ہفتہ، 23 اگست، 2025

اب کراچی والوں کا آخری سہارا سپریم کورٹ ہے

 




   فرنگی  اس خطے میں اپنے اغراض  و مقاصد لے کر آئے تھے لیکن  جاتے ہوئے وہ ہم کو ایسے پائیدار اثاثے دے گئے کہ ہم اپنی آزادی کے  بعد اسی برس ہونے کو آئے  ان کے مقابلے کا  تو کیا اس معیار کے پانچویں درجے کا بھی کوئ اثاثہ نہیں بنا سکے   ان کا بنایا ہوا ڈرینج  سسٹم آج بھی صحیح و سالم حالت میں موجود ہے اور کام کر رہا ہے  -ٹرانسپورٹ  کا کتنا بہترین نظام ہوا کرتا تھا  جو کراچی میں تعینات پولیس مافیا نے  برباد کر کے کھڈے لائن لگا دیا  ہے اور اب   کراچی والوں کا آخری سہارا سپریم کورٹ ہے، وطن عزیز میں کہاں کیا مسئلہ ہے اور اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے اس پر غورو خوض ہورہا ہے، بتدریج یہ عمل تیزی اور مزید شفافیت کی جانب مائل ہے۔اسی سپریم کورٹ نے حال ہی میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ریلوے کی زمینوں سے قبضہ چھڑانے کا حکم جاری کیا ہے۔سپریم کورٹ نے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے تمام علاقوں سے ریلوے لائنز کلیئر کرائی، کے ایم سی اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے بوگیاں تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ ریلوے کی مدد سے روٹ کا تعین کرے گی ۔اعلیٰ عدالت نے سیاحتی مقاصد کیلئے صدر سے اولڈ سٹی ایریا تک ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا۔ گزشتہ دنوں تجاوزات کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے جن پر برق رفتاری سے کام کیا جارہا ہے، اس فیصلے کے نتیجے میں آج ہم کراچی کی ان عمارتوں کو دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں جنہیں تجاوزات نے ہم سے چھپا رکھا تھا۔


اس کے بعد عدالت کی جانب سے دوسرا بڑا حکم سرکلر ریلوے کے حوالے سے آیا جس نے ایک جانب عوام میں خوشی کی لہر دوڑا دی تو دوسری جانب تشویش۔خوشی اس لئے کہ سفری سہولیات کی عدم دستیابی اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، سرکلر ریلوے کی بحالی اس مسئلے کا سب سے احسن حل ہے جبکہ تشویش اس لئے کہ اس حل تک پہنچنے کیلئے بے شمار تجاوزات راہ میں حائل ہوں گی جنہیں دور کرنا یقیناً دشوار گزار مرحلہ ہے،گو اس وقت شہر میں گرین لائن منصوبے کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور اس سے مخصوص روٹ کے مسافروں کو کافی سہولت ہوجائے گی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ انتہائی ناکافی ہے۔سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کےساتھ ساتھ ریلوے کی زمین پر سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم بھی دیا ہے جس کے بعد سرکلر ریلوے کی اراضی واگزار کرانے کیلئے آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔


ان اطلاعات کے ساتھ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ریلوے انتظامیہ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی زمین لیز پر دیئے جانے کی خبریں سامنے آنے لگیں،شنیدن ہے کہ ریلوے حکام نے سرکلر ریلوے لائن پر قائم تجاوزات کی لیز سے متعلق ڈپٹی کمشنر ساﺅتھ اور متعلقہ محکمے کو خط لکھا ہے جس کا متن کچھ یوں ہے کہ سرکلر ریلوے کی زمین پٹرول پمپ، پارکنگ اور گودام کیلئے لیز پر دی گئی گی ،لیز پر دی گئی زمینیں ضلع وسطی، جنوبی سمیت دیگر اضلاع میں واقع ہیں جن میں وزیر مینشن، گلبائی، لیاقت آباد اور پاپوش نگر کے علاقے قابل ذکر ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریلوے ٹریک پر جگہ ،جگہ تجاوزات ، جھونپڑ یا ں اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جنہیں واگزار کرنے کیلئے حکومت کو 21 کلو میٹر ٹریک سے تجاوزات کا خاتمہ کرانا ہوگا یعنی ضلع شرقی میں 20 کلو میٹر ٹریک میں سے 11 کلو میٹر پر ،ضلع وسطی میں 7 میں سے 6 کلو میٹر پر ،ضلع غربی میں ساڑھے11 میں سے ڈھائی کلو میٹر ٹریک پر قبضہ ہے، ضلع جنوبی کے ساڑھے چارمیں سے ڈیڑھ کلو میٹر ٹریک پر تجاوزات قائم ہیں۔



یاد رہے کہ 1999ءمیں بند ہونے والی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 2005 ءتک صرف چند مقامات پر ہی تجاوزات تھیں ،بعد ازاں قبضہ مافیا کی جانب سے لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، ناظم آباداور گلستان جوہر سے گزرنے والے ٹریک پر تجاوزات قائم کرادی گئیں،جن میں فرنیچر، غیر قانونی دکانیں، گودام مختلف کارخانے، مویشی منڈیاں، رکشہ اسٹینڈ، گاڑیوں کے ورکشاپ، کباڑ بازار اور رہائشی کالونیاں شامل ہیں۔ گلشن اقبال 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ اور پاپوش میں تو ریلوے ٹریک لاپتہ ہی ہو گیا ہے اور کئی کلومیٹر علاقے پر اب کاروباری مراکز قائم ہو چکے ہیں۔نارتھ ناظم آباد ٹریک پر کانٹے والے ملازم کے کوارٹرپر قبضہ کر کے تندور قائم کردیا گیا بعض ریلوے ٹریکس پر سگنلز آج بھی آویزاں ہیںجبکہ نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشن اقبال ریلوے ٹریکس پر سے پھاٹک غائب ہوچکے ہیں، مختلف علاقوں میں ٹریکس ختم کرکے کچی سڑکیں بنائی جاچکی ہیں جبکہ ریلوے ٹریک کو کچرا کنڈیوں کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے،


 بعض ٹریکس جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔یاد رہے کہ حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کیلئے 360 ایکڑ زمین درکار ہے، جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے جہاں 4500کے قریب مکانات اور 3000دیگر تعمیرات موجود ہیں۔سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 ءمیں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھاجس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں ، اس اس سہولت سے سالانہ 60لاکھ افراد مستفید ہوا کرتے تھے ۔سرکلر ریلوے کی افادیت کے پیش نظر 70سے 80 کی دہائی کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے گزر کر سٹی اسٹیشن کراچی پر ختم ہوتی تھی جبکہ مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلاکرتی تھیں

جمعہ، 22 اگست، 2025

کراچی میں پٹاخوں کے گودام میں آتشزدگی

 


       21  اگست  2025  ءکی کراچی سے خبر ہے -   کراچی کے علاقے ایم اے جناح روڈ پر پٹاخوں کے گودام میں دھماکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 34 افراد زخمی  2 لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں ۔پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ طارق کا کہنا ہے کہ پٹاخوں کے گودام میں دھماکے سے زخمیوں کی تعداد 34 ہوگئی، جناح اسپتال میں 20 جبکہ سول اسپتال میں 14 زخمی لائے جا چکے ہیں، جناح اسپتال میں 4 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ایم اے جناح روڈ کراچی میں آتشبازی کے گودام میں زوردار دھماکے کے بعد آگ بھڑک اُٹھی ، ۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اطراف کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔دھماکے سے گرد و نواح کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور آگ لگ گئی تھی، جس پر چند گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد قابو پالیا گیا، گودام میں لگی آگ بھجانے میں 10 فائر ٹینڈرز نے حصہ لیا،  پٹاخوں کے گودام میں دھماکے اور آگ لگنے کے بعد سیاہ دھواں پھیل گیا تھا۔پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ طارق کا کہنا ہے کہ پٹاخوں کے گودام میں دھماکے  کے بعد جناح اسپتال میں 20 جبکہ سول اسپتال میں 14 زخمی لائے جا چکے ہیں، جناح اسپتال میں 4 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ 



پولیس کا کہنا ہے کہ گودام کے مالکان دو بھائی ہیں، دھماکے میں زخمی ہوئے ایک بھائی کا ابتدائی بیان لیا گیا ہے، دونوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ ضیاء لنجار کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں ایسے گوداموں کی اجازت نہیں، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔اس سے قبل  سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ایسٹ فرخ رضا کا کہنا تھا کہ آتش بازی کے گودام میں دھماکا ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہوا ہے، ایسٹ پولیس پریڈی پولیس کو ہر ممکن امداد فراہم کر رہی ہے۔ایس ایس پی ایسٹ فرخ رضا کا کہنا تھا کہ امدادی رضا کاروں اور فائر بریگیڈ کے عملے کو سہولت دی جا رہی ہے۔کراچی کے علاقے صدر میں ایم اے جناح روڈ پر پٹاخوں کے گودام میں زور دار دھماکے کے بعد آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہو گئے۔


دھماکا تاج کمپلیکس کے قریب الآمنہ پلازہ کی بیسمنٹ میں قائم پٹاخوں کے گودام میں سہ پہر کے وقت ہوا۔ آگ اتنی شدید تھی کہ قریبی اسکول اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا، جبکہ ایک نوجوان کی لاش ملبے سے نکالی گئی۔جاں بحق ہونے والے نوجوان کی شناخت اسد شاہ کے نام سے ہوئی، جو پٹیل پاڑہ کا رہائشی اور مدرسے کا طالبعلم تھا۔ اسد کے چچا جمال شاہ کے مطابق، وہ اپنے بھائی افسر شاہ سے ملاقات کے لیے عمارت میں آیا تھا کہ دھماکے کی زد میں آ گیا۔پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کے مطابق زخمیوں کو جناح اسپتال اور سول اسپتال منتقل کیا گیا۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کو زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی۔عینی شاہدین کے مطابق، دھماکے سے عمارت کے ستون اور دیواریں متاثر ہوئیں، سیمنٹ کے بلاکس وہاں کھڑی گاڑیوں پر جاگرے، جبکہ قریبی دکانوں، اسکول اور رہائشی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔


فائربریگیڈ کی بارہ گاڑیوں، دو باؤزرز اور ایک اسنارکل کی مدد سے آگ پر قابو پایا گیا اور متاثرہ عمارت کی چھت پر پھنسے افراد کو بحفاظت اتارا گیا۔گودام میں دھماکا خیز مواد موجود تھا: سی ٹی ڈی-چیف فائرآفیسر ہمایوں نے بتایا کہ تاج میڈیکل کمپلیکس کے قریب ’ الآمنہ پلازہ‘ کے تہہ خانے میں سپر فائر ورکس کے نام سے گودام قائم تھا، جہاں آتشبازی کے سامان کی تیاری کے لیے خام مال ذخیرہ کیا گیا تھا جبکہ سی ٹی ڈی کے انچارج راجہ عمر خطاب نے انکشاف کیا کہ گودام میں صرف آتشبازی کا نہیں بلکہ دھماکا خیز مواد بھی موجود تھا۔انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ لوگ اسے آتشبازی کا سامان کہتے ہیں مگر اس میں دھماکا خیز مواد موجود تھا۔ قانون کے مطابق ایک دکان میں 50 کلوسے زیادہ مواد نہیں رکھاجاسکتا۔ انہوں نے رہائشی علاقوں میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کو نہایت خطرناک قرار دیا۔واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے، جس میں دھماکے کے فوری بعد آگ کے شعلے بلند ہوتے اور شہریوں کو بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔

جمعرات، 21 اگست، 2025

دریا اپنا راستہ کبھی بھی کسی کو نہیں دیتا

   

دریا اپنا راستہ کبھی بھی کسی کو نہیں دیتا -در یا کافی دنوں سے خشک پڑا تھا  جہاں ناشتہ کر رہے تھے وہ حادثہ کے مقام سے تھوڑا دور تھا اور اس وقت پانی کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔پہاڑوں پر 2 دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی جسکی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی اور دیکھتے دیکھتے پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا اور اچانک پانی کو آتے دیکھ کر یہ لوگ  خوشی کے مارے دیوانہ وار پاگلوں کی طرح وہاں دور آگے دوڑ کر گئے تاکہ ویڈیوز اور تصاویر بنا سکیں اور کچھ لوگ پانی کے قریب بھاگ کر گئے اور وہاں سیلفیاں بناتے ہوئے فوٹوگرافی کرنا شروع کر دی جبکہ ان کے کچھ رشتے دار بیٹھے رہے اور منع کرتے رہے کہ زیادہ اندر مت جائیں لیکن یہ گروہ  پانی کے ساتھ سیلفیاں لیتے رہے بلکہ بیٹھے رہ جانے والے باقی افراد کو بھی بلاتے رہے کہ آ جائیں اور پانی کو دیکھیں لیکن باقی رشتہ دار بیٹھے رہے اور انکو آوازیں دے کر بلاتے رہے کہ واپس آ جائیں اور انکو چیخ چیخ کر کہا کہ پیچھے سے پانی کا بہاؤ تیز ہو گیا ہے نکلو فوری لیکن اس بدنصیب خاندان کے چند افراد کا سیلفی جنون ختم نہیں ہوا اور پھر پانی کا بہت بڑا ریلا آ گیا اور یہ لوگ خوفزدہ ہو کر کنارے کی طرف نہیں بھاگے بلکہ ڈر کے مارے اس ٹیلے پر چڑھ گئے اور پھر جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔



  تصاویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی پوزیشن بدلتے رہے لیکن پانی کا بہاؤ اور لیول بڑھتا گیا اور لوگ دریا کنارے ویڈیوز بناتے رہے لیکن مدد کے لئے کوئی نہیں گیا نہ ہوٹل والے اور نہ مقامی انتظامیہ آگے آئی اور پھر دردناک سانحہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہو گیا-پختونخوا میں دریائے سوات میں ایک المناک واقعے میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد ڈوب کر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ بدقسمت خاندان دریائے سوات کے کنارے تفریح کے لیے ڈسکہ، سیالکوٹ سے آیا تھا۔ خاندان کے لیے خوشی کے یہ لمحات قیامت میں تبدیل ہو گئے۔بتایا جاتا ہے کہ مینگورہ بائی پاس کے قریب اچانک پانی کا ریلا آنے سے 16 افراد دریا میں بہہ گئے۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں آج کل موسلادھار بارشیں ہو رہی ہیں۔ مختلف اطلاعات کے مطابق دریائے سوات میں سات مقامات پر ڈوبنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات میں خواتین اور بچوں سمیت 75 سے زائد افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے۔سوات بائی پاس پر بچوں، خواتین اور مردوں سمیت 19 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے،


ان میں ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 11 افراد بھی شامل ہیں جن میں سے صرف تین کو بچایا جاسکا، ڈوبنے والے افراد کی ہولناک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں، بدقسمت خاندان دریا کی بپھری ہوئی موجوں میں گھرا رہا اور مدد کا انتظار کرتا رہا۔ دریا کے کنارے پر موجود عام لوگوں نے اپنے طور پر لوگوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن دریا کا پانی بہت تیز تھا، جس کی وجہ سے ان کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔دوسری جانب وہ تمام لوگ عام شہری تھے جنھیں اس قسم کی ہنگامی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی تربیت حاصل تھی اور نہ ہی ان کے پاس حفاظتی سامان اور دیگر آلات موجود تھے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کو اطلاعات بھی پہنچائی گئیں لیکن بروقت امداد نہ پہنچ سکی۔صوبائی ریسکیو ادارے دریا میں گھر ہوئے افراد کو بچانے میں ناکام رہے بلکہ موقع پر ہی نہ پہنچ سکے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے غفلت برتنے پر2 اسسٹنٹ کمشنرز سمیت 4 افسران کو معطل کردیا ہے۔


اس المناک اور افسوس ناک سانحے پر صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، وزیرداخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے افسوس کا اظہار کیا ہے، واقعات کے مطابق ڈسکہ، سیالکوٹ کا بدقسمت خاندان گزشتہ رات سوات گیا، اس خاندان کے ساتھ کوسٹر میںڈسکہ کے ہی 35 افراد سوار تھے، یہ سب آپس میں رشتے دار اور تعلق والے تھے۔جمعے کو سوات بائی پاس کے مقام پر ناشتہ کے لیے رکے اس دوران سیلابی ریلہ آگیا تو خاندان نے فوری طور پر اونچے ٹیلے پر پناہ لی، ان کے ساتھ مردان اور کراچی کے تین افراد بھی تھے، رفتہ رفتہ پانی کا بہاؤ تیز اور اونچا ہوتا گیا اور ایک ایک کرکے تمام 19افراد دریا میں بہہ گئے، مقامی افراد کے مطابق انھوں نے فوراً ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 کو اطلاع دی مگر امدادی ٹیمیں کافی تاخیر سے پہنچیں، تب تک لوگ دریا میں بہہ چکے تھے۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈوبنے والی فیملیز دریا کے پاٹ میں بجری کے ایک ٹیلے پر ناشتہ کر رہی تھیں، یہاں بریک فاسٹ پوائنٹ غیرقانونی طور پر بنایا گیا تھا۔



 اچانک دریا میں پانی کی سطح بلند ہوئی اور وہ ٹیلہ چاروں طرف سے پانی میں گھِر گیا، وہ لوگ دریا کے کنارے تک نہیں پہنچ سکے، مرد ،خواتین اور بچے چیختے رہے اور سامنے موجود لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے رہیں لیکن کسی قسم کے امداد فراہم نہیں ہوسکی اور تمام افراد پانی کے ریلے میں بہہ گئے ، ریسکیو 1122، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے جوان کافی دیر بعد نمودار ہو گئے اور امدادی کارروائیاں شروع کر دیں، ضلعی انتظامیہ نے فوری طور پر علاقے میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔سانحہ سوات نے پورے ملک کو سوگ میں ڈبو دیا ہے۔ اس دردناک سانحے کے وڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں۔ جسے دیکھ کر ہر دردِدل رکھنے والا شخص دکھی ہو گیا ہے۔ مون سون کے دوران پہاڑی علاقوں میں سیر وتفریح کے لیے جانا ایک معمول کی بات ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں نے کبھی بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی ریسکیو اداروں کے اہلکاروں اور افسروں کی جوابدہی کا کوئی میکنزم بنایا ہے۔ سانحہ سوات کی وڈیو کلپس دیکھ کر یہ احساس زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ بدقسمت خاندان کو بآسانی بچایا جاسکتا تھا۔ اگر تربیت یافتہ عملہ ہوتا اور ان کے پاس ریسکیو کا سامان اور آلات ہوتے تو ٹیلے پر موجود لوگوں کو بچانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔

شمالی علاقوں کا حسن جو گہنا گیا

 



 


گلگت بلتستان کا خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، برف باری معمول سے کم ہو رہی ہے، گلیشیئر بھی متاثر ہو رہے ہیں، ساتھ ساتھ بغیر منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے ہونے والی ترقیاتی کام بھی اس کے ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال رہے ہیں۔شمالی علاقوں کے درخت بے دردی سے کاٹے جارہےہیں -گلگت  بلتستان کا خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، برف باری معمول سے کم ہو رہی ہے، گلیشیئر بھی متاثر ہو رہے ہیں، ساتھ ساتھ بغیر منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے ہونے والی ترقیاتی کام بھی اس کے ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال رہے ہیں۔نہایت بےہنگم اور ہر کسی گائیڈ لائن کے بغیر ہونے والی بلا روک و ٹوک تعمیرات زرعی زمینوں اور سبزہ و گیاہ کو تیزی سے نگل رہی ہیں، وہیں پر سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے جگہ جگہ بغیر پلاننگ کے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹل بے ترتیب کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں۔محکمہ جنگلات   میں درکار بنیادی اصطلاحات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جسکی وجہ سے جنگلات کے محدود ذرائع پر بہت دباؤ ہے۔  بااثر لوگوں کی سپورٹ، الیکٹرک آروں، گاڑیوں اور اسلحہ سے لیس ٹمبر  مافیا سے ان جنگلات کو محفوظ رکھنے کے لئے محکمہ جنگلات نے 3500 نہتے اور  پیدل فارسٹ گارڈز اور فارسٹرز تعینات کر رکھے ہیں۔



 ایک فارسٹ  گارڈ/فارسٹر کے پاس اوسطاَ 100 سے 500 کلومیٹر لمبی نہروں/سڑکوں کے کنارے  موجود درختوں یا 500 سے 2000 ایکڑ جنگل کی حفاظت کی بھاری ذمہ داری ھوتی ہے  جس کے لئے وہ 24/7 راؤنڈ دی کلاک زمہ دار ھوتے ہیں، جنگل میں مسلسل  باقاعدگی سے پیٹرولنگ کرنا اور نقصان جنگل کی صورت میں ڈیمیج رپورٹ کے  ذریعے اپنے بلاک آفیسر کو آگاہ کرنا فارسٹ گارڈ کی بنیادی ڈیوٹی ہے۔ یہ  قیمتی جنگل وسیع علاقے میں بکھرے ہوتے ہیں جس پر ٹمبر مافیا کی نظر ھوتی ہے  لیکن اس کی حفاظت ایک اکیلے،نہتے اور معمولی تنخواہ لینے والے فارسٹ گارڈ  اور فارسٹر کی ذمہ داری ہے جن کے لئے ٹمبر مافیا کا مقابلہ کرنا ناممکن ہےنہایت بےہنگم اور ہر کسی گائیڈ لائن کے بغیر ہونے والی بلا روک و ٹوک تعمیرات زرعی زمینوں اور سبزہ و گیاہ کو تیزی سے نگل رہی ہیں، وہیں پر سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے جگہ جگہ بغیر پلاننگ کے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹل بے ترتیب کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں۔وڈ برسٹ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کلاوڈ برسٹ کی اصطلاح سنی اورپھر آنکھوں سے دیکھی بھی  اور خوفناک ترین مناظر بھی دیکھے جیسے پہاڑوں سے سیاہ رنگ کا ملبہ بہتے ہوئے شہر کی جانب آتے دیکھا  تو دوسری جانب بادل جو پھٹ کے پہاڑ پر گرا تو پہاڑ کئ ٹن وزنی پتھروں میں چورا چورا ہوا اور پھر نشیب میں  آبادی پر گھروں میں آ کے ٹکرائے اور انسان مویشی مال و اسباب سب کے تہس نہس کر ڈلا  -، کلاؤڈ برسٹ ہماری زمین کو متاثر کرنے والی ماحولیاتی تبدیلی کا ایک نیا مظہر ہے۔


 اس میں نام کی طرح عملاً بادل نہیں پھٹتے، تاہم بہت کم وقت میں ایک چھوٹے سے علاقے پر اچانک اتنا پانی برستا ہے کہ زمین اور نکاسی کا نظام اس کو سنبھال نہیں پاتا۔ اگر ایسی صورتحال ہو تو یہ برساتی پانی سیلابی ریلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے جب کہ مٹی کے تودے گرنےاور کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب کلاوڈ برسٹ کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔ اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں،جس کا نتیجہ طوفانی بارش کی شکل میں نکلتا ہے کیونکہ بادل اتنے پانی کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتے۔ محکمہ موسمیات پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق کلاؤڈ برسٹ کو رین گش اور رین گسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرکسی چھوٹے علاقے میں مختصر وقفے میں شدید بارش ہوجائے تو اسے کلاؤڈ برسٹ کہا جاتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مخصوص علاقے میں ایک گھنٹے میں کم سے کم 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جائے۔انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق کلاؤڈ برسٹ مقامی واقعہ ہوتا ہے، جو مختصر وقفے کے لیے رونما ہوتا ہے اور گرج چمک اور شدید برقی یا بجلی کی سرگرمی کی وجہ بنتا ہے۔



 اس میں عموماً بادل کے نیچے کی ہوا اوپر اٹھتی ہے اور پانی کے قطروں کو کچھ دیر گرنے سے روکتی ہے۔ اب جیسے ہی ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے پانی کی بڑی مقدار بادل سے گرتی ہے اور یوں بادلوں کا پانی گویا اس طرح بہتا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کلاؤڈ برسٹ کے زیادہ ترواقعات پہاڑی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ جب پانی کی بڑی مقدار نیچے گرتی ہے تو سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے بہاؤ میں آبادی اور فصلوں کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔   اگر کسی علاقے میں ایک گھنٹے میں 200 ملی میٹر بارش ہوجائے تو اسے کلاؤڈبرسٹ کہا جا سکتا ہے۔  مظفرآبادمیں موسمیاتی تبدیلی سے سمندری طوفان غیر معمولی بارشیں  اور لوگ نئی اصطلاح کلاؤڈ برسٹ سے آشنا ہوئے ہیں۔پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث موسمی تغیرات کا سامنا کر رہا ہے۔ کہیں غیر معمولی بارشیں تو کہیں قیامت خیز گرمی، سیلاب، گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ اور دیگر کئی موسمی تبدیلیاں شدید متاثر کر رہی ہیں ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نے بونیر، سوات اور صوبے کے دیگر شہروں میں سیلابی صورتحال پر کہا کہ کلاؤڈ برسٹ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک سیکنڈ کا بھی وقت نہیں ملتا، مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کیلئے زیادہ فوکس کریں گے ہمیں مستقبل کیلئےکلاؤڈ برسٹ سے متعلق خصوصی تیاری کرنا ہو گی۔ ڈائریکٹر امجدعلی خان نے بتایا کہ بونیر میں کلاؤڈبرسٹ کی وجہ سے تباہی زیادہ ہوئی ہے کلاؤ ڈبرسٹ کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی،۔موسلادھار اور غیر معمولی بارشوں کے دوران شہریوں نے ایک لفظ سنا ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ ہوا ہے۔ اس کے لفظی معنی تو ’’بادل پھٹنا‘‘ ہیں


بونیر میں تباہی-چند روز پہلے تک بشونئی سرسبز پہاڑوں میں گھرا خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کا ایک خوبصورت گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت ندی بہتی تھی۔ اس ندی کے ساتھ مکان تھے۔15 اگست یعنی جمعے کی صبح بشونئی کے لوگ صبح سویرے اٹھے اور اپنے اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ بچوں کے سکول جانے کے بعد خواتین گھروں کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔یہ سب اس بات سے بے خبر تھے کہ اگلے لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ اس صبح شدید بارش ہوئی۔ مقامی لوگوں کے مطابق اچانک پانی کا ایسا ریلا آیا جو ’اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر لایا اور راستے میں آنے والی عمارتیں ملیا میٹ کرتا ہوا آنا فانا پورا گاؤں تباہ کر گیا۔‘یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک کم از کم 314 افراد ہلاک اور 156زخمی ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں 217 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پیر، 18 اگست، 2025

کیا چاند ہماری روز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے

 



چاندنا  صرف یہ کہ ہماری روز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ہمارے ماضی سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی آوا گون کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے لیکن اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔آواگون کا فلسفہ بھی چاند کے اثرات سے جڑا ہوا ہے کیوں کہ چاند انسان کے ماضی پر حکمرانی کرتا ہے۔ان میں فیثا غورث، سقراط، افلاطون، بینجمن فرنیکلن، ایمریسن، تھوریو، ٹالسٹائی، مارک ٹوئن، ہنری فورڈ، عظیم ماہرِ نفسیات کارل یونگ اور جارج پیٹن وغیرہ شامل ہی- ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان پر چمکنے والا چاند جو ہماری زمین کے گرد رات دن چکر لگارہا ہے ، یہ بھی ہماری زندگی اور زندگی کے بیشتر معاملات میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خاص طور پر پورا چاند ہمارے جذبات پر بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔وہ مثبت برق پاروں کو جنم دیتا ہے جو ہماری جلد سے چمٹ کر ہمارے دماغ پر دباو ¿ ڈالتے ہیں۔مغرب میں دماغی صحت کے اداروں اور پولیس کے محکمے میں کام کرنے والے لوگوں نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پورے چاند کے دوران میں کچھ لوگ بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں یا ان کے دماغی دوروں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔


اس دوران میں عام طور سے زیادہ حادثات جنم لیتے ہیں اور ذہنی امراض کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایک پولیس آفیسر کا بیان ہے کہ ساحل سمندر پر لوگ پورے چاند کے دوران میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں۔دراصل چاند کی گردش سے جنم لینے والے برق پارے جو ہمارے دماغ پر دباو ڈالتے ہیں، سمندری سطح پر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی بلند پہاڑ پر جائیں یا کسی بلند مقام پر قیام کریں تو خود کو زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں یا جب ہم غسل کرتے ہیں تو یہ برق پارے دھل جاتے ہیں اور ہم خود کو زیادہ ترو تازہ محسوس کرتے ہیں۔شاید ان برق پاروں کی زیادتی ہمارے دماغ پر اثر انداز ہوکر دماغی صلاحیتوں کو زیادہ متحرک بھی کرتی ہے یعنی دماغ کے زیادہ خلیے کام کرنے لگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی ذہانت اور فکرو فلسفے کا اظہار ہوتا ہے۔دنیا بھر میں ساحل سمندر کے نزدیک رہنے والے افراد خاصے تیز و طرار اور غیر معمولی طور پر ذہین پائے گئے ہیں، وہ زیادہ متحرک انداز میں زندگی گزارتے ہیں

 


   یہاں کچھ آیات قرآنی   ہیں جو ستاروں اور انسانی زندگی کے تعلق کو نمایاں طور پر بیان کرتی ہیں۔ جیسے سورہ والشمس، القمر اور النجم شامل ہیں سورہ النحل آیت 12 :”اور اسی نے تمھارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا اور اسی کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں، سمجھنے والوں کے لیے اس میں نشایناں ہیں”۔ سورہ الانعام آیت 97:”اور وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں میں ان سے راستے معلوم کرو، عقل والوں کے لیے ہم نے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں”۔ اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قدیم زمانوں میں سمندروں، میدانوں اور صحراؤں میں سفر کرنے والے ہمیشہ ستاروں کو اپنا راہبر بنا کر منزل کی طرف سفر کرتے تھے۔ انسان کا یہ طرز عمل قرآن کی ان آیات کے عین مطابق ہے۔ سورہ یونس آیت 5:”وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو، (سب کچھ) اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے، سمجھنے والوں کے لیے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے”۔



 علم روحانیت میں چاند کو مرکزی مقام حاصل ہے اور چاند کے اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف نقوش اور الواح تیار کی جاتی ہیں۔ سورہ والنجم کی آیات 1-3:”تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے، کہ تمھارا رفیق(محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں، اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں”۔ یہاں خالق کائنات اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت اور عظمت بیان کرنے کے لیے ستارے کی قسم کھا رہا ہے۔ قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کے سامنے نازل ہوا ہمیں کسی کتاب اور تفسیر میں نہیں ملتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھما نے ان آیات کو دیکھ کر کہا ہو کہ انسان کا ستاروں سے کیا تعلق۔ اللہ نے ستارے کی قسم کھا کر بتا دیا کہ انسان کا ستاروں سے گہرا رشتہ ہے۔ جب حکم الہی کے مطابق رشتہ ثابت ہو چکا تو پھر یہ بات بھی طے ہے کہ دوسرے انسان رشتوں کی طرح ستاروں سے رشتہ بھی انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔


سورہ الواقعہ آیات 75-77:”ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم، اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے، کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے”۔ یہاں رب العالمین نے قرآن کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے ستاروں کی منازل(چالوں) کی قسم کھائی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالی نے جہاں انسان اور ستاروں کا تعلق بیان کیا ہے وہاں یہ بھی واضح کردی ہے کہ قرآن کریم اہل عقل اور ان لوگوں کے لیے ہے جو حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

راہب اور سر حضرت امام حسین علیہ السلام

  


راہب اور سرحسین علیہ السلام

 اس میں کوئی شک نہیں کہ حسینؓ سب کے ہیں ،مسلمانوں کے علاوہ ہندو عیسائی ،بدمت اور یہودیوں میں بھی ایسے حقیقت پسند لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے حضرت امام حسینؓ کی شان میں کلمہ بلند کیا اور نوحے لکھے ہیں ۔عیسائیوں کی حضرت امام حسینؓ سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ایرانی محقق محمد رضا زائری نے اپنی کتاب میں امام حسینؓ سے پولس سلامہ جیسے عیسائی محقق کی عقیدت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے خود ان ہی کی زبانی لکھاہے ’’ میں بچپنے سے قرآن مجید اور تاریخ اسلام کا شیفتہ تھا اور جب بھی شہادت حضرت علیؓ اور ان کے فرزند امام حسین علیھماالسلام کی بات آتی تھی تو حق کی نصرت اور باطل کے خلاف جنگ کا شعلہ میرے سینے میں روشن ہوجاتا۔ ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ ایک مسیحی کو اسلام کی تاریخ بیان کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ میں ایک عیسائی ضرور ہوں لیکن تنگ نظر عیسائی نہیں ہوں‘‘سلامہ نے ایک منظوم کلام میں واقعہ کربلا ، امام حسینؓ کی تحریک کے آغاز اور اس تحریک کے مختلف مراحل اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور لکھتے ہیں کہ حسینؓ تیرے غم نے مجھ مسیحی کوبھی رلادیا دیا اور آنسوؤں کے قطرے میرے آنکھوں سے جاری ہوئے اور تابندہ ہوگئے۔ ہرگز اس شخص کی کیفیت جو دور سے آگ کا نظارہ کرتا ہے اس جیسی نہیں ہوسکتی جو خود آگ میں جل رہا ہے۔ 



چوتھی صدی ہجری کے محدث حضرت محمد بن حبان تمیمی دارمیؒ نے اپنی کتب ’’الثقات اور اسیرۃ‘‘ میں بھی ایک عیسائی راہب کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے جب حضرت امام حسینؓ کے سر انور پر تجلیات دیکھیں تو اس نے اپنی ساری جمع پونجی دیکر سر انور کا رات بھر دیدارکیا اور مسلمان ہوگیا تھا ۔ابن حبان لکھتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے اہل بیت کرام کی سراپا عفت خواتین اور لاڈلے بچوں کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرانور کو ملک شام لے جانے کا حکم دیا۔ جب بھی قافلہ والے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو امام حسینؓ کے سرانور کو صندوق سے نکالتے اور معاذ اللہ ایک نیزہ پر رکھتے اور کوچ کرنے تک اس کی حفاظت کرتے، پھر روانگی کا موقع ہوتا تو سرانور کو صندوق میں رکھتے اور روانہ ہوجاتے۔ اس طرح وہ لوگ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں عیسائی عبادت خانہ تھا۔اس وقت وہاں ایک راہب موجود تھا۔اپنے معمول کے مطابق ظالموں نے امام عالی مقامؓ کے سرانور کونیزہ پر رکھا اور عبادت خانہ کی کسی جگہ نیزہ لگادیا۔


عبادت خانہ میں رہنے والے عیسائی نے رات میں دیکھا کہ عبادت خانہ سے آسمان کی طرف عظیم الشان نور بلند ہورہا ہے۔ راہب نے فوراً ظالموں کے پاس آکر کہا’’ تم کون ہو اور یہ سرانور کس کا ہے؟‘‘ان لوگوں نے کہا’’ ہم اہل شام ہیں اور یہ سر ایک خارجی  کا ہے‘‘ اس کا نام کیا ہے -بدبخت نے مولا کا نام بتایا پھر اس نے ماں اور باپ کا نام پوچھا کیونکہ راہب نورانی تجلیات دیکھ کر  ان بدبختوں کا پاس آیا تھا  -پھر اس نے کہا’’ تم کیسی بدبخت قوم ہو، قسم بخدا ! اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسل مبارک کا کوئی فرد اب موجود رہتا تو ہم اس کی ایسی تعظیم کرتے کہ اس کو اپنی آنکھوں پر رکھتے‘‘ پھر کہا’’ اے لوگو! مجھے دس ہزار دینار میرے آباء و اجداد سے وراثت میں ملے ہیں، اگر میں دس ہزار دینار تمہیں دے دوں تو کیا سرانور آج رات رکھنے کیلئے مجھے دو گے؟‘‘یزیدیوں نے کہا’’ کیوں نہیں‘‘ پس عیسائی راہب نے دینار کی تھیلی انڈیل دی۔ ان لوگوں نے دینار گن کر تھیلی میں رکھ لئے اور اس پر مہر لگا کر صندوق میں محفوظ کرلئے، پھر سرانور کو عیسائی راہب کی طرف بڑھادیا۔


راہب نے نہایت تعظیم کے ساتھ سرانور لے کر اس کو غسل دیا اور اپنی گود میں رکھ کر رات بھر روتا رہا ۔جب صبح کا وقت قریب ہوا تو کہا’’ اے سرانور! میں اپنے آپ ہی پر قابو رکھتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؓ کے نانا حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘ یہ کہہ کر مسلمان ہوا اور امام حسینؓ کی غلامی میں شامل ہوا ۔پھر سرانور کو ان کے حوالہ کیا، ان لوگوں نے سرانور دوبارہ صندوق میں رکھا اور روانہ ہوگئے۔ جب دمشق کے قریب پہنچے تو کہنے لگے کہ ہم دس ہزار دینار آپس میں تقسیم کرلیتے ہیںَ اگر یزید دیکھ لے گا تو ہم سے چھین لے گا، چنانچہ صندوق کھول کر دینار کی تھیلی جیسے ہی کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ دینار ٹھیکری بن چکے ہیں اور اسی ٹھیکری کی ایک جانب سورہ ابراھیم کی یہ آیت لکھی ہوئی پائی۔ 

ترجمہ’’ ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس سے ہرگز بے خبر مت سمجھو۔ ‘‘ اور دوسری جانب سورۃ الشعراء کی یہ آیت لکھی دیکھی ’’ ترجمہ: عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کیسی بری جگہ لوٹیں گے‘‘ یہ واقعہ دیکھ کر بعض لوگوں نے توبہ کی اور بعض اسی حال پر قائم رہے ۔ ۔

 

 ۔ 

اتوار، 17 اگست، 2025

"مسجد کوفہ" مسلمانوں کی عظمت و رفعت کی نشانی

  



     مستند روائت ہے کہ مسجد  کوفہ کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے  کی تھی  اور حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے بعد اس کی تعمیر نو کی. اس مسجد میں ایک محراب ہے جسے محرابِ امام علی علیہ السلام کہتے ہیں، جہاں امام علی علیہ السلام نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی جگہ انہیں شہید کیا گیا. یہ مسجد مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے اور اس کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں. مسجد کوفہ کی تعمیر میں مختلف ادوار میں اضافہ اور بہتری کی گئی، جس کی وجہ سے اس کی موجودہ شکل کئی صدیوں کی تعمیرات کا نتیجہ ہے۔ اس مسجد میں کئی اہم تاریخی واقعات پیش آئے اور اس نے اسلامی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے.مسجد کوفہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے اور اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے-

 

مسجد کوفہ کے صحن میں ایک بڑا سا پانی کا حوض ہے-( روائت ہے کہ   اس حوض کے مقام پر  حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کا روٹیاں بنانے کا تندور تھا )اس کے ساتھ ہی وضو کی جگہ بھی ہے اور پینے کے پانی کے لئے کولر   ہوتے ہیں، مسجد کوفہ میں انبیاء کرام اور فرشتوں کے مصلے بھی موجود ہیں، وہ مقام بھی موجود ہے جہاں رسولِ کریمؐ نے معراج پہ جاتے ہوئے یہاں  ٹہر کر عبادت کی، حضرت آدم و حوا علیہ السلام کا مقام اور مولائے کائنات علی ابن ابی طالبؑ کا محراب اور مقتل گاہ ، اور جہاں آپ بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے ساتھ ہی حضرت مسلم بن عقیلؑ اور امیر مختار ثقفیؓ کی قبور بھی موجود ہیں۔مسجد کوفہ کے صحن میں موجود یہ حوض وہ مقام ہے جہاں سے طوفانِ نوحؑ کے وقت پانی  ابلا  تھا اور پھر پوری دنیا  کو کو سیلاب  میں ڈبو دیا تھا ۔ مسجد کوفہ سے نکلتے ہی قریب مولا علیؑ کا گھر ہے اور کچھ فاصلہ پہ صحابی جلیل القدر حضرت میثمِ تمارؓ آرام پذیر ہیں۔



ابتداء اسلام میں حضرت سلمان فارسی رضوان الله تعالى عليه کی تجویز پر اس مسجد کی تعمیر کا دوبارہ اہتمام کیاگیا۔حضرت علی (ع) نے بارہا اس مسجد میں نماز کے لئے قیام فرمایا،  اس کے منبر پر خطبے دیئے، بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا۔جغرافیائی طور پر  مسجد کوفہ،نجف الاشرف کے صوبے میں واقع ہے، کوفہ مخصوصا اپنی  معتدل آب و ہوا، اچھی اور زرخیز زمین کی وجہ سے زیادہ ممتاز ہے۔ دریائے فرات اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔مسجد کوفہ میں صحابی حضرت میثم تماررضوان الله تعالى عليه، مسلم بن عقیل عليه السلام، ہانی بن عروہ رضوان الله تعالى عليه، اور مختار ثقفی رضوان الله تعالى عليه،  کے مراقد واقع ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسجدمین بہت سارے انبیاء اوصیاء کرام علیھم السلام کے آرام گاہ بھی ہیں ۔یہیں آئمہِ اہل بیتؑ کے مقامات بھی ہیں جہاں یہ خدا کی برگزہدہ ہستیاں خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی رہیں، مقامِ امام جعفر صادق، مقامِ امام زین العابدینؑ اور مقام امام زمانہؑ موجود ہیں، اس مسجد میں عبادت کرنے کے لئے خاص اعمال بجالائے جاتے ہیں۔ امام زین العابدینؑ سے روایت ہے کہ مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے والے کہ زندگی میں خداوندکریم دو سال کا اضافہ فرما دیتا ہے، اور کوئی پریشان حال شخص اگر اس مسجد میں دو رکعت ادا کرے تو رب تعالیٰ اس کی پریشانی دور فرما دیتا ہے


مسجد کی عمارت:مسجد کوفہ کی لمبائی 110 میٹر اور چوڑائی 101 میٹر جبکہ اس کا رقبہ 11110 میٹر (اور بقولے 11162 میٹر) مربع ہے اور اس کو 10 میٹر اونچی دیواروں سے محفوظ بنائی گئی ہے۔ مسجد کی کھلی فضا کا رقبہ 5642 میٹر مربع اور اس کے شبستانوں کا رقبہ 5520 میٹر مربع ہے۔ اس مسجد کے ستونوں کی تعداد 187 اور میناروں کی تعداد 4 ہے جن کی اونچائی 30 میٹر ہے۔مسجد کوفہ کے دروازے 5 ہیں؛ جو "باب الحجہ (باب الرئیسی)، باب الثعبان، باب الرحمہ، باب مسلم ابن عقیل اور باب ہانی بن عروہ" ہے۔ مسجد کوفہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلہ پہ ایک عظیم الشان مسجد ہے جس کا نام "مسجد سہلہ" ہے۔مسجد سہلہ مسجد کوفہ کی طرح اپنے اندر بہت سے راز دفن کئیے ہوئے ہے، دراصل یہ مسجد بعد میں بنی اس سے پہلے یہاں مختلف انبیاء کرامؑ کے گھر تھے،۔ امام باقرؑ سے روایت ہے کہ خدا نے کوئی ایسا نبیؑ مبعوث نہیں فرمایا جس نے اس مسجد میں عبادت نہ کی ہوامامِ زمانہ امام مہدیؑ جب خانہ کعبہ میں ظہور فرمائیں گے تواس کے بعد وہ کوفہ کو اپنا دارلخلافہ بنائیں گے 


 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر