اتوار، 27 اکتوبر، 2024

میرا تعارف-زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

 

میرا تعارف

نحمدہ  ونصلّٰی علٰی  رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین

جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان 

 عمر  عزیز پاکستان  جتنی 

پاکستان  کی معزّز قوموں میں  معتوب قوم مہاجر  سے تعلّق ،

 میں سب سے پہلے اللہ کریم رحمٰن و رحیم , کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین مر حومین کی بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے   قرطاس وقلم کی اہمیت سےروشنا س کیا,اور زندگی کے لق ودق صحرا میں پیش آنے والی  اونچ نیچ سمجھائ ,,مشکلات کی کٹھن گھڑیوں میں  صبر اور نماز سے مدد کی  نصیحت کی  اور زندگی کے ہر ہر قدم پر میری رہنمائ کی  ان ہستیوں کے ہمراہ اپنےمحترم علم دوست شوہر  کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جن کی قریب قر یب بیالیس سالہ رفاقت میں مجھے ا ن کے آ  نگن میں سائبا ن  عِلم نصیب ہواہجرت , جون انیس سو  انچاس بوجوہ سقوط حیدرآباد دکن کے بعد وہاں کے قتل عام سے بچنے کے بعد بعد از ہجرت تمام عمر اپنے پیارے محبوب وطن پاکستان کے قلب کراچی میں بسر ہوئ 

 اب میں قارئین کو اپنا خاندانی پس منظر بتانا چاہوں گی 

میری والدہ اور والد کے اجد ا دسرزمین ہند کے زی وقار اور منفرد تہذیب رکھنےوالے شہر لکھنؤ میں سادات کے سو سالہ دور حکومت  میں ایران سے وارد ہند ہوئے،ان کا شجرہء نسب نجیب الطرفین سادا ت سے ہوتا ہوا چوتھے امام حضرت اما م زین العابدین علیہ السّلام سے جا ملتا تھا اور وہ  ایران کے شاہی دربار سےمنسلک شاہانہ طرز حیات رکھنے والے  لوگ تھے   ان میں ادباء و فضلاء شعراءصاحبان علم وحکمت  تھے  اور جو دربار سے وابستہ نہیں تھے وہ ہیروں اور جواہرات کی تجارت کرنے والے ملک التّجار تھے چنانچہ ان کی لکھنؤ میں آمد پر شاہی دربار میں بھی ان کی خاص پذیرائ ہوئ اور یہ یہاں بھی شاہی دربار سے ہی وابستہ ہوئےان کی امارت کا یہ عالم تھا کہ جب میری والدہ شادی ہو کر حیدرآباد دکن آئیں اسوقت ان کا جہیز ریل کی دو بوگیاں ریزرو کر کے لایا گیا ،میری والدہ کے شادی کے جوڑے سونے کے تاروں اور ریشم کی آمیزش سے تیّار کئے گئے تھے جنہیں زربفت اور کمخواب  کہتے تھے ( ہجرت نے ہماری والدہ کواور ہم کو اس الغاروں سامان  سے فیضیاب ہونے کی مہلت نہیں دی اور سب کچھ بھرا گھر چھوڑ کر جان بچانے کو گھر سے نکل آ ئےامارت کے باوجود ہمارے خاندان میں علم و ادب کے شیدا ئیو ں میں  خواتین کا بھی علم سے  وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں جب ہند وستان میں عورت کی تعلیم ایک جرم سمجھی جاتی تھی یہ لوگ اپنے گھر کی بچّیوں کی تعلیم پر بھی بھرپور توجّہ دیتے تھے  مجھے میری نانی جان نے بتایا تھا کہ سن انّیس سو تیس میں جب میری والدہ پانچ برس کی ہوئیں تب ان کو پڑھانے کے لئے ایک بزرگ استاد گھر پر رکھّے گئے اور میری والدہ نے اپنے استاد محترم سے فارسی عربی اردو اور انگلش کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کا داخلہ بھی ایک مسلم اسکول میں اسی عمر میں کروادیا گیا ،، صبح آٹھ بجے ان کی ڈیوڑھی پر پردے لگا ہوا یکّہ آکر رکتا تھا اور اس طرح اسکول جاتے ہوئے میری والدہ نے غیر منقسم ہندوستان میں ہی مڈل کلاس پاس کرلی تھی  اور ہمارے گھرانے کی خواتین بھی علم وادب کی دلدادہ تھیں    ہجرت  کی درماندگی کے باوجود میں نے اپنے گھر کے آنگن میں ادبی محفلیں سجتی ہوئ دیکھیں 

میری والدہ کے  قبلہ محترم رئیس امروہوی صا حب  سے  گھریلو مراسم تھے ،جبکہ  محترم سجّاد ظہیر صاح کے گھر ا نے سے  بھی والدہ کے ہمراہ آنا جانا لگا رہتا تھامیری والدہ صاحبہ کے  یہ خا ندانی  مراسم تقسیم ہند سے پہلے لکھنؤ سے ہی چلے آرہے تھے جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری والدہ محترمہ کا تعلّق لکھنؤ کے سادات سے تھا جبکہ والد بھی یوپی کے سادات کے اہم خانوادے سادات نو گانواں میں عابدی سادات کےجیّد علمائے دین کے قبیلے  سے تعلعق رکھتے تھے ،میرے محترم دادا جان جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی دور حکومت میں اپنا آبائ شہر چھوڑ کر حیدرآباد دکن آئے اور انہون نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کی ،جسے ازاں بعد ہم بھی چھوڑ کر پاکستان آگئے 

میرابچپن

 حالانکہ میرا بچپن عام بچّوں کا بچپن نہیں تھا ،کیونکہ ہجرت کے مصائب نے شائد مجھ کو قبل از وقت ہی بہت کچھ  سوچنے پر مجبور کردیا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ گھر کے اندر کےادبی وتہذیبی ماحول کا اثر مجھ میں خوب اچھّی طرح سرائت کرنے لگا اور میں پرائمری جماعتوں کی تعلیم کے دوران ہی میں ناول بینی کی شوقین ہو گئ با لآخرزمانے کے ان نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ہمارے گھرانے کی علمی صحبتیں برقر ار ہی تھیں اور ان ادبی صحبتوں کارنگ بھی میری زات پر نمایاں ہو نے لگا تھا  اور  مجھے  ا دب سے دلچسپی ہو گئ  میں نے بچپن کے ہی دور میں  نامور ادباء میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ  بیدی عصمت چغتائ ،قرّۃ العین حیدر ،عظیم بیگ چغتا ئ ،را م لعل ساحر لدھیانوی  اور اس وقت کے جو بھی مشہور ادیب اور شاعر تھے  سب کو بار بار  پڑھا اور پھر میرے اندر کی ادیبہ  جاگ اٹھی  اور میں نے  چھٹی کلاس میں ایک نظم اپنے وطن سے محبّت کے اوپرپڑھی یہ ہمارے اسکول کی جانب سے طالبات کا مشاعرہ تھا جو بیگم رعنا لیاقت علی خان کے  فلاحی ادارے  اپوا کے زیر انتظام  بیگم رعنا  لیاقت علی خان کے زیر    صدارت ہوا تھا  میں نے اس مشاعرے میں پاکستان کی آزادی پر نظم پڑھی تھی اور  مجھے مشاعرے کے اختتام پر ایک خوبصورت ڈائری بھی انعام میں ملی تھی 

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر