Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
بدھ، 27 نومبر، 2024
بلند و با لا کو ہ سا رو ں کا مجمو عہ کو ہ ہمالیہ
منگل، 26 نومبر، 2024
دنیا میں غلامی کی تاریخ
، کسانوں کی بڑی آبادی والی اسلامی دنیا میں ، زرعی مزدوری کی ضرورت اتنی نہیں تھی جتنی امریکا میں۔ اسلام میں غلام بنیادی طور پر خدمت کے شعبے میں ہدایت کی جاتی تھی – باورچی ، پورٹرز اور سپاہی – غلامی کے ساتھ ہی بنیادی طور پر پیداوار کے ایک عنصر کی بجائے کھپت کی ایک شکل ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ بتانے والے ثبوت صنفی تناسب میں پائے جاتے ہیں۔ صدیوں میں اسلامی سلطنت میں سیاہ فام غلاموں میں تجارت کرنے والے ، ہر مرد کے لیے تقریبا دو خواتین تھیں۔ ان میں تقریبا تمام خواتین غلاموں کے گھریلو پیشے تھے۔ کچھ لوگوں کے لئے ، اس میں اپنے آقاؤں کے ساتھ جنسی تعلقات بھی شامل تھے۔ یہ ان کی خریداری کا ایک جائز مقصد تھا اور سب سے عام۔ عثمانی غلام طبقے کا ایک رکن ، جسے ترکی میں کول کہتے ہیں ، اعلی مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا۔ بہت ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔
کالے کاسٹ شدہ غلاموں کو ، شاہی حرموں کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا ، جب کہ سفید فام غلاموں نے انتظامی کاموں کا فریضہ دیا گیا ۔ ینی چری ایک "کے طور پر بچپن میں جمع شاہی فوجوں کی اشرافیہ فوجیوں تھے خون ٹیکس ، جبکہ" گیلی غلاموں میں گرفتار غلام چھاپوں یا کے طور پر جنگی قیدیوں ، شاہی وریدوں سے تعینات. غلامی دراصل عثمانی سیاست میں سب سے آگے رہتی تھی۔ عثمانی حکومت میں اکثریت کے عہدے دار غلام خریدے گئے ، آزاد ہوئے اور سلطنت عثمانیہ کی 14 ویں صدی سے 19 ویں تک کامیابی کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ بہت سے عہدے داروں کے پاس خود بڑی تعداد میں غلام تھے ، حالانکہ سلطان خود اس کی ملکیت میں سب سے بڑی رقم رکھتے تھے۔ اینڈرون جیسے محل اسکولوں میں عہدے داروں کی حیثیت سے غلاموں کی پرورش اور خصوصی طور پر تربیت کرکے ، عثمانیوں نے حکومت اور جنونی وفاداری کا پیچیدہ علم رکھنے والے منتظمین بنائے۔
مراکش کی سلطنت میں نوعمری کے عمل سے گزرنے کے لیے غلاموں کا انتخاب انتہائی منتخب تھا بہ ساری اوصاف اور صلاحیتیں ہیں جن کے مالک اپنے آقاؤں کا احسان اور اعتماد جیت سکتے ہیں۔ آقا / غلام تعلقات کی جانچ پڑتال کرتے وقت ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں سفید پوشیدہ غلام خاص طور پر قابل قدر تھے۔ اضافی طور پر ، حصول کے طریقہ کار ، اسی طرح عمر کے ساتھ ساتھ غلام غلام کی قیمت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ، ، مالک غلام تعلقات پر بھروسا کرسکتی ہے۔ نوکروں یا یہاں تک کہ نو عمر بالغوں کے طور پر حاصل کردہ غلاموں نے ان کے آقاؤں کے قابل بھروسا مددگار اور مدعی بن گئے۔ مزید برآں ، نوعمری کے دوران غلام کا حصول عام طور پر تعلیم و تربیت کے مواقع کا باعث بنتا ہے ، کیونکہ نوعمری کے زمانے میں حاصل شدہ غلام فوجی تربیت شروع کرنے کے لیے ایک عمدہ عمر میں تھے۔ اسلامی معاشروں میں یہ عمل دس سال کی عمر میں شروع کرنا ، پندرہ سال کی عمر تک جاری رہنا معمول تھا ،
اس موقع پر یہ جوان فوجی خدمت کے لیے تیار سمجھے جاتے تھے۔ اسلامی غلام معاشروں میں مہارت رکھنے والے غلاموں کی بہت زیادہ قدر کی جاتی تھی۔ عیسائی غلاموں کو اکثر عربی میں بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ سفارتی امور کا انگریزی اور عربی زبان میں روانی رکھنے کا ایک انتہائی قابل قدر ذریعہ تھا۔ تھامس پیلو جیسے دو زبانوں والے غلاموں نے اپنی ترجمانی کی صلاحیت کو سفارت کاری کے اہم آداب کے لیے استعمال کیا۔ پیلو خود مراکش میں سفیر کے مترجم کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔پہلا بہمنی سلطان ، علاؤالدین بہمن شاہ نے شمالی کارناٹک سرداروں سے لڑائی کے بعد ہندو مندروں سے ایک ہزار گانا اور ناچنے والی لڑکیوں کو گرفتار کیا تھا۔ بعد میں بہمنیوں نے بھی جنگوں میں شہری خواتین اور بچوں کو غلام بنایا۔ شاہ جہاں کی حکمرانی کے دوران ، بہت سے کسان زمین کی محصول کی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی خواتین اور بچوں کو غلامی میں فروخت کرنے پر مجبور تھے۔
پیر، 25 نومبر، 2024
مصنوعی زہانت اور کاربن کا پھیلا ؤ
دنیا جس قدر ترقی کر رہی ہے اسی حساب سے ا نسا ن کے لئے ا س کی مشکلات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے -پہلے تو آپ زرا شہروں کی آلودگی کی حالت ملا حظہ کیجئے جو دن بدن بد ترین ہوتی جا رہی ہے اس پر نت نئ ٹیکنالوجی ہے جس کے پیچھے انسان بھاگا چلا جا رہا ہے-ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانےپر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہےسن 2023 میں دنیا کی 63 بڑی معیشتوں کے کیے جانے والے تجزیے کے مطابق یہ عالمی سطح پر ہونے والی مضر گیسوں کے 90 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ملک شدید موسمیاتی اثرات میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ادھریونیورسٹی کالج لندن میں انرجی سسٹم کے پروفیسر، اسٹیو پائی کے مطابق فوسل فیول سےبتدریج چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ اہم ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنایا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''منصفانہ مرحلہ کس طرح نظر آتا ہے؟ یہ امیر ممالک پر منحصر ہے جن کا فوسل فیول پر انحصار کم ہے اور وہ بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ انہیں رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نا کہ انسان کو نت نئ سہولیات دے کر اسے آسان راستہ مہیا کرنا ۔
یہ مسلم ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان نے وا ضح کیا کہ مصنوعی ذہانت کے ٹو لز ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتے ، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسرکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔
توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پرکن طریقوں سے اثر ڈالتی ہے-توانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے ماحول کیلئے مثبت پہلو-مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔
پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔
اتوار، 24 نومبر، 2024
حضرت یوسف علیہ السلام اور مصر کا بازار
دنیا میں غلامی اور غلاموں کی خریدو فروخت کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرا زہن اچانک حضرت یوسف علیہ السلام کی جانب چلا گیا آپ علیہ السلام با زارمصر میں بہ طور غلام اس طرح بیچے گئے کہ جب ان کے بھائیوں نے آپ کو کنوئیں میں ڈال دیا تو ایک شخص جس کا نام مالک بن ذعر تھا جو مدین کا باشندہ تھا۔ ایک قافلہ کے ہمراہ اس کنوئیں کے پاس پہنچا اور اپنا ڈول کنوئیں میں ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس ڈول کو پکڑ لیا اور مالک بن ذعر نے آپ کو کنوئیں میں سے نکال لیا تو آپ کے بھائیوں نے اُس سے کہا کہ یہ ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ اگر تم اس کو خرید لو تو ہم بہت ہی سستا تمہارے ہاتھ بیچ دیں گے۔ چنانچہ اُن کے بھائیوں نے صرف بیس درہم میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بیچ ڈالا مگر شرط یہ لگا دی کہ تم اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاؤ کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصر کا بادشاہ دیان بن ولید عملیقی تھا اور اس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دیئے تھے اور مصر میں لوگ اس کو ''عزیز مصر'' کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازارِ مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لئے لایا گیا ہے اور لوگ اس کی خریداری کے لئے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہو گئے ہیں
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ سنا کہ بازار مصر میں ایک انتہائ پُر جمال اور شکیل نوجوان فروخت کے لئے آیا ہے عزیز مصر بہت سا سونا چاندی اور دیگر قیمتی اشیاء لے کر بازار میں آن پہنچا اور اس نے ان کے وزن کے مساوی سونا، اور اتنی ہی چاندی، اور اتنا ہی مشک، اور اتنے ہی حریر قیمت دے کر خریدلیا اور گھر لے جا کر اپنی بیوی ''زلیخا''سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھو۔ اس وقت آپ کی عمر شریف تیرہ یا سترہ برس کی تھی۔ ''زلیخا''حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی اور ایک دن خوب بناؤ سنگھار کر کے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے معاذ اللہ کہہ کر فرمایا کہ میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کر کے ہرگز اُس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی تو آپ بھاگ نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑ کر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑ لیا جو پھٹ گیا اور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازہ پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔
اور دونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا تو زلیخا نے عزیز مصر سے کہا کہ اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزا دی جائے کیونکہ اس نے تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اے عزیز مصر!یہ بالکل ہی غلط بیانی کررہی ہے۔ اس نے خود مجھے لبھایا اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگا تو اس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا اور بولا کہ اے یوسف علیہ السلام میں کس طرح باور کرلوں کہ تم سچے ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ گھر میں چار مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے۔ اس سے دریافت کرلیجئے کہ واقعہ کیا ہے؟ عزیز مصر نے کہا کہ بھلا چار ماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں بے قصور ہوں۔
چنانچہ عزیز مصر نے جب اُس بچے سے پوچھا تو اُس بچے نے باآوازِ بلند فصیح زبان میں یہ کہا کہ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿26﴾وَ اِنْ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَہُوَ مِنۡ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿27﴾ (پ12،یوسف:26،27)ترجمہ کنزالایمان:۔گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ تو اس وقت عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:۔اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿28﴾یُوۡسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ٜ وَ اسْتَغْفِرِیۡ لِذَنۡۢبِکِ ۚۖ اِنَّکِ کُنۡتِ مِنَ الْخٰطِـِٕیۡنَ ﴿٪29﴾ (پ12،یوسف:28،29)ترجمہ کنزالایمان:۔ بیشک یہ تم عورتوں کا (فریب)ہے بیشک تمہارا چرتر (فریب)بڑا ہے اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بے شک تو خطا واروں میں ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،صفحہ 128-126)
چترال میں غلاموں کی خرید و فروخت کس پیمانے پر کی جاتی تھی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1880 میں انگریزوں نے ’گزیٹیئر آف ایسٹرن ہندوکش‘ کے نام سے ایک دستاویز مرتب کی تھی جس میں چترال میں غلاموں کی تجارت کو ریاست کی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’چترال اور یاسین میں اپنے ہی رعایا کو غلام بنا کر بیچنے کا عمل وہاں کے حکمرانوں کے لیے ان لوگوں کے درمیان میں بھی شدید بدنامی کا باعث بن گیا ہے جہاں ابھی تک غلامی کو اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جس طرح یورپ میں سمجھا جاتا ہے (گزیٹ، 93)۔ غلاموں کی لین دین مہتر کے وزیرِ خزانہ جسے دیوان بیگی کہا جاتا تھا، کی سرکاری ذمہ داریوں میں شامل تھی (بڈلف، 67)۔اسی طرح چترال سے متعلق انگریز افسروں اور مہم جوؤں کی لکھی اکثر یادداشتوں، رپورٹوں اور کتابوں میں چترال غلامی اور ان کی تجارت کا ذکر ملتا ہے۔ چترال پر تحقیق کرنے والے اطالوی محققین، کاکو پارڈو برادران کے مطابق اٹھارویں صدی کے آخر میں ہر سال چترال سے 500 لوگ بطورِ غلام چترال سے باہر بیچے جاتے تھے اور چترال کے اندر کوئی بھی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں سے کسی کو اٹھا کر فروخت نہ کیا گیا ہو۔ (گیٹس آف پرستان، 59 )۔چترال کے غلاموں کو جن منڈیوں میں لے جایا جاتا تھا ان میں خیوہ، یارقند، خوقند، بخارا، ترکستان، قندوز، فیض آباد، جلال آباد اور کابل شامل تھے (منشی 132، فیض، 10)۔
چترال کے مشہور شاعر بابا سیئر کی منظوم تاریخِ چترال ’شاہ نامہ سیئر‘ جو کہ غالباً 1810 میں لکھی گئی تھی اور چترال کی تاریخ پر اولین کتاب ہے، سے واضح ہے کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں واخان کے والی جہان خان نے چترال پر حملہ کیا اور کئی باشندوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گیا تھا۔اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے چترالی حکمران محترم شاہ کٹور ثانی نے بروغول سے گزر کر واخان پر چڑھائی کی، دیہات کو نذرِ آتش کیا اور دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ کئی لوگ بھی غلام بنا کر ساتھ لے آیا۔ ان میں سے دو غلام عورتوں کو محترم شاہ نے اپنے حرم میں شامل کیا جن سے اولادیں بھی ہوئیں
مضمون انٹر نیٹ سے استفادہ کر کے لکھا گیا ہےنمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...