منگل، 15 جولائی، 2025

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا

   


   امام  دنیا امام عقبیٰ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے مجھ کو علوم اس طرح  سے سکھائے جس طرح چڑیا  اپنے بچوں کو  چوگا کھلاتی ہے اسی لئے آپ علیہ السلام  کا علم  ایک بحر زخار کی مانند تھا ۔ آپ علیہ السلام زبور والوں کے  علمی سوالات کے جواب انہی کی کتاب سے دیتے   انجیل والوں کے ان کی کتاب سے اور توریت والوں کو ان کی کتاب سے -یہی وجہ تھی  کہ غیر ملکی مشاہیر عالم کی نظر میں  آ پ علمی اور فکری میدان میں ایک عظیم مقام  پر فائز نظر آتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کی علمی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "باب العلم" قرار دیا تھا۔ لبنانی  عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا، اس نے ایک کتاب ''صوت العدالۃ الانسانیہ'' یعنی ندائے عدالت انسانی، حضرت علی کے بارے میں تحریر کی تھی لیکن کسی مسلمان نے اسے چھاپنا گوارا نہ کیا تو  وہ کافی بے چین ہو گیا، لبنان کے ایک بشپ نے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا گوش گزار کر دیا، بشپ نے اسے رقم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ اس کتاب کو خود چھپواؤ،جارج جرداق رقم کی تھیلی لے کر چلا گیا  اور اس نے کتاب  پرنٹ کے لئے پبلشر کو دے دی


 جب یہ کتاب پبلش  ہوئ تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا    اور کی اشاعت  اس کی اشاعت سے جارج کو  بھاری  منافع ہوا، جارج نے بشپ کی رقم ایک تھیلی میں ڈال کربشپ کے پاس پہنچا اور کتاب کی  رقم واپس کرنی چاہی  تو بشپ نے کہا کہ یہ میرا تمہارے اوپر احسان نہیں تھا بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے ان احسانوں کا ایک معمولی سا شکریہ ادا کیا ہے کہ جب وہ خلیفہ تھے تو آپ نے تمام اقلیتوں بشمول عیسائیوں کے نمائندوں کو طلب کیا اور فرمایا کہ مجھ علیؑ کے دور میں تم اقلیتوں کو تمام تر اقلیتی حقوق اور تحفظ حاصل رہے گا اسلئے حضرت محمد رسول اللہ ص کے بعد ان کے وصی امیر المومینن حضرت علیؑ کا دور خلافت اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے ساتھ مثالی ترین دور تھا جس میں اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے خلاف کہیں بھی ظلم و جبر نہ ہوا اسلئے میں نے حضرت علیؑ کے احسان کا معمولی شکریہ ادا کیا ہے اسلئے یہ رقم مجھے واپس کرنے کی بجائے غریبوں میں بانٹ دو۔جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے لیکن علیؑ جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علیؑ کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، 


لہذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علیؑ نے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علیؑ کا عکس یا نقش بناییں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا۔جارج جرداق مزید لکھتے ہیں کہ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا اگر تم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟جارج جرداق معروف یورپی فلسفی کارلائل کے متعلق لکھتا ہے کہ کارلائل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اسکا ذہن علی ابن ابی طالب کی جانب راغب ہوجاتا ہے، علی کی ذات اسکو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرائی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان علم  میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اسکے قلم سے علیؑ کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح پھوٹنے لگتے ہیں،


اسی طرح کی کیفیت باروین کاراڈیفو کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، وہ بھی جب کبھی علی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی رگوں میں حماسی خون دوڑنے لگتا ہے اور اسکے محققانہ قلم سے شاعری پھوٹنے لگتی ہے اور جوش اور ولولہ اسکی تحریر سے ٹپکنے لگتا ہے۔لبنانی عیسائی مفکر خلیل جبران بھی حضرت علیؑ کے عاشقوں میں سے ہے۔ اسکے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لیتا ہے۔ خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابی طالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ انکی اپنی عظمت و جلالت انکی شھادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت میں آنکھیں بند کیں جب انکے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی ہے۔


خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، یا وہ زمانہ علیؑ کا قدر شناس نہیں تھا، علیؑ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے، مزید کہتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کائنات کی کلی روح کے ساتھ تھے میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا اور وہ ان کا ساتھی لگتا تھا، رات ان کے ساتھ ساتھ حرکت کرتی تھی، علی علیہ السلام پہلے انسان تھے جن کی روحِ پاک سے ہدایت کی ایسی شعائیں نکلتی تھیں جو ہر ذی روح کو بھاتی تھیں، انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہوگا، اسی وجہ سے لوگ ان کی پُرمعنی گفتار اور اپنی گمراہی میں پھنس کے رہ جاتے تھے، پس جو بھی علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے، وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے، وہ گویا جاہلیت میں غرق ہے۔علی علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن خود کو شہید ِاعظم منوا گئے، وہ ایسے شہید تھے کہ لبوں پر سبحانَ ربی الاعلیٰ کا ورد تھا اور دل لقاء اللہ کیلئے لبریز تھا، دنیائے عرب نے علی علیہ السلام کے مقام اور اُن کی قدرومنزلت کو نہ پہچانا، یہاں تک کہ اُن کے ہمسایوں میں سے ہی پارسی اٹھے جنہوں نے پتھروں میں سے ہیرے کو چن لیا۔معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ علی وہ دردمند، بہادر اور شھید امام ہے کہ کہ جسکی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت شخصیت ہے جو پیامبر ﷺ کی حمایت میں لڑتا تھا اور جس نے معجزہ آسا کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضرب سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے،    جب علی کی عمر فقط بیس سال تھی 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را



1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

لبنانی عیسائی مصنف جارج جرداق حضرت علیؑ کا بڑا عاشق تھا

       امام  دنیا امام عقبیٰ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ نے مجھ کو علوم اس طرح  سے سکھائے جس طرح چڑیا  اپنے بچوں کو  چ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر