پیر، 20 اکتوبر، 2025

ائیر مارشل نور خان سے روشن خان تک 'پاکستان کے روشن چہرے 'parT'1

ہما رے پیارے پاکستان کے ائر وائس  مارشل نور خان صاحب میں ایک خاص صلاحیت تھی وہ ایک ہونہار اور  باصلاحیت کھلاڑی  کے اندر  چھپی ہوئ صلاحیتوں کا  فوراً  اندازہ لگا  لیتے تھے۔ کھلاڑی کسی کھیل کا ہو، اس سے بحث نہیں، مگر اس میں آگے اور  بڑھنے کی  تھوڑی سی بھی صلاحیت  ہوتی تو وہ نور خان صاحب کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی تھی۔  بس نور خان کی جہاندیدہ نظروں نے روشن خان میں چھپے ہوئے کھلاڑی سے ملاقات کر لی پشاور کے قریب ایک چھوٹا سا گاوں تھا، بلکہ اب بھی ہے، جسے غالباً نواں کلی کہتے ہیں۔ وہاں کے بیشتر رہنے والے پشاور ائر فورس بیس پر ملازم تھے۔ آفیسر میس کے تمام بیرے تو تقریباً اسی گاوں سے تھے، ان کے علاوہ جو ٹینس اور سکوائش کھلانے پر معمور تھے، نورخان صاحب کی نظر کا کمال بھی بھلایا نہیں جا سکتاہے-روشن خان (پیدائش: 1927ءپشاور : وفات: 6جنوری 2006ءکراچی) سکواش کے سابق عالمی چیمپئن۔ ورلڈ سکواش فیڈریشن کے صدر اور سکواش کے سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان کے والد تھے ان کے والد آرمی میں ملازم تھے لیکن انھوں نے پاکستان نیوی میں ملازمت اختیار کی۔ وہ بال بوائے تھے اور نیوی افسران جب سکواش کھیلتے تو وہ ان کو بال اٹھا کر دیا کرتے تھے۔ یہیں سے ہی ان میں سکواش کھیلنے کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں انھیں نیوی کی جانب سے سکواش کے مقابلوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ان کامیابیوں سے سکواش کی دنیا میں پاکستان کی طویل حکمرانی کا آغاز ہوا۔


 روشن خان نے پہلی مرتبہ 1957ء میں برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتی تھی۔ وہ تین مرتبہ یو ایس اوپن کے فاتح بھی رہے۔یہ شخص روشن خان تھے جنھیں آج کی نسل سکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان کے والد کے طور پر جانتی ہے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے دور کے عظیم کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ اور سب سے بڑھ کر جن مشکل حالات میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دیا، ایسی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔روشن خان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ کچھ لوگوں کو ان کے سخت مزاجی سے شکوہ رہا لیکن درحقیقت اس تلخی کے پیچھے وہ حالات اور واقعات تھے جن کا سامنا روشن خان کو اپنے کریئر کے دوران کرنا پڑا۔ لیکن جو لوگ انھیں قریب سے جانتے تھے وہ بتاتے ہیں کہ روشن خان اندر سے ایک نرم مزاج انسان تھے۔اس دور میں پیشہ ورانہ رقابت عروج پر تھی سیاست عروج پر تھی-روشن خان نے بتایا تھا کہ یہ وہ دور تھا جب وہ قومی چیمپئن ہونے کے باوجود انگلینڈ میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت سے محروم تھے 


جبکہ اس دور میں ہاشم خان، اعظم خان، سفیراللہ اور محمد امین انگلینڈ جا رہے تھے۔ان کے مطابق محمد امین کراچی جمخانہ اور سفیراللہ سندھ کلب سے وابستہ تھے لیکن یہ دونوں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیں ان دونوں جگہوں میں کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔روشن خان کے مطابق ’سیاست اپنے عروج پر تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود میں رات کے وقت میں ایک کھلے میدان میں جا کر دوڑ لگایا کرتا تھا تاکہ خود کو فٹ رکھ سکوں۔ اسی میدان میں انٹرکانٹینٹل ہوٹل بنا۔ ایک دن میں نے مایوسی کے عالم میں بڑے بھائی نصراللہ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ہاشم خان اور دوسرے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا موقع مل سکے گا لہذا مجھے کوئی نوکری تلاش کرنی چاہیے تاکہ گذر اوقات ہو سکے۔ʹپھر دنیا زمانے  نے دیکھا کہ روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے 10 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ جہانگیر 6 مرتبہ ورلڈ اوپن کے فاتح بھی رہے ہیں۔سکواش کی تاریخ میں روشن اور جہانگیر خان واحد باپ اور بیٹا ہیں کہ جنھوں نے برٹش اوپن ٹائٹل جیتا ہے۔


روشن خان کو کئی ممالک نے کوچنگ کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے ٹھکرادیا اور ملک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے تینوں بیٹوں طورسم خان، حسن خان اور جہانگیر خان نے سکواش کھیلی۔ روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے 10 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ جہانگیر 6 مرتبہ ورلڈ اوپن کے فاتح بھی رہے ہیں۔سکواش کی تاریخ میں روشن اور جہانگیر خان واحد باپ اور بیٹا ہیں کہ جنھوں نے برٹش اوپن ٹائٹل جیتا ہے۔روشن خان کو کئی ممالک نے کوچنگ کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے ٹھکرادیا اور ملک میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے تینوں بیٹوں طورسم خان، حسن خان اور جہانگیر خان نے سکواش کھیلی۔روشن خان کے وہ عزیز جو ان کو اپنے ساتھ کھلانا پسند نہیں کرتے تھے آ ج بلکل نے نام زندگی گزار رہے ہیں جبکہ روشن خان کا نام آ ج بھی ایک تابندہ ستارے کی مانند پاکستان کے آسمان پر روشن ہے اللہ پاک روشن خان کی مغفرت فرمائے آمین

تحریر انٹر نیٹ کی مدد سے لکھی گئ

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر