میرے کچھ مقاصد ہیں جن کو مکمل کرنا میرا حاصل زندگی ہے اور میری زندگی میں اتنا وقت نہیں کہ میں کسی کو سنجیدگی سے کسی کا ساتھ دے سکوں -یہ الفاظ حمیرا اصغر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہے -وہ 10 اکتوبر 1992ء کو لاہور میں ایک فوجی ڈاکٹر کے گھر پیدا ہوئیں تین بہن بھائ ان سے پہلے ان کے خاندان کا حصہ بن چکے تھے -تعلیمی دور میں انہوں نے اپنے خاندانی تعلیمی پس منظر میں جانے کےبجائے فنون لطیفہ کا انتخاب کیا اور وہ پاکستان کے مشہور زمانہ کالج این سی اے میں چلی گئیں -ان کےتعلیمی راستے جدا کرنے پر ان کے اپنے والد سے اختلاف ضرور ہوئے تھے لیکن وہ اپنے گھر سے وابستہ رہتی تھیں - ، انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس اور جامعہ پنجاب کے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن سے مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے فن پاروں کا مرکزی موضوع خواتین کا معاشرے کی تشکیل میں کردار اور خواتین کو بااختیار بنانا تھا جب کہ ان کا تخلیقی مواد اکثر اردو شاعری اور ادب سے ماخوذ ہوتا تھا۔پھر ان کو اپنا بہتر مستقبل کراچی میں نظر آیا اور وہ 2018ء سے اپنی وفات تک کراچی کے ڈیفنس فیز سِکس میں کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھیں۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع ایک فلیٹ سے ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ملنے کے بعد پولیس نے واقعے کی نوعیت جاننے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔8 جولائی 2025ء کو حمیرا اصغر کی لاش کراچی کے ڈی ایچ اے فیز سِکس اتحاد کمرشل ایریا میں واقع اُن کے اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی جب کرایہ کی عدم ادائیگی پر عدالتی حکم کے تحت انخلا کی کارروائی کی جا رہی تھی۔ فلیٹ سے اٹھنے والی بدبو کے باعث پولیس اور عدالتی عملے نے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو کر اُن کی لاش کو گل سڑ جانے کی حالت میں پایا۔ سندھ پولیس کے مطابق اپارٹمنٹ کے تمام دروازے، کھڑکیاں اور (بالکونی) اندر سے بند تھیں اور نہ زبردستی داخلے یا مزاحمت کے کوئی آثار نہیں ملے اور نہ کسی مجرمانہ عمل کے شواہد ملے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں کیے گئے بعد الموت معائنہ کے مطابق لاش گلنے سڑنے کے ”انتہائی آخری مراحل“ میں تھی۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ موت کو دو سے تین ہفتے گذر چکے تھے۔
تاہم تفتیشی اداروں اور عرب نیوز کے رپورٹ کردہ ڈیجیٹل شواہد و فرانزک تجزیے کے مطابق حمیرا کی وفات غالباً اکتوبر 2024ء میں ہوئی یعنی جولائی 2025ء میں دریافت ہونے سے تقریباً نو ماہ قبل۔ اس نتیجے کی بنیاد کال ریکارڈوں، سوشل میڈیا کی غیر فعالیت، کچن میں رکھے ہوئے فرج میں سڑے ہوئے کھانے اور دیگر فرانزک شواہد پر رکھی گئی-فوری اطلاع، اداکارہ حمیرا اصغر علی لاپتہ ہیں۔ آخری بار 7 اکتوبر 2024 کو آن لائن دیکھی گئیں۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو گذشتہ سال ایک ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیے گئے مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔یہ الفاظ کس کے تھے اور کسی نے ان پر کان کیوں نہ دھرے اس سے پہلے کچھ اہم باتیں دہرانا ضروری ہیں۔کراچی کے پُرہجوم شہر میں ایک فلیٹ کے بند دروازے کے پیچھے حمیرا اصغر علی اپنی چکا چوند زندگی موت کے اندھیروں میں خاموشی سے گم ہو چکی تھی۔ وہ دروازہ جس پر کبھی دستک نہیں دی گئی، منگل کی صبح عدالت کے بیلف نے اسے زبردستی کھولا۔ڈان نیوزکے مطابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ساؤتھ (ایس ایس پی) مہظور علی نے اداکارہ کی موت کی نوعیت جاننے کے لیے ایس پی کلفٹن عمران علی جاکھرانی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم میں ایس ڈی پی او ڈیفنس اورنگزیب خٹک، اے ایس پی ندا جنید اور ایس ایچ او گزری فاروق سنجرانی کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ سب انسپکٹر محمد امجد اور آئی ٹی برانچ کے پولیس کانسٹیبل محمد عدیل بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کو روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ حکام کو پیش رفت سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پولیس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی، جن میں طبعی موت، حادثہ، خودکشی یا قتل سمیت تمام امکانات شامل ہیں۔ٹیم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ فلیٹ میں موجود اشیا، سی سی ٹی وی فوٹیج اور اداکارہ کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔حمیرا اصغر نے اپنے فنی سفر کا آغاز کالج کے زمانے میں رفیع پیر تھیٹر سے کیا جس کے بعد وہ ماڈلنگ کی دنیا میں داخل ہوئیں۔ انھوں نے کئی مشہور برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی بعد ازاں انھوں نے ٹیلی ویژن اور فلموں کی جانب رخ کیا۔ صغر نے اپنے فنی سفر کے دوران کئی پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا۔ انھیں سب سے زیادہ شہرت اے آر وائی ڈیجیٹل کے رئیلٹی شو تماشا سے ملی جو بین الاقوامی فرنچائز بگ برادر سے مشابہت رکھتا تھا۔ ٹیلی ویژن میں، انھوں نے ”بے نام“، ”جسٹ میریڈ“، ”لو ویکسین“، ”چل دل میرے“، ”صراط مستقیم مستقیم“ (لالی)، ”احسان فراموش“ اور ”گرو“ جیسے سیریلوں میں کام کیا۔ فلم میں وہ 2015ء کی ایکشن تھرلر جلیبی میں ماڈل کے طور پر نظر آئیں۔ انھوں نے فلم ”ایک تھا بادشاہ“ (2016ء) میں علی حمزہ اور علی نور کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔
2022ء میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون چاندی رنگ کا چوغہ پہن کر ایک جلتے ہوئے ٹیلے کے سامنے چلتی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس ویڈیو کو حمیرا اصغر علی سے منسوب کیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا بشمول اے ایف پی نے غلطی سے ان کے نام سے رپورٹ کیا۔ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ ویڈیو دراصل ٹک ٹاک صارف کی تھی جنھوں نے کیپشن دیا تھا: ”جہاں میں ہوتی ہوں آگ لگ جاتی ہے۔“ یہ غلط فہمی وسیع پیمانے پر واضح کر دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو ان کے فلیٹ سے ملی تھی، جہاں وہ 2018 سے تنہا رہائش پذیر تھیں۔ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لاش تقریباً 8 سے 10 ماہ پرانی تھی اور ڈی کمپوزیشن کے آخری مراحل میں تھی۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا -ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
جواب دیںحذف کریں