ہفتہ، 25 فروری، 2023

ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء کیسے ہوئ?

 

 

ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء کیسے ہوئ?

حضرت ادریس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، جو حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد نبوّت کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔مؤرخین کے مطابق آپؑ کی ولادت بابل(عراق) یا مِصر کے شہر ’’منفیس‘‘ یعنی’’منف‘‘ میں ہوئی۔ آپؑ کا اصل نام’’اخنوخ‘‘ تھا، جب کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں آپؑ کو ’’ادریس‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ روایات کے مطابق، حضرت ادریسؑ نے دنیا میں لوگوں کو سب سے پہلے لکھنے پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا درس دیا، بلکہ اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ اسی درس و تبلیغ میں صَرف کیا۔ چناں چہ لوگ آپؑ کو ادریس، یعنی ’’درس دینے والا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ آپؑ کا حضرت شیث ؑکی پانچویں پُشت سے تعلق تھا اور آپؑ کا شجرۂ نسب یوں ہے، ادریسؑ بن یارد بن مہلائل بن قینن بن انوش بن شیثؑ بن آدم علیہ السّلام۔

حضرت ادریس ؑمنصبِ نبوّت پر

حضرت شیثؑ کا انتقال ہوا، تو کچھ عرصے بعد اُن کے پیروکار بہت محدود تعداد میں رہ گئے ۔ قابیل کی اولاد نے کفرو شرک، بدکاری و بے حیائی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔زنا کاری اور شراب نوشی عام تھی، پاکیزہ رشتوں کی پہچان ناپید ہو چُکی تھی۔ بتوں کی پوجا اور آگ کی پرستش ہو رہی تھی۔ گویا دنیا پر شیطان اور اُس کے حواریوں کا راج تھا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت شیثؑ کی قائم کردہ شرعی حدود اور احکاماتِ الٰہی کو پامال کیا جا رہا تھا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب اللہ جل شانہ نے اُس بگڑی قوم میں ایک نبی مبعوث کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عظیم منصب کے لیے حضرت شیثؑ ؑکی نسل سے حضرت ادریسؑ کا انتخاب فرمایا۔ حضرت ادریس ؑمیں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں، جو اللہ کے نبی میں ہونی چاہئیں۔ آپؑ، حضرت آدم علیہ السّلام کے دین کے پیروکار، نہایت عبادت گزار، متّقی، پرہیز گار اور انتہائی سچّے انسان تھے۔

بابل سے مِصر کی جانب ہجرت

نبوّت کے منصب پر فائز ہوتے ہی آپؑ نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں میں وعظ و تبلیغ کا کام شروع کر دیا، لیکن راہِ ہدایت کا یہ درس اور نیکی کی باتیں اُن لوگوں کو بہت ناگوار گزرتیں، چناں چہ وہ آپؑ کے دشمن ہو گئے۔ آپؑ اور آپؑ کے پیرو کاروں کو طرح طرح سے اذیّتیں دینے لگے۔ یہاں تک کہ آپؑ نے اُن کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر بابل سے ہجرت کا ارادہ کرلیا اور اپنے پیروکاروں کو اپنے اس فیصلے سے مطلع فرمایا۔ چوں کہ بابل، دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے کنارے ایک سَرسبز و شاداب علاقہ تھا، لہٰذا لوگوں کے لیے اس علاقے سے ہجرت کرنا خاصا مشکل فیصلہ تھا اور اُنھوں نے اس حوالے سے تحفّظات کا اظہار بھی کیا، لیکن پھر حضرت ادریس ؑکے سمجھانے پر وہ لوگ آپؑ کے ساتھ ہجرت پر تیار ہو گئے۔ حضرت ادریس ؑاور اُن کے پیروکاروں نے بابل سے مِصر کا رُخ کیا اور دریائے نیل کے کنارے آباد ہو گئے، جو بابل سے بھی زیادہ سَر سبز و شاداب علاقہ تھا۔ حضرت ادریس ؑ نے یہاں کے لوگوں میں درس و تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔ آپؑ اُس وقت لوگوں میں رائج تمام زبانوں سے واقف تھے اور عوام کو اُن ہی کی زبان میں درس دیتے تھے۔

قرآنِ پاک میں ذکر

آپؑ کا قرآنِ مجید میں دو مرتبہ ذکر آیا ہے۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر بھی کیجیے۔ بے شک، وہ بڑے سچّے نبی تھے اور ہم نے اُن کو بلند رتبے تک پہنچایا‘‘(سورۂ مریم56-57)۔ نیز، سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفل کا تذکرہ کیجیے۔ یہ سب (احکامِ الہٰیہ پر) ثابت قدم رہنے والے لوگوں میں سے تھے‘‘(سورۃ الانبیا85)۔ قرآنِ کریم کی معروف و مستند تفسیر’’معارف القرآن‘‘ کے مطابق’’ حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہوئے( روح المعانی، بحوالہ مستدرک حاکم)۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوّت کے مرتبے پر سرفراز فرمایا اور آپؑ پر تیس صحیفے نازل فرمائے۔ حضرت ادریس علیہ السّلام وہ پہلے انسان ہیں، جنھیں علمِ نجوم اور حساب بہ طورِ معجزہ عطا کیے گئے۔ نیز، سب سے پہلے اُنھوں نے ہی قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا۔ اُن سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال، لباس کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپؑ ہی نے متعارف کروائے اور اسلحہ بھی آپؑ کی ایجاد ہے۔ آپؑ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا۔‘‘علّامہ ابنِ اسحاق کا کہنا ہے کہ’’ دنیا کا سب سے پہلا شحص، جس نے قلم سے لکھا، حضرت ادریس ؑ ہیں۔‘‘ معاویہ بن حکم سلمیؓ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضورﷺ سے رمل کے بارے میں سوال کیا ؟( یہ ایک ایسا علم ہے، جس میں ریت پر مخصوص لکیریں کھینچ کر کچھ معلوم کیا جاتا ہے)، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ ایک پیغمبر تھے، جنہوں نے یہ لکھا۔ لہٰذا، جس شخص کا خط اُن کے موافق ہو جائے، تو اچھا ہے۔‘‘ علمائے تفسیر فرماتے ہیں کہ’’ پہلا شخص جس نے تبلیغِ دین کے لیے وعظ و خطاب کا سلسلہ شروع کیا، وہ حضرت ادریس ؑ تھے۔‘‘

ہلال بن سیار کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عباس ؓنے حضرت کعب ؓسے پوچھا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت’’وَ رَفَعنَاہُ مکاناً علیّاً( اور ہم نے ان کو اونچی جگہ اٹھا لیا)‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ تو حضرت کعبؓ نے فرمایا’’ اللہ عزّوجَل نے حضرت ادریس ؑکی طرف وحی بھیجی کہ میں تمہیں ہر روز تمام بنی آدم کے اعمال کے برابر درجات دیتا ہوں۔( اس سے مُراد اُس زمانے کے تمام بنی آدم ہیں)، تو حضرت ادریس ؑنے چاہا کہ پھر تو اعمال میں اور اضافہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب اُن کے پاس فرشتے آئے، تو اُنہوں نے وحی کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ مَیں چاہتا ہوں کہ مَلک الموت سے بات کروں(اور پوچھوں کہ کب تک میری زندگی باقی ہے)۔‘‘ فرشتے نے حضرت ادریس ؑکو اپنے پَروں پر اٹھایا اور اُنہیں لے کر آسمان کی طرف بلند ہو گیا۔ جب وہ چوتھے آسمان پر پہنچے، تو اُن کی مَلک الموت سے ملاقات ہو گئی، جو نیچے اُتر رہےتھے۔ حضرت ادریسؑ کے دوست فرشتے نے ملک الموت سے حضرت ادریسؑ کے بارے میں ذکر کیا، تو عزرائیلؑ نے پوچھا ’’حضرت ادریسؑ کہاں ہیں ؟‘‘ فرشتے نے جواب دیا کہ’’ وہ میری پُشت پر ہیں۔‘‘ اس پر ملک الموت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ واہ تعجب ہے! مجھے پروردگار کی طرف سے کہہ کر بھیجا گیا ہے کہ حضرت ادریسؑ کی رُوح چوتھے آسمان پر قبض کر لو۔ تو مَیں نے سوچا کہ وہ تو زمین پر ہیں، اُن کی رُوح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں؟ ابھی اسی سوچ و بچار میں تھا اور زمین پر اُتر رہا تھا کہ تم اُنھیں لے کر چوتھے آسمان پر آ گئے۔‘‘ پھر ملک الموت نے اُن کی رُوح قبض کر لی۔( قصص الانبیاء، ابنِ کثیر)۔ ابنِ ابی حاتم نے بھی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ’’ حضرت ادریسؑ نے فرشتے سے کہا’’ ملک الموت سے میرے بارے میں سوال کرو کہ میری عُمر کتنی باقی رہ گئی ہے؟‘‘ جب کہ حضرت ادریس ؑ فرشتے کے ساتھ ہی تھے۔ فرشتے کے سوال پر ملک الموت نے کہا’’ جب تک مَیں اُنھیں دیکھ نہ لوں، اُس وقت تک کچھ نہیں بتا سکتا۔‘‘ پھر ملک الموت نے حضرت ادریس ؑکو دیکھ لیا، تو فرشتے سے کہا کہ’’ آپ مجھ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، جس کی زندگی پَلک جَھپکنے سے زیادہ نہیں رہی۔‘‘ پھر فرشتے نے پَر کے نیچے حضرت ادریس ؑکو دیکھا، تو اُن کی وفات ہو چُکی تھی(قصص الانبیاء، ابنِ کثیر

آپ حضرت آدم کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے آپ سے پہلے حضرت شیث علیہ السلام نبوت کے منسب پر سرفراز تھے نبوت ملنے سے پہلے آپ شیث(ع) کے دین کو مانتے تھے آپؑ پر30 صحیفے نازل ہوئے۔ آپ کے دور میں انسان جہالت اور بے ادبی میں اتنے گر گئے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر آگ کی عبادت کرنے لگے تھے۔ آپ نے دنیا میں آکر لوگوں کو ہدایت کا رستہ دکھایا اور ادب و علم بھی سکھایا لیکن آپ کی قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور صرف کچھ لوگ اپ پر ایمان لائے اس پر آپ نہایت تنگ اکر خود اور جو ایمان لائے انہیں لے کر وہاں سے ہجرت کر گئے پھر اپ کے ساتھیوں میں سے چند نے آپ سے سوال کیا:- اے اللہ کے نبی ادریس اگر ہم نے بابل کو چھوڑ دیا تو ہمیں ایسی جگہ کہاں ملے گی؟ ادریس نے فرمایا:- 'اگر ہم اللہ سے اُمید رکھیں تو وہ ہمیں سب کچھ عطا کرے گا۔ 'آخرکار آپ مصر پہنچے (اس دور میں مصر ایک خوبصورت جگہ تھی ) آپ نے وہاں پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور آپ وہیں رہنے لگے اور وہاں اپنا علم پھیلایا آپ وہ پہلے انسان تھے جس نے قلم کے ذریعے لکھا اور لوگوں کو بھی سکھایا۔ پھر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے تھے بابل میں برائی اور برے لوگوں کے ساتھ جنگ کی اور فتح یاب ہوئے اور دنیا سے ایک دفعہ برائی کا نام و نشان مٹا دیا۔

جمعہ، 24 فروری، 2023

ماہ شعبان المعظم کا چاند اور دعائیں اور اعمال


  جیسا کہ ہمیں معلوم ہے  شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول ﷺسے منسوب ہے حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔امام جعفر صادق علیہ اسّلام فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین علیہ اسّلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول الله ﷺفرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین علیہ اسّلام  کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی  سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین علیہ اسّلام  سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق  علیہ اسّلام نے فرمایا:

 اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاوٴں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ علیہ اسّلام نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول الله ﷺجب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :اے اہل مدینہ! میں رسول خدا ﷺکا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق  علیہ اسّلام کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین علیہ اسّلام  فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ اسّلام  کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزہٴ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔

 اعمال ماہ شعبان -صدقہ دے اگرچہ وہ نصف خرما ہی کیوں نہ ہو، اس سے خدا اسکے جسم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔امام جعفر صادق  سے ماہ رجب کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاتم ماہ شعبان کے روزے سے کیوں غافل ہو ؟ راوی نے عرض کی ، فرزند رسول ! شعبان کے ایک روزے کا ثواب کس قدر ہے؟ فرمایا قسم بخدا کہ اس کااجر و ثواب بہشت ہے۔ اس نے عرض کی۔ اے فرزند رسول ! اس ماہ کا بہترین عمل کیا ہے؟ فرمایا کہ صدقہ و استغفار ، جو شخص ماہ شعبان میں صدقہ دے ۔ پس خدا اس صدقے میں اس طرح اضافہ کرتا رہے گا، جیسے تم لوگ اونٹنی کے بچے کو پال کر عظیم الجثہ اونٹ بنا دیتے ہو چنانچہ یہ صدقہ قیامت کے روز احد کے پہاڑ کی مثل بڑھ چکا ہوگا۔

 شعبان کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ حمد کے بعد سو مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور نماز کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھے تاکہ خدا دین و دنیا میں اس کی ہر نیک حاجت پوری فرمائے واضح ہو کہ روزے کا اپنا الگ اجر و ثواب ہے اور روایت میں آیا ہے کہ شعبان کی ہر جمعرات کو آسمان سجایا جاتا ہے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں ، خدایا آجکا روزہ رکھنے والوں کوبخش دے اور انکی دعائیں قبول کر لے حدیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ شعبان میں سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھے تو خدا وند کریم دنیا و آخرت میں اس کی بیس بیس حاجات پوری فرمائے گا۔

امام رضا علیہ السّلام کی دعا برائے ماہ شعبان-اے معبود! محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کا شجر رسالت کا مقام - فرشتوں کی آمد و رفت کی جگہ، علم کے خزانے اور خانہ وحی میں رہنے والے ہیں اے معبود! محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما جو بے پناہ بھنوروں میں چلتی ہوئی کشتی ہیں کہ بچ جائے گا جو اس میں سوار ہوگا اور غرق ہوگا جو اسے چھوڑ دے گا ان سے آگے نکلنے والا دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہ جانے والا نابود ہو جائے گا اور ان کے ساتھ رہنے والا حق تک پہنچ جائے گا اے معبود! محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو پائیدار جائے پناہ اور پریشان و بے چارے کی فریاد کو پہنچنے والے، بھاگنے اور ڈرنے والے کیلئے جائے امان اور ساتھ رہنے والوں کے نگہدار ہیں اے معبود محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما بہت بہت رحمت کہ جوان کے لیے وجہ خوشنودی اور محمد وآل محمد(ع) کے واجب حق کی ادائیگی اور اس کے پورا ہونے کاموجب بنے تیری قوت و طاقت سے اے جہانوں کے پروردگار اے معبود محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو پاکیزہ تر، خوش کردار اور نیکو کار ہیں-

 جن کے حقوق تو نے واجب کیےاور تو نے ان کی اطاعت اور محبت کو فرض قرار دیا ہے اے معبود محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے دل کو اپنی اطاعت سے آباد فرما اپنی نافرمانی سے مجھے رسوا و خوار نہ کر اور جس کے رزق میں تو نے تنگی کی ہے مجھے اس سے ہمدردی کرنے کی توفیق دے کیونکہ تو نے اپنے فضل سے میرے رزق میں فراخی کی مجھ پر اپنے عدل کوپھیلایا اور مجھے اپنے سائے تلے زندہ رکھا ہیاور یہ تیرے نبی کا مہینہ ہے جو تیرے رسولوں کے سردار ہیں یہ ماہ شعبان جسے تو نے اپنی رحمت اور رضامندی کے ساتھ گھیرا ہوا ہے یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول ﷺاپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں صلوٰة و قیام کیا کرتے تھے تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے اے معبود! پس اس مہینے میں ہمیں ان کی سنت کی پیروی اور ان کی شفاعت کے حصول میں مدد فرما اے معبود؛ آنحضرت کو میرا شفیع بنا جن کی شفاعت مقبول ہے اور میرے لیے اپنی طرف کھلا راستہ قرار دے مجھے انکا سچا پیروکار بنادے یہاں تک کہ میں روز قیامت تیرے حضور پیش ہوں   

دختر خاتون جنّت - ولادت با سعادت کل مو منین جن و انس کو مبارک ہو

 



دختر خاتون جنّت - ولادت با سعادت کل مو منین جن و انس کو مبارک ہو

سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔
چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھا
اور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘ لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا

،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔
اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ
علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے -

،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔
ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا رکھ دیا۔
جب رسول خدا ص حضرت زینب س کی ولادت کے موقع پر علی ع و فاطمہ س کے گھر تشریف لائے تو آپ نے نومولود بچی کو اپنی آغوش میں لیا۔ اس کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ حضرت زینب س کے القاب: تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں :١ـ عالمہ غیر معلمہ، ٢ـ نائب? الزھرائ ، ٣ـ عقیلہ بنی ہاشم، ٤ـ نائب? الحسین، ٥ـ صدیقہ صغری، ٦ـ محدثہ، ٧ـ زاہدہ، ٨ـ فاضلہ، ٩ـ شریکۃ الحسین، ٠١ـ راضیہ بالقدر والقضائ حضرت زینب س کا بچپن اور تربیت:انسان کی زندگی کا اہم ترین زمانہ اس کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت کا قابل توجہ حصہ اس دور میں معرض وجود میں آتا ہے۔ اس سے بھی اہم وہ افراد ہوتے ہیں جو اس کی تربیت میں موثر واقع ہوتے ہیں ۔حضرت زینب س کی خوش قسمتی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی تربیت کرنے والی خاتون سیدہ نسائ العالمین حضرت فاطمہ س ہیں اورآپ امام علی ع جیسے باپ کی زیر نگرانی پرورش پاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم ص، جو تمام انسانوں کیلئے "اسوہ حسنہ" ہیں ، نانا کی حیثیت سے آپ کے پاس موجود ہیں لہذا یہ آپ کے افتخارات میں سے ہے کہ آپ نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور امام علی علیہ السّلام اوراپنی مادر گرامی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا جیسی مثال ہستیوں کی سرپرستی میں پرورش پائی۔
لیکن پھر زمانہ کی ستمگر ہواؤں نے جب اس متبرّک آنگن کا رخ کیا تو بعد از وصال حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم صرف چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہو گئ ،چھوٹی سی عمر میں مشفق مادر گرامی کا سایہ دنیا سے اس طرح سے اٹھ جانا یہ کو ئ معمولی واقعہ نہیں تھا بی بی زینب سلام اللہ علیہا بنفس نفیس اپنے محترم والد گرامی کے ساتھ اور اپنے گھرانے کے ساتھ زمانے کی ستم گری دیکھ رہی تھیں اور آپ سلام اللہ علیہا کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ آپ کو دین محمّدی کی بقائے دوام میں کون سا کردار ادا کرنا ہئے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب ان کو حقیقت میں ثانئ زہرا ء کی جان نشینی کا حق بھی ادا کرنا تھا،چنانچہ بی بی زینب سلم اللہ علیہا نے ایک جانب اپنے چھوٹے بہن بھا ئیوں کی دلداری کا فرض انتہائ زمّہ داری کے ساتھ نباہنے کا فیصلہ کیا تو دوسری جانب مدینے کی خواتین کی وہ علمی اور روحانی پاکیزہ روحانی محفلیں جو بی بی سیّدہ اپنی حیات مبارک میں سجاتی تھیں ان تدریسی مجلسوں کی نشست و برخاست پر بھی اثر نہیں پڑنے دیا اور مدینے کی خواتین کے ہمرا ہ حسب معمول بی بی زینب نے درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھّا،

آپ مدینے کی خواتین میں بہت جلد ایک ایسی معلّمہ ثابت ہوئیں کہ جن کو علم حاصل کرنے کے لئے آنے والی خواتین نے محدّثہ عالمہ ،،فاضلہ،عاقلہ،عقیلہ کے القابات عطا کئے اور شہر مدینہ میں یہی القابات آپکی علمی اور شخصی حیثیت کی پہچان بن گئے ،یعنی آپ دین محمّد کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤ میں ایک خاموش مجاہدہ کی حیثیت سے شامل ہو گئیں۔آپ سلام اللہ علیہا کی یہ تدریسی محفلیں بعد نماز ظہر سے نماز مغربین تک جاری رہتی تھیں جن میں آپ فصیح و بلیغ زبان میں قرانی احکامات اور ان کی تشریح تفسیر اور ارشادات نبوی کی روشنی میں انسانی زندگی کے مقاصد مطالب بیان کرتیں تھیں تب وقت کا پہیہ رک جایا کرتا تھا اور سننے والو ں کے دل موم ہو جاتے تھے اورآنکھیں بے ساختہ آنسوؤں سے لبریز ہو جایا کرتی تھیں۔ اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آپ کے لئے آ پہنچا جو اللہ تعالٰی نے ہر بیٹی کے لئے مقرّر کیا ہئے ،پیام تو کئ آئے ہوئے تھے ،،لیکن مولائے کائنات پر ویسا ہی سکوت طاری تھا جیسا کہ بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی نسبت طے کرتے ہوئے نبئ اکرم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واآ لہ وسلّم پر طاری ہواتھا اور جب سکوت مولا علی علیہ ا لسّلا م ٹوٹا تو خوشخبری سننے والوں نے یہ مژدہء جانفزاء سنا کہ بی بی زینب بنو ہاشم کے ایک عالی جاہ فرد عبد اللہ بن جعفرطیّار سے منسوب ہو رہی ہیں۔ جناب حضرت جعفر طیّار جنگ موتہ میں داد شجاعت دیتے ہوئے جب شہید ہوگئے تب جناب عبداللہ براہ راست مولائے کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام کی نگہداری میں آگئے اس طر ح ہادئ دو جہاں کی بھی شفقت و محبّت سے و نگہبانی بھی ان کو میسّر آئ اور دو عظیم ہستیوں کے مکتب فیضان میں آ جانے سے لوگ آپ کو کاشانہء نبوّت میں خانوادہء اہلبیت نبوّت کا ہی ایک فرد سمجھتے تھے اور اس طرح آپ بڑے ہوتے ہوئے خاندان رسالت مآ ب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا ہی ایک فرد سمجھے جانے لگے تھے،جناب عبداللہ کو نبئ اکرم صلّی اللہ علیہواٰلہ وسلّم کی خاص دعائیں نصیب میں آئیں تھیں جس کے سبب آپ بہت دولت و ثروت کے مالک اور پر آسائش زندگی کے حامل تھے جناب عبداللہ کا شمار عرب کے دو


تحریروتلخیص
سیدہ زائرہ عابدی

بدھ، 22 فروری، 2023

حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت کیسے عطا ہوئ

 

   جب مین نے قران کریم میں انبیاء کی وراثت کے بارے میں سرچ کیا تو مجھے حضرت داؤد علیہ اسّلام کا قصّہ مع تفسیر پڑھنے کو ملا ،

قران کریم مین صاف صاف لکھا ہئے کہ حضرت داؤد علیہ اسّلام بے پناہ دولت کے مالک تھے اور انہون نے اپنی تمام جائداد منقولہ و غیر منقو لہ اور مال مویشی سب کا وارث حضرت سلیمان علیہ کو ہی بنایا تھا  -حضرت داؤد علیہاسّلام کے انّیس بیٹے تھے ،اور ان میں سے ہرایک تخت کدعویدار تھا آخر جب آ پ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ایک نامہ سر بمہرحضرت داؤد علیہالسّلام کے پاس آسمان سے نازل ہوا جس میں چند سوالات تھےاور یہ حکم ہوا کہ جو بیٹا ان سوالوں کے جواب دے گا وہی تمھارا جان نشین ہو گا غرض تمام امراء شہر اور اراکین سلطنت جمع ہوئے اور سب بیٹون سےوہی سوالات کئےگئےلیکن حضرت سلیمان علیہاسّلام کے سوا کوئ بھی ان سوالون کےجواب نہیں دے سکا ،آخر سب ہی لوگ آپکی فضیلت کے معترف ہوئے اور اپ ہی کوحضرت داؤد علیہاسّلام کا جاننشین اور بادشاہ تسلیم کیا اور دوسرے روزحضرت داؤد علیہاسّلام نے وفات پائ ،تاریخ میں حضرت سلیمان علیہ اسّلام کےلشکر کی تعداد کے متعلّق لکھا ہئے کہ آ پ کا لشکر سو کوس میں رہتا تھا پچّیس کوس میں انسان ،پچّیس کوس میں جنّات پچّیس کوس مین پرند ،پچیّس کوسمیں چو پائے موجود رہتے تھے کےحضرت سلیمان علیہاسّلا م کے تخت کو بساط سلیمان علیہاسّلام بھی کہتے ہیں اس تخت پر آپ کے ہمراہ اپ کے وزراء اراکین سلطنت علماء اورزعماءہوتے تھے اور ایک بڑا  لشکر بھی سفرکیا کرتا تھا آپ اس تخت پر صبح کو ملک شام کے شہر مرو سے چلتے دوہر کوشیراز ملک ایران میں کچھ دیر آرام کرتے اور رات کابل میں گزارتے ،اور اگرکبھی صبح عراق سے سفر کا آغاز کرتے اور مرو پہنچتے اور پھر ظہر کی نما زبلخ مین ادا کرتے تھے پھر ترکستان آتے اور وہاں سے چین کرمان و فارس ہوتےہوئے صبح کو مرو میں پہنچتے تھے

حضرت سلیمان علیہاسّلام کی وفات ،

آپ مسجد بیت المقدس کی تعمیر میں مشغول تھے مسجد کی تعمیر ابھی مکمّل نہیں ہوئ تھی کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اپنے ارکین سلطنت فرما یا کہ باوجدیکہ اللہ نے مجھ کو اتنی بڑی سلطنت عط۔حیرت سلیمان علیہ ااکی لیکن میں ایکدن بھی آرام سے نہیں بیٹھا ،آج میں کچھ تنہا ئ چاہتا ہوں اس لئے فلاں محل میں جا رہا ہوں دیکھنا کوئ آج میرے آرام و تنہائ میں مخل نا ہو چنانچہ آپایک محل کے بالا خانے پر تشریف لے گئے اورمحراب کے سائے میں چھڑی کا سہارا لے کر اطراف وجوانب کے منظر کو دیکھنے میں محو ہوگئے کہ اتنے میں ایک خوبصورت جوان رعنا کواپنے آپ سے چند قدم پر پایا تو آپ کو تعجّب ہوا کہ اس جوان کو آپ کے منع کرنے کے با وجود کس نے آ پ کے پاس آنے کی اجازت دی.تم کس کی اجازت سے یہاں آئے ہو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جوان سے سوال کیااس جوان رعنا نے کہا مجھے آپ کے پاس یا کسی بھی اس فرد کے پاس آنے کی اجازت درکار نہیں ہوتی ہے۔مجھے جہاں کا حکم ملتا ہے میں وہاں چلاجاتا ہوں میں ملک الموت ہوں -آپ کی روح قبض کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا زہے نصیب اور اسی طرح کھڑے کھڑے آپ کی روح عالم بالا کو پرواز کر گئ۔اور جب تک عمارت مکمل ہوتی رہی آپ یونہی عصا۔ کے سہارے  کھڑے ہی رہے۔حضرت سلمان علیہ السلام کو ایسی بے مثال حکومت اور سلطنت حاصل تھی کے صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی۔بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داود علیہ السلام نے شروع کی ملک شام میں جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا ٹھیک اسی جگہ حضرت داود علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی مگر عمارت پوری ہونے سے قبل ہی حضرت داود علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ اور آپ نے اپنے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی۔ جنات کی طبعیت میں سرکشی غالب تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجا تا تو فورا کام چھوڑ بیٹھتے اور تعمیر رہ جاتی یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت بھی قریب آگیا اور عمارت مکمل نہ ہو سکی تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ الٰہی میری موت جنوں کی جماعت پر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ برابر عمارت کی تکمیل میں مصروف رہیں اور ان سبھوں کو علم غیب کا جو دعویٰ ہے وہ بھی باطل ٹھہر جائے۔ جنوں کے گروہ کے لیے کچھ باعث حیرت اس لیے نہیں ہوا کہ وہ با رہا دیکھ چکے تھے کہ آپ ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں کھڑے رہا کرتے تھے۔یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کے عصا کو کھا لیا اور عصا گر جانے کے سے آپ کا جسم مبارک زمین پر آگیا اور اس وقت جنوں کی جماعت اور تمام انسانوں کو پتہ چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ

”پھر جب ہم نے ان (حضرت سلیمان ) پر موت کا حکم بھیجا تو جنوں کو ان کی موت دیمک ہی نے بتا ئی جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی پھر جب حضرت سلیمان زمیں پر آگئے تو جنات کی حقیقت کھل گئی اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ اس ذلت کے عذاب میں اتنی دیر تک نہ پڑے رہتےاور جب عمارت مکمل ہو گئ تب تک آ پ کا عصا دیمک اندر سے کھا کر کھوکھلا کر چکی تھی اس لیے آ پ کا عصا ٹوٹ کر گرا اور سا ہ تھ ہی آپ کا جسد خاکی بھی گرا تب جنات سمجھے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کی وفات ہوچکی ہے

پیر، 20 فروری، 2023

پاکستان کی طبّی دنیا کا مظبوط ستون'حکیم محمّد سعید



پاکستان کی طبّی دنیا کا مظبوط ستون'حکیم محمّد سعید نو جنوری 1920 کو برٹش انڈیا کے مرکزی شہر دلّی میں طبِ مشرق سے منسلک اطبّا کے نامور گھر انے میں حکیم حافظ عبدالمجید کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ن کے والد نے 1906 میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا۔ 1922 میں والد کے انتقال کے وقت حکیم سعید کی عمر محض دو برس تھی اس لیے دواخانے کا انتظام پہلے اُن کی والدہ رابعہ بیگم کے سپرد رہا اور بھر اُن کے سب سے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید کے حوالے کیا گیا۔عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان محمد سعید نے 1938 میں 18 برس کی عمر میں دی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فارمیسی میں گریجویشن اور میڈیسنل کیمسٹری (علم الادویہ یا دواسازی) کی ڈگری حاصل کر کے 1942 میں اپنے خاندانی ادارے ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوئے۔1945 میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی اور تحریکِ قیامِ پاکستان میں بھی سرگرم رہے۔ اسی برس اُن کی شادی نعمت بیگم سے ہوئی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنی اہلیہ اور اکلوتی صاحبزادی سعدیہ سعید کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے اور وہاں 1948 میں طب اور دواسازی کے اپنے ادارے ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔

حکیم سعید 1952 میں ترکی گئے جہاں انھوں نے انقرہ یونیورسٹی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی اور پھر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دیتے رہے۔ 1963 میں حکومت سے مبینہ اختلافات کی بنا پر انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے استعفیٰ دے دیا۔حکیم سعید کو 1964 میں سیاسی افق پر اس وقت کافی توجہ ملی جب انھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں وزارت صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار اور پاکستان آرمی میڈیکل کور کے سربراہ سرجن جنرل آف پاکستان لیفٹنینٹ جنرل واجد علی خان پر کڑی تنقید کی۔ یہ وہی جنرل واجد تھے جو حکمت اور ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کے کھلے ناقد سمجھے جاتے تھے۔23 اکتوبر 1969 کو حکیم سعید کا ادارہ ’ہمدرد پاکستان‘ بالآخر ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ میں ڈھل گیا اور اب وقف کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ادارے کا منافع فرد یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتا۔حکیم سعید کو 22 برس قبل کراچی کے علاقے آرام باغ میں ان کے مطب کے باہر قتل کر دیا گیا تھا

سندھ کے سابق گورنر، طب اور ادویہ سازی کے ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ، ممتاز سماجی شخصیت، سیاستدان اور پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں اُن کے ایک نائب حکیم عبدالقادر اور ایک ملازم ولی محمد بھی قتل ہوئے جبکہ ایک ماتحت حکیم سیّد منظور علی اور ذاتی محافظ عبدالرزاق زخمی ہوئے تھے۔پولیس، خفیہ اداروں اور استغاثہ کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں جن لوگوں کو ملزم نامزد کیا گیا اُن کا تعلق الطاف حسین کی تنظیم متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم سے تھا لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس الزام کو سیاسی سازش قرار دیا اور اس قتل سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی۔سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برسوں جاری رہنے والی سنسنی خیز عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔سوال یہ ہے کہ اگر قتل ان ہی نامزد ملزمان نے کیا تھا تو بری کیوں ہوئے اور اگر ان ملزمان نے قتل نہیں کیا تو وہ نامزد کیوں کیے گئے اور اگر نامزد ملزمان قاتل نہیں تھے تو پھر قتل کس نے کیا؟یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میری ہی طرح اس واقعے کو اُس وقت رپورٹ کرنے والے بہت سے صحافی آج برسوں بعد بھی تلاش کر رہے ہیں۔یہی تلاش 22 برس بعد ایک بار پھر مجھے تحقیق کے لیے اس قتل کے عینی شاہدین، قتل میں نامزد ملزمان، اُس وقت کے اعلیٰ ترین پولیس افسران، مبینہ قاتلوں کے وکلا، تشدد آمیز سیاست اور قتل و غارت کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں تک لے گئی۔

’قتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’ہمدرد مطب‘ کے باہر ہونے والے حملے میں قتل کیا گی یہ مطب کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ سے منسلک آرام باغ روڈ والے سرے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب کونے سے دوسری عمارت میں واقع تھا۔ور مزید نو افراد کو بھی اس کیس میں نامزد کردیا جن میں فصیح جگنو، ابو عمران پاشا، ندیم موٹا، فیصل چاؤلہ، مقرّب، اعزاز الحسن، آصف، زبیر اور اُس وقت ایم کیو ایم برنس روڈ سیکٹر کے انچارج شاکر احمد بھی -جبکہ ایم کیو ایم نے   سختی سے الزام کی نفی کی  

حکومت پاکستان نے انھیں 1966 میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از وفات ’نشانِ امتیاز‘ سے بھی نوازا تھاقتل کیسے ہوا؟بی بی سی کو موصول ہونے والے عدالتی ریکارڈ اور کراچی کے تھانہ آرام باغ میں درج ایف آئی آر 216/1998 کے مطابق 78 سالہ حکیم سعید کو 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دو ملازموں سمیت کراچی کے جنوبی علاقے آرام باغ میں اُن ہی کے ’میں تو بس دعا کرتا تھا کہ اللّہ میں بے قصور ہوں تو مدد فرما۔ ہمارے وکلا نے سردار اسحاق صاحب نے تو ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ بھائی یہ اے ٹی سی کورٹ ہے۔ یہ تو تمہیں سزا دینے ہی بیٹھے ہیں مگر اللّہ بڑا رحیم و غفور ہے، انشااللہ ہائی کورٹ سے تم بری ہو جاؤ گے۔شاکر احمد نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے تو عامر اللّہ اور کئی دیگر ملزمان کو پہلی بار عدالت میں دیکھا تھا۔مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں‘تو پھر عامر اللّہ کی عدالت میں شناخت کیسے ہوئی اور فوجی عدالت سے موت کی سزا کیسے ہوئی۔ یہ کہانی سنائی حکیم سعید پر حملے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہد اور اُن کے نائب حکیم سیّد منظور علی نے۔ان کا کہنا تھا ’واقعے کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو پتہ چلا کہ میں تو مدّعی بن چکا ہوں۔ بس ایک میری ہی گردن پتلی تھی۔ دوسرا زخمی گارڈ تو واقعے کے بعد سے آج تک لاپتہ ہے۔ بس میں تھا مدّعی بھی، گواہ بھی۔ مجھے تو پہلے پولیس نے گاڑیاں دکھائیں۔ یہ گاڑی ہے، وہ گاڑی ہے جو واقعے میں استعمال ہوئیں۔’پ کو تو پتا ہے اس مقدمے کے سلسلے میں 50 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان ہو گیا تھا اور یہ تب بہت بڑی رقم تھی۔ پھر جب میں ہسپتال سے آیا تو پھر سی آئی اے (پولیس کا خفیہ ادارہ) بلاتی تھی وہ بلاتے رہے، دباؤ ڈالتے رہے۔

’پھر کچھ دن بعد وہ اپنے موقف پر آ گئے کہ ہم نے نو افراد کو گرفتار کیا ہے انھیں آپ شناخت کریں۔ میں نے کہا کہ مجھے کیا پتا کون سی گاڑی تھی میرا منہ تو مطب کی جانب تھا اور ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ ہم تو اندر جارہے تھے اور ایسے حملے کے دوران کون دیکھ سکتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں جب ایک چیز میں نے دیکھی ہی نہیں ہے۔’جو تفتیشی افسران تھے، اُن سے میں کہا کہ یہ کام تو آپ لوگوں کا ہے۔ وہ پیار سے بات کرتے تھے مجھے سانچے میں اتارنے کے لیے۔ وہ جو تفتیشی افسر تھا آغا طاہر اُس کا نام تو میں بھول ہی نہیں سکتا وہ تو مجھے بہت ذہنی اذیت دیتا تھا۔ ایک دن کرسی سیدھی کر کے بیٹھ گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب بہت ہوگیا اب کام کی بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں تو خود بہت مصیبت میں ہوں۔ میرا تو اس واقعے میں بچ جانا میرا جرم بن گیا اب آپ مجھے دیوار کے ساتھ لگائیں اور گولی مار دیں مگر جھوٹی گواہی تو نہیں دوں گا مگر آغا طاہر نے کہا حکیم صاحب بہت ہو گئی، مجھ پر اوپر سے دباؤ ہے۔ اب تو آپ کو کرنا ہی کرنا ہے اور اگر آپ نے نہیں کیا تو میں پریس کانفرنس کرکے کہہ دوں گا کہ آپ بھی منصوبہ ساز ہیں۔ میں نے کہا سر دیکھ لیں۔ میں ایسا تو نہیں کر سکتا ناں!پھر ایک دو دن کی بعد ملٹری انٹیلیجینس کی طرف سے مجھے اطلاع آ گئی کہ سر وہاں پہنچنا ہے آپ کو۔ لکی اسٹار (تاج مح ہوٹل کے سامنے صدر کراچی کا علاقہ) بلوایا گیا جہاں بیرک بنے ہوئے ہیں۔ ایم آئی سینٹر جانا پڑا تو پتہ چلا کہ بریگیڈیئر صاحب ملیں گے۔ سی آئی اے کے تفتیشی افسر بھی میرے ساتھ تھے۔ بریگیڈیئر صاحب نے خود اٹھ کر میرے لیے دروازہ کھولا تھا۔ مجھ سے کہا شاہ صاحب آئیں، پہلے تو بتائیں کہ آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی تو نہیں کوئی دھونس دھمکی تو نہیں دی؟ میں نے اُن سے کہا کہ ہمیں گالی دو یا مار دو برابر ہے تو بریگیڈیئر صاحب نے میرے سامنے تفتیشی افسر سے کہا آپ کو تمیز نہیں ہے کیسے بات کرتے ہیں سیّدوں سے۔ آج کے بعد کوئی بات نہیں کریں آپ حکیم صاحب سے۔اور پھر اللہ نے مجھ کو بھی بری کر دیا

موتیا سے کیسے بچیں

 


ہماری آنکھوں میں بصارت بے شک خدا وند عالم کا بیش قیمت انعام ہے-اور اس انعام کی ہم کو اس قدر -قدر دانی کرنی چاہئے کہ ہماری آنکھوں پر کم سے کم کام کا  اضافی بوجھ پڑے-جیسے لیٹ کر کتاب پڑھنا -راتوں کو بلا سبب جاگنانیم ملگجے اندھیرے میں لکھنا یا پڑھنا یا کمپیوٹر استعمال کرنا-وغیرہ -وغیرہ آنکھوں کی روشنی کو بہتر بنانے کے  لئے  آپ کون سی غزائیں استعمال کر سکتے ہیں  ؟آنکھیں ہمارے چہرے پر وہ نازک حصہ ہے جس کی مدد سے ہم دنیا کےآپ کی بصارت کی  تمام خوبصورت نظارے دیکھتے ہیں۔اس لئے ان کی صحت بھی ہمارے لئے معنے رکھتی ہے۔اپنی آنکھوں کی حفاظت اور صحت کا خیال ہمیں لازمی رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔آنکھوں کی صحت کے لئے بہت سے وٹامنز بھی ضروری ہیں۔جو آنکھوں کی بینائی کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ روزمرہ کے کچھ طریقے اپنا کر بھی ہم اپنی آنکھوں کی صحت کا خیال رکھ سکتے ہیں۔جو ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیںکچھ غذائیں ایسے وٹامنز پر مشتمل ہوتی ہیں جو آپ کی قدرتی بصارت کو بہتر بنانے کا کام کرتی ہیں۔خشک میوه جات مونگ پھلی-اخروٹ-پسته-

بادام-انجیر-چلغوزےوغیرہ -اب ہرے پتّے والی جتنی بھی سبزیاں ہیں وہتمام ہماری بینائ کی بہتری میں معاون و مددگار ہیں 

آنکھوں کی صحت کر برقرار رکھنے کے طریقے-سگریٹ نوشی چھوڑ دیں-

اگرآپ سگریٹ پینے کے عادی ہیں تو اسے چھوڑ دیں کیونکہ یہ نہ صرف آپ کے پھیپٹروں کو خراب کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ سےہماری آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔یہ آپ کی آنکھ کے اعصاب کو نقصان دیتی ہے۔اس کے علاوہ ایک ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ سگریٹ نوشی آنکھ میں موتیا کی بیماری کا باعث بنتی ہے۔اس لئے اپنی آنکھیں بچانے کے لئے  

خون کے بہاؤ کی پیچیدگیاں بعض اوقات دھندلاپن کا آپ کے خون کے بہاؤ سے آپ کی نظر سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ آیا آپ کی دھندلی بصارت کا معاملہ ہے، اس لیے یقینی بنائیں کہ آپ اسے جلد از جلد چیک کر لیں تاکہ آپ مزید مشکلات سے بچ سکیں۔

کولیسٹرول کی  سطح ضرور چیک کیجئے

آپ کے ایرس کے گرد سفید یا سرمئی رنگ کا دائرہ ہائی کولیسٹرول کے مسائل کی نشاندہی کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر آپ کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں آپ کے ذہن میں آنے والی پہلی چیز اپنے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔جاگنے سے تھکی ہوئ آ نکھیں :---بلا وجہ شب بیداری سے اپنی آنکھوں کو تھکن سے بچائےان چیزوں میں سے ایک جو آپ کی آنکھیں یقینی طور پر ظاہر کرتی ہیں وہ ہے آپ کی تھکاوٹ کی سطح۔ آپ جتنا زیادہ تھکن محسوس کریں گے آپ کی آنکھیں اسے ظاہر کریں گی۔ اگر آپ ہر صبح سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اٹھتے ہیں، تو آپ کو اپنی  بہتر دیکھ بھال شروع کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی توانائی کی سطح کو بڑھانے کا طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ آپ کوشش کریں کہ رات کی نیند بھرپور طریقے سے پوری ہو۔

ریٹنا کے مسائل

ہم سب وقتاً فوقتاً فلوٹرزیعنی آنکھوں کے اندر جیلی جیسا مواد دیکھتے ہیں،  یہ مواد سیال دار ہلکے رنگ کا ہو سکتا ہے۔لیکن اگر آپ انہیں بہت کثرت سے دیکھتے ہیں، یا ہر وقت آپ کو اپنی آنکھوں میں نظر آتا ہے تو آپ کو ریٹنا کے مسائل ہو سکتے ہیں۔  لیکن اگر آپ کو اپنے بصارت میں بجلی کی چمک یا اندھیرا نظر آتا ہے، تو یہ آنکھ کی ہنگامی صورت حال کی علامت ہے جو فوری طبی امداد کی ضمانت دیتا ہے۔بعض اوقات لوگ بیس منٹ کی لمبی ٹمٹماہٹ یا چمکتی ہوئی روشنی دیکھتے ہیں جو سائز میں پھیلتی ہے اور دوبارہ نیچے سکڑ جاتی ہے۔ یہ مائگرین کا آغاز ہو سکتا ہے، جس کے بعد سر درد ہو سکتا ہے۔

 انفیکشن

اگر آپ کو اپنی آنکھ کے کارنیا پر ایک چھوٹا سا سفید دھبہ نظر آتا ہے تو اسے کبھی بھی نظر انداز نہ کریں۔یہ بہت زیادہ سورج کی روشنی سے آشوب چشم کو پہنچنے والے نقصان کی نشاندہی کر سکتا ہےدھوپ کے چشموں کے ایک اچھے جوڑے میں سرمایہ کاری کریں جو مکمل یووی تحفظ فراہم کرے اور آپ کی آنکھوں کو مکمل طور پر ڈھانپے۔ یہ انفیکشن کی صورت میں ایک سنگین مسئلہ کی نشاندہی کر سکتا ہے جو بروقت نہ سنبھالنے کی صورت میں تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ چشمہ کا استعمال-دھوپ آپ کی آنکھیں خراب کرسکتی ہے کیونکہ اس کی وجہ آپ کی آنکھوں میں سرخی کا انفیکشن ہوسکتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں تو عینک کا استعمال بہت ضروری ہے۔کیونکہ نہ صرف یہ ہماری آنکھوں کو آرام دیتا ہے بلکہ سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بھی بچتا ہے۔اس لئے باہر نکلتے وقت لازمی عینک یعنی سن گلاسز کا استعمال کریں۔آنکھوں کی ورزش پر بھی خاص تو جہ دیجئے -کیونکہ آلودگی ہمارے شہروں کا خاص جز ہے اس لئےدن میں کم سے کم دو مرتبہ آنکھوں کو دھو لیجئے  اور دائمی بصارت کا لطف اٹھائیے بے شک آنکھیں بڑی نعمت ہیں

آنکھیں قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ لیکن آجکل بہت ساری بے جا چیزوں کے استعمال سے ہمیں بینائی کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بھی بینائی کے متعلق بہت سارے مسائل در پیش پیں اور بینائی کی کمزوری کے باعث عینک استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ آئیے ایسی غذائوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کا اپنی خوراک میں شامل کرنے سے ہماری بینائی کافی حد تک بہتر ہو سکتی ہے۔تاہم ہم اپنے گھروں میں دسیتاب بعض غذائوں کے ذریعے خود کو نظر سے متعلق مسائل سے بچا سکتے ہیں۔ آنکھوں سے متعلق ہم جن مسائل سے زیادہ تر دوچار ہوتے ہیں ان میں آنکھوں کو لال ہونا، آنکھوں میں خشکی اور آنکھوں میں خارش کا ہونا شامل ہیں۔ بلخصوص عمر میں اضافے کے بعد اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

پانی بھی اآنکھوں کی حفاظت کرنے کا سب سے اعلی ذریعہ ہے اس کی مقدار بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں بڑھا دیں۔ پانی آنکھوں کی بصارت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ روزانہ 8 گلاس پانی لازمی پئیں۔ پانی صرف پیاس بجھانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ جسمانی نظام کی بہت اچھے طریقے سے صفائی بھی کرتا ہے۔ زہریلا مواد پانی کے ذریعے سے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ چونکہ آنکھوں میں پٹھے ہوتے ہیں اس لیے ان کو اچھی حالت میں رکھنے  کے لیے کچھ مشقیں کرنا بے حد ضروری ہیں۔ آنکھوں کی ورزشیں جب صبح کے وقت کی جاتی ہیں یا جب آپ کی آنکھیں تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں اور بستر پر لیٹنے سے پہلے کرتی ہیں۔اگر آپ ایک ماہ کے لیے مستقل مزاج  سے آنکھ کی ورزشیں کرتے ہیں تو کچھ دن تک آپ کو فرق نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ دن میں کم از کم بیس منٹ ورزش کرنا آپ کی آنکھوں سمیت آپ کے پورے جسم کے لیے صحت مند ہے۔خون کی گردش کو بہتر بنانا آنکھوں میں خون کی چھوٹی نالیوں کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ ان نقصان دہ مادوں کو خارج کرتا ہے جو جمع ہو چکے ہوں۔ ورزش  لازمی ضرورت ہے۔ 

اتوار، 19 فروری، 2023

پتّھر کے تراشیدہ قدیم شہرماچو-پیچو

 



پتّھر کے قدیم تراشیدہ شہرماچو-پیچو

عقل کو حیران کر دینے والے کھنڈرات جن کو صرف انسانی  ہاتھوں نے تراشا 

جنوبی امریکا میں پیرو کے علاقے کاسکو میں واقع ماچو پیچو، کھنڈرات کی صورت میں محفوظ ہے۔ یہ سطح سمندر سے 2430میٹر (7972فٹ) بلندہے۔ اسے "انکاؔ کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔ماچو پیچو انکا سلطنت کے عروج کے دور میں 1450ء کے دوران تعمیر کیا گیا تھا، پیرو میں ماچو پیچو کا قدیم ’انکاؔ قلعہ‘ بہت سی معروف سیاحتی فہرست میں شامل ہے۔ انکاؔ تہذیب کا اچانک غائب ہو جانا آج بھی ایک معمہ ہے۔ ماچو پیچو میں پتھر کی بنی216عمارتیں ہیں، جو سیڑھیوں سے جڑی ہیں۔ سطح سمندر سے2430میٹر کی اونچائی پر یہ سب کچھ تعمیر کرنا یقینی طور پر کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔-ان کی تین ہزار سیڑھیاں ہی جو زراعت کے کام آتی تھیں-ان کا آبپاشی کا نظام بہت مربوط تھا کیوںکہ یہ پہاڑوں سے پانی نکالتے تھے 

ایک تاریخ دان نے 1911ء میں اس گمشدہ شہر کو دوبارہ دریافت کیا اور اس وقت سے یہ جنوبی امریکا کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عظیم الشان تعمیرات انکاؔ شہنشاہ پاچاکوتی اور ان کے جانشینوں نے شاہی جائیداد کے طور پر کی تھیں۔ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک مذہبی جگہ تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسے ویران کیوں چھوڑ دیا گیا۔ تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ اسے انکاؔ تہذیب کے عروج کے دور میں تعمیر کیا گیا، جو کہ15ویں اور16ویں صدی کے درمیان کا عہد تھا، جب ہسپانوی حملہ آوروں نے جنوبی امریکا پر دھاوا نہیں بولا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں ماچو پیچو میں ایک ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ماچو پیچو کو تعمیر کے صرف سو سال بعد ہی ویران چھوڑ دیا گیا تھا۔ کچھ کے خیال میں اس کی وجہ ہسپانوی حملہ آور تھے جبکہ دیگر یہ نقطہ پیش کرتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود نہیں کہ ہسپانوی افراد ماچو پیچو تک پہنچ سکے تھے بلکہ کسی مرض یا وباء کا حملہ اس کے خالی ہونے اور لوگوں کی یہاں سے نقل مکانی کا باعث بنا۔ 

کچھ ایسے بھی خیالات ہیں کہ شدید قحط سالی یا انکاؔ قبائل کے درمیان خانہ جنگی، اس جگہ کو کھنڈر کرنے کا باعث بنی۔ چاہے جو بھی ہوا ہو، یہ پرجلال کمپلیکس سطح سمندر سے تقریباً8ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اور پانچ میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقام پر ڈیڑھ سو سے زائد عمارات، حمام، مقبرے، مندر اور تدفین کے میدان ہیں جبکہ تین ہزار سے زائد سیڑھیاں مختلف مقامات اور لیولز کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ ماچو پیچو کا وجود خواہ کسی بھی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا ہو مگر یہ انجینئرنگ اور زراعت کی ترقی کی زبردست مثال ہے کیونکہ یہاں کا نظامِ آبپاشی اب بھی ماہرین کے ہوش اڑا دیتا ہے۔ یہاں کی عمارات مثالی انداز میں ایک دوسرے سے جڑی ہونے کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں، جن کی تعمیر کے لیے گارے کی بھی ضرورت نہیں پڑی اور یہ اب بھی دراڑوں سے پاک ہیں۔پاچو پیچو کو دیکھنے ہر سال12لاکھ افراد آتے ہیں جبکہ 2007ء میں اسے دنیا کے7نئے عجائباتِ عالم کی فہرست میں عوامی ووٹوں کی بناء پر شامل کیا گیا۔ سیاحوں کو اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ ماچو پیچو کے لیے ہائیکنگ کرنے سے پہلے کچھ دن قریبی قصبے میں گھومتے ہوئے گزاریں اور اس کے بعد ہی بلندیوں کے سفر پر روانہ ہوں۔ انکاؔ ٹریل درحقیقت ایک دوسرے پر چڑھی تین ٹریلز پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک دورانیے اور مشکلات کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ 

اگر آپ ماچو پیچو تک پہنچنے کے لیے ہائیکنگ کو اپناتے ہیں تو دو سے سات دن تک مشکل چڑھائی کے لیے تیار ہوجائیں ،جس کے دوران بلندی کا خوف، سردی لگ جانا اور سرد راتوں میں کپکپی کاسامنا بھی ہوسکتا ہے، مگر انتہائی زبردست اور تھکن اتار دینے والے مناظر بھی آپ کی راہ میںآئیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر مقامی افراد بھی ان نظاروں کو زندگی بھر دیکھ نہیں پاتے۔ ماچو پیچو کے راستے میں آپ کو اونٹ سے مشابہہ ایک جانور ’الپاکا‘ عام نظر آئے گا۔ اس ٹریل پر آپ جنوبی امریکا کے مشہور پہاڑی سلسلے کوہ اینڈیز کے بھی کچھ دنگ کردینے والے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہوں گے توبیک وقت دہری قوس و قزح کا منفرد نظارہ بھی آپ کو مسحور کرسکتا ہے۔ ماچو پیچو کو یونیسکو نے1983ء میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ دنیا بھر میں تصاویر لینے کے لحاظ سے اگر کوئی راستہ سب سے زیادہ معروف ہے، تو وہ پیرو میں موجود انکاؔ تہذیب کے کھنڈرات پر مشتمل ماچو پیچو ہی ہے۔

ماچو پیچو ویسٹرن ساؤتھ امریکہ کے ملک پیرو میں موجود ہے، اور پیرو کی سرحدیں برازیل، کولمبیا، چلی کیساتھ ساتھ بحراوقیانوس سے ملی ہُوئی ہیں اور اس ملک میں سطح سمندر سے 7000 فٹ کی بُلندی پر قائم ماچو پیچو پیرو میں سب سے زیادہ سیاحت کیا جانے والا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو پہاڑ کی چوٹی پر قائم ہے اور اسے 1450 عیسوی کے قریب "انکان” بادشاہوں نے تعمیر کیا۔ ماچو پیچو کو یونیسکو ورلڈ ہریٹیج سائٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور 2007 میں نئے 7 عجوبوں میں ماچو پیچو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اس آرٹیکل میں ہم ماچو پیچو کے چند دلچسپ حقائق جانیں گے جن سے ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ علاقہ 7 عجوبوں میں کیوں شامل کیا گیا، اور ساتھ اس کی خوبصورت تصاویر بھی دیکھیں گے۔

ماچو پیچو کا مطلب پیرو میں بولی جانے والی ایک زبان کوئچو کے دو الفاظ ماچو یعنی پُرانا اور پیچو یعنی پہاڑ ہے۔ اس پرانے پہاڑ کے اوپر 150 کے قریب تعمیرات ہیں جن میں گھر، پبلک باتھ رومز، ٹیمپل اور پناہ گاہیں شامل ہیں جنہیں بڑے پتھروں سے بنایا گیا ہے اور مانا جاتا ہے کہ یہ بڑے پتھر یہاں سینکڑوں لوگوں نے ملکر دھکا لگا کر پہنچائے ہیں۔پہاڑ کی چوٹی پر قائم یہ شہر ہزاروں کٹے ہُوئے پتھروں سے بنی سیڑھیوں، پتھروں سے بنی دیواریوں، سرنگوں کا ایک کلاسیکل شہکار ہے جسکا طرز تعمیر یہاں کے قدیم لوگوں کی بہترین  انجنئیرینگ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس شہر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے زیادہ تر پتھروں کا وزن 50 ٹن سے بھی زیادہ ہے اور تعمیر کے دوران ان کو اس انداز سے اوپر نیچے رکھا گیا ہے

زما ن و مکاں کی پابندیوں سے ہٹ کرایک عظیم رات-۔شبِ معراج

شب معراج  - عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ روایت  میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ اس رات اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کرایا تھا۔رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے، اللہ رب العزت نے تمام مہینوں کے مختلف دنوں اور راتوں کی اہمیت و فضیلت اور ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں
 
۔شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔
اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے ہٹ    کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔

ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔سفرِمعراج کے مراحل سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے،

 یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے-شبِ معراج جہاں عام انسانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں اسے امت مسلمہ کے لئے عظیم فضیلت والی رات بھی قرار دیا گیا ہے۔اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو زما ن و مکاں کی پابندیوں سے  کرایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، اس واقعے کو حضور اکرم کا امتیازی معجزہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔شبِ معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ 

اس شب حضور نبی کریم ﷺ آسمانوں سے بھجوائی گئی خصوصی سواری البراق پر سوار ہو کر خالق کائنات سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے اور رب کی طرف سے امت کے لئے 5 فرض نمازوں، رمضان المبارک کے روزوں کا تحفہ لے کر آئے۔ستائیس رجب المرجب وہ بابرکت رات ہے جب مدینہ میں ہجرت سے پانچ سال قبل حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور رب کائنات نے سرکار دو عالم کو سات آسمانوں کی سیر کرائی۔ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ شب معراج کو اللہ تعالیٰ سے نماز کا تحفہ حاصل ہوا، جو مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ادا کرکے خالق کائنات کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہیں، شب معراج کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کا بہترین طریقہ اتباع رسول ہے۔علمائے کرام اس رات کی فضیلت و اہمیت واضح کرنے کے لئے خصوصی بیان کرتے ہیں جبکہ دینی محافل اور توصیف رسول ﷺ کی تقریبات کا اہتمام بی کیا جاتا ہے -قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔

سفرِمعراج کے مراحل -سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک کا سفر ہے۔تیسرے مرحلے سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ النجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔
 
علمائے اسلام کے مطابق معراج میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات روحانی نہیں، جسمانی تھی، جسے آج کے جدید دور میں سمجھنا مشکل نہیں، شبِ معراج میں نفلی عبادات انجام دینا احسن اقدام ہے لیکن اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی بھی اللہ تعالیٰ کی پیروی کا ثبوت ہےقرآن مجید میں سورۃ اسریٰ کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا ط اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ. (بنی اسرائيل، 17: 1) ’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، 

بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. (النجم، 53: 1،2) ’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول   جنہوں نے تمہیں اپنا  نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے‘‘اس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معراج کیوں کروائی گئی؟ 

     اس سلسلے میں معراج کی حکمتیں درج ذیل ہیں۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتیں ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں۔ پہلی حکمت: معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا۔ 

بائیکاٹ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہوجائیں گی۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہم 
آ پ کی نگہبانی سے غافل نہیں ہیں- 

 علّامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ

 اِک نُکتہ میرے پاس ہے ، شمشِیر کی مانِند !

بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!

کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!

مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میں ہیں آفاق!



 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر