بعد از وصال نبی حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّلم اکثر بہت مغموم و محزون رہا کرتے تھے کہ خداوند عالم نے فرزند نبی اما م حسین
علیہ السّلام کے گھر میں ' شبیہ رسول کو بھیج کر سب کے دلوں کو قرار عطا کر دیا -باغ نبوّت کے اس غنچہء نوروز نے شعبان المعظم
کی ۱۱ تاریخ کو صحن نبوّت میں
آنکھ کھولی اور علی اکبر کا نام لوح محفوظ سے آیا
۔ آپ کی والدہ گرامی لیلی بنت ابی مرّہ بن عروۃ بن مسعود ثقفی ہیں -علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں
سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے مشابہ تھے، آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے
تھے اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار
کرتے تھے-
آپ عالم، پرہیزگار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت
نامہ میں وارد ہوا ہے:"سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست ... کتنا عظیم
ہے آپ کا مقام اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی
مجاہدت کی قدردانی کی اور اجر عظیم میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔
جیسا کہ اس نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر
طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے"۔
علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات
کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کےلیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع
" انا للہ و انا الیہ راجعون " جاری تھا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ
کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے!! جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا!
کہا: جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں
مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔
سپاہ حسين علیہ السلام میں صبح عا شورکا منظر
ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے
دعا کی :'' اللّٰھم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من ھم یضعّف فیہ الفؤاد ، و
تقلّ فیہ الحیلة ، و یخذل فیہ الصدیق ویشمت فیہ العدوّ، أنزلتہ بک و شکوتہ الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجتہ ، و کشفتہ ، فأنت ولّ
کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتھی کل رغبة''خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ
مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل
کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں
میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں -
ازان علی اکبر روز عاشورہ
تمام رات خیام اہلبیت میں مطہرات کربلا اور جاں نثاران امام عالی مقام شب بیداری اور تسبیح و تحلیل میں مصروف رہے اور جب
فجر کے وقت امام عالی مقام نے حضرت علی اکبر سے فرمایا بیٹا ازان فجر دو -ادھر ازان مکمّل ہوئ ادھر اللہ قادروقدیر کی جماعت
ریت کے مصلّے پر نماز کے لئے
کھڑی ہو گئ-
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق، جناب علی اکبر علیہ السلام کی قبر امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پائینی طرف
ہے۔ زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کا ایک فراز یہ ہیں:« السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ
مِنْ سُلالَةِ
ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام » سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی
بہترین ذریت میں سے۔
علامه ابوالفرج اصفہانی نے حضرت امام محمد باقر علیه السلام کی اسناد سے لکها ہے کہ شہید اول حضرت علی اکبر ہیں اور زیارت ناحی
ہ میں بهی امام آخر الزمان ؑنے اول قتیل کہ کر سلام کیا ہے : السلام علیک یا اول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالۃ ابراهیم الخلیل،
میرا سلام ہو اس شہید پر جو نسل ابراہیمی میں سب سے پہلے شہید ہوا اس سے واضح ہوتا ہے کہ مظلوم کربلا نے سب سے پہلے اپنے
ہی لخت جگر کو قربان کیا تاکہ دوسروں کے لیے حجت قرارپائے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں