آج کے روشن زمانے میں بھی پاکستان میں عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں کس قدر تنگ نظری پائ جاتی ہے اس کا اندازہ روزانہ کی خبریں سن کردل اندر ہی اندر کانپ جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع سرگودھا میں ایک لڑکی کو اس بنیاد پر سسر نے قتل کر دیا کہ وہ سسرال میں رہنے کے بجائے اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے واپس آسٹریلیا جانا چاہتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی آسٹریلیا میں ملازمت کرتی تھی جبکہ اس کا شوہر بحرین میں ملازمت کر رہا ہے۔ شوہر نے بیوی کو یہ کہہ کر دھوکے سے پاکستان بھیجا کہ میرے ماں باپ اپنے پوتے پوتیوں سے ملنا چاہتے ہیں، لڑکی شوہر کی بات مان کر پاکستان آئی تو سسر نے اس سے پاسپورٹ لے کر واپس آسٹریلیا بھیجنے سے انکار کر دیا اور سسر کی بات نہ ماننے پر کلہاڑی کےوار کرکے قتل کر دیا گیا
پچھلے ماہ 21 مئی 2022 کو بھی سپین سے آئی دو بہنوں کو گجرات میں قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے چچازادبیٹوں سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا جو ان سے شادی کر کے سپین جانا چاہتے تھے۔ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورت ظلم سہنے میں برابر ہے۔ آئے دن ان دونوں کو شادی سے انکار پر گولی مار دی جاتی ہے یا اپنی مرضی سے گزارنے کی شریفانہ خواہش پر کلہاڑی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔
اور اگر یہ سب نہیں ہے تو زمین کی خاطر طرح طرح کی جاہلانہ رسومات کے بندھن میں باندھ کر ان سے شادی کا حق چھین لیا جاتا ہے-سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اتنا سنگ دل اور بے خوف کیوں ہے؟
پاکستان کی ٹوٹل آبادی میں سے 64 فیصد لوگ دیہات جبکہ صرف 36 فیصد شہروں میں رہتے ہیں۔ تو بہتر صورت یہی ہے کہ عورتوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس تقسیم اور دونوں جگہ کے مخصوص حالات کو ذہن میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں عورتوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بجائے سارا زور اپنے منشور و نظریات کو پھیلانے اور مخالف کو زیر کرنے پر صرف کرتے ہیں۔
بائیں بازو کا سارا زور عورتوں کو گھروں سے نکالنے پر ہوتا ہے گویا کہ عورت گھر سے نکل کر تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے بعد بالکل محفوظ ہو جائے گی اور پھر کوئی سپین اور آسٹریلیا سے آنے کے بعد پاکستان میں قتل نہیں ہوگی، اور دوسری طرف دائیں بازو کا زور انہیں سات پردوں کے اندر اور مشترکہ خاندانی نظام جیسے فرسودہ سسٹم سے باندھے رکھنے پر ہے، کہ اگر کسی عورت نے سسرال سے باہر جانے کی بات کی تو ہمارا معاشرہ بھی یورپ بن جائے گا۔
افراط و تفریط کے ان دو انتہاؤں پر بیٹھنے کے بعد اس بات پر کوئی سوچنے کو تیار نہیں کہ اگرچہ بحیثیت پاکستانی ہم ایک قوم ہیں لیکن پاکستان کے ہر علاقے کے قبائل اور نسلیں جدا جدا ہیں جن کی اپنی ثقافت اور اپنے اپنے روایات ہیں۔ ان کے مخصوص ثقافت اور روایات میں موجود غلطی کی نشاندہی کر کے اس پر تو بات کی جا سکتی ہے لیکن اگر مجموعی طور تخصیص کیے بغیر روایات کی مخالفت کی جائے اور کچھ الگ لایا جائے تو انسان فطری طور پر اس کی مخالفت ہی کرے گا، کیونکہ انسان نے ابتدائی طور پر ہر چیز سے انکار ہی کیا ہے۔
اگر کوئی وزیرستان، ژوب، پسنی، مٹھیاری اور سخی سرور میں لڑکیوں کی تعلیم کے بجائے ان کی نوکری اور آزادی کے لئے عورت مارچ کرے تو کم از کم درجہ میں بھی اسے بے وقوف کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہر علاقے کے اعتبار سے مخصوص مسائل اور ظلم کی نشاندہی کر کے ہی قدم بقدم ترقی کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں جنس کی بنیاد پر کسی پر بھی ظلم نہ ہو سکے۔ لیکن اگر دیہی علاقوں کے بجائے شہروں کی بات کی جائے تو وہاں کے ایشوز بالکل مختلف ہیں اور وہاں عورتوں کو تعلیم کے بجائے پسند کی شادی اور گھریلو تشدد جیسے مظالم کا سامنا ہے۔
ملکی قوانین اور اسلام نے بے شک خواتین کو سارے حقوق دیے ہوں لیکن کیا ہمارا معاشرہ وہ حقوق دیتا ہے؟ کیا بحیثیت فرد ہم نے کبھی ان مظالم پر آواز اٹھائی ہے؟ اگر ہم آواز اٹھا بھی لیں تو ہماری آواز یا تو دائیں اور بائیں بازو کے بیانیہ میں کہیں دب جاتی ہے یا پھر کلچر اور مذہب کے ٹھیکیدار سامنے آ کر دفاع میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ا س بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے نے عورت پر ہر وہ ظلم کیا جو وہ سہ سکتی تھی، اور اگر کہیں اس نے ظلم سہنے اور مظلوم بننے سے انکار کیا تو ہم ثقافتی اور مذہبی حوالے سے اسے بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں -کاش کوئ زمانہ پاکستان میں بھی ایسا آجائے جب عورت زات اپنے آپ کو مردوں کے بے جا مظالم اپنے آپ کو مامون سمجھ سکے آمین