بقراط ریئس اطباءقرار پایا۔ یحییٰ نحوی سکند رانی کہتا ہے کہ بقراط گیانہ وہر، کامل فاضل، تمام اشیاءسے واقف اور ایک فلسفی طبیب تھا۔

 

 بعض لوگ اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس نے صنعت قیاس و تجربے کو اس قدر تقویت دی کہ اب کسی ردوقدح کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔بقراط پہلا حکیم ہے جس نے اپنی اولاد کی طرح غرباءکو بھی فن طب کی تعلیم دی۔ اس حکیم کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں امراءکی بے توجہی سے یہ فن مٹ ہی نہ جائے۔ اس لیے غرباءکو بھی شامل کرلیا۔ایک مؤرخ نے ذکر کیا ہے کہ بقراط بہمن بن اردشیر کے زمانے میں تھا۔ ایک دفعہ بہمن بیمار پڑ گیا اور بقراط کو بلا بھیجا۔ شہر والوں نے بہمن کی اس خواہش کے خلاف سخت صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ اگر ہم سے بقراط کو چھیننے کی کوشش کی گئی تو ہم علم بغاوت بلند کر دیں گے اور سردھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ بہمن کو ان لوگوں پر رحم آگیا اور بقراط کو وہیں رہنے دیا۔ بقراط کا ظہور94 سال بخت نصر اور شاہ یمن کے چودھویں سال جلوس میں ہوا تھا۔یحییٰ نحوی لکھتا ہے کہ دنیا کے مشہور بڑے طبیبوں میں یہ ساتواں تھا اور جالینوس آٹھواں کہ جس پر یہ ریاست طب ختم ہوگئی۔ بقراط اور جالینوس میں665 سال کا عرصہ تھا بقراط کی عمر95 سال تھی جن میں سولہ سال بچپن اور طلب علم میں گزرے اور 79 سال تعلیم و تدریس میں بسر کئے۔ اس کے2 بیٹے اور1 بیٹی تھی بیٹوں کے نام تاسلوس و دارقن اور بیٹی کا نام مانارسیا۔ بہن بھائیوں سے زیادہ ذہن تھی۔ بقراط کے2پوتوں کا نام بھی بقراط تھا ایک تاسلوس اور دوسرا دارقن کا بیٹا تھا۔

 

 تلامذہ بقراط کے اسمائیہ یہ ہیں لاذن، ماسرجس، ساوری، فولوس، اسطات، غورس،جالینوس کے عہد تک مندرجہ ذیل حضرات بقراط کے مفسر رہے: سنبلقیوس، نسطاس، دپسقوریدس الاول، طیماوس الفلسطینی، مانطیاس، ارسراطس ثانی، القیاسی بلاذیوس۔تفاسیر جالینوس بقراط کی چند کتابوں کی تفسیر جالینوس نے بھی کی ہے۔ تفصیل یہ ہے-1 کتاب عہد بقراط: جالینوس نے تفسیر کی اور حنین نے یونانی اور ابن سینا جیسے نامور طبیبوں کی کاوشوں کے طفیل طب یونانی کو حیرت انگیز ترقی ملتی چلی گئی ۔ارسطو :یہ شمالی یونان کے شہر اسٹیگرا میں 384 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کا باپ شاہی طبیب تھا ۔اس نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی مگر دس سال کی عمر میں اس کے والد کاانتقال ہو ا تو یہ اپنے والد کے ایک رشتہ دار کی سرپرستی میں آ گیا۔اٹھارہ سال کی عمر میں یہ افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہو ا اور 37سال کی عمر تک وہیں رہا۔اس کے بعد اس نے '' لائسم ‘‘کے نام سے اپنی اکیڈمی بنائی۔سکندر اعظم بھی ارسطو کا شاگرد تھا ۔ سکندر اعظم نے تقریباتین سال تک ارسطو سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ارسطو علم طب، علم حیوانیات، ریاضی،علم ہئیت ، سیاسیات،طبعیات اور علم اخلاقیات میں اعلیٰ مقام رکھتا تھااسی لئے اسے اپنے دور کا سائنسدان بھی کہتے ہیں کیونکہ جب تک نیوٹن روئے زمین پر نہیں آیا تھا ،فزکس کے بنیادی اصول و ضوابط ارسطو کے تشکیل کردہ ہی چلتے رہے

قدیم یو نا ن کی سات دانا شخصیات پارٹ '1

  

بقراط       :          اسے طبیبو ں کا جد امجد بھی کہتے ہیں ۔ فلسفہ طب کی وجہ سے اس نے شہرت پائی۔   :یہ ماہر طب تھا بلکہ اسے طب کا سائنسدان بھی کہتے ہیں ۔یہ 460 قبل مسیح یونان کے شہر کوس میں پیدا ہوا۔اس نے علم حاصل کرنے میں سولہ برس صرف کئے جبکہ باقی عمر اس نے تحریر و تصنیف میں گزار دی ۔ طب کی باقاعدہ ترویج وترقی کا سہرا بقراط کے سر جاتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ زمانہ قدیم سے مروجہ روایتی طریقے سے علاج کی جگہ سائنسی بنیادوں پر علاج کو رواج دینا ہے اور شاید اسی وجہ سے اسے ''بابائے طب‘‘کا لقب بھی دیا گیا ہے ۔طب میں بقراط کی گراں قدر خدمات اور ان مٹ بنیاد کے سبب بعد میں آنے والے جالینوس تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ہیپوکریٹس 460 ق م میں جزیرہ کوس میں پیدا ہوا۔ عرب اسی ہیپو کریٹس کو بقراط کہتے ہیں۔ تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیپوکریٹس نامی طبیب اور سرجن نے اپنے علم و تجربہ کے حوالے سے شہرت دوام حاصل کی۔ بقراط کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس کی موت کے صدیوں بعد متعدد سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان اور حکیم تھا۔ اس پر لکھا بھی گیا۔

 

  آبادی آئییونیا (Ayunia ayurvedic ) کے شہر مائیلیٹس سے تھا ۔ یہ مفکر624قبل مسیح میں مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546قبل مسیح میں وفات پائی۔یہ یونان کا سب سے قدیم فلسفی تھا ،انسانی تاریخ میں سب سے پہلے سورج گرہن کی نشاندہی اسی نے کی تھی ۔ اس کو دنیا کا پہلا جیو میٹری دان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سال کے 365 دنوں کا تصور بھی اسی کا پیش کردہ ہے ۔ سورج اور چاند کے حجم کی اولین نشاندہی کا سہرا بھی اسی کے سر جاتا ہے ۔ یہ دنیا کاپہلا فلسفی تھا جس نے کائنات کی تخلیق کی تشریح سائنسی شکل میں کی۔ اس نے پہلی مرتبہ علم ہندسہ کے اصولوں کا اطلاق عملی مسائل پر کیا۔ اسے الجبراء پر بھی دسترس حاصل تھی ۔اس نے یونانی فلسفیوں کا پہلا علمی مرکز قائم کیا ۔فیثا غورث: یہ ایک یونانی فلسفی تھا جو570 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور 495 قبل مسیح میں وفات پائی۔یہ بنیادی طور پر ایک فلسفی ، ریاضی دان اور سائنسدان تھا لیکن وہ ماہر ریاضی دان کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ یونان کے جزیرے ساموس سے جنوبی اٹلی کی ایک مختصر آبادی والے شہر کروٹو میں منتقل ہو گیا تھا ۔

 

ساموس سے اس کی ہجرت کا سبب مورخین وہاں کے لوگوں سے اس کا نظریاتی اختلاف بتاتے ہیں ۔چنانچہ کروٹو میں اس نے اپنے ہم خیال پیرو کاروں کے ہمراہ ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد مذہبی ، سیاسی اور فلسفیانہ نظریات کو لوگوں تک پہچانا تھا ۔اس تحریک کو ''فیثا غورث ازم‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔فیثا غورث کے بارے میں مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کسی بھی دوسرے فلسفی سے زیادہ گہرائی تک جا کے تحقیق کرنے کا عادی تھا اور جب تک کامیابی حاصل نہ کر لیتا ، چین سے نہیں بیٹھتا تھا ۔افلاطون:یہ 460 قبل مسیح ایتھنز کے ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوا ۔نوجوانی میں اس کی ملاقات فلسفی سقراط سے ہوئی جو اس کا دوست اور رہبر بن گیا۔اس کو یہ منفرد اعزاز حاصل تھا کہ یہ مایہ ناز فلسفی سقراط کا شاگرد اور نامور فلسفی ارسطو کا استاد تھا۔ 387قبل مسیح میں اس نے ایتھنز میں ''اکادمی‘‘ نامی علم گاہ کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد اس نے اپنی زندگی کے باقی چالیس سال علم وتدریس میں ایتھنز میں گزار دئیے۔ مورخین اسکی قائم کردہ ''اکادمی‘‘ کے بارے کہتے ہیں کہ اس علم گاہ سے 900 سال تک لوگ فیض یاب ہوتے رہے ۔ حتیٰ کہ ارسطو بھی اسی اکیڈمی سے فیض یاب ہوا۔ یہ اکیڈمی مغربی دنیا کی اولین تعلیمی درسگاہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہے ۔ اس نے اسی درسگاہ سے مغربی فلسفہ         ،سائنس اور ریاضی کی بنیاد رکھی ۔یہ فلسفہ کی تدریس کرتا رہا اور لکھتا بھی رہا۔   

 

 افسس کاسورانوس نے دوسری صدی عیسوی میں یونان کے زیرانتظام افسس شہر میں ماہرامراض مخصوصہ (گائناکالوجسٹ) کے طور پر شہرت پائی۔ یہی سورانوس بقراط کا اولین سوانح نگار تھا۔ سورانوس نے بقراط کے بارے میں بیرونی ذرائع سے بہت سی معلومات کو اکٹھا کیا اور ان معلومات سے استفادہ کرنے کے علاوہ اس نے ارسطو کی تحریروں میں سے بھی بقراط کے بارے میں مواد حاصل کیا۔ دسویں صدی عیسوی میں سوداس اور بارہویں صدی عیسوی میں جان ٹزٹیز نے بھی بقراط کی سوانح لکھیں۔ سورانوس کا کہنا ہے کہ بقراط کے باپ کا نام ہیراگلاڈیس تھا۔ ہیرا کلاڈیس اپنے زمانے کا نامور طبیب تھا۔ بقراط کی ماں کا نام پراکشٹیلا تھا جو کہ اپنے دور کے نامی گرامی شخص فینا ریٹنس کی بیٹی تھی۔ بقراط کے دو بیٹے تھے ایک کا نام تھیسایس اور دوسرے کا ڈراکو تھا۔ بقراط کی ایک بیٹی تھی جس کے خاوند کا نام پولی بس تھا۔ بقراط کے دونوں بیٹے اور داماد اس کے شاگرد تھے۔ انہوں نے علم طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت شہرت پائی۔ حکیم جالینوس کا کہنا تھا کہ بقراط کے علم و تجربے کا حقیقی جانشین پولی بس تھا کیونکہ اس نے تمام قواعد صحیح طور پر سیکھے  

ڈاکٹر پیزادہ قاسم 'ایک مایہء ناز ماہرتعلیم اور شاعر

 

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی 8جون 1943ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔  ابھی بچپن کے ابتدائ ایام  ہی گزر رہے تھے کہ  پاکستان اور ہندوستان کا بٹوارہ ہو گیا  چنانچہ تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے بھی اپنا  تمام اثاثہ  ہندوستان میں چھوڑا اور پاکستان کی سرزمین کو اپنا نیا مسکن بنا لیا - گھر کے اندر تعلیمی ماحول تھا  انہوں نے بھی ابتدائ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے  انہوں نے ڈی جے سائنس کالج سے انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں سے کامیاب کیا اس کے بعد جامعہ کراچی سے بی ایس سی آنرزکرنے کے  بعد ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ایم ایس سی کے بعد نیو کیسل یونیورسٹی برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور جامعہ کراچی میں بحیثیت لیکچرار مقرر ہوئے۔ دوران ملازمت وہ جامعہ کراچی کے پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار رکن سنڈیکیٹ، مشیر امور طلبہ اور دیگر اہم کمیٹیوں کے رکن رہے۔پیرزادہ قاسم اردو یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے لیکن چند ماہ بعد وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر کردیئے گئے۔


  پیرزاد قاسم پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔  ان  کی شاعری  ان کے مخصوص ترنم میں  بہت  لطف دیتی  ہے -پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی  کا کہنا ہےکہ شاعری میری پہلی محبت ہے  لیکن  میری  شاعری کا سرمایہ اتنا بھی نہیں کہ جتنا ہونا چاہئے۔ پیرزادہ قاسم  نے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1960ء میں جامعہ کراچی میں بحیثیت لیکچرار مقرر ہوئے۔ دوران ملازمت وہ جامعہ کراچی کے پرووائس چانسلر اور رجسٹرار، رکن سنڈیکیٹ، مشیر امور طلبہ اور دیگر اہم کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔ پیرزادہ قاسم 2012ء تک جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بھی رہے۔، وفاقی اردو یونیورسٹی اور ضیاء الدین یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر بنے رہےسمجھتے ہیں کہ ادبی و علمی ورثہ اگلی نسل تک منتقل کئے بغیر معاشروں میں ایسے روبوٹس تیار ہوتے ہیں جو اچھے ڈاکٹر اور اچھے انجینئر تو ہو سکتے ہیں مگر انہیں مکمل شخصیت کہنا غلط ہوگا۔ہمیں ایسا معاشرہ چاہئے کہ جہاں افراد کو شعر و ادب سے دلچسپی ہو اور جو اچھے شعر پر داد دے سکیں اور اچھی تحریر کی پرکھ رکھتے ہوں۔۔1996ء میں دبئی میں جشن پیرزادہ قاسم بڑی شان و شوکت سے منایا گیا۔


یہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں ایسے لوگوں کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے جو یورپ جا کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں، اور  پھر واپس اسی مٹی کا رخ کریں جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔پیرزادہ قاسم کا  شمار ایسے ہی چند مٹھی بھر لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے وطن اور اپنی زبان سے محبت کی خا طر پردیس کی پُر آسائش زندگی کو نظر انداز کر کے پاکستان کی مٹی کو عزیز تر رکھا 60ء کی دہائی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل                         کی لیکن  ان کے دل میں اپنی زبان اپنا ماحول اس طرح سے رچا ہوا تھا کہ  تعلیم مکمل کرنے کے بعد  وہ دیار غیر میں رہ نہیں سکے اور پاکستان واپس آ گئے حالانکہ پردیس جانا اور پھر واپس پاکستان  آ کر یہاں ایڈجسٹ کرنا یہ ایک بڑامشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن ان کے ارادے اتنے پختہ تھے کہ انہوں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ہی نہیں                                 


                                                                                                                 پاکستان واپسی کے سفر میں ان کی ایک سوچ کارفرما نظر آئ جس میں  ان کی اردو زبان سے محبت شامل تھی  ان کی خواہش تھی کہ ان کی اگلی نسل بھی وہی زبان بولے جو وہ خود بولتے ہیں اور ان کے والدین بولتے ہیں ۔ پیرزادہ قاسم پاکستان میں شعبہ تدریس کی ایک قابل قدر شخصیت کے طور پر نمایاں سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1960ء سے جامعہ کراچی کے شعبہ فزیالوجی سے منسلک رہے- دوران ملازمت وہ جامعہ کراچی کے پرووائس چانسلر اور رجسٹرار، رکن سنڈیکیٹ، مشیر امور طلبہ اور دیگر اہم کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔انہوں نے 1960ء سے شاعری کا آغاز کیا اور غزل سمیت مختلف اصنافِ سخن میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ان کی معروف تصانیف میں ’’تند ہوا کے جشن میں‘‘ اور ’’شعلے پہ زبان‘‘ شامل ہیں۔       بےمسافت سفرا'نھوں نے تمام  اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، مگر غزل ان کا خاص میدان  ہے


پیر، 20 اکتوبر، 2025

کل میں اس کے ہاتھ پر چپکےسے کچھ رقم دے آؤ ں گی 'میں سہاگن بنی 'مگر'

 

 اور اس کے بعد ہم کو پتا چلا کہ وہ موت کے منہ میں پہچ گئ ہیں مگر امّا ں کا دل نا پسیجا ،میں اس رات کو دیر تک نا جانے کیوں جاگ رہی تھی شائد گھرکے اندر کچھ کچھ نامانوس مسموم ہوا کے چلنے احسا س ہو رہا تھا کہ اتنےمیں مجھے امّاں اور ابّا کی باتیں کو آوازیں سنائ دینے لگیں پہلے ابّا کی کمزور لہجے میں آواز آئ ابّا کہ رہے تھے لگتا ہے منجھلی مر جائے گی تب بھی تمھارے کان پر جوں نہیں رینگے گی تو امّاں نے ابّا کو اپنی رعب دارآواز میں جوابدیا اسلا م الدّین موت زندگی اللہ کے ہاتھ ہے وہ جتنی لائ       ہے اس سے کوئ نہیں چھین سکتا ہےپھر ابّا نے امّاں سے کہا میں منجھلی کے گھر ہوتا آیا ہوں ،اس کی طبیعت بے حد خراب نظر آرہی تھی، بلکل زرد چہرہ ہو رہا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہے ابّا کا لہجہ منجھلی آپا کا زکر کرتے ہوئے اور بھی آزردہ ہو گیا ابّا پھر کہنے لگے نیک بخت تم ہمیشہ منجھلی کو ڈانٹ کر چپ کر دیتی ہو کبھی تو اس کی بھی سن لو ، شائد وہ سچ ہی کہتی ہو ،لیکن امّاں خاموش رہیں لیکن جب ابّا نے کہا مجھے لگتا ہے منجھلی سسرال کے دکھ ا ٹھا کر مر جائے گی - تب امّاں کی خاموشی کی مہر ٹوٹی

 

 ابّا کی بات پر امّاں نے ان کو بھڑک کر جواب دیا ،اسلام الدّین پرائے لوگوں میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے ،وہ اگرمشکل میں بھی ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں بیٹی کو بلا کر سینے پرمونگ دلنے کو بٹھا لوں ،رہا مرنے اور جینے کا حساب تو جس کی امانت ہے وہ     جانے ،لیکن اللہ ہی نے تو نباہ نا ہونے کی صورت میں علیحد گی کی گنجائش رکھّی   ہے،ابّا نے دھیمے لہجے میں کہا اور میں نے اپنی جاگتی آنکھو ں سے منجھلی آپا کے جنازے کو قبرستان جاتے دیکھا حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی منجھلی آپا کی شادی سے خو ف ذدہ ہو گئ  تھی پھر رات کے سکوت میں امّا ں کی آواز مجھ کو سنائ د یا  یاد ہے تمھاری امّاں نے تمھاری چھوٹی بہن نادر ہ کو اس کی سسرال کی مصیبتوں کا رونا سن سن کر کیسے طمطراق سے یہ کہ کر خلع دلوایا تھا کہ ہماری بیٹی کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں یہ خلع نادرہ نے امّاں کے گلے منڈھ کر کہا تھا،،،آ پ میری ماں تھیں ،طلاق لینے میں میری حوصلہ افزائ کرنے کے بجائے مجھے سمجھا بجھا کر سسرال بھیجنا تھا ،یو ن طلاقن بیٹیا ں ماؤں کے کلیجے پر مونگ دلتی ہیں طلاق کے بعد سارے میکے کا جینا حرام کر کے رکھ دیتی ہیں ،یاد تو ہو گا تمھیں،

 


 ابّا خاموشی سے سنتے رہے اور امّاں نے کہا ،اسلا م الدّین میں تم کو طعنےنہیں دے رہی ہوں بلکہ حقیقت بتا رہی ہو ں ،میرے آگے ابھی تین پہاڑ رکھّےہیں ان کو کھسکاؤں یا بیاہی کو بھی طلاقن بنا دوں انصا ف سے سوچو کہ میں کیا کہ رہی ہوں اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس دکھیا کو دوجی سسرال بھی کیسی ملی  پھر اس نے مرتے دم تک طعنے سنے کہ تو طلاقن ہے اس لئے اپنی اوقات میں رہ   کر بات کر وہ تو اللہ نے اس کا پردہ رکھ کر اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ   ساری عمر ہی روتی رہتی بہن تمھاری اسی لئے سیانوں کی کہاوت ہے "دوجے میاں سے پہلامیاں ہی بھلا "تم مرد زات ہو ایسی نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہو جس گھر میں ایک طلاق ہوجاتی ہے اس گھر میں دنیا والے رشتے ناطے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہ لوگ ایسا ہی کریں گے ابھی دل پر صبر کا بھاری پتھّر رکھ کر صبر کر لو اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ،،امّاں کی بات کے جواب میں ابّا کی ایک ٹھنڈی سسکاری سی مجھ کو سنائ دی- تم کتنی صحیح با ت کر رہی نیک بخت کہ ہم کو اب باقی کی فکر کرنی چاہئے چہ جائکہ ہم بیاہی بیٹیوں کی الجھنوں میں گرفتاررہیں  

 

ورامّاں کی باتوں کےجواب میں ابّا نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا فریال کے رشتے کا کیا ہوا تو امّا ں نے ان کو جوابدیا ،ابھی تو بس سلام آیا ہے ،پیام آئے تو ارادے پتا چلیں گے،لیکن تمھارے ماموں کی بیٹی اپنے دیورکے لئے نرگس کا ہاتھ مانگ رہی ہے ،،میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں وہ  کون سے اچھّے ہیں ، ظالموں کے نرغے میں ایک منجھلی کو ہی دے کر پچھتا رہی ہوں ، ابّا نے کہا  ہا ں نیک بخت بڑی کو اٹھائے بغیر چھوٹی کو کیسے اٹھا دیں ،نہیں اسلام الدّین بڑی چھوٹی کی کوئ بات نہیں ہے جس کا رشتہ پہلے آئے اسی کو اٹھا ناہے دیکھ نہیں رہے ہو نرگس کیسے ڈھور ڈنگروں کی طرح منہ کو آرہی ہے رشتہ اچھّا ہوتا تو اس کوفریال سے پہلے ہی ر خصت کر دیتی امّاں نے کہا اور میں اندر سے لرز کر رہ گئ اور پھر ماحول میں رات کا سکوت چھا گیا پھر کچھ ثانئے کے بعد امّاں کی آواز آئ ،اسلام الدّ ین تم  بیٹی کی طرف سے اپنا دل میلا نہیں کرنا میں نے اسکو جنم دیا ہے اس کی تکلیف پر میری کوکھ پھڑکتی ہے میں راتوں کو سکون سے سوتی نہیں ہوں مگرمیں کیا کروں ،مجبور ہوں ،تم بے فکر رہو کل میں اس کی سسرال جا کرکچھ اس کے ہاتھ پر چپکےسے دے آؤ  ں  گی  


حضرت بی بی ام البنین سلام اللہ علیہا کا خواب

 


حضرت بی بی  ام البنین سلام اللہ علیہا  کا خواب

حضرت ام البنین سلام  اللہ علیہا  فرماتی ہیں کہ  مولا  علی علیہ السلام  کا رشتہ  آنے سے پہلے میں نے ایک   خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتی  ہوئ  نہریں اور بے شمار پھل درخت  موجود  ہیں ۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن  ہیں  اور میں انہیں دیکھ رہی  ہوں ۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے  مظبوط  آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔ بی بی  ام البنین نے خواب کا زکر اپنی مادر گرامی سے کیا اور انہوں اس خواب کا زکر اپنے شوہر  سے کیا حضرت ام البنین کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر  بیان کرنے والے عالم  کے پاس گئے اور ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے  عظیم الشان شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔



عقیل، علم انساب میں بہت آشنائی رکھتے تھے اور ان کی بات اس سلسلہ میں حجت مانی جاتی تھی۔ ان کے لیے مسجد النبی (ص) میں ایک چٹائی بچھائی جاتی تھی جس پر وہ نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد عرب قبائل علم انساب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک حاضر جواب شخص تھے۔ بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد حضرت عقیل کی جانب سے اصرار تھا کہ  ان کے چھوٹے بھائ مولا علی علیہ السلام دوسرا عقد کریں  اسی لیے حضرت علی بن ابیطالب  علیہ السلام نے  اپنے  ماہر انساب بھائی سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے لیے ایک ایسی  خانون  کا انتخاب کریں کہ، جو شجاع اور دلیر مرد عربوں کی نسل سے ہو  جو   کر بلا میں میرے حسین کے لئے  ایک بہادر اور شہسوار بیٹے کو جنم دے۔"حضرت عقیل بن ابیطالب نے ، بنی کلاب کے خاندان سے ام البنین کا انتخاب کیا،جو شجاعت میں بے مثال خاندان تھا، اور اپنے بھائی کے جواب میں کہا:" آپ فاطمہ  کلابیہ سے شادی کریں، کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے شجاع تر عربوں میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عقیل نے بنی کلاب خاندان کی دوسری خصوصیات بھی بیان کیں اور  مولا علی علیہ السلام نے اس انتخاب کو پسند فرمایا اور  اپنے بھائ عقیل کو رشتہ لینے کے لیے ام البنین  سلام اللہ علیہا کے باپ کے ٍپاس بھیجا۔



جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل  خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین" کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو۔



حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔ حضرت ام البنین سلام  اللہ علیہا کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئےاور یہ چاروں میدان کارزار کربلا میں داد شجاعت دیتے ہوئے  مولا حسین پر قربان ہوگئے ۔ 


ائیر مارشل نور خان سے روشن خان تک 'پاکستان کے روشن چہرے 'parT'1

ہما رے پیارے پاکستان کے ائر وائس  مارشل نور خان صاحب میں ایک خاص صلاحیت تھی وہ ایک ہونہار اور  باصلاحیت کھلاڑی  کے اندر  چھپی ہوئ صلاحیتوں کا  فوراً  اندازہ لگا  لیتے تھے۔ کھلاڑی کسی کھیل کا ہو، اس سے بحث نہیں، مگر اس میں آگے اور  بڑھنے کی  تھوڑی سی بھی صلاحیت  ہوتی تو وہ نور خان صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔  بس نور خان کی جہاندیدہ نظروں نے روشن خان میں چھپے ہوئے کھلاڑی سے ملاقات کر لی پشاور کے قریب ایک چھوٹا سا گاوں تھا، بلکہ اب بھی ہے، جسے غالباً نواں کلی کہتے ہیں۔ وہاں کے بیشتر رہنے والے پشاور ائر فورس بیس پر ملازم تھے۔ آفیسر میس کے تمام بیرے تو تقریباً اسی گاوں سے تھے، ان کے علاوہ جو ٹینس اور سکوائش کھلانے پر معمور تھے، نورخان صاحب کی نظر کا کمال بھی بھلایا نہیں جا سکتاہے-روشن خان (پیدائش: 1927ءپشاور : وفات: 6جنوری 2006ءکراچی) سکواش کے سابق عالمی چیمپئن۔ ورلڈ سکواش فیڈریشن کے صدر اور سکواش کے سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان کے والد تھے ان کے والد آرمی میں ملازم تھے لیکن انھوں نے پاکستان نیوی میں ملازمت اختیار کی۔ وہ بال بوائے تھے اور نیوی افسران جب سکواش کھیلتے تو وہ ان کو بال اٹھا کر دیا کرتے تھے۔ یہیں سے ہی ان میں سکواش کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں انھیں نیوی کی جانب سے سکواش کے مقابلوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ان کامیابیوں سے سکواش کی دنیا میں پاکستان کی طویل حکمرانی کا آغاز ہوا۔


 روشن خان نے پہلی مرتبہ 1957ء میں برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتی تھی۔ وہ تین مرتبہ یو ایس اوپن کے فاتح بھی رہے۔یہ شخص روشن خان تھے جنھیں آج کی نسل سکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان کے والد کے طور پر جانتی ہے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے دور کے عظیم کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ اور سب سے بڑھ کر جن مشکل حالات میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دیا، ایسی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔روشن خان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ کچھ لوگوں کو ان کے سخت مزاجی سے شکوہ رہا لیکن درحقیقت اس تلخی کے پیچھے وہ حالات اور واقعات تھے جن کا سامنا روشن خان کو اپنے کریئر کے دوران کرنا پڑا۔ لیکن جو لوگ انھیں قریب سے جانتے تھے وہ بتاتے ہیں کہ روشن خان اندر سے ایک نرم مزاج انسان تھے۔اس دور میں پیشہ ورانہ رقابت عروج پر تھی سیاست عروج پر تھی-روشن خان نے بتایا تھا کہ یہ وہ دور تھا جب وہ قومی چیمپئن ہونے کے باوجود انگلینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت سے محروم تھے 


جبکہ اس دور میں ہاشم خان، اعظم خان، سفیراللہ اور محمد امین انگلینڈ جا رہے تھے۔ان کے مطابق محمد امین کراچی جمخانہ اور سفیراللہ سندھ کلب سے وابستہ تھے لیکن یہ دونوں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیں ان دونوں جگہوں میں کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔روشن خان کے مطابق ’سیاست اپنے عروج پر تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود میں رات کے وقت میں ایک کھلے میدان میں جا کر دوڑ لگایا کرتا تھا تاکہ خود کو فٹ رکھ سکوں۔ اسی میدان میں انٹرکانٹینٹل ہوٹل بنا۔ ایک دن میں نے مایوسی کے عالم میں بڑے بھائی نصراللہ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ہاشم خان اور دوسرے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا موقع مل سکے گا لہذا مجھے کوئی نوکری تلاش کرنی چاہیے تاکہ گذر اوقات ہو سکے۔ʹپھر دنیا زمانے  نے دیکھا کہ روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے 10 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ جہانگیر 6 مرتبہ ورلڈ اوپن کے فاتح بھی رہے ہیں۔سکواش کی تاریخ میں روشن اور جہانگیر خان واحد باپ اور بیٹا ہیں کہ جنھوں نے برٹش اوپن ٹائٹل جیتا ہے۔


روشن خان کو کئی ممالک نے کوچنگ کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے ٹھکرادیا اور ملک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے تینوں بیٹوں طورسم خان، حسن خان اور جہانگیر خان نے سکواش کھیلی۔ روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے 10 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ جہانگیر 6 مرتبہ ورلڈ اوپن کے فاتح بھی رہے ہیں۔سکواش کی تاریخ میں روشن اور جہانگیر خان واحد باپ اور بیٹا ہیں کہ جنھوں نے برٹش اوپن ٹائٹل جیتا ہے۔روشن خان کو کئی ممالک نے کوچنگ کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے ٹھکرادیا اور ملک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے تینوں بیٹوں طورسم خان، حسن خان اور جہانگیر خان نے سکواش کھیلی۔روشن خان کے وہ عزیز جو ان کو اپنے ساتھ کھلانا پسند نہیں کرتے تھے آ ج بلکل نے نام زندگی گزار رہے ہیں جبکہ روشن خان کا نام آ ج بھی ایک تابندہ ستارے کی مانند پاکستان کے آسمان پر روشن ہے اللہ پاک روشن خان کی مغفرت فرمائے آمین

تحریر انٹر نیٹ کی مدد سے لکھی گئ

ائیر مارشل نور خان سے روشن خان تک 'پاکستان کے روشن چہرے

 

' ائیر مارشل نور خان سے روشن خان تک 'پاکستان کے روشن چہرے 'روشن خان نے آج سے تقریباً 35 سال پہلے مجھے دیے گئے انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ʹمیں راولپنڈی کلب میں اپنے والد فیض اللہ خان کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن بہتر مستقبل کی خاطر میں راولپنڈی سے کراچی آ گیا مگر میرے پاس سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ تھا نہ کوئی ملازمت تھی۔ میں نے کئی راتیں سڑکوں پر گزاری تھیں۔  روشن خان   اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔روشن خان نے سنہ 1949 میں کاکول میں پاکستان پروفیشنل سکواش چیمپئن شپ جیتی تھی لیکن اس میں ہاشم خان نہیں کھیلے تھے۔ روشن خان چاہتے تھے کہ ان کی صلاحیت کا پتہ اس وقت چلے گا جب وہ ہاشم خان سے مقابلہ کریں گے۔روشن خان کے ذہن میں یہ تھا کہ ہاشم خان پاکستان میں چیمپئن شپ نہیں کھیلتے ہیں لہذا کراچی میں ان کے لیے مواقع ہو سکتے ہیں کہ وہ یہاں سے لندن جاکر قسمت آزمائی کر سکیں۔ اس دوران ان کے بڑے بھائی نصراللہ جو کراچی میں ٹینس اور سکواش کھیلتے تھے، نے ان کی مدد کی۔


سنہ 1952 میں جب پاکستان پروفیشنل چیمپئن شپ ہوئی تو ہاشم خان اور ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان نے اس میں حصہ نہیں لیا۔  ۔ روشن خان ن بار پھر چیمپئن شپ جیت لی لیکن انھیں ہاشم خان کے ساتھ نہ کھیلنے کا دکھ تھا۔ روشن خان اور ایوب خان-ان کے مطابق محمد امین کراچی جمخانہ اور سفیراللہ سندھ کلب سے وابستہ تھے لیکن یہ دونوں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیں ان دونوں جگہوں میں کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔روشن خان کے مطابق ’سیاست اپنے عروج پر تھی۔‘ ان کا کہنا تھا ʹرات کے وقت میں ایک کھلے میدان میں جا کر دوڑ لگایا کرتا تھا تاکہ خود کو فٹ رکھ سکوں۔ اسی میدان میں انٹرکانٹینٹل ہوٹل بنا۔ ایک دن میں نے مایوسی کے عالم میں بڑے بھائی نصراللہ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ہاشم خان اور دوسرے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا موقع مل سکے گا لہذا مجھے کوئی نوکری تلاش کرنی چاہیے تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔ʹیہ غالباً 1953 کی بات ہے جب روشن خان سکواش سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے۔ اس موقع پر نصراللہ خان نے اپنے ایک دوست سے ذکر کیا جو روشن خان کو پاکستان نیوی کے ایک افسر کے پاس لے گیا۔ 

 

روشن خان نے انھیں اپنے میچوں سے متعلق اخبارات کے تراشے دکھائے۔افسر نے روشن خان سے کہا کہ وہ انھیں پاکستان بحریہ میں چپڑاسی کی ملازمت دلوا سکتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگرچہ یہ ملازمت ان کے شایان شان نہیں ہے لیکن اس سے آگے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔روشن خان نے جب تیسری مرتبہ قومی پروفیشنل چیمپئن شپ جیتی تو پاکستان نیوی کے افسران بہت خوش تھے۔ روشن خان کو چپڑاسی کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا اور اب ان کا کام صرف سکواش کھیلنا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب نیوی نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے روشن خان کو انگلینڈ بھجوا دیا۔پندرہ پاؤنڈ کی خریداری مگر جیب میں ایک سکہروشن خان لندن تو پہنچ گئے لیکن ان کی حالت کچھ اس طرح تھی کہ جیب میں صرف پانچ شلنگ تھے۔ ان کا کل سامان صرف دو ٹراؤزر، ایک شرٹ، ٹینس شوز کی   ایک جوڑی اور ایک اوور کوٹ پر مشتمل تھا۔ 


یہ اوور کوٹ بھی نیوی کے سٹور سے انھیں دیا گیا تھا جسے وطن واپسی پر سٹور میں واپس کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔روشن خان اپنی رہائش کا پیشگی کرایہ ادا کر کے جب پاکستان ہائی کمیشن پہنچے تو ان کی جیب میں صرف ایک شلنگ باقی بچا تھا۔ ان کی خوش قسمتی کہ انھیں برٹش سکواش ریکٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ہینری ہیمین کے پاس پہنچایا گیا جو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روشن خان کے پاس کھیل کا مناسب سامان تک نہیں تھا۔وہ انھیں پکِیڈ لی سرکس میں کھیلوں کے سامان کی مشہور دکان لِلی وائٹس لے گئے جہاں انھوں نے روشن خان کے لیے ریکٹ، جوتے، جرابیں اور شرٹس خریدیں۔ بل پندرہ پاؤنڈ کا آیا جو ہیمین نے  اپنی جیب سے اداکیا دراسل وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ روشن خان کو اپنے ٹریولرز چیک کیش کرانے کا وقت نہیں مل سکا ہے۔اور پھر اللہ نے روشن خان کی سخت جان محنت خدائے واحد پر یقین نے ان کو بین الاقوامی  شہرت بھی دی اور بے حساب دولت بھی عطا کی اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے

 

اتوار، 19 اکتوبر، 2025

شہرکراچی میں امام بارگاہوں کی تاریخ حصہ دوم

 

 امام بارگاہ کھارادر سے ملحق ایک بڑا علم بھی ہے، یہ علم بھی سو سال سے زائد قدیم بتایا جاتا ہے اسی علم مبارک کے لئے روائت ہے کہ یہ علم پاک کھارادر کے سمندر میں بہتا ہوا ایک مچھیرے کو ملاتھا جس نے علاقے کے معززین کے حوالے کیا اور اس پاک گروہ نے یہ علم ایک وسیع میدان میں نصب کیا تھا'اب وسیع میدان تو نہیں ہے لیکن مولا  کاعلم پاک موجود ہے۔ کسی وقت یہ کراچی کا سب سے بڑا اور بلند علم کہلاتا تھا۔امام بارگاہ بارہ امام,ضلع جنوبی کے علاقے سابقہ لارنس روڈ موجودہ نشتر روڈ پر بھی ایک قدیم امام بارگاہ واقع ہے، یہ امام بارگاہ کراچی کے سول اسپتال سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ امام بارگاہ بارہ امام کے نام سے مشہور ہے۔ اس امام بارگاہ کو چوہدری اللہ دتہ نامی مخیر عقیدت مند نے کم و بیش سو سال قبل تعمیر کرایا تھا۔ یہاں عشرہ محرم سمیت دیگر ایام میں بھی مجالس عزا منعقدکی جاتی ہیں، یہاں ماضی میں عشرہ محرم میں علامہ عقیل ترابی مرحوم نے بھی مجلس عزا سے خطاب کیا کرتے تھے۔


اس امام بارگاہ سے ہر سال تین بڑے ماتمی جلوس 9 اور10محرم اور21 رمضان المبارک کو نکالے جاتے ہیں جو ڈینسو ہال کے قریب نشتر پارک سے آنے والے مرکزی جلوس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ پہلے اس امام بارگاہ میں ایران، عرق، شام اور سعودی عرب جانے والے زائرین، عازمین حج اور معتمرین کے لئے عارضی رہائش گاہ کا انتظام تھا۔انجمن حسینیہ ایرانیاں,کراچی کے قدیمی علاقے کھارادرکے عقب میں نواب مہابت خان جی روڈ پر واقع حسینیہ ایرانیاں بھی کراچی کی قدیم اما بارگاہوں میں شامل ہے۔اسے کراچی میں مقیم ایرانی باشندوں نے 1948ءمیں تعمیر کرایا تھا۔ اس امام بارگاہ کوکراچی میں عزاداری کے حوالے سے مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ حسینیہ ایرانیاں میں فارسی زبان میں بھی مجالس منعقد کی جاتی ہیں، جن میں کراچی میں مقیم ایرانیوں کے علاوہ فارسی زبان سے شناسائی رکھنے والے پاکستانی بھی شرکت کرتے ہیں، یہاں عشرہ محرم پر رات میں مجلس عزا منعقد کی جاتی ہے،

 

جس سے علامہ رشید ترابی مرحوم، علامہ عقیل ترابی مرحوم سمیت صف اوّل کے علماء نےخطاب کیا تھا۔امام بارگاہ مارٹن روڈ،جیل چورنگی کے قریب تین ہٹی جانے والی سڑک پر دائیں جانب زرا اندر جاکر کراچی کی ایک اور قدیم امام بارگاہ و جامع مسجد امام بارگاہ مارٹن روڈ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ امام بارگاہ قیام پاکستان کے بعد اس علاقے میں بھارت سے ہجرت کرکے آباد ہونے والے شیعہ مہاجرین نے اپنی مدد آپ کے تحت 1949ء میں قائم کی تھی، جو 1956ءمیں مکمل ہوئی تھی، یہاں محرم کی مجالس سمیت تمام مذہبی ایام پر مجالس منعقدکی جاتی ہیں۔کراچی کے مختلف علاقوں میں قیام پاکستان کے بعد شیعہ مہاجرین جہاں، جہاں آباد ہوتے گئے، وہاں انہوں نے امام بارگاہیں بنالیں، لائنز ایریا کے علاقے جٹ لائن میں ایک قدیم امام بارگاہ حسینی کے نام سے مشہور ہے، 


یہاں محمود آباد اور ملحقہ علاقوں سے نکلنے والے جلوس 9 محرم کی رات جمع ہوتے ہیں اور مجلس کے اختتام پر صبح سویرے مرکزی جلوس میں شامل ہونے کےلئے نشتر پارک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں پہلی مجلس 1950ءمیں منعقد ہوئی  تھی امام بارگاہ باب العلم نارتھ ناظم آباد-یہ کراچی کی ایک پُر شکوہ امام  بہت مشہور و مروف  اما م بارگاہ جس میں ماہ محرم کی  مجالس کے علاوہ دیگر علمی کام بھی کئے جاتے ہیں 'کراچی شہر میں ایک معجزاتی امام بارگاہ جہاں بدھ کی شام پورے کراچی سے مومنین زیارت اور عبادت کے لیئے حاضر ھوتے  ہیں یہ   بدھ  کی امام بارگاہ امام موسی  کاظم علیہ السلام  سے منسوب ھے جہاں  پہنچنے پر احساس ہوتا ہے   کہ  جیسے   کاظمین عراق  پہنچ گئے  ہوں  اگر دیکھا جائے تو ہزارہ برادری  نے  کراچی  کے دور افتادہ مضافاتی شہر منگھو پیر میں اپنی امام بارگاہ بنا لی جس میں ہزاروں ہزارہ شیعہ مجالس کرتے ہیں -


شہر کراچی میں امام بارگاہوں کی تاریخ

 


    شہر کراچی میں امام بارگاہوں کی تاریخ  کراچی میں امام بارگاہوں کی تاریخ پر نظر  رکھنے والے کہتے ہیں   کہ    عزادار سید الشہداء  کی  کا آغاز ہجری سال کے پہلے ماہ محرم کا آغاز ہوتے ہی کراچی میں امام بارگاہوں سمیت متعدد عوامی مقامات پر بھی مجالس عزا برپا کی جاتی ہیں۔ ان متبرک مقامات  میں   سب سے پہلے   لیاری کے علاقے  بغدادی میں قیام پاکستان سے 140سال قبل 1806ءمیں قائم کی گئی  امام بارگاہ ہے  پھر ہم    کراچی کےدیگر علاقوں کو اگر دیکھیں  تو نشتر پارک اور خالق دینا ہال سمیت متعدد پبلک مقامات پر شہدائے کربلاؓ کی یاد میں منعقد ہونے والی مجالس اور محفل میں علماءاور ذاکرین خطاب کرتے ہیں۔کراچی کے نشتر پارک میں نصف صدی سے پاک محرم ایسوسی ایشن کے تحت مرکزی مجلس عزا منعقد کی جا رہی ہے جبکہ خالق دینا ہال میں بزم حسینی کے زیر اہتمام یکم تا 9محرم مجالس عزا برپا کی جاتی ہیں۔ 



عائشہ منزل کے قریب اسلامک ریسرچ سنٹر میں بھی مجالس عزا منعقد کی جاتی ہیں۔ کراچی کی قدیم امام بارگاہوں محفل شاہ خراسان، بڑا امام باڑہ کھارادر، انجمن حسینیہ ایرانیان، امام بارگاہ شاہ نجف، امام بارگاہ حسینی، لائنز ایریا اور دیگر،جہاں آج بھی عزاداری مجالس عزاکا انعقاد مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ کیا جاتاہے ۔کراچی کے ضلع جنوبی میں سب سے زیادہ قدیم امام بارگاہیں واقع ہیں ،جن میں متعدد ایسی ہیں، جہاں قیام پاکستان سے قبل عزادری کا سلسلہ جاری تھا۔محفل شاہ خراسان,مزار قائد اور نمائش چورنگی کے قریب بریٹو روڈ پر واقع محفل شاہ خراسان قیام پاکستان کے بعد کراچی کی قدیم ترین مسجد اور امام بارگاہ ہے، اسے کراچی میں عزاداری کا ایک بڑا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔


 

 اس کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں مسجد ہے، جہاں با جماعت نماز بھی اداکی جاتی ہے پھر عزا خانہ ہے، اس کے ساتھ زیارت گاہ ہے۔ یہاں قیام پاکستان کے بعد پہلے محرم میں اس مقام پر شامیانہ لگا کر مجالس عزا منعقدکی گئی تھی، پھر اسی زمین کو مخیر شیعہ افراد نے خریدا اور اس پر اس امام بارگاہ تعمیر کروائی،۔ یہاں بھی ایک بڑا علم عقید تمندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہواہے۔اس سے چند قدم آگے ایک اور قدیم بارگاہ عزا خانہ زھرا کے نام سے مشہور ہے، یہاں بھی ایک تاریخی علم نصب ہے۔ یہاں بھی پابندی کے ساتھ مجالس منعقد کی جاتی ہیں، یہاں بھی کئی زیارتیں ہیں۔بشوکی امام بارگاہ ،بشوکی امام بارگاہ کوکراچی کی قدیم ترین امام بارگاہ قرار دیا جاتا ہے، یہ ۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ امام بارگاہ یہاں تعمیرکی گئی تھی، اس وقت کراچی کی مجموعی آبادی صرف 35 ہزار تھی۔


 

 اسے اب امام بارگاہ نیا آباد بھی کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ امام بارگاہ صرف ایک کمرے پر مشتمل تھی، لیکن اب یہ امام بارگاہ تین منزلہ ہے، یہاں پر عاشورہ محرم سمیت دیگر ایام میں عزاداری اور مجالس منعقدکی جاتی ہیں۔امام بارگاہ کھارادر,قیام پاکستان سے کم و بیش 80 سال قبل کراچی کے قدیم ترین کاروباری علاقے کھارادر میں 1868ءمیں قائم کیاگیا تھا۔ یہ امام بارگاہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی جائے پیدائش وزیر مینشن سے دوگلیاں آگے ہے۔ اسے خوجہ اثناءعشری جماعت کے لوگوں نے تعمیر کرایا تھا، ابتدا میں اس کا صرف گراؤنڈ فلور تھالیکن عزادروں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اس کی مزید دو منزلیں تعمیر کرائی گئیں، جن میں سے پہلی منزل خواتین عزاداروں کےلئے مخصوص ہے۔ یہاں کسی وقت علامہ رشید ترابی بھی مجلس پڑھاکرتے تھے۔


فرزند فلسطین کیمیا دان عمر یاغی' کیمسٹری کے نوبل 'شریک انعا م ٹہرے

 

 

زرا تصور کی نظر سے دیکھئے ایک چھوٹا سا معصوم بچہ جس  کو اپنے بچپن میں پیاس بجھانے کو صاف اور کافی پانی بھی میسر نہیں   ہو سکا تھا-جس کے کیمپ میں دھوپ سے بچاؤ کا انتظام بھی نہیں تھا  'لیکن اتنے کٹھن حالات میں وہ صرف ایک مقصد لے کر آ گے بڑھتا رہا تحقیق اور تحقیق اور بالآخر اس نے  اپنی ریسرچ مکمل  کر کے اپنے مقصد حیات کو پالیا اب ساری دنیا میں اس کے نام کی دھوم مچی ہوئ ہے-فلسطینی نژاد کیمیا دان عمر مونس یاغی نے بدھ کو کیمسٹری کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر جیت لیا ہے۔نوبیل کمیٹی کے اعلان کے مطابق 2025 کا نوبیل انعام عمر مونس یاغی کے ساتھ شریک انعام یافتگان سوسومو کیٹاگاوا، رچرڈ روبسن ہیں۔نوبیل کمیٹی کے مطابق ان تینوں انعام یافتگان نے ایک نئی قسم کی مالیکیولائی ساخت معلوم کی ہے جس سے دھات اور آرگینک اجزا کے ملاپ سے فریم ورکس بنائے جا سکتے ہیں۔اس فریم ورک میں مالیکیول اندر اور باہر حرکت کر سکتے ہیں۔ اس عمل کو صحراؤں میں ہوا سے پانی حاصل کرنے، پانی سے آلودگی ختم کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ذخیرہ کرنے جیسے مفید کام لیے جا سکتے ہیں

 

۔عمر یاغی 1965 میں اردن کے دارالحکومت عمان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان فلسطین سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا تھا۔یاغی کو 2021 میں سعودی شہریت ایک شاہی فرمان کے تحت دی گئی تھی۔ یہ فرمان مختلف شعبوں میں نمایاں ماہرین کو سعودی شہریت دینے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ جب یاغی کو انعام کی خبر ملی تو ایک ہوائی اڈے پر سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اس موقعے پر کہا کہ انہیں حیرت اور خوشی دونوں ہوئے ہیں۔میں بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہم ایک درجن اہل خانہ ایک کمرے میں رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ ہمارے مویشی بھی ہوا کرتے تھے۔‘انہوں نے کہا کہ ’میرے والدین پناہ گزین تھے۔ میرے والد چھٹی تک پڑھے تھے، جب کہ والدہ لکھ پڑھ نہیں سکتی تھیں۔‘15 سال کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔ وسائل کی کمی کے باوجود ان کے اندر تعلیم کی لگن تھی، اور انہوں نے پہلے نیویارک سے کالج کی تعلیم اور پھر 1990  میں یونیورسٹی آف الینوئے، اربانا-شیمپین سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

 

اسی دوران انہوں نے مالیکیولر ڈھانچوں کے اندر موجود خالی جگہوں کو سمجھنے اور استعمال کرنے کے خیالات پر کام شروع کیا، جو آگے چل کر ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحقیقی میدان بن گیا۔یاغی نے بعد میں ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں تدریسی کیریئر شروع کیا۔   کی 1990ءدہائی میں انہوں نے ریٹیکولر کیمسٹری کا تصور پیش کیا، جس کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح ایٹمی اور مالیکیولر اجزا کو مضبوط کیمیائی بانڈز سے جوڑ کر ایک نیا، ٹھوس، اور قابلِ پیش گوئی ڈھانچہ بنایا جا سکتا ہے۔اس نظریے سے انہوں نے میٹل-آرگینک فریم ورکس (MOFs) کی بنیاد رکھی، یعنی ایسی کرسٹل نما جالیاں جن میں بےحد چھوٹے سوراخ یا خانے ہوتے ہیں۔انہیں ایم او ایف کے شعبے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔یہ MOFs گیسوں کو ذخیرہ کرنے، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے، پانی کے حصول اور توانائی کے ذخیرے میں استعمال ہونے لگے۔بعد میں انہوں نے کویلنٹ آرگینک فریم ورکس (COFs) اور ہائیڈروجن سٹوریج جیسے نئے تصورات متعارف کرائے۔


ان کا سب سے انقلابی تجربہ وہ تھا جس میں انہوں نے ہوا کی نمی سے پانی کشید کرنے والا آلہ تیار کیا، یعنی ایک ایسا آلہ جو بغیر بجلی کے ریگستان میں بھی پانی نکال سکے۔یاغی اکثر اپنے بچپن کی پیاس    اور پانی کی قلت کا ذکر کرتے  ہیں   اور اسی نے انہیں وہ سائنس بنانے پر مجبور کیا جو ہوا سے پانی نکال سکتی ہے۔ ان کے الفاظ میں ’میں نے اپنی کہانی کو سائنس میں ڈھالا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور بچہ پیاسا نہ رہے۔‘یاغی نے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایا: یونیورسٹی آف مشی گن، یو سی ایل اے اور بالآخر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلی، جہاں وہ آج بھی تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ برکلی گلوبل سائنس انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں، جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے نوجوان سائنس دانوں کو عالمی سائنسی تحقیق میں شامل کرنا ہے۔ اردنی نژاد فلسطینی سائنس دان اور سعودی شہریت رکھنے والے پروفیسر عمر مؤنس یاغی نے نوبیل انعام برائے کیمیا اپنے نام کر لیا۔سویڈن کی شاہی اکیڈمی آف سائنسز نے اعلان کیا کہ یہ انعام عمر یاغی کے ساتھ جاپان کے سوسومو کیتاگاوا اور آسٹریلیا کے رچرڈ روبسن کو مشترکہ طور پر دیا جا رہا ہے۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر