کراچی کےگٹر بچوں کے لئے موت کے کنوئیں - چند ہفتے پہلے کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کے گٹر میں گر کر ننھا عباد جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، والدین کی آنکھوں کا تارہ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد پہلوان گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔شاہ فیصل کالونی نمبر دو میں گزشتہ روز مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والے 8 سالہ عباد کی موت کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی، یا یہ کیس بھی ہمیشہ کی طرح داخل دفتر ہوجائے گا۔کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمد-عباد کے والد دبئی میں نوکری کرتے ہیں جو صبح 5 بجے کراچی پہنچے، گزشتہ روز عباد اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں عقیقے کی دعوت میں گیا تھا جہاں کھیلنے کے دوران وہ گٹر میں گر گیا، بچے کی لاش دو گھنٹوں کے بعد نالے سے ملی۔نماز جنازہ میں رشتہ داروں، اہل محلہ سمیت سیاسی شخصیات نے بھی بھاری دل اور نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ دار میئر کراچی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ فوری استعفیٰ دیں-میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کی ہر گلی میں گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت کرنا ان کا کام نہیں ہے۔کے ایم سی میں گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ گٹر کے ڈھکن وہ یا ڈپٹی میئر سلمان مراد نہیں چراتے ہیں
کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمدمیئر کراچی نے کہا کہ شاہ فیصل کالونی میں بچے کی جان کے جانے پر بہت افسوس ہے، اس واقعے سے زیادہ افسوسناک اس پر سیاست کیا جانا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں 6 سالہ بچہ کھُلے گٹر میں گر گیا تھا، جس کی لاش کورنگی پل کے نیچے بہتے نالے سے ملی تھی۔ریسکیو حکام کے مطابق 2024 میں 19 بچے گٹر اور نالوں میں گر کر جاں بحق-کچھ اور دکھ بھری کہانیا ں’بیٹا ایک سال پہلے گٹر میں گِرا، آج تک اس کی لاش نہیں ملی‘ ایک دن بینش عاطف کے دونوں بیٹے اپنے معمول کی طرح کرکٹ کھیلنے عمارت سے نیچے گلی میں گئے۔ مگر اس بار 15 منٹ کے بعد ہی ان کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’امی! ابیہان گٹر میں گر گیا ہے۔‘کراچی کے علاقے گلشن اقبال 13 ڈی کی رہائشی بینش کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ابیہان ہاتھ ہلا کر مدد کے لیے پکار رہا تھا لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔2023 میں ان کے چھ سالہ بیٹے ابیہان ایک کُھلے گٹر میں گر گئے تھے۔ واقعے کو ایک سال گزر چکا ہے مگر اس کے باوجود بینش عاطف اور ان کے شوہر عاطف الدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
بینش کہتی ہیں کہ ’ابھی تک لاش نہیں ملی۔ دل میں سکون ہی نہیں۔ بس بے چینی ہے، جیسے وہ واپس آئے گا۔‘کراچی میں ہر سال متعدد افراد گٹروں میں گِر کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق رواں سال کے چار ماہ کے دوران کم از کم 15 افراد گٹروں اور نالوں میں گِر کر ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد 60 سے زائد تھی۔ اکثر اموات کہ وجہ گٹروں پر ڈھکن نہ ہونا تھی۔اس دن کو یاد کرتے ہوئے ابیہان کے والد عاطف الدین بتاتے ہیں کہ کئی گھنٹوں کے بعد ریسکیو والے آئے لیکن ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ گٹر لائن کہاں جاتی ہے۔انھوں نے چند گھنٹوں کے بعد ریسکیو آپریشن بند کر دیا۔ جب انھوں نے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر علاقے میں احتجاج کیا تو آپریشن دوبارہ شروع ہوا اور سڑک کھودی گئی۔ لیکن ابیہان کا پتہ نہیں چل سکا۔عاطف اور بینش آج بھی اس تکلیف اور غم میں مبتلا ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ان کا بچہ گٹر میں گرنے سے ’لاپتہ ہوا یا قتل؟‘میرے بچے کو ڈھونڈ کر دیں یا تو بتا دیں کس قبرستان میں جا کر ڈھونڈوں۔‘ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قتل ہے تو اس کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جن کی غفلت کی وجہ سے گٹر کھلے رہتے ہیںمئی 2023 کو ابیہان کے گٹر میں گرنے کے بعد یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ جاری رہا۔
گلشن اقبال 13 ڈی سے 23 کلومیٹر دور واقع شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک دوسرے واقعے میں رواں سال مارچ کے دوران تین سالہ بچہ محسن گٹر میں گِر کر ہلاک ہوا۔رخسانہ لاشاری کے چار بچے تھے لیکن اب صرف تین بچے ہیں۔ وہ دوپہر کو دو بجے کے قریب سامان لینے نکلا تھا اور شام کو گٹر میں تیرتی ان کی لاش ملی تھی۔ملیر کی شاہ لطیف ٹاؤن کی رہائشی رخسانہ لاشاری بتاتی ہیں کہ ’محسن گھر میں کھیل رہا تھا اور کھیلتے کھیلتے اس نے چیز کے لیے دس روپے مانگے۔ وہ اس وقت گھریلو کام کاج میں مصروف تھیں۔ اسی دوران وہ گھر سے باہر نکل گیا۔‘’میں نے اس کی بہن کو کہا کہ دیکھو بھائی کہاں چلا گیا ہے۔ اس نے یہاں وہاں دیکھا جس کے بعد خود نکل کر دیکھا تو میرا بیٹا کسی بھی گلی میں نہیں تھا۔ اس کی پھوپھی بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔‘اس دوران اس کی ’پھوپھی کا پیر پھسلا تو اس نے گٹر میں لال کپڑا دیکھا۔ اس نے مجھے کال کی کہ ’بھابھی مُنے نے کون سے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ لال شرٹ اور بادامی پینٹ ہے۔‘انھیں گٹر میں ہاتھ چلانے پر محسن کی لاش ملی جسے فوراً وہاں سے نکلا گیا۔محسن جس گٹر میں گرے وہ گلی کے بالکل درمیان میں واقع تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے اس گٹر کو بند تو کر دیا مگر اسی گٹر سے صرف دس قدم دور ایک اور گٹر واقع ہے جو تین فٹ چوڑا اور دس فٹ گہرا تھا۔بچہ تو کیا، اگر کوئی بڑا شحص بھی اس میں گِر جائے تو اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔ صرف اسی علاقے میں درجنوں گٹر موجود ہیں جن پر ڈھکنوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔رخسانہ لاشاری کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی شاہ لطیف ٹاؤن میں گٹر ابھی تک بند نہیں ہوئے ہیں۔ ’حکام مہربانی کر کے انھیں بند کرائیں کیونکہ میرا بیٹے چلا گیا۔ اس کا دُکھ درد کیا ہے، وہ تو مجھے ہی پتہ ہے۔‘محسن کی والدہ رخسانہ لاشاری کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی علاقے میں تاحال گٹر بند نہیں ہوئے ہیں
کراچی میونسپل کارپوریشن کے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر لائٹ ہاؤس پر واقع مین ہول میں گِرنے والے شہری سمیر مندھرو نے اپنی زندگی کے تین ماہ بستر پر گزارے ہیں۔جب وہ ہمیں گٹر دکھانے پہنچے تو اس وقت بھی وہاں کوئی ڈھکن موجود نہیں تھا۔ سامنے موجود دکاندار نے بتایا کہ دو روز قبل ہی دو لوگ اس میں گِر گئے تھے۔ یہ اب سب کے لیے معمول کی بات ہے۔سمیر مندھرو بتاتے ہیں کہ وہ دس سالہ بیٹے کے ہمراہ سائیکل کی مرمت کرانے آئے تھے۔ ’انسان عام طور پر بھیڑ والی مارکیٹ میں چلتے ہوئے آگے پیچھے دیکھتا ہے۔ نیچے تو کوئی نہیں دیکھتا ہے۔ میں چلتے چلتے اچانک سے گٹر کے اندر چلا گیا جس میں کچرا، لکڑیاں موجود تھیں۔‘انھیں یاد ہے کہ لوگوں نے انھیں گٹر سے کھینچ کے باہر نکالا۔ ’فریکچر ہونے سے تو بچ گیا لیکن ہڈیوں پر رگڑیں آئیں۔ کندھا اتر گیا، ایک مہینے تو چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔‘