جمعہ، 5 مئی، 2023

منگھو پیر چشمہ کا آب شفاء

 

برّصغیر پاک و ہند میں ابتدائے اسلام سے صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی آ مد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا انہی سلسلوں میں ایک نام حضرت حسن المعروف حاجی حافظ سخی سلطان منگھوپیر بھی ہیں یہاں ان کا مزار ہے جہاں قدرتی پانی کے کئی ٹھنڈے اور گرم چشمے ہیں۔ ان چشموں کے پانی میں قدرتی اجزا شامل ہیں جو جلدی امراض کے مریضوں کے شفایاب ہوجاتے ہیں۔ مزار سے ملحقہ ایک تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں جن کو بابا کے مگرمچھ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ مگرمچھ کئی سو سال سے موجود ہیں۔ مزار کے احاطے میں درجنوں دکانیں بھی موجود ہیں۔ ، آپ کا سلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت علیؓ سے ملتا ہے

۔ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سادات ہیں۔ ۔ یہ زمانہ تاتاریوں کے فتنہ کا تھا، آپ بھی ان کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے۔ 13 ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت منگھو پیر عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہء سندھ سے سفر کرتے ہوئے یہاں (موجودہ کراچی) میں سکونت اختیار کی تھی۔ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ یہاں حاضری دینے سے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے اطراف میں کچھ ایسی قبریں بھی ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ان بہادروں کی ہیں جو منگھوپیر کے ساتھیوں میں سے تھے۔کبھی یہ قبریں شاندار رہی ہوں گی مگر آج کل ان کی حالت خاصی خراب ہے

اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے اور منگھو جس جگہ عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔ ایک روایت کہ یہ ڈاکوتھے بابا فرید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور جرائم سے تائب ہو گئے۔ منگھو وسا نے پھر بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کر دی اور انہیں بعد میں پیر کا خطاب دیا گیا جس سے وہ منگھو پیر کہلانے لگے۔ آپ کے مسکن کے نزدیک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ہے جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور شفا پاتے  ہیں

۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے میلہ بھی منعقد کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب آ حج کے لیے تشریف لے گئے اسی دوران مدینہ منورہ میں زیارت رسول اللہؐ نصیب ہوئی۔ بارگاہ رسالت سے آپ کو اجودھن میں مقیم حضرت فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کی ہدایت ہوئی۔ چنانچہ منگھو بابا (منگھوپیر) حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سلسلہ عبادت سے منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازے گئے۔

 آپ حکم مرشد موجودہ مقام حسینی منگھوپیر تشریف لے گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ یہ جگہ (منگھوپیر) اس وقت غیرآباد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔ حضرت منگھوباباؒ (منگھوپیر) کی شہرت اطراف میں پھیلی تو یہ جگہ مرجۂ دوراں ہوگئی۔ کہا جاتا ہے اسی جگہ آپؒ کے ہم عصر چند بزرگان دین حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ملتانی، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور جلال الدین بخاریؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت منگھوپیرؒ مزار کے قریب تالاب ہے جو مگرمچھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرامت کے مظہر ہیں۔ ان مگرمچھوں کے سردار بڑے مگرمچھ کا نام مور ہے جب ایک مور مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ تمام ایک اجتماعی نظام سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ایسا نظم و نسق دیکھ کر ششدر ہو جاتے ہیں۔

منگھوپیرؒ کا مقام اور یہاں کے مگرمچھ غیر مسلم صاحبان، علم و فن کی توجہ کے بھی مراکز رہے ہیں۔ مختلف یورپی ماہرین نے یہاں کے بارے میں لکھا ہے کہ: 1838 میں جیکب برلاکس نے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کیا، انیسویں صدی میں ایک افلیوک نامی سیاح یہاں کے مگرمچھوں کی طلسماتی طرز زندگی کا ذکر سن کر خود آیا۔ تحقیق کی اور اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں رقم کیا۔ منگھوپیرؒ کی درگاہ مقام اجابت دعا ہے عقیدت مند اور حاجت مندوں کا یہاں پر تانتا بندھا رہتا ہے

۔8 ذی الحجہ کو آپ کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے آپ کے خلفا میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا نام ملتا ہے جو حضرت کے احاطے میں مدفون ہیں۔ گرم پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔ بے شمار قدرتی چشمے اولیا کرام اور بزرگان دین کے فیوض کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اپنی خاصیت کی وجہ سے سالہا سال سے زائرین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ کراچی مرکز سے 28 میل اور 45 منٹ کی مسافت پر واقع منگھوپیر کا مزار اور گرم پانی کا چشمہ گزشتہ کئی سو برسوں سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے یہاں تین یا چار سے زائد چشمے ہیں۔

 کہا جاتا ہے یہاں ایسے مریض آتے ہیں جن کو مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز کے علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ جب وہ اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں تو انھیں شفا ملتی ہے۔ چونکہ پہاڑوں میں قدرتی معدنیات وسیع تعداد میں موجود ہیں تو پانی معدنیات سے مل کر اپنے لیے عام پانی سے ہٹ کر منفرد افادیت حاصل کرسکتا ہے۔ پتھروں سے وہ پانی اوپر آنا شروع ہو جاتا ہے وہ اوپر آتے آتے بہنا شروع کردیتا ہے۔ جس کو ہم چشمہ کہتے ہیں۔ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں کتنا پانی جمع ہے جو تسلسل سے جاری ہونے کے باوجود ختم نہیں ہو رہا؟ منگھوپیر مزار کے قریب ’’جزام‘‘ کا اسپتال تقریباً 100 سال سے موجود ہے۔ کہتے ہیں اسپتال میں داخل عقیدت مند اس گرم پانی کو استعمال کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

پیر، 1 مئی، 2023

بوسنیا میں اسلام کی آمد

 

بوسنیا کی تاریخ  -بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾

 نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16

 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی اور سلسلہ بکتشی نمایاں

 رہے-

بوسنیا کو چھوٹا ترکی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پندرہویں صدی میں بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہ ترک مسلمانوں سے بھی بڑھ کر 'ترک' اور مسلمان ہو

 گئے تھے۔ اور چونکہ عثمانی خلافت میں لوگوں کا بنیادی شاخص ان کی مذہبی ملت ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے بلقان اور مغربی یورپی دنیا کے عیسائی بوسنیائیوں اور

 البانویوں کو 'ترک' کہنے لگے۔ البانویوں کو ترک کہے جانے کی روایت تو ختم ہو چکی ہے، لیکن بوسنیائیوں کو ابھی بھی سرب اور کروٹ ترک کہتے ہیں۔ سریبرینتسا

 کے قصاب سرب کمانڈر راٹکو ملادچ نے بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے جو ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اُس میں بھی اُس نے یہی کہا تھا کہ آج میں 'ترکوں' سے

 اپنی قوم کی پانچ سو سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہوں۔

بوسنیا کے لوگ عثمانی خلافت اور ترکی کو بہت اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ترکی کو اپنے 'بڑے بھائی' ملک کی حیثیت دیتے ہیں۔ بوسنیائیوں کی عثمانی خلفاء سے

 وفاداری بھی اس باہمی رشتے کی عمدہ مثال ہے۔ سربوں کے برعکس عثمانی خلاقت اُن کی نظر میں قابض قوت کے طور پر نہیں، بلکہ اُن کی اپنی نمائندہ ریاست کے طو

ر پر دیکھی جاتی ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بوسنیا ہر لحاظ سے ترکی جیسا ہی لگتا ہے-لبتہ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ بوسنیا بھی ہماری طرح کا ایک تنگ نظر اور

 ملا زدہ ملک ہے، بلکہ بوسنیا اپنی تمام تر مسلمانیت کے ساتھ بھی انجامِ کار بلقان کا ایک جدید یورپی ملک ہے۔

سرائیوو کی اسی فیصد آبادی بوسنیائی مسلمان ہے، بقیہ بیس فیصد آبادی سرب آرتھوڈکسوں اور کروٹ کیتھولکوں پر مشتمل ہے۔بوسنیا و ہرزیگووینا (bosnia-

herzegovina) یورپ کا ایک نیا ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ اس کے دو حصے ہیں ایک کو وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کہتے ہیں اور دوسرے کا نام

 سرپسکا ہے۔ وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا اکثریت مسلمان ہے اور سرپسکا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب، کروٹ اور دیگر اقوام بھی آباد ہیں۔ یہ علاقہ یورپ کے جنوب

 میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 51،129 مربع کلومیٹر ( 19،741 مربع میل) ہے۔ تین اطراف سے کرویئشا کے ساتھ سرحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپی

 اقوام نے اس علاقے کی آزادی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ساحلِ سمندر نہ مل سکے چنانچہ اس کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے اور کسی بھی

 جنگ کی صورت میں بوسنیا و ہرزیگووینا کو محصور کیا جا سکتا ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دار

 الحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984 کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا جب وہ یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ تاحال آخری بار ہونے والی 1991ء کی مردم شماری

 کے مطابق آبادی 44 لاکھ تھی جو ایک اندازہ کے مطابق اب کم ہو کر 39 لاکھ ہو چکی ہے۔ کیونکہ 1990 کی دہائی کی جنگ میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے جن کی

 اکثریت مسلمان بوسنیائی افراد کی تھی اور بے شمار لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کر گئے۔

جنوب مشرقی یورپ کے قدیم ترین آثار اسی ملک سے ملے ہیں مثلاً پتھر کے زمانے کے 12000 سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والا ایک مجسمہ جس میں ایک

 گھوڑے کو تیر کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ آثار ہرزیگووینا میں ستولاک (Stolac) نامی قصبہ سے ملے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے یا

 پہاڑیوں کی چوٹیوں پر گھر بناتے تھے۔1893ء میں سرائیوو کے قریب بھی قدیم بتمیر ثقافت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا تعلق کانسی کے زمانے سے ہے۔ یہ ثقافت

 آج سے پانچ ہزار سال پہلے معدوم ہو گئی تھی۔ چار سو سال قبل مسیح میں کلتی لوگوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ مغربی یورپ میں بھی پھیل گئے۔ یہ

 اپنے ساتھ لوہے کو اوزار اور پہیے لے کر آئے جس نے علاقے کی زراعت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی،

 دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی

 نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا

- بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے

 لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہو رہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس

 بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-بوسنیا کے تاریخی مقامات م یں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں-

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر