جمعرات، 10 فروری، 2022

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

قوم ثمود کی نابودی کے اسباب

 

زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسے کیسے ان کو ہلاک کر مارا  (القران )--قوم ثمود تقریباً 5 ہزار سال قبل ہجر میں رہتے تھے ۔

قومِ ثمود علم تعمیرات کی ماہر تھی اس نے غاروں کو کھود کر اس میں رہائش اختیار کرنے کا رواج ڈالا مگر اس کے ساتھ ساتھ بت پرستی میں  ان کا کوئ ثانی نہیں تھا

 بتوں کو پوجتے تھے اور لوٹ کھسوٹ میں ماہر تھے اپنے ہی اپنوں کو مار دیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی اصلاح کے لیے بپیغمبر بنا کر بھیجا 

  قومِ ثمود نہایت طاقت وَر، طویل القامت اور زبردست شان و شوکت کی مالک تھی  مدا ئن   کے طول عرض میں ان کی اپنی تراشیدہ بستی میں ان کی رہائش تھی

 یہ لق ودق میدان، چٹیل بیابان18سے20مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر وہ خُوب صورت تاریخی عمارات ہیں، جنہیں قومِ ثمود

 نے سخت سُرخ چٹانیں تراش کر بنایا تھا۔ دوسری جانب، نرم میدانی علاقوں میں عالی شان مکانات کے کھنڈرات ہیں۔ سُرخ پہاڑوں کے اندر اس شہرِ خموشاں

 کی ہزاروں تاریخی عمارتوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں بھی اس شہر کی آبادی چار یا پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی، جسے ان کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں

 کے سبب ایک زوردار، تیز اور ہول ناک آواز کے ذریعے آناً فآناً ہلاک کر دیا گیا۔

قومِ ثمود اپنے عالی شان محلّات، سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، خُوب صورت مرغزاروں اور نعمتوں کی فراوانی کے سبب غرور، تکبّر اور سرکشی کے نشے میں

 چُور تھے اور چوں کہ تکبّر اور کفر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تو یہ بھی ابلیس کے پیروکار بن گئے، حالاں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے قومِ عاد پر قہرِ الٰہی کے مناظر اُن کے

 سامنے تھے۔ یہ بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے خدائوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کے معاشرے سے حق و انصاف ناپید ہو چُکا تھا۔ بے حیائی،

 فحاشی آخری حدود چُھو رہی تھی۔ مقدّس انسانی رشتوں کا احترام ختم ہو چُکا تھا۔ رقص و سرود، عیش و عشرت، شراب و شباب اُن کی زندگیوں

 کے لازمی جز بن چُکے تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اُس قوم ہی میں سے ایک خدا ترس اور بہت نیک انسان، حضرت صالح علیہ السّلام کو نبوّت

 کے منصب پر فائز فرمایا۔

کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود وادی القری کے نزدیک دریائے سرخ کے کنارے حِجر نامی مقام پر آباد تھےجو حجاز اور شام راستے میں واقع ہے۔ ایک حدیث کے

 مطابق لشکر اسلام جب مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے حجر کے مقام سے پہنچے تو پیغمبر اسلامؐ نے قوم ثمود کے عذاب میں مبتلاء ہونے کے خوف سے اپنے

 ساتھیوں کو یہاں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور گریہ کنان وہاں سے گزرنے کا حکم دیا۔

 ۔ امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قوم ثمود کے 70 بت تھے اور وہ ان کی پوجا کرتے تھے۔اسی طرح امام صادقؑ سے روایت شدہ ایک حدیث

 میں آیا ہے کہ یہ قوم ایک بڑے چٹان کی پوجا کرتے تھے اور سال میں ایک دفعہ اس چٹان کے اردگرد جمع ہو کر اس کے لئے قربانی پیش کرتے تھے 

حضرت صالح کی دعوت کا رد عمل

اے صالح ؑ! اگر تم اللہ کے سچّے پیغمبر ہو، تو ہم کو کوئی ایسا معجزہ دِکھائو، جسے دیکھ کر ہمیں تم پر یقین آ جائے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے فرمایا ’’اے میری قوم

 کے لوگو! تم کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جو سامنے چٹان ہے، اس میں سے ایک ایسی اونٹنی برآمد کرو، جو گابھن ہو، بچّہ

 دے، ہم سب کے لیے دودھ مہیا کرے  ‘‘حضرت صالح علیہ السّلام نے اُن سے فرمایا’’اگر مَیں تمہاری شرط پوری کر دوں، تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آئو گے؟‘‘

 اُنہوں نے جواب دیا ’’ہاں، ہم تمہارے ربّ پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘ حضرت صالح علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دُعا فرمائی اور اپنی قوم کی

فرمائش پوری کرنے کی التجا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دُعا قبول فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹان شق ہو گئی اور اُس میں سے ایک طویل القامت،

خُوب صورت اونٹنی برآمد ہوئی، جس میں وہ سب خوبیاں تھیں، جن کی قومِ ثمود نے فرمائش کی تھی۔ یہ محیّرالعقول منظر دیکھ کر قومِ ثمود لاجواب ہو گئی۔

    ، جندع بن عمرو بن محلات بن لبید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا، لیکن اکثریت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور اسے اس موقعے پر سردار

 جادو کا کمال ظاہر کرتی رہی۔ اس موقعے پر حضرت صالح ؑنے اپنی قوم سے فرمایا ’’اے میری قوم! یہ ناقۃ الاے میری قوم! یہ ناقۃ اللہ (یعنی اللہ کی بھیجی ہوئی

 اونٹنی) ہے، جو تمہارے لیے ایک معجزہ ہے۔ اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا، ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں

 فوری پکڑ لے گا۔‘‘ (سورۂ ہود64:)۔ اونٹنی اور اس کا بچّہ سارا دن نخلستان میں چَرتے رہتے تھے، سب قبیلے والے پیٹ بھر کر اونٹنی کا دودھ پیتے، لیکن وہ کم نہ

 ہوتا۔حضرت صالح ؑنے کنویں کے پانی کو بھی تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن اس بدبخت قوم سے اونٹنی کا وجود برداشت نہیں ہوا اور بالآخر ایک دن انہوں نے اونٹنی کو

 ظلم سے مار ڈالا-اونٹنی کے مرنے کے بعد اللہ نے اس ظالم قوم پر عذاب بھیجا   اور ان کو ایک چنگھاڑ نے مار ڈالا 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر