ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

گولکنڈہ 'باغ ابراہیم میں قطب شاہی سلاطین کے مقابر

 



جنوبی ہندوستان کا  قدیم شہر گولکنڈہ ایک ایسا شہر ہے جس کی تعمیرات اس کو کسی زمانے میں قدیم نہیں ہونے   دیتی ہیں گولکنڈہ کے روشن راستوں  پر چلتے ہوئے ہر قدم پر احساس ہوتا ہے کہ آپ خود اسی دور میں سانس لے رہے ہیں  جس میں گولکنڈہ سانس لے رہا ہے '  قطب شاہی مقابر گولکنڈہ، موجودہ حیدرآباد، دکن، بھارت میں واقع قطب شاہی سلطنت کے حکمرانوں کے مقابر ہیں۔ اِن مقابر کو قطب شاہی سلطنت کے طرزِ تعمیر کا شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد، دکن، میں یہ مقابر قدیم طرزِ تعمیر اور اسلامی معماری کے امتزاج کا نمونہ ہیں۔ یہ مقابر 1543ء سے 1687ء تک تعمیر کیے جاتے رہے۔ قطب شاہی سلطنت کے چھ حکمران یہیں مدفون ہیں۔  درجنوں تاریخی مساجد میں مکہ مسجد سے مشابہت رکھنے والی قطب شاہی سلطنت کے چوتھے بادشاہ ابراہیم قلی قطب شاہ کی جانب سے سنہ 1550 میں تعمیر کردہ مسجد ابراہیم باغ کا نام بھی قابل ذکر ہے یہ مسجد مکہ مسجد سے 20 کلو میٹر دور قلعہ گولکنڈہ کے قریب واقع ہے لیکن یہ وقف بورڈ اور حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ مسجد ابراہیم باغ زمین سے 200 فٹ اونچائی پر ہے۔ اس مسجد میں بیک وقت ایک ہزار مصلی نماز ادا کرسکتے ہیں۔


موجودہ حیدرآباد، دکن، بھارت میں قلعہ گولکنڈہ کے شمالی دروازے یعنی بنجارا دروازے سے شمال کی جانب موجودہ بڑا بازار روڈ سے گزرتے ہوئے مزید شمال کی جانب چلتے جائیں تو 1.8 کلومیٹر کے فاصلہ پر قطب شاہی مقابر کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ پیدل چلنے پر یہ راستہ 10-12 منٹ کی مسافت کا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ مقام ابراہیم باغ کہلاتا ہے۔ شارع بڑا بازار سے شمال مشرق کی جانب داخل ہوں تو یہ سڑک شارع سات مقبرہ (Seven Tombs Road) کہلاتی ہے۔قلعہ گولکنڈہ سے دیکھنے پر یہ مقابر نظر آتے ہیں۔یہ مقبرے ایک ہموار سطح زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ مقبروں کی عمارت ایک بلندپختہ  اینٹوں  کے چبوتروں سے شروع ہوتی ہے۔ عمارت مربع چوکور نما ہے جن پر درمیان میں ایک گنبد کلاں مدور شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ گنبد اولاً نیلی اور سبز رنگ کی کاشی کار ٹائیلوں سے مزین تھے مگر امتدادِ زمانہ کے باعث اب صرف   پختہ اینٹوں  اور چونے کے رنگ کے باعث دیکھنے میں سیاہ نظر آتے ہیں۔



 تمام مقابر کی عمارات پرگنبدِ کلاں کے ساتھ چار  چھوٹے  گنبد  نما مینار تعمیر کیے گئے ہیں جو کم بلند ہیں۔ عمارت   پر سیاہ مرمر لگایا گیا ہے جو زمانہ دراز گزرنے پر بھی سیاہی مائل دکھائی دیتا ہے اور اِس رنگ میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔عمارات میں سرخ پتھر کو بطور اینٹ کے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ عمارات بیک وقت ہندوستانی اور اسلامی معماری کا امتزاج دکھائی دیتی ہیں۔ مقبروں کی عمارات کے ساتھ خوشنماء باغ لگائے گئے تھے۔ 2015ء میں ان باغات کی بحالی و مرمت کا کام کیا گیا ہے۔یہ مقام پہلی بار بطور شاہی قبرستان کے 1543ء میں اختیار کیا گیا جب سلطان قطب شاہی سلطنت قلی قطب الملک کا انتقال ہوا۔ قلی قطب الملک کے مقبرے کا زمینی چبوترا چہار جانب سے 30 میٹر بلند ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو ہے اور مقبرے کی ہر دیوار کی چوڑائی 10 میٹر ہے۔ مقبرہ پر ایک  راؤنڈشکل گنبد  ہے جو دور سے دیکھنے پر تاجِ شاہی نظر آتا ہے۔ اِس مقبرہ کے اندرونی جانب میں تین قبور اور بیرونی جانب 21 قبور ہیں۔ مقبرہ کا کتبہ شاہی خط ثلث، خط نسخ میں کندہ کیا گیا ہے۔ اِس کتبہ میں قلی قطب الملک کو بڑے مالک لکھا گیا ہے جو دکن کی عوام اُنہیں پکارا کرتی تھی۔



یہ مقبرہ 1543ء کے اواخر تک مکمل ہوگیا تھا۔اس سرزمین کو سب سے پہلے حضرت بابا شرف الدین 585۔687ھ) نے اپنے بابرکت قدموں سے تقدس اور وقار عطا کیا۔ آپ اپنے مرشد شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کی ہدایت پر عراق سے ہندوستان تشریف لائے اور نوبرس تک یہاں کے مختلف شہروں میں قیام کرنے کے بعد قطب شاہی سلطنت کے قیام سے پہلے654ھ میں دکن پہنچے(3)۔ حضرت بابا شرف الدین کے ساتھ آپ کے دوبھائیوں بابا شہاب الدین اور بابا فخرالدین کے علاوہ ستّر مریدین بھی شامل تھے۔ آپ نے اپنے قیام کے لیے ایک بلند پہاڑی کا انتخاب فرمایا تھا جو آج بھی آپ ہی کے نام سے موسوم ہے۔ حضرت باباشرف الدین نے کم وبیش37 سال تک باشندگانِ دکن کو اپنے روحانی فیض سے مالا مال کیا۔ آج بھی آپ کا آستانۂ مبارک حیدرآباد اور اس کے اطراف واکناف کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی زیارت گاہ بناہوا ہے۔قطب شاہی گنبد- قطب شاہی خاندان ایرانی نژاد تھا اور اس با زوق خاندان  نے  اپنی تعمیرات میں محلات تاریخی یادگاروں اور مقبروں کا جو ورثہ چھوڑا ہے اس پر ایرانی طرز تعمیر کی چھاپ بالکل نمایاں ہے۔ 

جاری ہے

ہاں شعر کا موسم بیت گیا-ابن انشا ء

 

 


انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے CMH   گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات رھ گئی ہے کیوں کہ علاج کافی وقت سے چل رہا تھا ہم کئی بار یہاں آ چکے تھے 

شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی میں اُسے کمرے میں لے آیا 

محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال  آپ کو دے رہی ہوں انشاء جی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں  ٹھیک ہوں خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی تھوڑی دیر بعد انشاء جی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے میرا تو وقت آ گیا ہے اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش وخرم رکھے   میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے  روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ میں اپنے عزیزوں سے مل آؤں جو کہ پنڈی میں رہتے تھے  -میں دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے  رو رو کر سنائی- جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا  اردو ادب میں یہ نظم مجھے بہت پسند ہے میری آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ کم از کم دو مرتبہ اس کو ضرور پڑھنا-میں خود اس نظم کو بار بار گنگناتا رہتا ہوں بہت کمال اور شاہکار ہےانشاء جی پچاس سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے 

 

-اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے-ہے کوئی جو ساہو کار بنے

-ہے کوئی جو دیون ہار بنے-کچھ سال ،مہینے، دن لوگو -پرپر سود بیاج کے بن لوگوہاں اپنی جا ں کے خزانے سے

-ہاں عمر کے توشہ خانے سے-کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟

جب نام ادھار کا آیا ہے

-کیوں سب نے سر کو جھکایا ہےکچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں-جنہیں جاننے والے جانے ہیں

-کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں-کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں-ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس-دس پانچ برس دو چار برس-ہاں ،سود بیا ج بھی دے لیں گے

-ہاں اور خرا ج بھی دے لیں گے-آسان بنے، دشوار بنے-پر کوئی تو دیون ہار بنے-تم کون ہو تمہارا نام کیا ہےکچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے

-کیوں ا س مجمع میں آئی ہو-کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو-یہ کاروبار کی باتیں ہیں-یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں

-ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے-سب عمر کی نقدی ختم کیےگر شعر کے رشتے آئی ہوتب سمجھو جلد جدائی ہو

-اب گیت گیا سنگیت گیا

-ہاں شعر کا موسم بیت گیا-اب پت جھڑ آئی پات گریں-کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں -یہ اپنے یار ---پرانے ہیں -اک عمر سے ہم کو جانے ہیں-ان سب کے پاس ہے مال بہت-

-ہاں عمر کے ماہ و سال بہت

-ان سب کو ہم نے بلایا ہے-اور جھولی کو پھیلایا ہے-تم جاؤ ا ن سے بات کریں

-ہم تم سے نا ملاقات کریں-کیا پانچ برس ؟

کیا عمر ا پنی کے پانچ برس ؟تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟جب عمر کا آ خر آتا ہے

-ہر دن صدیاں بن جاتا ہے-جینے کی ہوس نرالی ہے-ہے کون جو ا س سے خالی ہے

کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟

-تم کو تو بہت کچھ کرنا ہےپھر تم ہو ہماری کون بھلاہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہےکیا سود بیاج کا لالچ ہے ؟

کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛تم جا کر پوری عمر جیویہ پانچ برس،

 یہ چار برس

-چھن جائیں تو لگیں ہزار برس - سب دوست گئے سب یار گئے

                                                                      -               تھے جتنے ساہو کار ، گئے-بس ایک یہ ناری بیٹھی ہےیہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟

ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟

-ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے-جب مانگیں جیون کی گھڑیاںگستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے

کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے-جو ساعت و ماہ و سال نہیں-وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں

لو ا پنے جی میں ا تار لیا

لو ہم نے تم سے ادھار لیا

جمعہ، 12 ستمبر، 2025

التت، وادی ہنزہ میں بالائی کریم آباد پر ایک قدیم ترین قلعہ ہے

 

گلگت بلتستان کا قلعہ  ۔ یہ دراصل ریاست ہنزہ کے آبائی حکمرانوں کا گھر تھا، جن کے نام کے ساتھ میر لگایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں کئی چھوٹی اور خودمختار ریاستیں موجود تھیں، جن میں سے دو ہنزہ اور نگر تھیں۔ یہ دونوں ریاستیں روایتی طور پر ایک دوسرے کی مخالف اور دریائے ہنزہ پر آمنے سامنے واقع تھیں۔ قلعہ التت کو ہنزہ کے میروں (شاہی خاندان) نے گیارہویں صدی میں تعمیر کروایا تھاقلعہ التت...  اس قلعے میں لداخ اور تبتی فن تعمیر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ 900سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود اس قلعے نے اب تک اپنی شان برقرار رکھی ہوئی ہے۔ تاریخ میں قلعہ التت نہ صرف کئی حملوں کو روکنے میں کامیاب رہا بلکہ زلزلوں میں بھی اس نے اپنا وجود قائم رکھا۔ یہ خصوصیت اسے اپنے دور کی حیرت انگیز اور فن تعمیر کا شاہکار بناتی ہے۔شہروں میں رہنے والوں کو شمالی علاقہ جات بالخصوص گلگت بلتستان کی خوبصورتی، پُرفضا مقامات، سکون، طرزِ زندگی اور جغرافیائی خصوصیات ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔


 وادی ہنزہ کا ذکر کریں تو یہاں کے اصل باشندے بروشو کہلاتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سکندر اعظم کے لشکر میں شامل یونانی فوجیوں کی اولادیں ہیں۔ ان کے آبا و اجداد روح کی عبادت کرنے والے یعنی شامانیت مذہب کے پیروکار تھے۔ تاہم، 15ویں صدی میں اس علاقے میں اسلام متعارف کروایا گیا اور 1830ء کے قریب بہت سے لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ التت، وادی ہنزہ کا ایک قدیم گاؤں ہے، جو اپنے قلعے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ التت کے قدیم لوگوں کا تعلق سلطنت فارس کے ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے’ہن‘ سے تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس بستی کا پرانا نام ہنوکوشل تھا، جس کا مطلب ہنوں کا گاؤں ہے۔قلعہ دریائے ہنزہ سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر اونچی پہاڑی پر واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے ایک چٹان کے اوپر چھ مختلف درجوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اسے محل کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن بعد میں ’شکاری مینار‘ تعمیر کرکے اسے قلعے میں تبدیل کر دیا گیا۔


قلعے کے اس واحد مینار کو خصوصی طور پر جنگ کے دوران علاقے کی نگرانی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اتنی اونچائی سے ارد گرد موجود تمام پہاڑوں، چشموں، جنگلوں اور نہروں پر آسانی سے نظر رکھی جاسکتی تھی۔ابتدائی دنوں میں یہ قلعہ اطراف میں آبادی اور تاجروں سے گھرا ہوا تھا۔ تاجر قدیم شاہراہ ریشم کے راستے چین سے داخل ہوتے اور دنیا بھر سے اپنا مال یہاں لاتے تھے جس کی وجہ سے یہ جلد ہی خطے کا ثقافتی مرکز بن گیا۔ التت قلعے کے شکاری مینار پر چڑھ کر نیچے دیکھنے اور قلعے میں گھومتے ہوئے قدیم طرزِ زندگی کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔ اس عظیم قلعہ بند عمارت کے فن تعمیر کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ کیسے اس دور میں اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ کی گئی تھی۔ اس کے در و دیوار اور اندر موجود ایک ایک شے شاہانہ دور کی اَن مٹ یادیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد بھی ہنزہ ایک شاہی ریاست کے طور پر قائم رہی لیکن یہ سلسلہ 1972ء تک چل سکا۔ بعد میں التت قلعے کی بحالی کا کام کیا گیا اور2007ءسے یہ میوزیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔


 اس کے علاوہ پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش بھی کی گئی۔ قلعے کے تحفظ اور بحالی کا کام ڈھانچے کے نقائص کی درستی، موجودہ دیواروں کا استحکام اور مرمت، چھتوں کا بدلنا، لکڑیوں کے خراب ہونے کا حل نکالنا اور مناسب روشنی کی فراہمی پر مرکوز رہا۔ دروازوں، کھڑکیوں اور سیڑھیوں پر بڑی مہارت سے لکڑی کا کام کر کے انہیں بالکل پرانی حالت میں بحال کیا گیا۔ لکڑی کے چھوٹے کمرے اور حصوں پرعمدہ کشیدہ کاری کی گئی۔ قلعے میں دیدہ زیب کام کی باقیات اب بھی موجود ہیں، یوں لگتا ہے کہ وہ گویا ماضی کی د استان سنا رہی ہوں۔ شاہی خاندان کے استعمال شدہ برتن بھی نمائش کے لیے پیش کیے گئے ہیں جبکہ ان کے لباس، بادشاہ کا دربار، شاہی باورچی خانہ اور زندان سمیت ہر شے اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ قلعہ التت کا سب سے خوبصورت مقام رائل گارڈن ہے، جہاں کی تروتازگی اور ہر سو پھیلی ہریالی آج بھی ویسی ہی ہے۔ التت قلعہ ایک اہم سیاحتی مقام ہے، جسے2007ء سے عوام کے لیے کھولا گیا۔ وادی ہنزہ کے نظارے دیکھنے والے سیاح یہاں آکر یقیناً اس خوبصورتی کے ہمیشہ گرویدہ رہتے ہوں گے۔ ہنزہ کے اس قدیم قلعے کو ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لئے 2011ء کا یونیسکو ایشیا پیسفک ایوارڈ دیا گیا تھا۔


بدھ، 10 ستمبر، 2025

یہ لاش کہہ رہی ہے 'اب معاف کردو

 



 یہ کہانی اس محبت کی کہانی ہے جس کا انجام وہی ہوا جو پاکستانی سماج میں ہوتا ہے اور ہوتا چلا آ رہا ہے انگریز نے ستی کی رسم پر موت کی سزا رکھی تھی اور ان چند لوگوں کوموت کے گھاٹ اتارا بھی تھا جنہوں خفیہ طریقے سے عورت کو ستی کیا تھا پھر وہ قانون آج تک رائج ہے-لیجئے میں کہاں آ گئ بات ہو رہی ہےکوہستان میں گلیشیئر سے ملنے والی 28 برس پرانی لاش جس کی تدفین کے لیے جرگے کی مدد سے ’جنگ بندی‘ کروانا پڑی-تو اس جنگ کا آغاز ہوا تھا محبت کے ماروں کی موت سے جن  کے گھر کا نوجوان  غیرت کی رسم میں مارا گیا تھا اور مقتول کے گھر والوں نے کہا تھا 'ہم انتقام لیں گے اور پھر یہ انتقام آج تک ٹھنڈا نہیں ہو ا-پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے دورافتادہ پہاڑی علاقے ’پالس‘ کے رہائشی نصیر الدین لگ بھگ 28 برس قبل جب ’خاندانی دشمنی‘ اور اپنی ’جان کو لاحق خطرات‘ کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے سے فرار ہو رہے تھے تو شاید اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ فرار کی اِس کوشش کے دوران نا صرف وہ اپنی جان سے جائیں گے



بلکہ اُن کی میت ملنے میں بھی 28 برس کا عرصہ لگے گا اور یہی برسوں پرانی ’خاندانی دشمنی‘ اُن کی میت کی اپنے ہی آبائی علاقے میں تدفین کی راہ میں حائل ہو جائے گی۔جون 1997 میں پالس کی وادی ’لیدی‘ کے برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو جانے والے نصیرالدین کی کہانی ناقابل یقین لگتی ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر ہونے والے ایک قتل اور اس کے بطن سے جنم لیتی ’خاندانی دشمنی‘ نے 28 برس قبل نصیر الدین کو اپنا آبائی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھااپنی ’جان کے خوف‘ سے اپنے آبائی علاقے سے ’فرار‘ ہونے والے نصیر الدین کے ہمراہ اس سفر میں اُن کے چھوٹے بھائی کثیرالدین بھی تھے۔ دونوں بھائی الگ الگ گھوڑوں پر سوار تھے اور جلد از جلد علاقے سے نکل جانا چاہتے تھے۔کثیرالدین کے مطابق ’وادی لیدی‘ کے برف پوش پہاڑوں پر سفر کرتے ان بھائیوں پر جب ’مخالفین کی جانب سے‘ فائرنگ کی گئی تو نصیرالدین وہاں موجود ایک گلیشیئر میں بنے برفانی غار میں چلے گئے اور ان سے بچھڑ گئے۔کثیرالدین کے مطابق فائرنگ تھمنے کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے۔ 28



 برس بعد یہ کہانی ایک دفعہ دوبارہ اُس وقت زندہ ہوئی جب اسی علاقے میں ایک گلیشیئر پگھلنے کے نتیجے میں نصیرالدین کی برف میں دبی لاش برآمد ہوئی۔مال مویشی چرانے والے ایک شخص کو یہ لاش یکم اگست 2025 کو ملی جو ’نا صرف ٹھیک حالت میں تھی بلکہ اس کی جیب میں موجود شناختی کارڈ بھی درست حالت میں تھا۔‘جیسے ہی لاش کو ڈھونڈنے والے شخص کی ’پالس‘ واپسی ہوئی تو یہ خبر ’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیل چکی تھی کہ گلیشیئر کے نیچے سے نصیر کی لاش 28 سال بعد مل چکی ہے مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ اُنھیں دفنایا کہاں جائے کیونکہ وہ ’خاندانی دشمنی‘ جس کے ڈر سے نصیر اپنے آبائی علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے، وہ دونوں خاندانوں کے بیچ آج بھی جاری ہے اور ان کے اہلخانہ کے لیے اس علاقے میں جانا ممکن نہیں تھا۔لاش کی آبائی علاقے میں واپسی، تدفین کی کہانی اور بیٹے کا غم یہ وہ وقت تھا جب پالس کے اہلِ علاقہ سامنے آئے تو اس ناقابل یقین کہانی میں موجود انسانی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ’دشمن‘ خاندانوں میں ثالثی کی۔جرگہ بٹھایا گیا اور بحث کے بعد دونوں حریف خاندان 10 اگست تک حد بندی (جنگ بندی) پر متفق ہو گئے۔ 



یہ طے پایا کہ اس عرصے کے دوران کوئی فریق دوسرے پر حملہ آور نہیں ہو گا، نصیر کی اپنے علاقے میں تدفین کی جائے گی اور ان کے اہلخانہ تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملیں گے۔اس فیصلے کے بعد نصیر الدین کی لاش کو بدھ (پانچ اگست) کی صبح پالس پہنچایا گیا جہاں اُن کی قبر پہلے سے تیار تھی اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد وہاں اُن کی تدفین کر دی گئی۔نصیر الدین نے سوگوران میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو چھوڑا ہے۔ نصیر الدین کے بیٹے نعیم جب اپنے والد کی میت لے کر وادی لیدی سے پالس پہنچے تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے خاندانی دشمنی کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے میں دن کی روشنی میں آنا مُمکن نہیں تھا۔میں  یہاں پہلے بھی آتا تھا مگر دن کی روشنی میں نہیں۔ اب والد کی لاش کے ساتھ آیا ہوں، جرگے کی کوشش اور جنگ بندی کی وجہ سے اپنے علاقے میں دن کی روشنی میں قدم رکھنا مُمکن ہوا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اتنے برسوں کے بعد اپنے والد کے ساتھ اپنے آبائی علاقے کے اس سفر کی تکلیف الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ دشمنی کی وجہ سے اپنے علاقے میں نہیں رہ سکے۔


مگر والد آبائی علاقے میں سپردِ خاک کرنا کسی حد تک سکون کا باعث بنا کہ چلو انھیں اپنی مٹی تو نصیب ہوئی۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمیں والد کی تدفین بھی کرنا تھی اور جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری بھی۔ والد کو ایک مرتبہ پھر یہاں پالس میں اکیلے چھوڑ کر ہمیں 10 اگست کو اس علاقے سے چلے جانا ہے۔‘معاہدے کے ’ضامنوں‘ کا بھی کہنا ہے کہ جنگ بندی 10 اگست تک ہی جاری رہے گی اس کے بعد کسی کی کوئی ضمانت نہیں۔تدفین کا معاہدہ کیسے ہوا؟دونوں حریف خاندانوں کے درمیان نصیرالدین کی تدفین کی غرض سے معاہدہ کروانے والے جرگے کے سربراہ حریف گُل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نصیر الدین کے خاندان کی دشمنی یہاں برسوں پرانی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس کو حل کرنے کی ماضی میں بھی کوششیں کی گئیں اور یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔‘’جب 28 سال بعد نصیر الدین کی لاش ملی تو اُن کے خاندان والوں نے ہم سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے کہ ہم نصیر کا جنازہ اور تدفین اپنے آبائی علاقے کروا سکیں۔ اس پر ہم نے کوشس کی، جرگہ منعقد کیا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ طے پایا کہ نماز جنازہ اور پھر تعزیت کی غرض سے دونوں خاندانوں میں 10 اگست تک جنگ بندی ہو گی اور اس دوران دونوں خاندان ایک دوسرے پر کوئی بھی حملہ نہیں کریں گے۔

پانی کی منہ زوری اور عوام کی بے بسی

 

     پنجاب حکومت نے آٹھ اضلاع میں فوج کو مدد کے لیے بُلا لیا ہے-ہر طرف  دلخراش مناظر ہیں    امدادی  کیمپوں میں  لوگ  ایک   ایک وقت کے کھانے پر گزارہ کر رہیں  اور پانی ہے کہ منہ زوری کے ساتھ چڑھا چلا آ رہا ہے دریائے راوی میں جموں و کشمیر سے آنے والے پانی سے پاکستان کے ضلع نارووال کے درجنوں دیہات بھی زیرِ آب آ گئے ہیں۔دریائے راوی نارووال کی تحصیل شکر  گڑھ کے گاؤں کوٹ نیناں کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دوسری طرف انڈیا سے ایک نالہ 'اوج' بھی آتا ہے جو اسی مقام پر دریائےِ راوی میں شامل ہوتا ہے۔مقامی افراد اور ریسکیو اہلکاروں کے مطابق دریائے راوی میں سیلابی صورتحال کے باعث نارووال کے لگ بھگ 35 سے 40 چھوٹے بڑے گاؤں زیرِ آب ہیں۔ضلع نارووال دو طرح سے سیلابی پانی سے متاثر ہو رہا ہے، ایک جانب تو دریائے راوی کے پانی سے اور دوسری جانب ان نالوں سے جو جموں و کشمیر سے آتے ہیں اور راوی میں ملتے ہیںنارووال سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی راحیل نے بتایا کہ راوی میں آنے والے سیلابی ریلے ہی کے باعث گرودوارہ کرتارپور صاحب کی عمارت کئی فٹ پانی میں ڈوب چکی ہے۔ جبکہ نارووال سے شکر گڑھ جانے والی سڑک کا بھی تین سے چار کلومیٹر تک کا حصہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے۔



جبکہ اس کے آس پاس کے دیہات مکمل زیرِ آب ہیں۔جموں و کشمیر سے آنے والے نالوں کی وجہ سے نارووال کی تحصیل ظفر وال میں درجنوں دیہات زیرِ آب ہیں۔ یہاں موجود ایک بڑا قصبہ 'کنجروڑ' جس کی آبادی بیس ہزار کے لگ بھگ ہے، کو اس وقت شدید سیلاب کا خطرہ ہے۔دوسری جانب نالہ ڈیک میں طغیانی کے باعث بھی ظفروال کی صورتحال مخدوش بن رہی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق نالہ ڈیک پر حفاظتی بند متعدد مقامات سے ٹوٹ چکے ہیں جبکہ ہنجلی کے مقام پر موجود پُل بھی مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔نالہ ڈیک اس وقت سیالکوٹ کے بعض دیہی علاقوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ چونڈہ سے ظفر وال جانے والی سڑک بھی اسی نالے میں سیلابی صورتحال کے باعث بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے۔دریائےِ راوی میں سیلابی صورتحال شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور اوکاڑہ کو بھی متاثر کر رہی ہے، جبکہ اسی دریا نے فیصل آباد کے علاقے تاندلیاوالہ اور ضلع ساہیوال کو بھی متاثر کیا ہے۔


 


ننکانہ صاحب کے مقامی صحافی جاوید احمد کے مطابق روای کے سیلابی پانی سے ہیڑے، جٹاں داواڑہ، نواں کوٹ، خزرہ آباد اور لالو آنہ کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح شیخ داٹول، گجراں دا ٹھٹہ، کھوہ صادق، ڈیرہ حاکم، ڈیری مہر اشرف کی آبادیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔اوکاڑہ کا موضع جندراکہ، جس کی آبادی 30 ہزار سے زائد ہے، جہیڈو اور جھنڈومنج میں بھی دریائے روای سے آنے والا سیلابی پانی داخل ہو چکا ہے۔فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کا بھی دریائے راوی کی طغیانی سے متاثر ہونے کا امکان ہے اور مقامی حکام کے مطابق اس کے متعدد دیہات زیر آب آ سکتے ہیں۔مقامی صحافی محمد احسان کے مطابق مقامی حکام بتا رہے ہیں کہ راوی کے کنارے پر آباد سو سے زائد چھوٹی بڑی آبادیوں بشمول بستی جموں ڈولوں، جلی تریانہ، جلی فتیانہ، ماڑی پتن، شیرازہ، ٹھٹھہ ڈوکاں وغیرہ کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔نارووال-دریائے راوی نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں کوٹ نیناں کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے


 

دریائے چناب سے متاثر ہونے والے اضلاع میں سیالکوٹ، منڈی بہاوالدین، سرگودھا، گجرات، وزیر آباد، حافظ آباد، چنیوٹ اور جھنگ شامل ہیں۔ ان اضلاع کی حد تک چناب کے پانی کی شدت تھوڑی زیادہ رہتی ہے۔وزیر آباد کے مقامی صحافی عقیل لودھی کے مطابق چناب کا پانی فی الوقت وزیر آباد شہر کو متاثر کر رہا ہے،  ۔ڈسٹرکٹ سیالکوٹ کے انتہائی شمال میں واقع علاقہ بجوات جو دریائے چناب اور دریائے توی کے وسط میں واقع ہے، سیلاب سے شدید متاثر ہے۔ اس میں لگ بھگ ستر کے قریب دیہات آتے ہیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق سیالکوٹ شہر کو ان دیہاتوں سے ملانے والا راستہ مکمل طور پر زیر آب ہے۔منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھنے والے مقامی زمیندار و کاروباری شخصیت فرحان وڑائچ کے مطابق منڈی بہاؤ الدین کے علاقے قادر آباد، فرخ پور بھٹیاں، کالاشادیاں، باری، رنڈیالی، ملہیاں، جوکالیاں، کھسرلونگ، سعداللہ پور، کامونکی، چاڑکی، بھابڑا، لاکھا کدھر متاثرہو رہے ہیں -



پنجاب میں سیلاب کے باعث اب تک کئ  اموات ہوچکی ہیں سیانے کہہ رہے ہیں ' ذرا سیلاب گزرنے دیں اور پانی اترنے دیں ۔ چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چُھوئیں گی ۔ مرغی ، گوشت ، مچھلی ، گندم ، سبزیاں ، چارہ اور دیگر استعمال کی اشیاء بہت مہنگی ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ لوگوں کی بد دیانتی کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق بھی ہونگے ۔ ظاہر ہے اتنے بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب سے بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا ۔ فصلیں تباہ ہونگی ، کسان سب سے بڑا متاثر طبقہ ہوگا ۔ اجناس ، خوراک کے ذخیرے ضائع ہونے کا الگ سے اثر پڑے گا ۔ چارہ ، ونڈا ، کھل اور خوراک مہنگے ہونے سے پروڈکشن کاسٹ بڑھے گی ۔ جانور ، مرغیاں ، مچھلیاں مرنے سے ، خوراک مہنگی ہونے سے سپلائی اور ڈیمانڈ کا توازن بگڑ جائے گا اور سب سے زیادہ عام شہری متاثر ہوگا ۔ہم اس وقت سیلاب کے علاقے سے کوسوں دور بیٹھے ہیں اور ابھی سے ، میری نظروں کے سامنے اس سیلاب کی "تپش" محسوس ہونے لگی ہے ۔ رہ گئے سیلاب زدہ علاقے تو وہ تو پھر ایک لمبے عرصے تک تبدیل ہوکر رہ جائیں گے ۔اللّٰہ کرے ایسا نہ ہو مگر ہم نے سیلاب کو عملاً بھگتا ہے اور ان باتوں کا تجربہ کرکے بیٹھے ہیں

یہ تحریر انٹرنیٹ سے لی ہے 

منگل، 9 ستمبر، 2025

کیا کراچی سرکلر ریلوے پھر سے بحال ہو سکے گی





 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں تک کراچی سرکلر ریلوے اپنے عروج پر تھی۔ روزانہ 104 ٹرینیں چلتیں جن میں سے 80 مرکزی لائن پر جب کہ 24 لوپ لائن پر چلتی تھیں۔ لیکن " پنجاب پولیس اور پنجاب ٹرانسپورٹ مافیا" کی سازشوں کی بدولت 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ بحالی کی کوششیں ابھی تک بارآور نہیں ہو سکیں۔  کراچی کی    یہ لوکل  ٹرین ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن اور لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی  ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلویز کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی دو روٹس یعنی کراچی شہر سے لانڈھی اور کراچی شہر سے ملیر چھاؤنی کے درمیان 28 لوکل ٹرینیں چلتیں تھیں۔ اس کے پہلے مرحلہ پر 3 کروڑ 88 لاکھ روپے لاگت آئی اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو اس دور کا 5 لاکھ روپے کا منافع بھی ہوا تھا۔  جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) نے کراچی سرکلر ریلوے کیلئے تقریبا ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تاہم جائیکا نے اس منصوبے کو اپنی زیر نگرانی سخت مانیٹرنگ سے مشروط کردیا 



  ظاہر ہے کہ بدعنوانوں کے رہتے تو ممکن ہی نہ تھا۔  اس لئے یہ بہترین منصوبہ داخل دفتر ہو گیا 2013 ءمیں سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی جس میں کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانے کا اعلان بھی کیا گیالیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ جانے کن وجوہات کی بنا ءپر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوگیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر سرکلر ریلوے کو سی پیک منصوبے کا حصہ بناتے ہوئے اسے تین برسوں میں تکمیل تک پہنچانے کا عندیہ دیا گیا اس منصوبے پر تقریباً 270 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ۔وزارت پلاننگ کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کیلئے 43 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک پچھایا جائے گا۔یہ منصوبہ حکومت سندھ اور چین کو مکمل کرنا تھا جبکہ اس منصوبے کی نگرانی وزارت پلاننگ کی ذمہ داری تھی۔


 سرکلر ریلوے منصوبے کے تحت اوسطا ایک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کل 24 اسٹیشن بنائے جانے کی بات کی گئی تاہم یہ منصوبہ بھی التواءکا شکار ہوگیا۔ اب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں حکم نامہ جاری کیا ہے ،تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن کو دیکھتے ہوئے اس بات کی اُمید انتہائی روشن ہے کہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی عمل درآمد ہوگا اور کراچی کی کم از کم سات لاکھ عوام کوسرکلر ریلوے کی صورت میں سفری سہولیات میسر آسکیں گی۔کراچی دنیا کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے، جس کی موجودہ آبادی (محتاط اندازے کے مطابق) تقریباً دو کروڑ 51 لاکھ ہے جو ٹوکیو، نئی دہلی، ممبئی، نیویارک، میکسیکو سٹی، منیلا اور جکارتہ سے زیادہ ہے۔کراچی کی یہ آبادی 2030ءتک 3کروڑ 34 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے


 لہٰذااس منصوبے کی تکمیل سے  ایک جانب سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں تو دوسری جانب اس شہر کے باسیوں کی سفری مشکلات کو دور کرنے کیلئے بھی وقت کا تقاضا ہے کہ سرکلر ریلوے جیسے منصوبوں کا آغاز کرکے کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا جائے، ویسے ایک اطلاع کے مطابق 24نومبر سے کراچی سے سکھر تک کیلئے سکھر ایکسپریس چلائی گئی ہے جس سے یقینا لوگوں کو فائدہ پہنچے گا ۔اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر میں یومیہ سفر کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ سے زائد ہے، 24 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ، 91 فیصد موٹر سائیکل، 1.7 فیصد کانٹریکٹ کرئیرز، 21 فیصد ذاتی گاڑیوں اور 8 فیصد لوگ پک اینڈ ڈراپ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ ان 7 لاکھ لوگوں کیلئے 6 ہزار سے زائد بسیں تقریباً 300 روٹس پر چلتی ہیں، ان میں سے 85 فیصد بسیں پرانی اور ناقص ہیں، یوں شہر کے 42 فیصد مسافروں کا بوجھ پبلک ٹرانسپورٹ کو اٹھانا پڑتا ہے، اس مسئلے کا حل موثر ماس ٹرانزٹ سسٹم ہے اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ہے۔

 

پیر، 8 ستمبر، 2025

فیڈرل "بی"ایریا کراچی کے تعلیم یافتہ لوگوں کا شہرپارٹ '2

 



انچولی شاہراہ پاکستان کے نزدیکی علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 اور 20 کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان انچولی روڈ بھی واقع ہے، جو شاہراہ پاکستان سے النور موڑ کو جاتی ہے۔ انچولی روڈ پر شاہراہ پاکستان کے سرے پر انچولی بس اسٹاپ ہے جبکہ دوسرے سرے پر النور موڑ ہے۔ عام طور پر انچولی کا نام فیڈرل بی ایریا بلاک 20 کو دیا جاتا ہے، لیکن اہلیانِ بلاک 20 اپنے علاقے کا نام سادات سوسائٹی بتاتے ہیں۔بلاک 2کا نام مولانا محمد علی جوہر کے نام ہر جوہر آباد ہوگیا بلاک نمبر 3کا نام حسین آباد "حسین ٹیکسٹائل مل کے گجراتی مالک حسین سیٹھ کے نام پر رکھ دیا گیا اسی طرح بلاک2 اور آٹھ نمبر کا نام عزیز آباد کے ڈی اے کے ممبر لینڈ عزیزالحق  تھانوی کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے اس بستی کو بسانے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا عزیز الحق تھانوی ممتاز عالم دین جامع مسجد جیکب لائن کے خطیب وامام احتشام الحق تھانوی کے عزیز تھے عزیز الحق تھانوی کا انتقال دسمبر 1975 میں انکی نماز جنازہ احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ۔



 اسی طرح بلاک نمبر 9،14اور 15کی دستگیر کالونی کہلاتی ہے ان علاقون میں مکانات تعمیر کرنے والے ادارے کانام  دستگیر کوآپریٹیو سوسائٹی تھا اور  ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا نام دستگیر کنسٹرکشن کمپنی تھا جو پیران پیر دستگیر حضرت عبدالقادر جیلانی رح  کے نام سے منسوب کیا گیا تھا 1966کے بعد گلبرگ،سمن آباد، نصیر آباد، انچولی وغیرہ نام رکھے گئے 1970میں بلاک 16فیڈرل ایریا میں الاعظم لمٹیٹڈ نے یوسف پلازہ کے نام سے ایک بڑا رہائشی منصوبہ شروع کیا تھا ۔31سال قبل1985 میں  یہان معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی نے ایدھی میت خانہ ، غسل خانہ قائم کیا تھا فیڈرل بی ایریا کی مرکزی شاہراہ پاکستان ( سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29؍ اپریل  1970ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا 


افتتاحی تقریب  میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان ، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا . سڑک لیاقت آباد نمبر ۱۰ مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وےکو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے ۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد ،واٹر پمپ ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات  سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس  پر عمل درآمد نہیں ہوسکا      


 پورے ضلع وسطی کا ایک  منفرد گراؤنڈ   ہوتا تھا جس کو سنگم گراؤنڈ کہا تھا  - اپنے ماضی میں اتوار کے دن   علاقے کے نوجوان سنگم گراؤنڈ میں کر کٹ کھیلتے تھے -سابقہ مکہ چوک، اور اب لیاقت علی خان چوک، سے تھوڑے فاصلے پر واقع 3200 سکوائر میٹر پر پھیلا یہ میدان ماضی میں سنگم سپورٹس کرکٹ کلب کے نام سے منسوب  تھا -     ۔اس گراؤنڈ میں  ایک دن کے لئے   کئ سو دکانوں کا سستا بدھ بازار بھی لگتا تھا      -پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے ضلع وسطی میں 6پارکوں کا افتتاح کر دیااخوت فیملی پارک کے افتتاح کے بعد بلدیہ وسطی کے محکمہ باغات کی جانب سے تعمیرِ نو کے بعد بحال کئے جانے والے باغات کی گولڈن جوبلی ہوگئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر ضلع وسطی کی خدمت کر رہا ہوں عوام بھی ضلع کی بحالی کے کاموں میں تعاون کریں،


پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود اس کا اوّلین ہدف ہے انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی میں نتیجہ خیز منصوبوں اور خدمات پر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں اس موقع پر طحہٰ سلیم نے ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ضلع وسطی کے عوام اور بلدیہ وسطی کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تعاون پرشکریہ ادا کیابعد ازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی طحہٰ سلیم کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و شہنشاہ غزل مہدی حسن کے نو تعمیر مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی اور مہدی حسن کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔افتتاح کیے جانے والے پارکس میں راہ عمل پارک ناظم آباد نمبر3،رانی باغ نارتھ ناظم آباد بلاک H،عثمان غنی پارک گلبرگ بلاک 9،شریف شہید پارک سیکٹر 5E نیو کراچی، اخوت فیلمی پارک ناظم آباد نمبر1،KDA چورنگی پارک نارتھ ناظم آباد اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار مہدی حسن کے مقبرے کی تعمیر نو بھی شامل ہیں۔

فیڈرل "بی"ایریا کراچی کے تعلیم یافتہ لوگوں کا شہرپارٹ 1





  فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کا خاندان  جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہو ا  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت  میں  انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔ جاری ہے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر