فرنگی اس خطے میں اپنے اغراض و مقاصد لے کر آئے تھے لیکن جاتے ہوئے وہ ہم کو ایسے پائیدار اثاثے دے گئے کہ ہم اپنی آزادی کے بعد اسی برس ہونے کو آئے ان کے مقابلے کا تو کیا اس معیار کے پانچویں درجے کا بھی کوئ اثاثہ نہیں بنا سکے ان کا بنایا ہوا ڈرینج سسٹم آج بھی صحیح و سالم حالت میں موجود ہے اور کام کر رہا ہے -ٹرانسپورٹ کا کتنا بہترین نظام ہوا کرتا تھا جو کراچی میں تعینات پولیس مافیا نے برباد کر کے کھڈے لائن لگا دیا ہے اور اب کراچی والوں کا آخری سہارا سپریم کورٹ ہے، وطن عزیز میں کہاں کیا مسئلہ ہے اور اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے اس پر غورو خوض ہورہا ہے، بتدریج یہ عمل تیزی اور مزید شفافیت کی جانب مائل ہے۔اسی سپریم کورٹ نے حال ہی میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ریلوے کی زمینوں سے قبضہ چھڑانے کا حکم جاری کیا ہے۔سپریم کورٹ نے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے تمام علاقوں سے ریلوے لائنز کلیئر کرائی، کے ایم سی اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے بوگیاں تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ ریلوے کی مدد سے روٹ کا تعین کرے گی ۔اعلیٰ عدالت نے سیاحتی مقاصد کیلئے صدر سے اولڈ سٹی ایریا تک ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا۔ گزشتہ دنوں تجاوزات کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے جن پر برق رفتاری سے کام کیا جارہا ہے، اس فیصلے کے نتیجے میں آج ہم کراچی کی ان عمارتوں کو دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں جنہیں تجاوزات نے ہم سے چھپا رکھا تھا۔
اس کے بعد عدالت کی جانب سے دوسرا بڑا حکم سرکلر ریلوے کے حوالے سے آیا جس نے ایک جانب عوام میں خوشی کی لہر دوڑا دی تو دوسری جانب تشویش۔خوشی اس لئے کہ سفری سہولیات کی عدم دستیابی اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، سرکلر ریلوے کی بحالی اس مسئلے کا سب سے احسن حل ہے جبکہ تشویش اس لئے کہ اس حل تک پہنچنے کیلئے بے شمار تجاوزات راہ میں حائل ہوں گی جنہیں دور کرنا یقیناً دشوار گزار مرحلہ ہے،گو اس وقت شہر میں گرین لائن منصوبے کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور اس سے مخصوص روٹ کے مسافروں کو کافی سہولت ہوجائے گی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ انتہائی ناکافی ہے۔سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کےساتھ ساتھ ریلوے کی زمین پر سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم بھی دیا ہے جس کے بعد سرکلر ریلوے کی اراضی واگزار کرانے کیلئے آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔
ان اطلاعات کے ساتھ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ریلوے انتظامیہ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی زمین لیز پر دیئے جانے کی خبریں سامنے آنے لگیں،شنیدن ہے کہ ریلوے حکام نے سرکلر ریلوے لائن پر قائم تجاوزات کی لیز سے متعلق ڈپٹی کمشنر ساﺅتھ اور متعلقہ محکمے کو خط لکھا ہے جس کا متن کچھ یوں ہے کہ سرکلر ریلوے کی زمین پٹرول پمپ، پارکنگ اور گودام کیلئے لیز پر دی گئی گی ،لیز پر دی گئی زمینیں ضلع وسطی، جنوبی سمیت دیگر اضلاع میں واقع ہیں جن میں وزیر مینشن، گلبائی، لیاقت آباد اور پاپوش نگر کے علاقے قابل ذکر ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریلوے ٹریک پر جگہ ،جگہ تجاوزات ، جھونپڑ یا ں اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جنہیں واگزار کرنے کیلئے حکومت کو 21 کلو میٹر ٹریک سے تجاوزات کا خاتمہ کرانا ہوگا یعنی ضلع شرقی میں 20 کلو میٹر ٹریک میں سے 11 کلو میٹر پر ،ضلع وسطی میں 7 میں سے 6 کلو میٹر پر ،ضلع غربی میں ساڑھے11 میں سے ڈھائی کلو میٹر ٹریک پر قبضہ ہے، ضلع جنوبی کے ساڑھے چارمیں سے ڈیڑھ کلو میٹر ٹریک پر تجاوزات قائم ہیں۔
یاد رہے کہ 1999ءمیں بند ہونے والی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 2005 ءتک صرف چند مقامات پر ہی تجاوزات تھیں ،بعد ازاں قبضہ مافیا کی جانب سے لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، ناظم آباداور گلستان جوہر سے گزرنے والے ٹریک پر تجاوزات قائم کرادی گئیں،جن میں فرنیچر، غیر قانونی دکانیں، گودام مختلف کارخانے، مویشی منڈیاں، رکشہ اسٹینڈ، گاڑیوں کے ورکشاپ، کباڑ بازار اور رہائشی کالونیاں شامل ہیں۔ گلشن اقبال 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ اور پاپوش میں تو ریلوے ٹریک لاپتہ ہی ہو گیا ہے اور کئی کلومیٹر علاقے پر اب کاروباری مراکز قائم ہو چکے ہیں۔نارتھ ناظم آباد ٹریک پر کانٹے والے ملازم کے کوارٹرپر قبضہ کر کے تندور قائم کردیا گیا بعض ریلوے ٹریکس پر سگنلز آج بھی آویزاں ہیںجبکہ نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشن اقبال ریلوے ٹریکس پر سے پھاٹک غائب ہوچکے ہیں، مختلف علاقوں میں ٹریکس ختم کرکے کچی سڑکیں بنائی جاچکی ہیں جبکہ ریلوے ٹریک کو کچرا کنڈیوں کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے،
بعض ٹریکس جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔یاد رہے کہ حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کیلئے 360 ایکڑ زمین درکار ہے، جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے جہاں 4500کے قریب مکانات اور 3000دیگر تعمیرات موجود ہیں۔سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 ءمیں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھاجس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں ، اس اس سہولت سے سالانہ 60لاکھ افراد مستفید ہوا کرتے تھے ۔سرکلر ریلوے کی افادیت کے پیش نظر 70سے 80 کی دہائی کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے گزر کر سٹی اسٹیشن کراچی پر ختم ہوتی تھی جبکہ مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلاکرتی تھیں