جمعہ، 17 جنوری، 2025

کراچی کے مین ہول- معصوم بچوں کے لئے موت کے کنوئیں

 


کراچی کےگٹر بچوں کے لئے موت کے کنوئیں - چند ہفتے پہلے کراچی کے  علاقے شاہ فیصل کالونی کے گٹر میں گر کر ننھا عباد جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، والدین کی آنکھوں کا تارہ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد پہلوان گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔شاہ فیصل کالونی نمبر دو میں گزشتہ روز مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والے 8 سالہ عباد کی موت کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی، یا یہ کیس بھی ہمیشہ کی طرح داخل دفتر ہوجائے گا۔کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمد-عباد کے والد دبئی میں نوکری کرتے ہیں جو صبح 5 بجے کراچی پہنچے، گزشتہ روز عباد اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں عقیقے کی دعوت میں گیا تھا جہاں کھیلنے کے دوران وہ گٹر میں گر گیا، بچے کی لاش دو گھنٹوں کے بعد نالے سے ملی۔نماز جنازہ میں رشتہ داروں، اہل محلہ سمیت سیاسی شخصیات نے بھی بھاری دل اور نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ دار میئر کراچی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ فوری استعفیٰ دیں-میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کی ہر گلی میں گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت کرنا ان کا کام نہیں ہے۔کے ایم سی میں گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ گٹر کے ڈھکن وہ یا ڈپٹی میئر سلمان مراد نہیں چراتے ہیں


کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمدمیئر کراچی  نے کہا کہ شاہ فیصل کالونی میں بچے کی جان کے جانے پر بہت افسوس ہے، اس واقعے سے زیادہ افسوسناک اس پر سیاست کیا جانا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں 6 سالہ بچہ کھُلے گٹر میں گر گیا تھا، جس کی لاش کورنگی پل کے نیچے بہتے نالے سے ملی تھی۔ریسکیو حکام کے مطابق 2024 میں 19 بچے گٹر اور نالوں میں گر کر جاں بحق-کچھ اور دکھ بھری کہانیا ں’بیٹا ایک سال پہلے گٹر میں گِرا، آج تک اس کی لاش نہیں ملی‘ ایک دن بینش عاطف کے دونوں بیٹے اپنے معمول کی طرح کرکٹ کھیلنے عمارت سے نیچے گلی میں گئے۔ مگر اس بار 15 منٹ کے بعد ہی ان کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’امی! ابیہان گٹر میں گر گیا ہے۔‘کراچی کے علاقے گلشن اقبال 13 ڈی کی رہائشی بینش کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ابیہان ہاتھ ہلا کر مدد کے لیے پکار رہا تھا لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔2023 میں ان کے چھ سالہ بیٹے ابیہان ایک کُھلے گٹر میں گر گئے تھے۔ واقعے کو ایک سال گزر چکا ہے مگر اس کے باوجود بینش عاطف اور ان کے شوہر عاطف الدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔


بینش کہتی ہیں کہ ’ابھی تک لاش نہیں ملی۔ دل میں سکون ہی نہیں۔ بس بے چینی ہے، جیسے وہ واپس آئے گا۔‘کراچی میں ہر سال متعدد افراد گٹروں میں گِر کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق رواں سال کے چار ماہ کے دوران کم از کم 15 افراد گٹروں اور نالوں میں گِر کر ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد 60 سے زائد تھی۔ اکثر اموات کہ وجہ گٹروں پر ڈھکن نہ ہونا تھی۔اس دن کو یاد کرتے ہوئے ابیہان کے والد عاطف الدین بتاتے ہیں کہ کئی گھنٹوں کے بعد ریسکیو والے آئے لیکن ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ گٹر لائن کہاں جاتی ہے۔انھوں نے چند گھنٹوں کے بعد ریسکیو آپریشن بند کر دیا۔ جب انھوں نے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر علاقے میں احتجاج کیا تو آپریشن دوبارہ شروع ہوا اور سڑک کھودی گئی۔ لیکن ابیہان کا پتہ نہیں چل سکا۔عاطف اور بینش آج بھی اس تکلیف اور غم میں مبتلا ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ان کا بچہ گٹر میں گرنے سے ’لاپتہ ہوا یا قتل؟‘میرے بچے کو ڈھونڈ کر دیں یا تو بتا دیں کس قبرستان میں جا کر ڈھونڈوں۔‘ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قتل ہے تو اس کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جن کی غفلت کی وجہ سے گٹر کھلے رہتے ہیںمئی 2023 کو ابیہان کے گٹر میں گرنے کے بعد یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ جاری رہا۔



گلشن اقبال 13 ڈی سے 23 کلومیٹر دور واقع شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک دوسرے واقعے میں رواں سال مارچ کے دوران تین سالہ بچہ محسن گٹر میں گِر کر ہلاک ہوا۔رخسانہ لاشاری کے چار بچے تھے لیکن اب صرف تین بچے ہیں۔ وہ دوپہر کو دو بجے کے قریب سامان لینے نکلا تھا اور شام کو گٹر میں تیرتی ان کی لاش ملی تھی۔ملیر کی شاہ لطیف ٹاؤن کی رہائشی رخسانہ لاشاری بتاتی ہیں کہ ’محسن گھر میں کھیل رہا تھا اور کھیلتے کھیلتے اس نے چیز کے لیے دس روپے مانگے۔ وہ اس وقت گھریلو کام کاج میں مصروف تھیں۔ اسی دوران وہ گھر سے باہر نکل گیا۔‘’میں نے اس کی بہن کو کہا کہ دیکھو بھائی کہاں چلا گیا ہے۔ اس نے یہاں وہاں دیکھا جس کے بعد خود نکل کر دیکھا تو میرا بیٹا کسی بھی گلی میں نہیں تھا۔ اس کی پھوپھی بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔‘اس دوران اس کی ’پھوپھی کا پیر پھسلا تو اس نے گٹر میں لال کپڑا دیکھا۔ اس نے مجھے کال کی کہ ’بھابھی مُنے نے کون سے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ لال شرٹ اور بادامی پینٹ ہے۔‘انھیں گٹر میں ہاتھ چلانے پر محسن کی لاش ملی جسے فوراً وہاں سے نکلا گیا۔محسن جس گٹر میں گرے وہ گلی کے بالکل درمیان میں واقع تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے اس گٹر کو بند تو کر دیا مگر اسی گٹر سے صرف دس قدم دور ایک اور گٹر واقع ہے جو تین فٹ چوڑا اور دس فٹ گہرا تھا۔بچہ تو کیا، اگر کوئی بڑا شحص بھی اس میں گِر جائے تو اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔ صرف اسی علاقے میں درجنوں گٹر موجود ہیں جن پر ڈھکنوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔رخسانہ لاشاری کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی شاہ لطیف ٹاؤن میں گٹر ابھی تک بند نہیں ہوئے ہیں۔ ’حکام مہربانی کر کے انھیں بند کرائیں کیونکہ میرا بیٹے چلا گیا۔ اس کا دُکھ درد کیا ہے، وہ تو مجھے ہی پتہ ہے۔‘محسن کی والدہ رخسانہ لاشاری کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی علاقے میں تاحال گٹر بند نہیں ہوئے ہیں


کراچی میونسپل کارپوریشن کے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر لائٹ ہاؤس پر واقع مین ہول میں گِرنے والے شہری سمیر مندھرو نے اپنی زندگی کے تین ماہ بستر پر گزارے ہیں۔جب وہ ہمیں گٹر دکھانے پہنچے تو اس وقت بھی وہاں کوئی ڈھکن موجود نہیں تھا۔ سامنے موجود دکاندار نے بتایا کہ دو روز قبل ہی دو لوگ اس میں گِر گئے تھے۔ یہ اب سب کے لیے معمول کی بات ہے۔سمیر مندھرو بتاتے ہیں کہ وہ دس سالہ بیٹے کے ہمراہ سائیکل کی مرمت کرانے آئے تھے۔ ’انسان عام طور پر بھیڑ والی مارکیٹ میں چلتے ہوئے آگے پیچھے دیکھتا ہے۔ نیچے تو کوئی نہیں دیکھتا ہے۔ میں چلتے چلتے اچانک سے گٹر کے اندر چلا گیا جس میں کچرا، لکڑیاں موجود تھیں۔‘انھیں یاد ہے کہ لوگوں نے انھیں گٹر سے کھینچ کے باہر نکالا۔ ’فریکچر ہونے سے تو بچ گیا لیکن ہڈیوں پر رگڑیں آئیں۔ کندھا اتر گیا، ایک مہینے تو چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔‘

منگل، 14 جنوری، 2025

خطبہ مولائے کائنات -اشاعت مکرر

 


مولائے کائنات نے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہج البلاغہ جیسی بلند مرتبہ کتاب تخلیق کی اس کتاب میں مولا نے اپنے خطبات کے زریعہ  انسان کی فلاح و بہبود کے اور اخلاقی کو سنوارنے  کے  نکات بیان کئے ہیں -اگر اس کتاب کو دنیا کے تمام مکاتب فکر کے لوگ  زیر مطالعہ لائیں تو بلا مبالغہ وہ جینے کا ایسا   انداز اختیار کر لیں جس  سے دنیا عش عش کر اُٹھے -یہاں میں اپنے مولا کا ایک خطبہ تحریر کر رہی ہوں -ہاں سنو! تمھارے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس وقت اپنے سیدھے  راستوں پر چلنے والوں کے پاؤں لڑکھڑا جائیں گے اور سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ بہک جائیں گے جب اس فتنے کا حملہ ھو گا تو لوگوں کی خواہشوں میں ٹکڑاؤ ھو گا -لوگ خدا کے احکامات کی کھلم کھلا نافرمانیوں کے مرتکب ہو کر اس کے غیض کو آواز دینےلگیں گے- ان کی رائے میں اختلاف ھوگا جو سر اٹھا کر دیکھے گا اس فتنے کو اس کا سر توڑ دے گا جو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا یہ اسے جڑ سے اکھاڑ دے گا لوگ ایک دوسرے کو اس طرح نوچیں گے جیسے    گدھ ایک دوسرے کو نوچتے ھیں

 دین کی بٹی ھوئی رسی کے بل کھل جائیں گے زمین   میں اندھیرا چھا جائے گاعلم عقل چپ سادھ لیں گے اور ظالموں کی زبانیں کھل جائیں گی یہ فتنہ بیابانوں میں رھنے والوں کو ہتھوڑوں سے کوٹے گا اور اپنے سینے سے دبا کر انھیں ریزہ ریزہ کر دے گا اس سے اٹھنے والی دھول میں اکیلے دو مسافر برباد ھو جائیں گے اور راستوں میں چلنے والے قافلے راہ میں ہی مارے جائیں گے مقدر میں کڑواہٹ بھر جائے گی دودھ کے بدلے تازہ خون دوہا جائے گا دین کے معیار گر جائیں گے یقین کے دھاگے ٹوٹ جائیں گے عقل مند اس سے دور بھاگیں گے اور شر پسند اس کے برابر شریک ھونگے یہ فتنے گرج چمک کے ساتھ آئں گے اور اسقدر سخت اور تیز ھو ں گے کہ تمام رشتے ٹوٹ جائیں گے اور دین کا دامن چھوٹ جائے گا اس سے الگ تھلگ رھنے والا بھی اس میں الجھ جائے گا اور بھاگنے والا اپنے قدم باہر نا نکال سکے گا

 ،بہت سے لوگ قتل ھو جائیں گے   اور کچھ اتنے ڈرے ھوئے ھوں گے کہ پناہ ڈھونڈتے پھریں گے انھیں ایمان کے نام پر قسم دے دے کر دھوکہ دیا جائے گا تم نئی نئی رسموں کے بانی نا بننا اس راستہ پر قدم جمائے رکھنا جس پر ایمان والوں کی جماعت چل رھی ھوگی اور جس پر اللہ کا حکم اور ماننے والوں کا عمل اور کردار قائم ھو گا-دیکھو اللہ کے پاس منصف  بن کر جانا ظالم بن کر نا جانا شیطان کے ٹھکانوں سے بچنا اپنے پیٹ میں حرام لقمے نہیں ڈالنا کیوں کہ تم اس کی نگاہوں کے سامنے ھو جس نے خطا کو تمھارے لئے  منع کیا ھے اور فرمانبرداری کی راھیں آسان کر دی ھیں آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتے ھے کہ مولا علی کا فرمان حرف با حرف درست ھے ، یہی فرمان وصی رسول اللہ کا1400 سال پہلے کا ھےسامنا کرنا پڑا اور باعث حیرت ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ فتنے اور فتنہ پرور کوئی غیر مسلم نہیں تبلکہ مسلمان ہیں اور اسوقت کے مسلمان تھے جنہوں نے اللہ کے حبیب رحمت عالمین کو دیکھا بھی تھا انکی محفلوں میں بھی رہے تھے اور انکی زبان مبارک سے علی کے بارے میں فرمودات سنے بھی تھے۔ یہ آج کے فتنہ پرور اور فتنہ پروری بھی اسی کا تسلسل ہے۔۔۔۔۔ یہ بات اللہ کے رسول کے بعد فقط باب العلم ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔ سوچو کے لوگ اندھیروں میں بھٹک رھے ھیں تھے جہالت حد سے گزر چکی تھی اور مزاج میں سختی آگئی تھی لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال اور سمجھ دار کر زلیل سمجھنے لگے تھے

یہ فتنے شروع شروع میں خفیہ راستوں سےآتے ھیں جیسے چھوٹے بچوں کی اٹھان ھوتی ھے لیکن پھر اپنے آثار پتھر پر بننے والے نشان کی طرح چھوڑ جاتے ھیں دنیا کے ظالم گٹھ جوڑ کر کے ان کے وارث ھو جاتے ھیں ان میں جو پہلا ھوتا ھے وہی آخری والے کا رہنما ھوتا ھے اور ان میں جو آخر ھوتا ھے وہ پہلے والے کے راستے پر ہی چلتا ھے یہ لوگ گھٹیا دنیا پر جان دیتے ھیں اور گلے سڑے جانور پر ٹوٹ پڑتے ھیں   -یہ بہت جلد  آپس میں دشمن بن کر ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آمنا سامنا ھو گا تو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ جو لوگوں کے سکھ چین کو مٹا دے گا ہر طرف تباہی مچا دے گا اور اللہ کے بندوں پر سختی کے ساتھ حملہ آور ھو گا -


ولادت با سعادت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام

 

ولادت باسعادت  اما م دنیا 'امام عقبیٰ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام  جناب حضرت عبد المطّلب و جناب حضرت ابو طالب اور بی بی فاطمہ بنت اسد کو جناب رسول خدا حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا و امامین کریم علیہم السّلام اور خانوادہء بنو ہاشم کے صاحب تکریم اراکین کو تمام کائنات کی مومن مخلوقات کو صد ہزار مبارک ہو - تیرہ رجب  کے دن حرم پاک کے اندر کائنات  کی مظہر العجائب  ہستی خدا کا عظیم ترین ولی  و نائب رسول   خدا  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم   حرم کعبہ  میں جلوہ  گر ہوئے  - جس نے اس دنیا میں آتے ہی پہلی نظر رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے رخ انور پہ ڈالی جس کے  دہن  مبارک سے پہلا کلام ہی کلام الٰہی نکلا جس نے ہجرت کی رات اپنی جان رسول  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  پہ قربان کرتے ہوئے خدا کو بیچ دی اور بدلے میں جنت خرید لی جو دین و دنیا میں رسول  خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا بھائی وصی و جانشین ہے وہ خدا کا شیر ہے جس نے بڑے بڑے بڑے ناموروں کی بہادری  کے غرور  کو مٹی میں ملا دیا-جس نے ایک ہاتھ سے خیبر اکھاڑ پھینکا جو رسول   حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم    کے علم کا دروازہ ہے جو سیدہ کائنات سلام اللہ علیہ کا شوہر نامدار ہے جو جنت کے سرداروں امام حسن ع امام حسین ع کے والدماجد ہیں 


 روائت ہے طواف  کعبہ جاری تھا  اور بی بی فاطمہ بنت اسد کے اوپر ولادت کے آثار نما یاں ہو رہے تھے  جبکہ  حضرت ابو طالب شہر سے باہر گئے ہوئے   تھےبی بی فا طمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کی دیوار تھام کر اللہ تعالیٰ سے مناجات شروع کی اور اس کے ساتھ ان کے ہاتھ کے نیچے سے ہی دیوار کعبہ شق ہو گئ یہ دیوار کا کنارا تھا اس جگہ  کو مستجار کہتے ہیں بی بی فاطمہ بنت اسد خانہ ء کعبہ کے اندر تشریف لے گئیں اور دیوار برابر ہو گئ  طواف کعبہ میں مشغول لوگ حیران ہو گئے اور مختلف طریقوں سے کعبہ کے دروازے پر پڑا ہوا بند قفل کھولنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر ایک بزرگ نے ان سے کہا  کہ یہ اللہ کے بھید ہیں ان میں دخل مت دوتب لوگ وہاں سے چلے گئے -بی بی فاطمہ بنت اسد کی زچگی کے فرائض انجام دینے حوران جنّت 'جنّت سے تشریف لائیں دنیا کے بد بختوں نے لاکھ لاکھ کوششیں کی ہیں کہ اس نشانی کو مٹا دیا جائے لیکن ملعونوں کی ہرکوشش  رائگاں ہی جا تی رہی -بعد از ولادت حضرت ابو طالب واپس آئے انہوں نے فاطمہ بنت اسد کو گھر میں موجود نہیں پایا تب آپ خانہء کعبہ  آئے اور قفل کھول کر اندر گئے اور  اپنے نومولود فرزند کو اپنی آغوش میں لیا -بی بی  فاطمہ  بنت اسد نے جناب ابو طالب کو بتا یا کہ دن گزر گیا ہے لیکن فرزند نے آ نکھیں نہیں کھولی ہیں -اتنے میں جناب رسول اللہ حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  تشریف لائے اور اپنے عم زاد کو اپنی آ غوش میں جیسے  ہی لیا نومولود نے آ نکھیں  کھول دیں اور چہرہء انور  حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کی زیارت کی اور پھر توریت زبور 'انجیل کے بعد قران کریم کی تلاوت کا شرف حاصل کیا 


 طب  امیرالمومنین

 اسعد ابنِ ابراہیم اودبیلی مالکی جو علمائے اہلسنت سے ہیں، وہ عمار ابن یاسِر اور زید ابن اَرقم سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ایک روز ایوانِ قضا میں تشریف فرما تھے ہم سب آپ کی خدمت میں موجود تھے کہ ناگہاں ایک شوروغُل کی آواز سُنائی دی۔ امیرالمومنین نے عمّا ر سے فرمایا کہ باہر جا کر اِس فریادی کو حاضر کرو۔ عمار کہتے ہیں میں باہر گیا اور ایک لڑکی کو دیکھا جو اونٹ پر بیٹھی فریاد کر رہی تھی۔ اور خدا سے کہ رہی تھی ۔ اے فریاد رسِ بیکساں ! میں تجھ سے انصاف طلب ہوں اور تیرے دوست کو تجھ تک پہونچنے کا وسیلہ قرار دے رہی ہوں۔ مجھے اس ذِلت سے نجات دے اور تو ہی عِزّت بخشنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کثیر جماعت اُونٹ کے گِرد شمشیر برہنہ جمع ہے۔ کچھ لوگ اس کی موافقت اور حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا ، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا حکم ہے کہ تم لوگ ایوانِ قضا میں چلو۔


 وہ سب لوگ اس عورت کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے۔ ایک مجمع کثیر تماشائیوں کا جمع ہو گیا۔ امیرالمومنین کھڑے ہو گئے۔ اور حمد و ثناء خدا و ستائشِ محمد مصطفٰی کے بعد فرمایا! بیان کرو کہ کیا واقعہ ہے اور یہ عورت کیا کہتی ہے۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا، یا امیرالمومنین ! اِس قضیہ کا تعلق مجھ سے ہے۔ میں اِس لڑکی کا باپ ہوں، عرب کے نامی گرامی معزز و متموّل مجھ سے اِسکی خواستگاری کرتے تھے مگر اِس نے مجھے ذلیل کر دیا۔امیرالمومنین نے لڑکی کی طرف ’رُخ ‘ کیا اور فرمایا کہ جو کچھ تیرا باپ کہتا ہے کیا یہ سچ ہے؟ لڑکی روئی اور چِلائی، یا حضرت! پروردگار کی قَسم میں اپنے باپ کی بے عزتی کا باعث نہیں ہوئی ہوں۔ بوڑھا باپ آگے بڑھا اور بولا یہ لڑکی غلط کہتی ہے۔ یہ بے شوہر  کے حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تو، حاملہ نہیں ہے اور کیا تیرا باپ جھوٹ بول رہا ہے۔ آقا یہ سچ ہے کہ میں شوہر نہیں رکھتی لیکن آپ کے حق کی قسم، میں کسی خیانت کی مرتکب نہیں ہوں۔ 


پھر امیرالمومنین نے کوفہ کی ایک مشہور ’دایہ‘ کو بُلوایا اور کہا کہ اس کو پَسِ پردہ لے جا کر جائزہ لو اور مجھے صحیح حالات سے مطلع کرو۔ ’دایہ ‘ لڑکی کو پسِ پردہ لے گئی بعدِ تحقیق خدمت ِ امیرالمومنین میں نہایت حیرت سے عرض کرنے لگی۔ مولا! یہ لڑکی بے گناہ ہے کیونکہ ’باکرہ‘ ہے مگرپھر بھی حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ایک برف کا ٹکڑا کہیں سے لا سکتاہے۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ ہمارے شہر میں اس زمانہ میں بھی برف بکثرت ملتا ہے مگر اس قدر جلد وہاں سے نہیں آ سکتا۔۔! امیرالمومنین نے بہ طریقِ اعجاز ہاتھ بڑھایا اور قطعہ برف ہاتھ میں تھا۔’دایہ‘ سے فرمایا کہ لڑکی کو مسجد سے باہر لے جاوٴ اور ظَرف میں بَرف رکھ کر لڑکی کو برہنہ اس پر بٹھا دو اور جو کچھ خارج ہو مطلع کرو۔ ’دایہ‘ لڑکی کو تنہائی میں لے گئی، برف پر بٹھایا، تھوڑی دیر میں ایک سانپ خارج ہوا۔ ’دایہ ‘ نے لے جا کر امیرالمومنین کو دِکھلایا۔ لوگوں نے جب دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ پھر امیرالمومنین نے لڑکی کے باپ سے فرمایا کہ تیری لڑکی بے گناہ ہے۔ کیونکہ ایک کیڑہ تالاب میں اس کے نہاتے وقت ’داخل رحم‘ ہو گیا۔ جس نے اندر ہی اندر پرورش پا کر یہ صورت اختیار کی ( یہ تھی بغیر ایکسرے کے طبیبِ روحانی و جسمانی کی مکمل تشخیص)   ا 


حضرت قنبرؓ   کو حضرت علیؑ کے ہاں بہت اعلی منزلت حاصل تھی اسی لیے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ قنبرؓ حضرت علیؑ کے غلام تھے اور حضرت علیؑ سے شدید محبت کرتے تھے۔ آپ کو امیر المومنین ؑ نے ولایت اہل بیتؑ کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص خطاب سے نوازا آپ نے فرمایا اے قنبرؓ اللہ نے ہماری ولایت کو آسمان و زمین کے جن و انس اور دیگر کے سامنے پیش کیا۔ ہماری ولایت کو نیک اور طاہرلوگوں نے قبول کیا اور کینہ پرور،بغض و عداوت رکھنے والوں اور فضول لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔عدالت اور تقوی کی وجہ سے قنبرؓ نے کئی مواقع پر حضرت علیؑ کے لیے گواہی دی۔ مشہور واقعہ ہے جب ایک یہودی کے ساتھ آپ کا ذرہ کا معاملہ ہوا تو آپ کا کیس قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا تو امام حسن ؑ اور حضرت قنبر ؓ نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں گواہی دی۔آپ حضرت علیؑ کی عدالت کے اعلی معیار پر ایمان رکھتے تھے ایک بار حضرت علیؑ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک مجرم کو کوڑے ماریں۔ جب آپ نے کوڑے مارے تو تین کوڑے زیادہ مار دیے۔ حضرت علیؑ نے حکم دیا کہ قنبرؓ کو تین کوڑے مار کر اس سے قصاص لیا جائے۔ قنبرؓ کو اس کی مرضی کے ساتھ یہ کوڑے مارئے گئے۔للہ رب عزت سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں مولا علی علیہ سلام کے اسوہ حسنہ پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو حب علی  علیہ السّلام  و آل علی علیہ السّلام سے ہمیشہ منور رکھے الھی آمین بحق محمد و آل محمد


اتوار، 12 جنوری، 2025

نابینا بچہ جو دنیا کو علم کی آ نکھیں دے گیا

   دنیا بھر میں ہر سال 4 جنوری کے روز عالمی بریل کا دن منایا جاتا ہے۔ بریل چھ نقاط پہ مبنی ایک ایسا منفرد رسم الخط ہے جسے دنیا بھر کی زبانوں نے نابینا افراد کی سہولت کے لیے اختیار کیا ہے۔1824ء میں بریل کی ابتداء لوئی بریل نے رکھی تھی جو بچپن میں ایک حادثے کے شکار ہو کر اپنی بینائی کو کھو بیٹھے تھے۔ لوئی بریل نے یہ رسم الخط فرانسیسی فوج کے پیغام رسانی کے طریقے سے متاثر ہو کر اپنایا تھا جس میں چھ نقاط کے بجائے بارہ نقاط کا استعمال کیا جاتا تھا۔لوئی بریل نے اس رسم الخط کو بدل کر آسان اور سہل بنایا اور اسے نابینا افراد تک پہنچانا شروع کیا۔ لوئی بریل کی ان ہی اہم خدمات کے پیشِ نظر ہر سال ان کی یومِ پیدائش کے روز عالمی بریل کا دن منایا جاتا ہے۔ نابینا اور بینا افراد کے درمیان حائل دوریوں کو مٹانے کے لیے "بولتے حروف” پاکستان میں 2021 سے اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔بولتے حروف جامع بریل بنانے والا ایک پروجیکٹ ہے جو عام زبان میں لکھی ہوئی تحریر کو اس کے بریل رسم الخط کے ساتھ اس طرح سے طبع کرتی ہے کہ ایک ہی صفحے سے ایک نابینا اور بینائی رکھنے والے افراد ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ بولتے حروف نے اپنے قیام سے اب تک 0.2 ملین دستاویزات کو جامع بریل میں منتقل کیا ہے جس میں قرآنِ پاک، نورانی قائدہ، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف بینکوں کے دستاویزات شامل ہیں۔

    اس نظام  کا خالق وہ  نیک انسان ہے جس نے خود نابینا ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی بلکہ دنیا بھر کے نابینا افراد کی زندگی علم کی روشنی سے منور کرکےانہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنایا۔یہ بچہ جس کا نام لوئس بریل تھا، 4 جنوری 1809 کوپیرس کے نواحی قصبے’’ کوئے پورے ‘‘ میں پیدا ہوا ۔وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔اس کے دالدکی گھوڑے زین بنانے کی دکان تھی۔لوئی کے گھرمیں تعلیم کا حصول ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا ،لیکن لوئی کی ذہانت دیکھ کر والدین نے اسے تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا ۔ لوئی اپنے والد’’سائمن بریل‘‘ کے ساتھ اکثر دکان پرجاتا ، جہاں وہ چمڑے کےکھلونوں سے کھیلتا رہتا تھا جو اس کےوالدنے اس کے لئے بنائے تھے۔ ایک دن سائمن اسے دکان پراکیلا چھوڑ کر کسی کام سے باہر گیا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر لوئی ایک نوکیلا تیز دھار اوزار ہاتھ میں لے کر اپنے ابا کی طرح چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اچانک اوزارہاتھ سے پھسلا اور اس کا نوکیلا حصہ تین سالہ لوئی کی بائیں آنکھ میں گھس گیا۔ وہ تکلیف کی شدت سے رونے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر اس کے والد دوڑتے ہوئے آئے۔ قصبہ میں کوئی اچھا ڈاکٹر نہ تھاجب کہ قریبی اسپتال بھی بیس میل کے فاصلے پر تھا۔اسے ایک خاتون طبیبہ کے پاس لے جایا گیا۔ لیکن اس کے علاج سےلوئی کو کوئی افاقہ نہیں ہوا بلکہ اس کی بینائی تیزی سے متاثر ہونے لگی۔اس دور میں اینٹی بایوٹکس یا اینٹی سیپٹک ادویات نہیں تھیں، اس لیے لوئی کی دوسری آنکھ میں بھی جراثیم پھیلنا شروع ہوگئےاور دو سال میں وہ مکمل طور سے اندھے پن کا شکار ہوگیا۔ بینائی ختم ہونے کے بعداس کےوالد نےاس کی تعلیم کے لیے لکڑی کے ابھرے حروف کاٹ کر انہیں کیلوں کی مدد سے ایک بورڈ پرلگا دیا، تاکہ وہ انہیں چھو کر اپنے نام کے ہجے کر سکے۔

کچھ عرصے بعد اسے اسکول میں داخل کرادیاگیا۔1818 میں جب لو ئی دس سال کا ہوا تواس کے استاد نے سائمن بریل کو مشورہ دیا کہ وہ لوئی کو نابینا بچوں کے اسکول،’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ چلڈرن‘‘ میں داخل کرادے۔بریل وہاں تعلیم حاصل کرتا رہا بعد میں اسی اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔کچھ عرصے بعد اسے ایسے طریقہ تعلیم کے بارے میں معلوم ہوا جو فوجیوں کو رات کی تاریکی میں پڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ تیکنک فرانسیسی ماہر تعلیم ’’چارلس باربیر‘‘کی ذہنی اختراع تھی جس میں 12ابھرے ہوئے نقطوں سے حروف کی پہچان بتائی جاتی تھی ۔بریل نے اس تیکنک کو نابینا افراد کے لیے سودمند بنانے کے لیے اس پر مزید محنت کی۔ اس نے حروف کی شناخت کے لیے چھ نقطوں پر مشتمل بورڈ بنایاجو بعد ازاں ’’بریل سسٹم‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ 1837میں اس نےاپنے تخلیق کردہ سسٹم پر 600صفحات کی کتاب مکمل کی۔ ان تمام کارناموں کے باوجودبریل سسٹم کو حکومتی پذیرائی نہ مل سکی۔ 6 جنوری 1852 میں لوئی بریل کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وفات کے دو برس بعد 1854ء میں اس کا ایجاد کردہ سسٹم نابیناؤں کی تعلیم کے لیے سرکاری سطح پر منظور کرلیا گیاجس کے بعد یہ فرانس کی سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں مقبول ہوگیا۔آج ڈیڑھ صدیاں گزرنے کے بعدبھی بینائی سے محروم افراد بریل سسٹم کے ذریعے ہی تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزارتےہیں۔ 

 

ایسے جامع بریل مواد کی مدد سے نہ صرف والدین اور اساتذہ نابینا بچوں کی حصولِ علم میں مدد فراہم کرسکتے ہیں بلکہ اس جامع بریل مواد کے ذریعے نابینا افراد کے معاشی مسائل کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی دفاتر میں جامع بریل میں موجود دستاویزات کے استعمال سے ہم نابینا افراد کو اپنے بلبوتے پہ کھڑے ہونے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ پاکستان کے سالانہ معاشی اور اقتصادی نقصانات میں بھی  کمی ممکن ہے۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر