بوسنیا کی تاریخ -بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾
نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16
ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی اور سلسلہ بکتشی نمایاں
رہے-
بوسنیا کو چھوٹا ترکی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پندرہویں صدی میں بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہ ترک مسلمانوں سے بھی بڑھ کر 'ترک' اور مسلمان ہو
گئے تھے۔ اور چونکہ عثمانی خلافت میں لوگوں کا بنیادی شاخص ان کی مذہبی ملت ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے بلقان اور مغربی یورپی دنیا کے عیسائی بوسنیائیوں اور
البانویوں کو 'ترک' کہنے لگے۔ البانویوں کو ترک کہے جانے کی روایت تو ختم ہو چکی ہے، لیکن بوسنیائیوں کو ابھی بھی سرب اور کروٹ ترک کہتے ہیں۔ سریبرینتسا
کے قصاب سرب کمانڈر راٹکو ملادچ نے بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے جو ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اُس میں بھی اُس نے یہی کہا تھا کہ آج میں 'ترکوں' سے
اپنی قوم کی پانچ سو سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہوں۔
بوسنیا کے لوگ عثمانی خلافت اور ترکی کو بہت اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ترکی کو اپنے 'بڑے بھائی' ملک کی حیثیت دیتے ہیں۔ بوسنیائیوں کی عثمانی خلفاء سے
وفاداری بھی اس باہمی رشتے کی عمدہ مثال ہے۔ سربوں کے برعکس عثمانی خلاقت اُن کی نظر میں قابض قوت کے طور پر نہیں، بلکہ اُن کی اپنی نمائندہ ریاست کے طو
ر پر دیکھی جاتی ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بوسنیا ہر لحاظ سے ترکی جیسا ہی لگتا ہے-لبتہ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ بوسنیا بھی ہماری طرح کا ایک تنگ نظر اور
ملا زدہ ملک ہے، بلکہ بوسنیا اپنی تمام تر مسلمانیت کے ساتھ
بھی انجامِ کار بلقان کا ایک جدید یورپی ملک ہے۔
سرائیوو کی اسی فیصد آبادی بوسنیائی مسلمان ہے، بقیہ بیس فیصد آبادی سرب آرتھوڈکسوں اور کروٹ کیتھولکوں پر مشتمل ہے۔بوسنیا و ہرزیگووینا (bosnia-
herzegovina) یورپ کا ایک نیا ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ اس کے دو حصے ہیں ایک کو وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کہتے ہیں اور دوسرے کا نام
سرپسکا ہے۔ وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا اکثریت مسلمان ہے اور سرپسکا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب، کروٹ اور دیگر اقوام بھی آباد ہیں۔ یہ علاقہ یورپ کے جنوب
میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 51،129 مربع کلومیٹر ( 19،741 مربع میل) ہے۔ تین اطراف سے کرویئشا کے ساتھ سرحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپی
اقوام نے اس علاقے کی آزادی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ساحلِ سمندر نہ مل سکے چنانچہ اس کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے اور کسی بھی
جنگ کی صورت میں بوسنیا و ہرزیگووینا کو محصور کیا جا سکتا ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دار
الحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984 کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا جب وہ یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ تاحال آخری بار ہونے والی 1991ء کی مردم شماری
کے مطابق آبادی 44 لاکھ تھی جو ایک اندازہ کے مطابق اب کم ہو کر 39 لاکھ ہو چکی ہے۔ کیونکہ 1990 کی دہائی کی جنگ میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے جن کی
اکثریت مسلمان بوسنیائی افراد کی تھی اور بے شمار لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کر گئے۔
جنوب مشرقی یورپ کے قدیم ترین آثار اسی ملک سے ملے ہیں مثلاً پتھر کے زمانے کے 12000 سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والا ایک مجسمہ جس میں ایک
گھوڑے کو تیر کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ آثار ہرزیگووینا میں ستولاک (Stolac) نامی قصبہ سے ملے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے یا
پہاڑیوں کی چوٹیوں پر گھر بناتے تھے۔1893ء میں سرائیوو کے قریب بھی قدیم بتمیر ثقافت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا تعلق کانسی کے زمانے سے ہے۔ یہ ثقافت
آج سے پانچ ہزار سال پہلے معدوم ہو گئی تھی۔ چار سو سال قبل مسیح میں کلتی لوگوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ مغربی یورپ میں بھی پھیل گئے۔ یہ
اپنے ساتھ لوہے کو اوزار اور پہیے لے کر آئے جس نے علاقے کی زراعت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی،
دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی
نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا
- بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے
لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہو رہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس
بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-بوسنیا کے تاریخی مقامات م یں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں