' ائیر مارشل نور خان سے روشن خان تک 'پاکستان کے روشن چہرے 'روشن خان نے آج سے تقریباً 35 سال پہلے مجھے دیے گئے انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تفصیل سے ذکر کیا تھا۔ʹمیں راولپنڈی کلب میں اپنے والد فیض اللہ خان کے ساتھ کام کرتا تھا لیکن بہتر مستقبل کی خاطر میں راولپنڈی سے کراچی آ گیا مگر میرے پاس سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ تھا نہ کوئی ملازمت تھی۔ میں نے کئی راتیں سڑکوں پر گزاری تھیں۔ روشن خان اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔روشن خان نے سنہ 1949 میں کاکول میں پاکستان پروفیشنل سکواش چیمپئن شپ جیتی تھی لیکن اس میں ہاشم خان نہیں کھیلے تھے۔ روشن خان چاہتے تھے کہ ان کی صلاحیت کا پتہ اس وقت چلے گا جب وہ ہاشم خان سے مقابلہ کریں گے۔روشن خان کے ذہن میں یہ تھا کہ ہاشم خان پاکستان میں چیمپئن شپ نہیں کھیلتے ہیں لہذا کراچی میں ان کے لیے مواقع ہو سکتے ہیں کہ وہ یہاں سے لندن جاکر قسمت آزمائی کر سکیں۔ اس دوران ان کے بڑے بھائی نصراللہ جو کراچی میں ٹینس اور سکواش کھیلتے تھے، نے ان کی مدد کی۔
سنہ 1952 میں جب پاکستان پروفیشنل چیمپئن شپ ہوئی تو ہاشم خان اور ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ ۔ روشن خان ن بار پھر چیمپئن شپ جیت لی لیکن انھیں ہاشم خان کے ساتھ نہ کھیلنے کا دکھ تھا۔ روشن خان اور ایوب خان-ان کے مطابق محمد امین کراچی جمخانہ اور سفیراللہ سندھ کلب سے وابستہ تھے لیکن یہ دونوں ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیں ان دونوں جگہوں میں کھیلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔روشن خان کے مطابق ’سیاست اپنے عروج پر تھی۔‘ ان کا کہنا تھا ʹرات کے وقت میں ایک کھلے میدان میں جا کر دوڑ لگایا کرتا تھا تاکہ خود کو فٹ رکھ سکوں۔ اسی میدان میں انٹرکانٹینٹل ہوٹل بنا۔ ایک دن میں نے مایوسی کے عالم میں بڑے بھائی نصراللہ سے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ہاشم خان اور دوسرے کھلاڑیوں سے کھیلنے کا موقع مل سکے گا لہذا مجھے کوئی نوکری تلاش کرنی چاہیے تاکہ گزر اوقات ہو سکے۔ʹیہ غالباً 1953 کی بات ہے جب روشن خان سکواش سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے۔ اس موقع پر نصراللہ خان نے اپنے ایک دوست سے ذکر کیا جو روشن خان کو پاکستان نیوی کے ایک افسر کے پاس لے گیا۔
روشن خان نے انھیں اپنے میچوں سے متعلق اخبارات کے تراشے دکھائے۔افسر نے روشن خان سے کہا کہ وہ انھیں پاکستان بحریہ میں چپڑاسی کی ملازمت دلوا سکتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگرچہ یہ ملازمت ان کے شایان شان نہیں ہے لیکن اس سے آگے کا راستہ کھل سکتا ہے۔ اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔روشن خان نے جب تیسری مرتبہ قومی پروفیشنل چیمپئن شپ جیتی تو پاکستان نیوی کے افسران بہت خوش تھے۔ روشن خان کو چپڑاسی کی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا اور اب ان کا کام صرف سکواش کھیلنا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب نیوی نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے روشن خان کو انگلینڈ بھجوا دیا۔پندرہ پاؤنڈ کی خریداری مگر جیب میں ایک سکہروشن خان لندن تو پہنچ گئے لیکن ان کی حالت کچھ اس طرح تھی کہ جیب میں صرف پانچ شلنگ تھے۔ ان کا کل سامان صرف دو ٹراؤزر، ایک شرٹ، ٹینس شوز کی ایک جوڑی اور ایک اوور کوٹ پر مشتمل تھا۔
یہ اوور کوٹ بھی نیوی کے سٹور سے انھیں دیا گیا تھا جسے وطن واپسی پر سٹور میں واپس کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔روشن خان اپنی رہائش کا پیشگی کرایہ ادا کر کے جب پاکستان ہائی کمیشن پہنچے تو ان کی جیب میں صرف ایک شلنگ باقی بچا تھا۔ ان کی خوش قسمتی کہ انھیں برٹش سکواش ریکٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ہینری ہیمین کے پاس پہنچایا گیا جو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روشن خان کے پاس کھیل کا مناسب سامان تک نہیں تھا۔وہ انھیں پکِیڈ لی سرکس میں کھیلوں کے سامان کی مشہور دکان لِلی وائٹس لے گئے جہاں انھوں نے روشن خان کے لیے ریکٹ، جوتے، جرابیں اور شرٹس خریدیں۔ بل پندرہ پاؤنڈ کا آیا جو ہیمین نے اپنی جیب سے اداکیا دراسل وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ روشن خان کو اپنے ٹریولرز چیک کیش کرانے کا وقت نہیں مل سکا ہے۔اور پھر اللہ نے روشن خان کی سخت جان محنت خدائے واحد پر یقین نے ان کو بین الاقوامی شہرت بھی دی اور بے حساب دولت بھی عطا کی اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے
روشن خان کی آپ بیتی پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بھی ایک باہمت عورت جاگ گئ ہو
جواب دیںحذف کریں