ہفتہ، 12 فروری، 2022

سچّے موتی اور ان کے خواص

سچّے موتی اور ان کے خواص 'زمانہء قدیم ہو یا زمانہء جدید اگر ہم دیکھنا چاہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری زندگی میں موتیوں  کا  ہمیشہ ہی عمل دخل رہتا ہے  -

بالخصوص خواتین کے زیورات میں  اور موتیوں کا  زکر ملکہ بلقیس کے تخت کے تذکرے میں بھی موجود ہے کہ اس تخت میں کتنے قیمتی موتی   جڑے ہوئے تھے  جبکہ قدرت کی

یہ انمول سوغات بادشاہوں نے اپنی گلے کی مالاؤں میں پہنی ہے تو آیئے اس کا کچھ تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں  کہ اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازئوں پر کچھوے کی

 طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص

 طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا

 ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس

 کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے

 اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول

 دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے لیکن یہ ایک قدیم اور قطعی غلط

 روایت ہے۔ ۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق صدف

 میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے مثلا ریت کا ذرہ یا کوئ اور سخت چیز تو کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا جسم جیلی کی طرح نرم ہوتا ہے تو یہ سخت زرہ اس کے جسم میں

 اذیت یا Irritation کا باعث بنتا ہے کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ یا لعاب خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، تاکہ اس کی چبھن ختم

 ہو سکے اور یہی لعاب سخت ہو کر موتی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

اس کو گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اس کو پہننے والے کی شادی کام یاب اور ازدواجی زندگی خوش گوار گزرتی ہے، موتی کو استعمال کرنے والا جادو اور سحر کے 

 اثر سے محفوظ رہتا ہے، ذہنی سوچ میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے، اسقاط حمل روکنے کے لیے اسے حاملہ خاتون کی کمر پر باندھا جاتا ہے ۔ 

موتی رموز قدرت سے وابستہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔ یہ انسان کی قدیم تہذیبی روایت کا اشارہ بھی ہے۔ موتی جیسی خوبصورت، دلکش اور افادیت والی شے ایک

 نہایت کھردری، بھدی اور معمولی سی مخلوق گھونگا سے حاصل ہوتی ہے۔ اس گھونگا کو آئسٹر (Oyster) کہتے ہیں جو حیوانات کے ایک زمرے مولسک (Mollusc) کا رکن ہے۔

 مولسک تقریباً 530 ملین سال قبل وجود میں آئے تھے۔ موتی کی دوسری خوبی جو اسے دیگر رتنوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ موتی اپنی اصل حالت ہی میں نہایت دلکش ہوتا

 ہے جب کہ دوسرے رتنوں کی خوب صورتی تراش وخراش اور پالش کے بعد ابھرتی ہے۔ جہاں ایک طرف مذہبی کتابوں اور لوک گیتوں میں موتی کا ذکر ہوا ہے وہیں دوسری

 طرف جدید سائنس میں موتی ایک اہم موضوع بنا ہے۔

موتی دوا سازی میں بھی مستعمل ہے۔ اس کا سفوف اور پانی دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یونانی طریقہ علاج میں بطور خاص موتی کی اہمیت ہے جہاں یہ ٹانک کے طور پر استعمال

 ہوتا ہے جس سے جسمانی اور دماغی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت پر مثبت اثرا ت پڑتے ہیں۔ ایسی دواؤں میں دواالملک اور جوارشِ لولو بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح

 آیورویدک دواؤں میں بھی موتی کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات میں موتی بطور استعارہ استعمال کیا ہے

جمعرات، 10 فروری، 2022

آگ کا دیوتا مراکش میں

 

مراکش میں اللہ کے ایک ولی کا عظیم کارنامہ،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب مراکش کے لوگ کافرانہ زندگی گزار رہے تھے ایسے میں دنیا کے کسی گوشہ میں ر ہنے والے  ایک بزرگ کو بشارت ہوئ کہ وہ

 مراکش چلے جائیں اور دکھی انسانیت کی مدد کریں -وہ بزرگ خدائ تنبیہ کے بعد مراکش آ گئے -مراکش آ کر وہ مراکش کے گلی کوچوں میں نکلتے اور دیکھتے کہ

 کہاں وہ کسی کی کوئ مدد کرسکتے ہیں-لیکن کئ روز گزر گئے ان کو کوئ ایسا معاملہ نظر نہیں آیا کہ وہ کسی کی کوئ مدد کرتے لیکن  ایک روز ان کا گزر ایک گلی

 سےہوا تو انہوں نے ایک گھر کے اندر سے عورت کےنالہ وشیون کی آواز سُنی -کچھ ثانیہ وہ کھڑے کچھ سوچتے رہے پھر آخر کار دروازے پر دستک دے دی

 دستک کے جواب میں روتی ہوئ عورت دروازے پر آئ اور اس نے دروازہ کھولا  بزرگ نےعورت سے سوال کیا 'ائے خاتون کیوں رو رہی ہیں آپ؟بزرگ

 نے رحمدلانہ لہجے میں  عورت سے سوال کیا تو وہ کہنے لگی ہمارے شہر میں  ایک بڑا ظالمانہ  رواج ہے کہ جو لڑکی اپنی جوانی کو پہنچتی ہےآگ کے دیوتا کے مخبراس

 کو اطّلاع دے دیتے ہیں اور پھر اس لڑکی کو دیوتا  ایک رات کے لئے اپنی دلہن بناتا ہے اور رات کے ختم ہونے پر اس لڑکی کو  دیوتاکے بھینٹ میں دے دیا جاتا ہے 

–یہ کیسا ظلم ہے !

 محض ایک رات وہ آگ کے دیوتا کے ساتھ گزارتی ہے اور صبح  قتل کر دی جاتی ہےوہ مظلوم -

خاتون نے کہا میری ایک ہی بیٹی ہے جس کی عمر پندرہ برس ہوئ ہے اور میرا شوہر بھی اس دنیا میں ہے ناہی اور کوئ والی وارث ہے جو ہماری مددکرےاور آج

 کی رات آگ کا دیوتا اس کی بھینٹ لینے آئَے گااور صبح سویرے میری بیٹی کو قتل کر کےلاش سمندر برد کر دی جائے گی عورت پھر زاروقطار رونے لگی  بزرگ

 نے

عورت سے کہا تم فکر مت کرو میں تمھاری بیٹی کو نا آگ کے دیوتا کے سپرد ہونے دوں گااور نا ہی وہ قتل کی جائیگی ،آگ کا دیوتا کہا ں رہتاہے

بزرگ نے دریافت کیا تو عورت نے بتایا کہ وہ سمندر میں رہتا ہےاور جب اسے لڑکی کی بھینٹ لینی ہوتی ہے تو اپنے بحری جہاز سے آتا ہے

سمندر کےکنارےاس کا بہت

 بڑا محل ہے وہ اسی محل میں  رات  گئے آتا ہے  اس کا جہاز آگ سے روشن ہوتا ہے وہ آدھی رات کو آتا ہے اور  صبح ہونے سے قبل  لڑکی کو اپنی نظروں کے

 سامنے قتل کروا کر  ظالم  چلا بھی جاتا ہےٍٍٍٍٍٍٍٍ-

 -عورت نے بے چارگی سے کہا

اچھّا تم بلکل  پریشان مت ہونا -میں تمھارے گھر سر شام آ جاوں گا تم اپنی بیٹی کا عروسی لباس مجھ کو دے دینا اور میں آگ کےدیوتا کے کارندوں کے آنے تک

 تمھارے گھر میں ہی رہوں گا  تم کو اب اپنی بیٹی کی فکر کی ضرورت نہیں ہے   یہ کہہ کر بزرگ وہاں سے روانہ  ہو گئے

اور شام کو پھر وہ حسب وعدہ اس گھر کی دہلیز پر موجود تھے -دیوتا کے کارندوں کے آنے سے کچھ دیر قبل انہو  ں  نے لڑکی  عروسی جوڑا زیب تن کیا اور دیوتا

 کے کارندوں کے انتظا رمیں بیٹھ گئے  -اور پھر رات کا اندھیا را ہونے پر جب دیوتا کے کارندے لڑکی   کو لینے آئےتو  بز رگ  دلہن کے لباس میں سر کوجھکائے

 ہوئے  ان کے ساتھ چلے گئے

کارندوں نے دلہن کو محل میں  لے جاکر دیوتا کے حوالے کیا اور واپس چلے گئے

اور پھر دیوتا نے جونہی دلہن کا گھونگھٹ الٹا گھونگھٹ کے اندر سے ایک باریش بزرگ نکلے تودیوتا ڈر کے مارے الٹے پیروں کمرے کے باہر دوڑااور ساتھ ہی

 بزرگ بھی  آئۃ الکرسی  بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئےاس کے پیچھے دوڑےلیکن کمرے کادروازہ تو  خود ہی بند کر چکا تھا اور  اب کہیں اس کےلئے جائے امان

 نہیں تھی اور  خود ساختہ دیوتا   بالآخر گر پڑا اور بزرگ کے آگے ہاتھ جوڑ کرمعافیاں مانگنے لگا توبزرگ نے کہا نہیں تجھے معافی ایسے نہیں ملے گی تو پہلے س

چّے دل سے توبہ کرے گا کہ اب کسی لڑکی کو محل میں نہیں بلائے گا تب تجھے معافی ملے گی-

بادشا ہ جا ں بخشی  کے عوض بزرگ کی  شرط مان گیا -اگلے روز تمام مراکش میں منادی ہوئ کہ بادشاہ اسلام قبول کر رہا ہے اس لئے مراکش کے طول و عرض میں    ہر فرد

کا   مذہب ہو گا

 پھر  اس شقی اور ظالم بادشاہ نے بزرگ کے ہاتھ پراسلام قبول کیا اور بادشاہ کے سا تھ ساتھ تمام مراکشی با شندوں نے بھی اسلا م قبول کیا اور اللہ کی مہربانی سے

 تمام مراکشی باشند ے یک بیک ایک بزرگ کی کرامت کے  سبب دین اسلام کی روشنی سے مالا مال ہو گئے

جبکہ در  اصل دیوتا کے روپ میں مراکش کا  اصل بادشاہ ہوتا تھااور لڑکی قتل اس لئے کی جاتی تھی تاکہ وہ بادشاہ کی اصلیت  کسی کو بتا نہیں سکے

عیّاش مرد عورت کے جنسی استحصال کے لئے  کیسے 'کیسے گھناونے حربے استعمال کرتے ہیں

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

 

زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسے کیسے ان کو ہلاک کر مارا  (القران )--قوم ثمود تقریباً 5 ہزار سال قبل ہجر میں رہتے تھے ۔

قومِ ثمود علم تعمیرات کی ماہر تھی اس نے غاروں کو کھود کر اس میں رہائش اختیار کرنے کا رواج ڈالا مگر اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی میں  ان کا کوئ ثانی نہیں تھا

 بتوں کو پوجتے تھے اور لوٹ کھسوٹ میں ماہر تھے اپنے ہی اپنوں کو مار دیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی اصلاح کے لیے بپیغمبر بنا کر بھیجا 

  قومِ ثمود نہایت طاقت وَر، طویل القامت اور زبردست شان و شوکت کی مالک تھی  مدا ئن   کے طول عرض میں ان کی اپنی تراشیدہ بستی میں ان کی رہائش تھی

 یہ لق ودق میدان، چٹیل بیابان18سے20مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر وہ خُوب صورت تاریخی عمارات ہیں، جنہیں قومِ ثمود

 نے سخت سُرخ چٹانیں تراش کر بنایا تھا۔ دوسری جانب، نرم میدانی علاقوں میں عالی شان مکانات کے کھنڈرات ہیں۔ سُرخ پہاڑوں کے اندر اس شہرِ خموشاں

 کی ہزاروں تاریخی عمارتوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں بھی اس شہر کی آبادی چار یا پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی، جسے ان کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں

 کے سبب ایک زوردار، تیز اور ہول ناک آواز کے ذریعے آناً فآناً ہلاک کر دیا گیا۔

قومِ ثمود اپنے عالی شان محلّات، سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، خُوب صورت مرغزاروں اور نعمتوں کی فراوانی کے سبب غرور، تکبّر اور سرکشی کے نشے میں

 چُور تھے اور چوں کہ تکبّر اور کفر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تو یہ بھی ابلیس کے پیروکار بن گئے، حالاں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے قومِ عاد پر قہرِ الٰہی کے مناظر اُن کے

 سامنے تھے۔ یہ بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے خدائوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کے معاشرے سے حق و انصاف ناپید ہو چُکا تھا۔ بے حیائی،

 فحاشی آخری حدود چُھو رہی تھی۔ مقدّس انسانی رشتوں کا احترام ختم ہو چُکا تھا۔ رقص و سرود، عیش و عشرت، شراب و شباب اُن کی زندگیوں

 کے لازمی جز بن چُکے تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اُس قوم ہی میں سے ایک خدا ترس اور بہت نیک انسان، حضرت صالح علیہ السّلام کو نبوّت

 کے منصب پر فائز فرمایا۔

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود وادی القری کے نزدیک دریائے سرخ کے کنارے حِجر نامی مقام پر آباد تھےجو حجاز اور شام راستے میں واقع ہے۔ ایک حدیث کے

 مطابق لشکر اسلام جب مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے حجر کے مقام سے پہنچے تو پیغمبر اسلامؐ نے قوم ثمود کے عذاب میں مبتلاء ہونے کے خوف سے اپنے

 ساتھیوں کو یہاں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور گریہ کنان وہاں سے گزرنے کا حکم دیا۔

 ۔ امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قوم ثمود کے 70 بت تھے اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے۔اسی طرح امام صادقؑ سے روایت شدہ ایک حدیث

 میں آیا ہے کہ یہ قوم ایک بڑے چٹان کی پوجا کرتے تھے اور سال میں ایک دفعہ اس چٹان کے اردگرد جمع ہو کر اس کے لئے قربانی پیش کرتے تھے 

حضرت صالح کی دعوت کا رد عمل

اے صالح ؑ! اگر تم اللہ کے سچّے پیغمبر ہو، تو ہم کو کوئی ایسا معجزہ دِکھائو، جسے دیکھ کر ہمیں تم پر یقین آ جائے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے فرمایا ’’اے میری قوم

 کے لوگو! تم کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جو سامنے چٹان ہے، اس میں سے ایک ایسی اونٹنی برآمد کرو، جو گابھن ہو، بچّہ

 دے، ہم سب کے لیے دودھ مہیا کرے  ‘‘حضرت صالح علیہ السّلام نے اُن سے فرمایا’’اگر مَیں تمہاری شرط پوری کر دوں، تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آئو گے؟‘‘

 اُنہوں نے جواب دیا ’’ہاں، ہم تمہارے ربّ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دُعا فرمائی اور اپنی قوم کی

فرمائش پوری کرنے کی التجا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دُعا قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹان شق ہو گئی اور اُس میں سے ایک طویل القامت،

خُوب صورت اونٹنی برآمد ہوئی، جس میں وہ سب خوبیاں تھیں، جن کی قومِ ثمود نے فرمائش کی تھی۔ یہ محیّرالعقول منظر دیکھ کر قومِ ثمود لاجواب ہو گئی۔

    ، جندع بن عمرو بن محلات بن لبید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا، لیکن اکثریت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اسے اس موقعے پر سردار

 جادو کا کمال ظاہر کرتی رہی۔ اس موقعے پر حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے فرمایا ’’اے میری قوم! یہ ناقۃ الاے میری قوم! یہ ناقۃ اللہ (یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی

 اونٹنی) ہے، جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے۔ اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا، ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں

 فوری پکڑ لے گا۔‘‘ (سورۂ ہود64:)۔ اونٹنی اور اس کا بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے تھے، سب قبیلے والے پیٹ بھر کر اونٹنی کا دودھ پیتے، لیکن وہ کم نہ

 ہوتا۔حضرت صالح ؑنے کنویں کے پانی کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن اس بدبخت قوم سے اونٹنی کا وجود برداشت نہیں ہوا اور بالآخر ایک دن انہوں نے اونٹنی کو

 ظلم سے مار ڈالا-اونٹنی کے مرنے کے بعد اللہ نے اس ظالم قوم پر عذاب بھیجا   اور ان کو ایک چنگھاڑ نے مار ڈالا 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر