ہفتہ، 6 اگست، 2022

ازل سے تا ابد'درس گاہ کربلا


 کربلا'' ایک عظیم درسگاہ ''حُسینی  کربلا  معرفت خداوندی رکھنے والوں کی امتحان گاہ تھی۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اور حقیقت میں آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے

یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں

 اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان

 میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ

 سعادت ہیں۔میدان کربلا میں چھ مہینہ کے بچّے سے لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جوہمیشہ کے لئے تاریخ کا درخشاں باب بن گئے۔

شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔

 ۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی  امیر شام سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے امیر شام کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے 

حسین بن علیؑ کی امامت امیر شام کی حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے  امیر شام کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ امیر شا م اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قراردیا

امیر شام  کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل  کو فہ کے بے وفا لوگوں نے بے دردی سے شہید کر دیا

جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ روزعاشور امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 نفوس شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے

 ۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے آپ کا روضہء پُر نور کربلا میں زیارت خاص و عام ہے جہاں ہر سال کروڑو ں زائرین آتے ہیں- کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر معاشرہ میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو معاشرہ میں موجود ہر طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے جیسے امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔ 

  دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت عزیز نواسے حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو ۱۰محرم ۶۱ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔درس کربلا میں  بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر  کی تعلیم ملتی ہے درس گاہ کربلا کے معلّم اعظم امام حسین علیہ السّلام  ہیں اور پھر باقی شہدائے کربلا میں ہر ایک کو آپ علیہ السّلام نے مناصب عطا کئے ہیں

کربلا زندہ باد


جمعرات، 4 اگست، 2022

کیا اندھیرا ہے پھوپھی-


 

کیا اندھیرا ہے پھوپھی--  ہوا یہ کہ جس وقت یزید کا دربار ختم ہوا اور قیدی بھیجے گئے تو اس کی محل سرا کے پاس ایک ٹوٹا ہوا مکان تھا اُس کا حکم یہ تھا کہ یہ قیدی وہاں بھیج دئیے جائیں۔ آج بھی وہاں آثار نظر آرہے ہیں کہ کہاں محل سرائے یزید تھی۔ دنیا مٹ گئی، یزید مٹ گیا لیکن اُس بچی کی قبر آج بھی باقی ہے۔ جب قیدی اس خرابے میں داخل کئے گئے اور دروازہ بند کردیا گیا تو دن میں اتنا اندھیرا ہوگیا کہ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا تھا۔

  تمام قیدی گھبرا گئے۔ انہوں نے کہاں ایسی جگہیں دیکھی تھیں جہاں دن میں بھی اتنا اندھیرا ہو۔ اپنی ماؤں کی گودیوں میں بلک بلک کر رونے لگے۔ ماؤں نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھا، بچو! روؤ نہیں۔ شہزادی کو تکلیف ہوگی، ۔جنابِ سکینہ گھبرا گئیں اور بار بار کہتی تھیں: پھوپھی جان! ہم کہاں آگئے؟ آخر جنابِ زینب بچی کو سمجھاتی رہیں۔ صاحبانِ اولاد! بعض بچے تاریکی میں گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ تاریکی اور گھٹن ،چونسٹھ بیبیاں، اُن کی گودوں میں بچے، جنابِ سکینہ بہت گھبرا گئیں۔ آپ نے سمجھا کر سکینہ کو سلا دیا۔ رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں دن نہیں نکلے گا؟یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیےروائت میں ہے کہ چند دن قید خانہٴ کوفہ کمیں رکھنے کے بعد مخدراتِ عصمت وطہارت اور سرہائے شہداء کو امام زین العابدین علیہ السّلام  کے ساتھ شام کے لئے

 روانہ کر دیا گیا۔ جب اہل حرم دربار یذید کے قر یب پہنچےدربار کے سجنے میں کچھ وقت باقی تھا ۔ اس لیے اہلِ حرم کا قافلہ "باب الساعات" پر تین گھنٹے بروایت

 تین دن تک ٹھہرا رہا۔

یہ تباہ حال قافلہٴ حسینی اس طرح دربار میں داخل ہوا  کہ آگے آگے سرہائے شہداء ،اُن کے پیچھے مخدراتِ عصمت تھیں۔لیکن شام اور کوفہ کے درمیان 

کے راستے میں جا بجا جناب زینب سلام اللہ علیہا خطبہ فرماتی تھیں۔ جناب اُم کلثوم مرثیہ پڑھتی تھیں۔ جناب سکینہ "نحن سبایا آل محمد"ہم قیدی اہل بیت رسول

 ہیں"۔ امام حسین علیہ السّلام کا سر مبارک تلاوت سورہٴ کہف کرتا تھا۔ (ناسخ التواریخ جلد ۶ ص ۳۵۰)

یہ سُننا تھا کہ حضرت زینب  سلام اللہ علیہا کھڑی ہو گئیں اور بہ لہجہ امیرالمومنین  علیہ السّلام  فرمانے لگیں۔

"تمام حمد اس خدائے کائنات کے لئے سزاوار ہے جس نے عالمین کے لیے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور اس کی رحمتیں جناب رسالت ماب اور ان کی آلِ اطہار

 کے لیے موزوں ہیں۔ اے شامیو! خداوند عالم نے قرآن مجید میں تم جیسے لوگوں کی طرف سچا خطاب فرمایا ہے کہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھٹھہ بن

 کر جھٹلانے کے باعث فسق وفجور کے سمندر میں غوطہ لگایا ہے ان کی عاقبت اور ان کا نتیجہ نہایت مہلک اور قبیح ہو گا۔ اے یزید! خدا تجھ پر لعنت کرے، تُو نے

 ہمارے اوپر اطرافِ عالم کو تنگ کر دینے اور مصائب و آلام نازل کر کے اسیر بنانے کے باعث یہ خیال قائم کر رکھا ہے کہ تُو اللہ کے نزدیک مقرب اور ہم ذلیل

 وخوار ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تیرے اس بے محل خوشی منانے کا باعث فقط تیرا تکبر اور تیری حماقت ہے اور لوگوں کا تیری طرف رغبت کرنا ہے۔

اے ملعون! اس خوشی اور فخریہ اشعار (جنہیں تُو نے ابھی ابھی پڑھا ہے) یکسوئی اختیار کرکے کیا تُو نے خداوند عالم کے اس ارشاد باصواب کو نہیں سُنا کہ کفار کو جو

 مہلت دی گئی ہے، یہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ سرکش اور معصیت کی طغیانی میں کماحقہ غرق ہو لیں۔

"یاابن الطلقا" اے گندی نسل کی بنیاد ! کیا تُو نے یہ عدل برتا ہے کہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کو تو پردہ میں محفوظ رکھا ہے اور دخترانِ رسول کو بے مقنع وچادر شہربہ

 شہر پھرایا جا رہا ہے۔ اور ہر خاص وعام بطور تماش بین ان کے گِرد محیط ہے،

اے ملعون! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ دخترانِ رسول کو اس منظرِ عام میں لا کر خوشی مناتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ساتھ کوئی مددگار نہیں جو ہماری اعانت وحمایت

 کرے۔ پھر آپ کمال مایوسی کی حالت میں فرماتی ہیں:۔ ایسے خبیث الاصل سے رقت قلب اور رحم کی کیا اُمید ہو سکتی ہے جو ابتداء سے ہی ازکیاء کے جگر چبانے

 کے عادی ہیں اور جن کا گوشت خونِ شہداء بہانے کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور ہماری طرف بغض وکینہ کی نگاہ سے دیکھنے والا ہماری عداوت میں کیوں کر کوتاہی کر

 سکتا ہے پھر تُو اے خبیث ربیع بدری کے اشعار پڑھ کر یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ اگر میرے گذشتہ آباؤ اجداد موجود ہوتے تو میرے اس فعل پر مرحبا کے

 نعرے بلند کرتے ہوئے دعا دیتے کہ اے یزید تیرے دونوں ہاتھ کبھی شل نہ ہوں حالانکہ اے خبیث تُو اس مقام پر چھڑی مار رہا ہے جہاں رسول بوسے دیتے

 ہوئے تھکتے نہ تھے۔

اے ملعون تُو کس طرح یہ نہ کہے حالانکہ تُو ایسا ظالم ہے کہ جس نے درد رسیدہ زخموں کو دوبارہ تراش دیا ہے اور آلِ محمد جو نجوم ارض تھے اُن کے خون بہانے کے

 باعث تُو نے قبر میں لے جانے والے زخم ڈال دئیے ہیں۔ اے ملعون تپو نے اپنے آباؤ اجداد کو خوشی کے باعث پکارا ہے، یقینا تُو بھی اُن کی طرح جہنم میں

 جاگزیں ہو گا۔ اس وقت تُو یہ خواہش کرے گا کہ دُنیا میں میرے ہاتھ پاؤں شل ہوتے کہ کسی پر ظلم نہ کر سکتا اور گونگا ہی ہوتا کہ کسی کو لسانی تکلیف نہ دیتا اور جو

 کچھ دنیا میں کِیا ہے نہ کِیا ہوتا۔ پھر فرماتی ہیں: اللّٰھُم خذبحقنا وانتقم من ظالمنا خدایا ہمارے شہداء کا انتقام اور ہمارے حق کا بدلہ تیرے ذمّہ ہے۔ …… (پھر فرماتی

 ہیں) اے ملعون! یاد رکھ یہ تُو نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اپنے چمڑے اور گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ کیونکہ عنقریب تجھے اس کے بدلہ سے دوچار ہونا

 پڑے گا۔ اور تُو لازمی طور پر رسول اللہ کے سامنے ان جرموں کا حامل ہو کر پیش ہو گا۔ اور ہمارے جن اشخاص کو تُو نے قتل کرایا ہے انہیں مردہ مت گمان کر

 کیونکہ شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں اور تجھ سے اس دن انتقام لیا جائے گا جس دن خدا کے سوا کسی کی حکومت نہ ہو گی اور رسول اللہ تیرے خصم اور مدمقابل ہوں

 گے۔ اور جبریل ان کے مددگار اور ناصر ہوں گے۔ اور تیرے مددگاروں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ ظالمین کی عافیت کیسی ہوتی ہے اور کون سی جماعت نے فتح

 پائی۔ اور کس جماعت کو شکست نصیب ہوئی اور اے ملعون تیرے ساتھ ہمکلامی کے سبب چاہے جتنے مصائب نازل کر دئیے جائیں۔ میں تیری ذلت طبع اور

 گمراہی کے اظہار سے باز نہ آؤں گی اور تیرے سامنے حق ضرور بیان کروں گی۔اور بی زینب کے آتشیں خطبا ت نے بہت جلد سانحہ ء کربلا کو انقلاب کر بلا میں

 بدل کربنی اُمیّہ کے تخت کی بنیادیں ہلا کر اسے تاراج کر دیا

 



یاد آو گے بھیّا

 بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيم
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
اللّهُمّ كُنْ لِوَلِيّكَ الحُجّةِ ابْنِ الحَسَنِ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَعَلَى آبَائِهِ
فِي هذِهِ السَّاعَةِ وَفي كُلّ سَاعَةٍ وَلِيّاً وَحَافِظاً وَقَائِداً وَنَاصِراً
وَدَلِيلاً وَعَيْناًحَتَّى تُسْكِنَهُ أَرْضَكَ طَوْعاًوَتُمَتّعَهُ فِيهَا طَوِيلاً

 .,ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب  صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی

 انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد

 سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت

 کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام

 اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد

 کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل

 کرنے چلا ہئے  ,

جناب زینب کی تنبیہ وہ بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے

 لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ تاکہ حسین کا بیمار اور باقی سب بھی جل راکھ ہو جائیں اور بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری

 میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو چھوڑ


 کر جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی

 ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر

 سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی ایسے وقت میں بی بی

 زینب سیّد سجّاد کو خیمے میں چھوڑ کر چھوٹے بچّوں کوایک جگہ جمع کرنے کے لئےجیسے ہی سیّد سجّاد کے خیمے سے باہرآ  کر بچّون کی

 جانب متوجّہ ہوئیں ویسے ہی شمر لعیں اور اس کے ساتھیوں نے بیمار کربلا کے خیمے کو آگ لگا دی اور پھر بی بی زینب سب کو چھوڑ کر

 وارث امامت کی جان بچانے کے لئے بھڑکتے اورآگ اگلتے شعلوں کی پروا نا کرتے ہوئے بیمار کربلا کےخیمے میں داخل ہو کر

 جناب سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر اٹھا کرجلتے ہوئے خیمے سے باہر لےآ ئیں اور اپنے وارث امامت بھتیجے کو صحرائے کربلا کی گرم ریت

 پر لٹا دیا

 اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم

 ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود  یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات

 پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل

 مقصود تک ضرور پہنچا دے ،وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح

 کے اجالے پھیل رہئے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ

 بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے

 ہوئے  گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا

 تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر

 پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ

 کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔

  قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی

 ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں

 میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی

 لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں

 ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے

 رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  فوج اشقیاء کے حکم سے  پس گردن بندھوائے  ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ

 علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک

 دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ

( آپ ) کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے

 حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس

 طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے

 تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر

 پڑی

 آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا

لخت دل رباب ششماہے علی اصغر

 

 

لخت دل رباب ششماہے علی اصغر

کربلا کے سب نے ننھے شہید علی اصغر نے بہ حیثیت غنچہء نوروزگلستان نبوّت کے باغیچہ ء امامت میں د س رجب المرجب سنہ

 ساٹھ ہجری کو آنکھ کھولی ۔ آپ کی والدہ گرامی حضرت اُمّ  رباب سلام اللہ علیہا تھیں جن کے والد کا نام امرا لقیس تھا۔ سفر کربلا

 کے آغاز کے وقت آپ کی عمر محض سولہ دن تھی- جو کربلا پہنچتے'پہنچتے چھ مہینہ ہو گئ تھی

آپ کو علی اصغر، طفل صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، باب الحوائج، طفل رضیع کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔۔حضرت علی اصغر

 علیہ السلام کربلا کے ایک درخشاں چہرے، مظلومیت کی سب سے مظلوم سند اور شہادت کا معتبر ترین زاویہ ہیں۔ تاریخ نے آپ

 سے زیادہ مظلوم شہادت کسی کی بھی نہیں دیکھی۔

زیارت ناحیہ میں آپ کے لیے آیا ہے۔السلام علي عبدالله بن‏الحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء،

 المذبوح ‏بالسهم في حجر ابيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الاسدي‏۔    حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے علی اکبرؓ بھی جب شہید

 ہو گئے تو حضرت امامؓ نے اہل بیت کو تسلی و تشفی دے کر خود میدان میں آنے کا ارادہ کیا، ایک بار خیمہ سے رونے کی آواز سنی

، آپ خیمہ کی طرف پھرے اور حال دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ طفل شیر خوار حضرت علی اصغر پیاس سے بے چین ہیں۔ چھ 

مہینے کی عمر میں یہ مصیبت کہ تین دن سے بھوک اور پیاسے ہیں، زبان منہ کے باہر نکل پڑی ہے،

مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں، حضرت امام نے فرمایا: علی اصغر کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت زینبؓ لے کر آئیں، آپؓ نے علی اصغر

 کو گود میں لیا اور میدان میں ظالموں کے سامنے لا کر فرمایا۔ ’’اے قوم! تمہارے نزدیک اگر مجرم ہوں تو میں ہوں، مگر یہ میرا

 ننھا بچہ تو بے گناہ ہے، خدارا ترس کھاؤ اور اس میرے ننھے مسافر سید بیکس مظلوم کو تو چلو بھر پانی پلا دو۔ اے قوم! آج جو میرے

 اس ننھے مسافر کو پانی پلائے گا میرا وعدہ ہے کہ میں اسے حوض کوثر پیر سیراب کروں گا۔‘‘ حضرت امام حسینؓ کی یہ درد ناک

 تقریر سن کر بھی ان ظالموں کا دل نہ پسیجا اور ایک ظالم حرملا ابن کاہل نے ایک ایسا تیر مارا جو حضرت امام کی بغل سے نکل گیا آہ

 ایک فوارہ خون کا اس ننھے شہید کے حلق سے چلنے لگا اور ننھے شہید کی آنکھیں اپنے والد کے چہرے کی طرف تکتی کی تکتی رہ گئیں

 اور امام نے بے قرار ہو کر اپنی زبان انور ننھے کے منہ میں ڈال دی اور ننھے سید نے وہیں اپنے ابا کی گود میں شہادت پا لی اور آپ اس

 کی ننھی سی لاش مبارک لے کر خیمہ میں آئے اور ماں کی گود میں دے کر فرمایا: لو علی اصغر بھی حوض کوثر سے سیراب ہو گئے اس

 ننھی نعش کو دیکھ کر اہل بیت بے قرار ہو گئے اور حضرت امام حسینؓ کی مبارک آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے

 ۔ آپ کو عاشور کے دن آپ کے والد گرامی کی آغوش میں حرملہ نے اس وقت تیر مارا جب وہ آپ کی تشنگی بجھانے کے لیے پانی

 کا تقاضا کر رہے تھے۔ امام عالی مقام نے آپ کے معصوم سے جسد کو خیمہ گاہ کے نزدیک قبر کھود کر سپرد خاک کر دیا۔جنگ ختم

 ہوئی تو  لشکر کے امیر نے شہیدوں کے سر گنے۔ وہ اکہتر تھے۔ اس نے پوچھا، ایک سر کم کیوں ہے۔ایک سیاہ بخت نے جواب دیا

 اسے دفن کر دیا گیا سپاہ یزیدکے امیر نے ھکم دیا قبر ہر حال میں ڈھونڈو ,,,یذیدی سپا ہ نے زمین میں نیزے کی انی جگہ جگہ مار کر

 دیکھا کہیں زمین نرم ملے تو وہ حسینی سپاہ کے  نننّھے شہید کو نکال کر سر کاٹ سکیں بالآخر جلے ہوئے خیال اہلبیت کی پشت پر ایک

 جگہ زمین نر م ملی تووہیں خدا کی لعنت کردہ سپاہ یذید نےنیزہ مار کر ننھے شہید کا سر کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا گیا اور سر بریدہ جسم مبارک

 کو تپتی ریت پر پھینک دیا   -

میرے مظلوم مولا امام حسین فرماتے ہیں کربلا کے تمام مجاہد ایک بار شہید کیے گئے، لیکن میرے معصوم لخت جگرعلی اصغر کو دو بار شہید کیا گیا۔

بدھ، 3 اگست، 2022

لخت جگر حسین' شبیہ پیمبر علی اکبر

 

بعد از وصال نبی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم اکثر بہت مغموم و محزون رہا کرتے تھے کہ خداوند عالم نے فرزند نبی اما م حسین

 علیہ السّلام کے گھر میں ' شبیہ رسول کو بھیج کر سب کے دلوں کو قرار عطا کر دیا -باغ نبوّت کے اس غنچہء نوروز نے شعبان المعظم

 کی ۱۱ تاریخ کو صحن نبوّت  میں  آنکھ کھولی اور علی اکبر کا نام لوح محفوظ سے آیا 

۔ آپ کی والدہ گرامی لیلی بنت ابی مرّہ بن عروۃ بن مسعود ثقفی ہیں -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں

 سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے مشابہ تھے، آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے

 تھے اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار

 کرتے تھے-

آپ عالم، پرہیزگار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت

 نامہ میں وارد ہوا ہے:"سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست ... کتنا عظیم

 ہے آپ کا مقام اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی

 مجاہدت کی قدردانی کی اور اجر عظیم  میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔

جیسا کہ اس نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر

 طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے"۔

علی اکبر  علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات

 کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کےلیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع

 " انا للہ و انا الیہ راجعون " جاری تھا۔

جناب علی اکبر  علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ

 کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے!! جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا!

کہا: جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔

سپاہ حسين علیہ السلام میں صبح  عا شورکا منظر

ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے

 دعا کی :'' اللّٰھم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من ھم یضعّف فیہ الفؤاد ، و

 تقلّ فیہ الحیلة ، و یخذل فیہ الصدیق ویشمت فیہ العدوّ، أنزلتہ بک و شکوتہ الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجتہ ، و کشفتہ ، فأنت ولّ

 کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتھی کل رغبة''خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ

 مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل

 کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں 

 میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں  -

ازان علی اکبر روز عاشورہ

تمام رات خیام اہلبیت میں مطہرات کربلا اور جاں نثاران امام عالی مقام شب بیداری اور تسبیح و تحلیل میں مصروف رہے اور جب

 فجر کے وقت امام عالی مقام نے حضرت علی اکبر سے فرمایا بیٹا ازان فجر دو -ادھر ازان مکمّل ہوئ ادھر اللہ قادروقدیر کی جماعت

 ریت کے مصلّے پر نماز کے لئے کھڑی ہو گئ-

امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق، جناب علی اکبر علیہ السلام کی قبر امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پائینی طرف

 ہے۔ زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر  علیہ السلام  کی زیارت کا ایک فراز یہ ہیں:« السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ

 مِنْ سُلالَةِ ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام » سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے۔

علامه ابوالفرج اصفہانی نے حضرت امام محمد باقر علیه السلام کی اسناد سے لکها ہے کہ شہید اول حضرت علی اکبر ہیں اور زیارت ناحی

ہ میں بهی امام آخر الزمان ؑنے اول قتیل کہ کر سلام کیا ہے : السلام علیک یا اول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالۃ ابراهیم الخلیل،

 میرا سلام ہو اس شہید پر جو نسل ابراہیمی میں سب سے پہلے شہید ہوا اس سے واضح ہوتا ہے کہ مظلوم کربلا نے سب سے پہلے اپنے

 ہی لخت جگر کو قربان کیا تاکہ  دوسروں کے لیے حجت قرارپائے ۔



بعد عاشور جو گزری آل نبی پر

قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے 
اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ فوج اشقیاء کے حکم سے پس گردن بندھوائے ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،، اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ قیدی) سیّد سجّاد علیہ السّلام (اپنے قافلے کی مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،

،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا نےخیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا

 امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہئے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی پھو پھی کی جانب جلدی سے آگئے اور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہئے ،،اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنے بابا حسین کے حسینی مشن کی تکمیل کے لئے تیّار ہو جاؤ - تمھیں یاد ہوگا کہ بھائ حسین نے کہا تھا کربلا کے دو حصّے ہون گے ایک حصّے کی تکمیل کے لئے ان کی شہادت کی ضرورت ہو گی اور دوسرے حصّے کی تکمیل ہمیں کرنی ہوگی بھائ حسین شہادت کی اولٰی و اعلٰی منزل پر پہنچ کر اپنا فریضہ ادا کر کے جاچکے ہیں اب کربلا کی تکمیل کا دوسرا حصّہ شروع ہوا ہئے جس کے مکمّل کرنے کےلئے ہماری باری ہئے
 
اپنی چاہنے والی پھوپھی کی زبان سے یہ باتین سن کر جناب سیّد سجّاد نے اپنی لہو روتی آنکھیں صاف کیں اور اپنے بابا کو سلام آخر کیا ،اسّلام علیک یا ابا عبداللہ،پھر انتہائ پیارے چچا کو مخاطب کیا پیارے چچا الوداعی سلام لیجئے،،پھر بھائیوں سے مخاطب ہوئے اے میرے کڑیل جوا ن بھائ علی اکبر ننھا علی اصغر بھی تمھارے ساتھ ہئے,, پیارے چچامسلم کے بیٹون ,,،میری چاہنے والی پھوپھی کے بیٹون ,,،میرا سلام لو ،،،ائے ہمارے بابا کے انصاران باوفا خداحافظ,مقتل میں اپنے تمام شہید پیاروں کو الوداعی سلام کرکے جناب سیّد سجّاد نےپھر ایک بار قافلہ سالاری کے لئے اونٹوں کی مہار تھام لی, اور اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتی بیبیوں کا قافلہ جانب کوفہ اس طرح سے ہنکا یا گیا کہ کربلا سے کوفے تک ستّاون میل کا فاصلہ جو عام کیفیت میں اونٹ ڈھائ سے تین دن میں طے کرتے تھے انہوں نے تیز تیز ہنکائے جانے کے باعث صرف ایک دن میں طے کیا,اس طویل اور اندوہ گیں سفر کےدوران اونٹوں پر سوار ننھے بچّو ن کو اس بیدردی سے ہنکائے جانے کے سبب کربلا سے کوفے تک لاتعداد بچّے اونٹون سے گر ،گر کر شہید ہوتے رہے ،

اگرکسی گر جانے والے بچّے پر بی بی زینب کی نظر پڑ جاتی تھی تو بی بی زینب اپنے آپ کو خود اونٹ سے گرادیتی تھیں اس طرح فوج اشقیاء کے کہنے سےدوڑتے ہوئے اونٹ زبردستی روکے جاتے تھے ،ورنہ بچہ اونٹ کے پیروں تلے آکر کچل کر شہید ہو جاتا تھا بالآخر شہر کوفہ جب چند کوس کے فاصلے پر رہ گیا اس وقت عمر بن سعد نے آل اطہار کے لٹے ہوئے قافلے اور فوج اشقیاء کو وہیں ٹہرنے کا حکم دیا کہ ابھی خوشیاں منانے کے لئے شہر کی آئینہ بندی ہو رہی تھی

منگل، 2 اگست، 2022

الوداع فاطمہ صغرا الوداع

روایت میں منقول ہے کہ ایک رات جب امام حسین علیہ السلام مسجد نبوی میں بعد نماز عشاء تعقیبات میں مشغول تھے  اتنے میں قاصد حاکم مدینہ کا  پروانہ لے کر آیا امام عالی مقام نے قاصد سے کہا میں تعقیبات  ختم کر کے آتا ہوں قاصد واپس تو گیا لیکن زراسی دیر میں پھر واپس آ گیا اور حاکم مدینہ کا حکم نامہ دہرایا امام عالی مقام قاصد کے تیسری مرتبہ آنے پر مسجد نبوی سے اپنے کاشانے تشریف لائے اور زینب سلام اللہ علیہا سے کہا بہن مجھے نا نا کا عمامہ اور عبا لادو تو بی بی زینب نے گھبرا کربھائ کا بازو تھام لیا اور بے چین ہوکر کہا بھائ مجھے ان لوگو ں کا اعتبار نہیں ہئے ،ہاشمی جوان آ پ کے ہمراہ جائیں گے میں آپ کو تنہا تو ہرگز نہیں جانے دوں گی ,پھر بی بی زینب نے اپنے ہاتھوں سے امام عالی مقام کو عمامہ اورعبا زیب تن کروائ اورعصا دست مبارک میں دیا ، امام عالی مقام گورنر مدینہ کے دربار میں جوانان بنی ہاشم ,علی اکبر و جناب عبّاس ،مسلم ابن عقیل ،جناب قاسم ،عون محمّد کے جلو میں دار الامّارہ پہنچے امام عالی مقام نے جوانان بنی ہاشم کو دربار کے باہرقیام کرنے کو کہا اور پھر فرمایا اگر دربار سے میری آواز بلند ہو تو فی الفور اندر آجانا 
میں جب دارلامّارہ پہنچا تو وہاں ولید بن عتبہ نے فرما ن یزید پڑھ کر اما م عالی مقام کو آگاہ کیا کہ یا تو امام عالی مقام یزید کی بیعت کر لیں ورنہ امام کا سر کاٹ کر یزید کے روبرو پیش کیا جائے ,اما م عالی مقام نے ولید بن عتبہ کو جواب دیا کہ جب مجمع عام میں اپنے خلیفہ کی وفات کا اعلان کر کے یذید کی خلافت کا اعلان کرو گے تب مجھ سے یہ سوال کرنا ،ابھی تمھارا یہ تقاضہ بے وقت ہئے ،پھر امام علیہ السّلام نے بی بی زینب سے فرمایا کہ دربار سے میری واپسی کے وقت میں نے مروان بن الحکم کی آواز سنی کہ ائے ولید کیا کرتا ہئے ،،،حسین دارلامّارہ سے ہرگزجانے نا پائیں جب تک یذید کی بیعت نا کر لیں یہی وقت ہے حسین کو گرفتار کرلے یا قتل کردے ،،اس وقت میں نے دربار میں للکار کر کہا ،کسی کی کیا مجال ہئے جو مجھے قتل کر سکے ،اور اس کے ساتھ جوانان بنی ہاشم دربار میں اپنی تلواریں بے نیام کر کے داخل ہوئے لیکن امام عالی مقام نے جوانان بنی ہاشم سے فرمایا تلواریں نیام میں رکھ لو ہم لڑنے نہیں آئے ہیں اور آپ بیت الشّرف واپس تشریف لائے
 دار لامّارہ سے امام عالی مقام کی واپسی تک جناب زینب سلام اللہ علیہا کاشانہ اما م عالی مقام کے دروازے کےقریب ہی منتظر رہیں-اور جیسے اما م عالی مقام واپس تشریف لائے آپ اما م علیہالسّلام کے نزدیک آ گئیں اور آپ علیہ السّلام سے سوال کیا بھائ ولید کیا کہتا ہئے توامام عالی مقام نے بی بی زینب کو بتایا  پھر اما م نے فرمایا کہ ہم خاندان رسالت کے لوگ ہیں ،ہم رحمت الٰہی کےخزینے ہیں ،ہمارا گھر ملائکہ کا مسکن ہئے،،اور یذ ید ایک فاسق و فاجر شخص ہئے جس کی بدکاری زمانے پر آشکار ہئے ،میں اس بدکار شخص کی بیعت ہرگز نہیں کروں گا -
،پھر آپ علیہ السّلام نے جناب عبّاس کو طلب کیا اور جناب عبّاس علیہ السّلام سے فرمایا کہ کوچ کا سامان کرو اب مدینہ ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا- اس منزل پر جناب زینب سلام اللہ علیہا نے امام حسین سے فرمایا کہ خدا کے نازل کردہ بہترین دین کی حفاظت کے لئے آپ اپنی بہن زینب کو اپنے شانہ باشانہ پائیں گے ،اور پھربالآخر قافلہ کی روانگی کی گھڑی آن پہنچی -محلّہ بنو ہاشم میں قناتیں لگا دی گئیں تاکہ عماریوں پر بیٹھتی ہوئ بیبیوں کی بے پردگی نا ہونے پائے اور امام عالی مقام گھر کے صدر دروازے پر کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور ہر سوار ہونے والے کی ہمّت افزائ کرتے رہے-لیکن آپ علیہ السّلام نے بی بی سغرا سے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ وہ بھی قافلہ کے ساتھ چلیں-
 بی بی صغرا نے یہ ماجرا دیکھا تو ایک ایک فرد کی ہمراہی میں امام حسین علیہ السّلام سے قافلہ کے ساتھ چلنے کی اجازت چاہی-لیکن آقا ہر ایک سے کہتے رہے کہ عماریوں میں جگہ نہیں ہے- پھر سب سے آخر میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا بی بی صغرا سے رخصت کے لئے آئیں تو بی بی صغرا نے بی بی زینب کی عبایا کا دامن تھام لیا اور کہنے لگیں پھوپھی امّی بابا جان آپ کی بات کبھی نہیں ٹالتے ہیں آپ بابا جان سے کہئے وہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں - چنانچہ بی بی زینب سلام للہ علیہا نے بی بی صغرا کا ہاتھ تھام لیا اور آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السّلام کی جانب بڑھنے لگیں امام حسین علیہ السّلام نے جیسے ہی بی بی زینب کو دیکھا آپ علیہ السّلام نے فرمایا زینب وہیں ٹہر جاو- صغرا کو میرے باس مت لانا اور امام حسین علیہ السّلام نے سر جھکا لیا 
اور بی بی صغرا سلام اللہ علیہا روتی ہوئ اپنے حجرے میں جاکر بیٹھ گئیں -بی بی زینب سلام اللہعلیہا تب حضرت امام حسین علیہ السّلام کے پاس آئیں اور انہوں نے آپ علیہ السّلام سے دریافت کیا کہ بی بی صغرا کو ساتھ لے جانے میں کیا امر مانع ہے-امام عالی مقام نے فرمایا زینب میری ہر اولاد میرے کسی نا کسی سلف پر گئ ہے اور میری یہ بیٹی میری ماں کے فاطمہ زہرا سے مشابہ ہے میں نہیں چاہتا ہوں کہ روز عاشورہ میری ماں کا چہرہ مجمع اغیارمیں بے پردہ ہو اور پھر قافلہ مدینہ سے کوچ کر گیا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر