روائت ہے کہ روز عاشور خیام اہلبیت سے جناب علی اکبر علیہ السلام میدان کارزار میں رجز پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے
انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى
اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى عَنْ ابى
ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى
میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔اس قدر نیزہ سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ قضا تم پر وارد ہو جائے اور اپنی تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تاکہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہمارے درمیان حکم نہیں کر سکتے۔آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔ نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کئے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تاکہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔ ۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو لیکن آپ نے جیسے ہی اپنی زبان اپنے بابا کی زبان سے مس کی تڑپ کر چھوڑ دی اور کہنے لگے بابا آپ کی زبان میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں - حضرت علی اکبر کی شہادت کا منظر-
پھر اس کا دوسرا بیٹا طلحہ بن طارق غم و غصے میں شہزادہ علی اکبر علیہ السلام پر حملہ آور ہوا تو آپ نے خود کو بچا کر اس کی گردن کو اس انداز سے مروڑا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ شہزادے کے رعب و دبدبہ سے تمام یزیدی خوفزدہ ہوگئے۔ابن سعد نےخوفزدہ ہو کر مصراع بن غالب کو بھیجا اس نے آتے ہی شدید حملہ کیا جسے آپ نے کمال مہارت سے روکا اور آپ نے اس انداز سے نعرہِ تکبیر بلند کیا کہ تمام لشکر پہ ہیبت چھا گئی اور آپ نے فوراً اس کے سر پہ وار کر کے مصراع کو ایسی تلوار ماری کہ وہ ملعون دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ابن سعد نے دوہزار سواروں کو ان پہ حملے کے لئے بھیجا مگر شہزادہ جلیل علیہ السلام نے تعداد کی پرواہ کئے بغیر ایسے حملے کئے کہ دوہزار افراد بھی ان کے سامنے نا ٹھہر سکے ۔ آپ جس طرف گھوڑے کو موڑتے لوگ آپ سے دور بھاگتے آپ نے جنگ کو دوبارہ روکا اور واپس آقا حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔اور پانی طلب کیا ۔ تب امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ! اے جان پدر غم نا کر تو ابھی حوضِ کوثر سے سیراب ہونے والا ہے۔
حضرتِ علی اکبر علیہ السلام نے اس بشارت کو سنا تو دوبارہ لشکرِ اشرار پر حملہ کردیا دورانِ جنگ آپ علیہ السلام کو کئی زخم آ چکے تھے اچانک حصین بن نمیر ملعون نے حضرتِ علی اکبر علیہ السلام کے سینے میں برچھی کا وار کیا اور آپ علیہ السلام گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے۔ اور فریاد بلند کی : بابا جان میری دستگیری فرمائیں۔ ا ب علی اکبر چاروں جانب سے نرغہ ء اعدا میں گھر چکے تھے - اپنی شہادت کے بلکل آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہو ئے آواز دی بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے ۔آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور امام نے دیکھا برچھی کا پھل علی اکبر کے سینے میں پیوست تھا 'امام حسین علیہ السلام نے جیسے ہی برچھی کا پھل نکالا ساتھ علی اکبر کا کلیجہ بھی نوک سناں کے ساتھ باہر آ گیا ۔روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین" ۔
امام حسین علیہ السلام ۔ امام نے ان کا سر اپنی آغوشِ طاہرہ میں لیا تو شہزادہ علی اکبر نے عرض کی بابا میں دیکھ رہا ہوں کہ نانا (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ساتھ ہی تصویرِ مصطفیٰ ﷺ اپنے جدامجد محمد المصطفیٰ (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم) کی بارگاہ میں پہنچ گئے ۔ امام حسین علیہ السلام کی ہمت و جرأت کو لاکھوں کروڑوں درود و سلام جنہوں نے جوان بیٹے کے جسدِ مقدس کو اٹھایا اور شہزادہ اپنے بابا کے ہاتھوں میں قربان ہو گیا میدانِ کربلا سے واپس خیموں کے قریب آنے تک امام حسین (علیہ السلام) کے سر کے اور داڑھی کے تمام بال سفید ہو چکے تھے (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون) ۔